نئے شہر میں اقبال کا سہارا بنا’’ الخیر‘‘

34 سال کے محمد اقبال انصاری جھارکھنڈ کے دھنباد ضلع کے کتراس میں کپڑے کا کاروبار کرتے تھے۔ وہ کتراس کے آس پاس لگنے والے ہفتہ واری بازاروں میں گھوم گھوم کر کپڑے بیچا کرتے تھے۔ اقبال اصلاً کتراس کے ہی رہنے والے ہیں، اور کپڑے کی پھیری کا کام انھوں نے بیس سال پہلے شروع کیا تھا،مگر اس طرح کے کاروبار میں تسلسل نہیں ہوتا اور جسمانی مشقت بھی بہت کرنی پڑتی ہے۔ تین سال پہلے اقبال ایک دکان کھولنے کے ارادے سے جھارکھنڈ کے دوسرے سب سے بڑے شہر جمشیدپور آگئے۔
کتراس کا اپنا گھر اور کاروبار چھوڑ کر جمشید پور آنے کے سلسلے میں اقبال کہتے ہیں:’’گھوم گھوم کر بازار میں کتنے دن کام کرتا، ایک پکی دکان کی خواہش تھی، اس لیے جمشید پور آگیا۔‘‘
سال 2016 ءکے جون مہینے میں اقبال جمشیدپور آئے اور اس شہر کو انھوں نے اپنا نیا ٹھکانہ بنا لیا۔ ان کے دو سگے بھائی بھی اسی شہر میں رہتے ہیں۔ ایک کی چشمے کی دکان ہے اور دوسرا کسی اور کی چشمے کی دکان پر کام کرتا ہے۔ ان کے بھائیوں نے ہی اقبال کو جمشید پور میں دکان تلاش کر کے دی، اور تین سال سے جمشیدپور کے ساکچی کے نزدیک سنجے مارکیٹ میں اقبال کی کپڑے کی دکان ہے۔ کپڑوں کی دکان کا نام دارس کلیکشن ہے۔ اقبال نے اپنی دکان کا نام اپنے بھتیجے کے نام پر رکھا ہے۔ بچوں کے کپڑوں سے ہی اقبال نے اپنی دکان کی شروعات کی تھی۔
اقبال پانچ سگے بھائیوں میں ایک ہیں۔ ان کے والد کتراس میں اگربتی کا کاروبار کرتے تھے۔ اقبال نے انٹرمیڈیٹ تک کی پڑھائی کی ہے۔ اقبال کی بیوی نکہت پروین کا تعلق جھارکھنڈ کے بوکارو شہر سے ہے۔ نکہت نے میٹرک تک کی پڑھائی کی ہے۔ اقبال کا دس ماہ کا ایک بیٹا ہے۔

کچھ یوں ہوا الخیر پر بھروسہ

اقبال نے نئے شہر میں اپنی دکان تو شروع کرلی تھی مگر یہ فکر رہتی تھی کہ ضرورت پڑنے پر یا اپنا کام بڑھانے کے لیے انھیں سرمایہ کیسے ملے گا؟ اقبال کی یہ فکر اس وقت دور ہوئی جب وہ الخیر سے جڑے۔ سنجے مارکیٹ میں آنے والے الخیر کے ڈیلی کلکٹر نے انھیں الخیر کا ممبر اور کھاتہ دار بنایا۔
جھارکھنڈ سمیت ملک کے کئی صوبوں میں مائکروفائنانس سوسائیٹیز اور نان بینکنگ کمپنیوں میں عام لوگوں کا جمع پیسہ بڑے پیمانے پر ڈوبا ہے۔ اس تناظر میں اقبال سے پوچھا گیا کہ ان کا الخیر پر بھروسہ کیسے قائم ہوا؟ اس سوال کے جواب میں اقبال نے بتایا:’’میں نے قریب چھ ماہ تک دیکھا کہ آس پاس کے دکان دار باقاعدگی سے الخیر کے ساتھ لین دین کررہے ہیں۔ ڈیلی کلکٹر آ کر پیسے جمع کرتا ہے، ضرورت پڑنے پر لوگ آسانی سے اپنے پیسے نکال پا رہے ہیں۔ اس سے مجھے بھی بھروسہ ہوا۔ الخیر کے ڈیلی کلکٹر کے کہنے پر میں نے کھاتہ کھلوایا۔ تین چار ماہ تک کھاتہ چلانے کے بعد میں نے قرض بھی لے لیا۔ تب سے برابر الخیر سے قرض لے کر کاروبار کررہا ہوں۔‘‘
اقبال نے بتایا کہ قرض کی ضرورت تھی، کیوں کہ ان کے پاس پونجی کی کمی تھی۔ وہ کہتے ہیں:’’ہم لوگوں کو لگن، عید، درگا پوجا، جاڑے کے موسم وغیرہ میں پیسوں کی ضرورت پڑتی ہے، باقی دنوں میں اگر ہم دکان میں بیٹھ کر وقت نکال دیں تو کوئی بات نہیں ہے۔ کاروباری سیزن میں ہمیں نہ صرف یہ کہ اضافی پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے، بلکہ مال لانے کے لیے پیسوں کا انتظام پہلے سے کر کے رکھنا پڑتا ہے۔ میں الخیر سے اس لیے جڑا کہ یہاں سے مجھے قرض ملنے کا بھروسہ ہوا اور یہ پورا بھی ہوا۔‘‘

اپنے پیروں پر کھڑے ہو رہے اقبال

اقبال نے پہلا قرض بیس ہزار روپے کا لیا جو انھوں نے متعینہ وقت سے چار ماہ پہلے ہی واپس کردیا۔ اقبال کے مطابق قرض لے کر کاروبار کرنے کا یہ ان کا پہلا تجربہ تھا۔ انھوں نے الخیر سے پہلے تھوک بیوپاریوں سے ادھار مال لینے کے سوا کسی مہاجن یا ادارے سے نقد میں قرض نہیں لیا تھا۔ اس طرح پہلا قرض لینے اور اسے چکانے تک کا ان کا تجربہ بہت شان دار رہا۔
اقبال نے بتایا:’’میں نے سن رکھا تھا کہ بینک وغیرہ سے قرض لینے میں بہت پریشانی ہوتی ہے، بھاگ دوڑ کرنی پڑتی ہے، مگر الخیر سے قرض ملنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔ ایک ہفتے کی کاغذی کارروائی کے بعد آسانی سے قرضہ مل گیا۔‘‘
اقبال نے اب تک چار بار قرض لیا ہے۔ پہلا قرض بیس ہزار روپے کا لیا تھا۔ دوسرا قرض پہلے سے تین گنا یعنی ساٹھ ہزار کا لیا۔ پھر ایک لاکھ روپے کا قرض لیا۔ ابھی جو قرض وہ چکا رہے ہیں وہ دو لاکھ روپے کا ہے۔ انھوں نے دو لاکھ روپے کا پچھلا قرض گذشتہ سال درگا پوجا کے موقع پر لیا تھا، قرض کی بتدریج بڑھتی ہوئی رقم ان کے روز افزوں کاروبار کی طرف اشارہ کرتی ہے۔قرض سے اقبال کا کاروبار بڑھا۔ ان کی دکان چھوٹی سے بڑی ہو گئی۔ انھوں نے بتایا کہ دکان میں مال زیادہ نظر آتا ہے۔ قرض نہیں لیں گے تو دکان میں مال کم رہے گا اور خریداروں کی نظر نہیں پڑے گی۔ کپڑوں کو میں اب اچھے سے ڈسپلے کرپاتا ہوں۔ مال بڑھا تو خریدار بڑھے۔ نتیجۃً کمائی میں بھی اضافہ ہوا۔
قرض کے ذریعہ کاروبار میں دھیرے دھیرے بہتری آنے سے اور کمائی بڑھنے سے اقبال اپنے آپ کو معاشی طور پر خودمختار پاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب وہ اس نئے شہر میں آئے تو اس وقت وہ اپنے بھائی کے ساتھ رہتے تھے۔ اب کرایے کا مکان لے کر اپنا الگ آشیانہ بنالیا ہے۔حالاں کہ پوچھنے پر بھی اقبال نے اس بارے میں زیادہ کچھ نہیں بتایا کہ کاروبار اور کمائی بڑھنے سے ان کی زندگی کا معیار کس طرح سے بہتر ہوا ہے؟

مشکلات اور بھی ہیں

اقبال اپنے بچت کھاتے میں جمع ہونے والے پیسوں کا استعمال بالخصوص دکان کے لیے مال خریدنے میں ہی کرتے ہیں۔ اقبال کے مطابق وہ کبھی کبھی ایک دو مہینے پر اپنے کھاتے سے پیسے نکالتے ہیں، اور اس سے دکان کے لیے سامان لاتے ہیں، اور کبھی کبھی اس کا استعمال دکان کے کرایے کی ادائیگی کے لیے بھی کرتے ہیں، لیکن وہ گھریلو اور دوسری ضرورتوں کے لیے اس کا استعمال نہیں کرتے۔ روزمرہ کی ضرورتوں کے لیے وہ اپنی روزانہ کی کمائی کا ہی استعمال کرتے ہیں۔
قرض سے اقبال کو صحیح موقعے پر سرمایہ تو مل جاتا ہے لیکن کاروبار سے جڑی دوسری مشکلات ابھی دور نہیں ہوئی ہیں۔ اقبال کا کہنا ہے کہ قرض لینے کے بعد جب اس کی واپسی شروع کرتے ہیں تو دکان میں مال کم ہونے لگتا ہے۔ میں نے سوال کیا کہ کیا انھیں اس مشکل کا کوئی حل نظر آتا ہے؟ اس کے جواب میں اقبال کہتے ہیں:’’راستہ کیا نکلے گا؟ کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے۔ اسی طرح کاروبار چل رہا ہے۔ سیزن میں قرض لے کر کام کرنے سے تجارت تھوڑی بڑھتی ہے ،لیکن قرض چکاتے چکاتے کاروبار پہلے کی طرح ہی ہوجاتا ہے۔‘‘
فی الحال اقبال کو یہ اندازہ نہیں ہے کہ قرض لے کر کاروبار کرنے سے ان کے پاس کتنی پونجی جمع ہوجاتی ہے یا پھر کتنی اضافی کمائی ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں:’’کپڑوں کے کاروبار میں بہت سا کپڑا بنا فروخت ہوئے رہ جاتا ہے، بعض دفعہ رنگ اتر جاتا ہے اور بعض دفعہ کٹ پھٹ جاتا ہے، اور اسی میں میری پونجی پھنس جاتی ہے۔ سیزن کے بعد میرے پاس الگ سے کچھ نقد نہیں بچتا ہے۔‘‘

قرض کے لیے شیئر لینے کی شرط پر اطمینان نہیں ہے

الخیر کے قرض، اس کی واپسی کی مدت، اس سے جڑے ضوابط اور سروس چارج کو لے کر اقبال کی اپنی کچھ سمجھ ہے اور کچھ امیدیں بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں:’’سروس چارج کچھ اور کم ہوجاتا تو بہتر ہوتا۔ قرض لیتے وقت جو شیئر لینا ہوتا ہے اس میں بھی تین سال کے لیے پیسے پھنس جاتے ہیں۔ شیئر نہیں لینا پڑے تو بہتر ہوگا۔‘‘
قرض پر بھی اب جی ایس ٹی لگنے لگا ہے۔ اقبال کو یہ بہت کھلتا ہے اور ان کے مطابق کمائی کا ایک حصہ اب جی ایس ٹی میں لگ جاتا ہے۔اقبال کی قرض کی درخواست عام طور سے ایک ہفتے میں منظور ہوجاتی ہے۔ کیا قرض کی درخواست منظور ہونے میں اور کم وقت لگنا چاہیے؟ اس سوال کے جواب میں وہ مطمئن دکھے۔ انھوں نے کہا :’’کاغذ پٹنہ جاتا ہے، وہاں سے پاس ہوکر جھارکھنڈ آتا ہے، اس میں وقت تو لگ ہی جاتا ہے۔ ایک ہفتے کا وقت لگنے سے ہمیں کوئی دقت نہیں ہے۔‘‘
اقبال اب تک بروقت دعوت نامہ اور خبر ملنے کے باوجود بھی الخیر کی سالانہ اور دوسری میٹنگوں میں شامل نہیں ہو پائے، حالاں کہ ان کی خواہش رہتی ہے کہ ان کی شرکت ہو، اور وہ اپنی بات رکھیں، وہ کہتے ہیں:’’اگلی بار ایسی میٹنگ میں ضرور جاؤں گا اور مانگ کروں گا کہ قرض لینے پر شیئر لینے کی شرط ہٹائی جائے۔ الخیر اپنا سروس چارج بھی کم کرے۔‘‘
اقبال کو جب بھی ضرورت پڑی ہے، وقت پر الخیر سے قرض مل گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں:’’میرا حساب صاف رہتا ہے۔ اس لیے جب بھی جاتا ہوں، ضرورت بھر قرض مل جاتا ہے، کوئی دقت نہیں ہوتی ہے، حالاں کہ یہ بھی سچ ہے کہ جتنا مانگتا ہوں اتنا قرض نہیں مل پاتا ہے۔‘‘
اقبال کا پہلے سے ہی سرکاری بینک میں کھاتہ رہا ہے۔ کتراس کے ایک بینک میں اب بھی ان کا کھاتہ چل رہا ہے۔ وہ سرکاری بینک کے مقابلے الخیر کے بچت کھاتے کے فائدے گنواتے ہوئے کہتے ہیں:’’بینک کھاتے میں بھی پیسے جمع کرتے اور نکالتے تھے مگر وہاں پیسے جمع کر پانے کی کوئی گارنٹی نہیں تھی، کیوں کہ خود جا کر پیسے جمع کرنے پڑتے تھے۔ کبھی پیسے جمع کیے تو کبھی نہیں کیے۔ وقت نہیں ملتا تھا۔ یہاں ڈیلی کلکٹر آتے ہیں اور پابندی سے پیسے جمع ہوجاتے ہیں اور یہ پیسے وقت پڑنے پر کام آتے ہیں۔‘‘
جمشید پور آنے کے بعد انھوں نے اس نئے شہر میں بینک کھاتہ نہیں کھلوایا۔ وہ کہتے ہیں:’’بینک والے قرض دینے کے لیے سیکیوریٹی مانگتے ہیں۔ کتراس میں میں اپنے گھر کی سیکیوریٹی دے کر قرض لے بھی لیتا مگر یہاں میرے پاس سیکیوریٹی دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ میں نے یہاں کبھی بینک سے قرض لینے کی کوشش بھی نہیں کی۔‘‘
اقبال نے اپنے ایک بھائی اور سنجے مارکیٹ میں دیگر دو دکان داروں سمیت تین لوگوں کو الخیر سے جوڑا ہے۔ ان کے ایک ساتھی دکان دار الخیر سے قرض لے کر اپنا کاروبار بڑھا رہے ہیں۔اقبال اور بڑی دکان لے کر کاروبار بڑھانا چاہتے ہیں، فی الحال وہ اپنے اور اپنی بیوی کے لیے سادہ فون کی جگہ پر اسمارٹ فون لینے کی سوچ رہے ہیں۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے