معین وقت آیا زور باطل گھٹ گیا آخر
اندھیرا مٹ گیا ظلمت کا بادل چھٹ گیا آخر
مبارک ہو کہ دور راحت و آرام آ پہنچا
نجات دائمی کی شکل میں اسلام آ پہنچا
زمین، آسمان، کائنات یہاں تک کہ عالم دنیا کے تمام دینوں میں سب سے آفاقی دین اسلام ہے۔ دین اسلام کو تمام ادیان پر فوقیت و فضیلت اور برتری حاصل ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں آپﷺ کو خاتم النبیین یعنی آخری نبی قرار دے کر یہ بات بخوبی واضح کر دی ہے کہ حضور ﷺ کی بعثت سے رسالت و نبوت کا یہ سلسلہ بند ہوچکا ہے، محمد ﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد سے آج تک نہ کوئی نبی آیا ہے اور نہ آئے گا۔ اسلام عالم کائنات کا وہ واحد ترین دین ہے ،جو خواتین حضرات کو باعث خیر و برکت مانتا ہے، خواتین کو نہ صرف اعلیٰ مقام، عزت و مرتبہ عطا کرتا ہے، بلکہ ایک کام یاب معاشرے کی تشکیل کی سنگ بنیاد قرار دیتا ہے۔
وہ دین اسلام ہی ہے جس نے عورت کو بحیثیت بیٹی رحمت قرار دیاہے، تو بحیثیت بہن اسے باعث غیرت بنا دیا ہے، عورت اگر بیوی کی شکل میں راحت ہے تو ماں کی صورت میں اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ نے اس کے قدموں میں جنت رکھ دی ہے۔ خواتین حضرات کا چاہے کوئی بھی روپ اور رنگ ہو ہر رشتے میں ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے پر اسلام نے نیکی اور ثواب کو یقینی بنا دیا ہے۔
اسلام کی تاریخ ایسی جاں باز، دلیر، صابر، شاکر، اللہ سے محبت کرنے والی اور مضبوط اعصاب کی خواتین و صحابیات سے لب ریز ہے۔ جنھوں نے مشکل سے مشکل وقت میں نہ صرف صبر اور استقامت کا مظاہرہ کیا بلکہ ہر تکلیف، پریشانی اور مصیبت میں بھی اللہ کے حکم اور اس کے دین کو اپنی زندگی کا سب سے اہم حصہ بنائے رکھا۔ہر حال میں اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ کے فیصلے پر قائم و دائم رہیں۔تکالیف اور تنگ دستی کے بڑے چٹان ان کے حوصلوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہوگئے۔اللہ اور اس کے دین کی راہ میں آنے والے مشکل حالات میں بھی مسکرا کر لبیک کہنے کا ہنر ان میں موجود تھا۔ ان اعلیٰ ظرف صحابیات کی طرز زندگی تمام امت مسلمہ کے لیے مشعل راہ ہے ،جس کی روشنی اور نور کے سائے تلے ہمیں اپنے اعمال اور زندگی کو اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ کے بتائے گئے سانچے میں ڈھالنا ہے۔یہاں بسمل عظیم آبادی کا یہ شعر بہت موزوں ہے:
وقت آنے دے دکھا دیں گے تجھے اے آسماں
ہم ابھی سے کیوں بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے
یہ بات ہمارے لیے قابل فخر و رشک ہونی چاہیے کہ زندگی کا کوئی بھی امتحان ہو یا دنیا کی کوئی بھی تاریخ خواتین کے نام، ان کے کارناموں اور ان کی حصہ داری کے بغیر نامکمل ہے۔ اسلام نے عورت کو ایسا بلند و بالا مقام عطا کیا ہے کہ زندگی کے کسی بھی گوشے سے خواتین حضرات کے وجود کو معدوم کردینا ناقابل قبول ہے،ان کی شراکت کو نظر انداز کر دینا ناممکن ہے۔
دین اسلام پر سب سے پہلے ایمان لانے والی، محمدﷺ کی دعوت اسلام پر سب سے پہلے لبیک کہنے والی کوئی اور نہیں،بلکہ ایک صابر خاتون تھیں، جنھیں عالم اسلام حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے نام سے جانتا ہے، اسلام میں سب سے پہلے شہادت کا درجہ پانے والی کوئی اور نہیں بلکہ اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ کی عاجز گزار بندی ہی تھیں، جنھیں ہم حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ غزوۂ احد میں پروانوں کی طرح آں حضرتﷺ کی ڈھال بن کر زخم کھانے اور ’’خاتون احد‘‘ کا لقب پانے والی جاں باز کوئی اور نہیں بلکہ ایک خاتون ہی تھیں جن کا نام حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا تھا۔ اپنی دریا دلی اور کشادہ دستی کے سبب ’’ام المساکین‘‘کا لقب اپنے نام کرنے والی بھی ایک رحم دل اور خدا ترس خاتون ہی تھیں، جنھیں ہم ام المومنین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کے نام سے جانتے ہیں۔
ہجرت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کے لیے کھانے اور پانی کے مشکیزے کو اپنے پٹے سے باندھ کر، حضورﷺ سے ’’ذوالنطاقین‘‘ کا لقب حاصل کرنے والی بھی ایک اعلیٰ ظرف خاتون ہی تھیں جن کا نام حضرت اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا تھا۔ ان کے صبر اور قناعت کا یہ حال تھا کہ بڑھاپے میں نابیناہونے کے باوجود اپنے واحد و عزیز بیٹے حضرت عبداللہ بن زبیر کو نہ صرف اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے کی سیکھ دی بلکہ شہید ہوجانے کی تلقین بھی کی۔ان کے سنہرے الفاظ جو آج بھی اسلامی تاریخ کے پنوں میں درج ہیں، انھوں نے اپنے بیٹے سے فرمایا:
’’بیٹا! اگر تم کامیاب لوٹوگے تو مجھے خوشی ہوگی اور اگر تم اس راہ میں شہید ہو گئے تو میں صبر کروں گی۔ بےشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
اپنے شہید بیٹے حضرت عبداللہ بن زبیر کی لاش کو سولی پر الٹا لٹکا ہوا دیکھ کر بھی صبر کرنے والی حضرت اسماء بنت ابوبکر ہی تھیں،جنھوں نے اس تکلیف اور غم کے وقت میں بھی شکر ادا کیا اور صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکمران ِوقت حجاج بن یوسف جیسے ظالم کے سامنے کھڑے ہوکر یہ تاریخی کلمات کہے:
’’ تونے تو اس کی دنیا بگاڑی ہے ،اس نے تیری آخرت تباہ کردی۔‘‘
ادا جعفری نے بہت خوب لکھا ہے:
میں آندھیوں کے پاس تلاش صبا میں ہوں
تم مجھ سے پوچھتے ہو میرا حوصلہ ہے کیا
حسن اور حسین رضی اللہ عنہما جیسے شیر خدا کی تربیت کرنے والی، بتول، الزہرا، زکیہ وغیرہ کالقب پانے والی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی چہیتی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ علم شریعت میں مہارت حاصل ہونے کے سبب آں حضورﷺ نے جسے ذمہ داری سونپی کہ وہ ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو بھی لکھنا پڑھنا سکھادیں، وہ بھی ایک خاتون ہی تھیں، ان کا نام حضرت شفا بنت عبداللہ رضی اللّٰہ عنہا تھا، جنھیں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی استاذہ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ قرآن مجید نے جس کی نیک نیتی اور پاک بازی کا ثبوت پیش کیا ،وہ بھی دراصل خاتون ہی تھیں جنھیں ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں ،وہ بھی صرف اور صرف ایک خاتون ہی تھیں جنھیں اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے اپنا سلام بھیجوایا تھا، یہ شرف حاصل کرنے والی کوئی اور نہیں بلکہ ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا تھیں۔
غرض کہ عزت و مرتبے، شجاعت، فصاحت اور بلاغت کا ایسا کوئی موقع اور مقام نہیں ہے جو عورت کے نمایاں کردار سے پوشیدہ ہو،جس کی پاک بازی کی گواہی قرآن دے اور جسے اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ خود سلام بھجوائیں اس ذات کا کیا مرتبہ، عزت و احترام ہوگا؟ یہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے اور آج کے دور میں لوگ عورتوں کی عزت اور آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ جس نام نہاد عزت کی وہ بات کر رہے ہیں وہ عزت دین اسلام ہمیں چودہ سو سال پہلے عطا کر چکا ہے، جس پردے کو آج قید اور ظلم کا ذریعہ بتایا جارہا ہے ان نادانوں کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ پردے نے نہ صرف عورت کو دنیا کی ظالم اور وحشی نظروں سے محفوظ کردیا ہے بلکہ اس کی خوب صورتی، زیب و زینت کو ظالم نظام اور بےحیائی سے بھی کوسوں دور رکھا ہے۔
اسلامی نظام اور طرز زندگی ہی ہماری کامیابی کا ضامن ہے۔ آج کے دور میں جہاں ٹیکنالوجی کے غلط استعمال نے امت مسلمہ کو راہ راست سے بھٹکا دیا ہے، ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہم دنیا کی فکر چھوڑ کر اپنی آخرت پر توجہ دیں، دنیا مسلمان کے لیے قید خانہ ہے اور کافر کے لیے جنت، اب فیصلہ ہمارے ہاتھوں میں ہے کہ ہمیں اپنے مومن ہونے کے وقار کا پاس رکھنا ہے، اسلام اور قرآن و حدیث میں بتائے گئے اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ کے طریقے پر زندگی گزارنی ہے، آپ ﷺ کی مثالی زندگی کو مشعل راہ ماننا ہے، صحابہ و صحابیات، تابعین و تبع تابعین وغیرہ کے کردار سے متاثر ہوکر ان کے واقعات سے سبق حاصل کر کے خود کو جہنم سے محفوظ کرنا ہے یا پھر شیطانی وسوسوں اور فتنے کا شکار ہوکر اپنی آخرت تباہ و برباد کرنی ہے؟ فیصلہ ہمارے اختیار میں ہے۔ اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ نے حق اور باطل صاف اور واضح انداز میں کھول کر ہمارے سامنے رکھ دیا ہے، یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس سے استفادہ کرتے ہیں یا پھر آنکھیں میچ کر حق کا انکار کرتے ہیں۔
وہ جس کا ذکر ہوتا ہے زمینوں آسمانوں میں
فرشتوں کی دعاؤں میں مؤذن کی اذانوں میں
وہ نورِ لَم یزل جو باعث تخلیقِ عالم ہے
خدا کے بعد جس کا اسمِ اعظم اسم اعظم ہے
بالآخر ہمیں یہ بات ازبر ہونی چاہیے کہ ہم اس نبی کی امت ہیں جنھیں صرف مسلمان، عورت، مرد یا اس دنیا کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے عالم کے لیےرحمت بنا کر بھیجا گیا تھا۔ وہ رحمۃ للعالمین ہیں،سارے جہانوں کے لیےرحمت ہی رحمت ہیں،ان کی امت ہونے کے ناتےیہ ہم پر لازم ہے کہ ہم اسلام کی مکمل پیروی کریں،خود کو اسلام کا چلتا پھرتا نمونہ بنا لیں، تاکہ آئندہ نسلیں بھی دین اسلام کے زریں اصول و خیالات سے مستفید ہو سکیں۔
نام نبی تو ورد زباں ہے ناؤ مگر منجدھار میں ہے
سوچ رہا ہوں اب بھی یقیناً کوئی کمی کردار میں ہے
٭ ٭ ٭
0 Comments