جانوروں پر رحم

گلی کے موڑ پر ہی بچوں کا ہجوم تھا۔سارے بچے ایک گدھے کو پریشان کررہے تھے۔
جاوید، جو بچوں میں بڑا تھا، اس نے اپنے سے چھوٹے بچے کو کہا:
’’دانش! ذرا چاچا کرامت کی دکان سے پٹاخے تو لے آؤ، اب ہم اس کے پاس پٹاخے جلائیں گے، پھر دیکھو کیسا تماشہ ہوتا ہے اور کیسا مزہ آتا ہے۔‘‘جاوید ہنسنے لگا اور دوسرے بچے اس کی ہنسی میں شامل ہونے لگے۔
دانش نے پیسے لینے کے لیے ہاتھ بڑھائے ہی تھے کہ ارسلان بھائی پر نظر پڑی ۔ اس نے جاوید کو اشارہ کیا کہ ہم ارسلان بھائی کی نظروں میں آگئے ہیں۔
اس سے پہلے کہ سب رفو چکر ہوتے، ارسلان بھائی ان کے گروپ تک پہنچ چکے تھے۔ ارسلان بھائی کے پہنچتے ہی بے چارے گدھے کی پریشانی تھوڑی ختم ہوئی اور اس نے وہاں سے جانے میں ہی عافیت جانی۔
’’آہا السلام وعلیکم!‘‘
’’وعلیکم السلام‘‘ سب نے ایک ساتھ کہا۔
’’اور سب ٹھیک ارسلان بھائی؟‘‘ جاوید نے پوچھا۔
’’الحمدللہ! شکرربّی۔‘‘
’’تم سب کیسے ہو؟‘‘
’’ٹھیک ،الحمدللہ۔‘‘ سب نے کہا۔
’’آج کالج نہیں گئے ارسلان بھائی؟‘‘ ا س باردانش نے سوال کیا۔
’’امتحان ختم ہوچکے ہیں، تو ابھی میرے کالج کی تعطیلات چل رہی ہیں،اس لیے…‘‘
’’آپ تمام کی کیا مصروفیات ہیں آج کل؟‘‘سب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔
ارسلان بھائی نے مسکراتے ہوئے اپنی جانب سے پیش کش کی۔
’’ تو کیوں نہ آج میری طرف سے آپ کے لیے پارٹی ہوجائے،چلو میرے گھر چلو،وہیں چل کر انجوائے کرتے ہیں۔‘‘ ارسلان بھائی کی طرف سے دعوت کی پیش کش پر سب خوش ہوگئے۔
’’اپنے اور دوستوں کو بھی ساتھ لانا۔‘‘ ارسلان بھائی نے کہا تو سب فوراً اپنے دوستوں کو اکٹھا کرنے لگے۔
تھوڑی سی دیر میں کافی تعداد میں بچے ارسلان کے گھر کی چھت پر جمع ہوگئے تھے ۔ جہاں ارسلان نے ان کے لیے ناشتے کا انتظام کیا تھا۔
ناشتے کے بعد سب ایک دوسرے سے گپ شپ میں مشغول ہو رہے تھے کہ ارسلان نے سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کی۔
’’پیارے بچو!کیا آپ جانتے ہیں کہ ’’رحمۃ للعالمین ‘‘کن کوکہا جاتا ہے؟‘‘
’’اللہ کے رسول کو ،نبی پاک کو۔‘‘ بہت ساری آواز بچوں کی طرف سے آئی۔
’’کوئی ایک بتاؤ!‘‘ ارسلان نے کہا۔
دانش نے جواب دیاکہ رحمۃ للعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا جاتا ہے۔
’’شاباش دانش!‘‘ ارسلان نے مسکراتے ہوئے اسے داد دی۔
’’اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے:
وما أرسلناك إلا رحمة للعالمين
(اور ہم نے آپ کو یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔)
اس سے ہمیں کیا سمجھ آتا ہے؟‘‘ ارسلان پوچھنے لگا۔
فرحان نے کہا :
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے سب پر رحم فرمانے والا بنا کر بھیجا ہے،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سبھی سے محبت اور شفقت فرمایا تو ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی ایک دوسرے کے ساتھ رحم کا معاملہ رکھیں۔‘‘
’’شاباش فرحان!‘‘ ارسلان نے کہا۔
’’اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو رحم نہیں کرتا، اللہ اس پر بھی رحم نہیں کرتا۔‘‘ دانش نے کہا۔
’’بے شک۔‘‘ارسلان نے اپنی بات جاری رکھی۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انسانوں پر، بچوں پر،عورتوں پر،جانوروں پ، چرند پرند اور تمام ہی حشرات الارض پر رحم کرنے کا حکم دیتے ہیں۔‘‘
’’انسانوں پر کیسے رحم کیا جائے؟‘‘ ارسلان نے پوچھا۔
عبداللہ کہنے لگا:
’’ مما کہتی ہیں کہ مجھ پر رحم کرو، آپس میں جھگڑا مت کرو۔ اپنے چھوٹے بھائی سے جھگڑا نہیں کرنا چاہیے ،یہ مما پر اور چھوٹے بہن بھائی پر رحم ہے۔‘‘ عبداللہ کی بات سن کر سب ہنسنے لگے۔
ارسلان نے مسکراتے ہوئے کہا :
’’صحیح ہے ۔ چھوٹوں پر رحم کرنا اور بڑوں کی تعظیم کرنا، پڑوسیوں کو تکلیف نہ پہچانا،اپنی ذات سے دوسروں کے لیے آسانی پیدا کرنا،انسانوں پر رحم ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بچوں سے ملتے تو سلام کرتے ،بچوں کے ساتھ کھیلتے، انھیں تحفے دیتے، پھل کھلاتے ،یہ بھی رسول کی محبت اور شفقت ہے۔ ہمیں بھی یہ ساری چیزیں دھیان میں رکھنی چاہئیںکہ ہم بھی سب سے محبت، شفقت اور عزت و تعظیم سے پیش آئے۔‘‘
ارسلان نے مسکراتے ہوئے پوچھا:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں پر رحم کیسے کیا؟‘‘
’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں تکلیف دینے سے، بھوکا یا پیاسا رکھنے سے، ان پر بہت زیادہ سامان کا بوجھ ڈالنے سے منع فرمایا۔‘‘ جاوید نے کہا۔
’’بالکل صحیح۔‘‘ ارسلان نے کہا۔
’’اور ایک اونٹ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے مالک کی شکایت بھی کی تھی کہ وہ اونٹ کو بھوکا رکھتا ہے اور زیادہ کام لیتا ہے۔‘‘ جعفر نے کہا۔
’’بالکل صحیح۔‘‘ ارسلان نے کہا۔
’’اور فورتھ اکتوبر کو یومِ حیوانات بھی تو منایا جاتا ہے، تاکہ ہم حیوانات کا تحفظ کرسکیں۔ ‘‘صادق نے بھی اپنی بات پیش کی۔
’’بالکل، تو سمجھ آیا بچو کہ ہمیں جانوروں کو تکلیف نہیںدینی ہے، بلکہ ان پر رحم کرنا ہے۔‘‘
’’جی ارسلان بھائی! اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ ہمیں معاف فرما دے کہ ہم نے بہت سے جانوروں کو پریشان کیا، انھیں تکلیف دی کہ اب سے ایسا نہیں ہوگا۔‘‘ جاوید نے کہا۔
’’ارسلان بھائی اب سے میں چھت پر چڑیوں کے لیے دانہ اور پانی رکھوں گا۔‘‘ دانش نے عزم کیا۔
ارسلان نے مسکراکر اسے سراہا۔
اتنے میں عصر کی اذان گونجنے لگی،اور ارسلان کے ساتھ تمام بچے مسجد کی طرف روانہ ہوگئے۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے