عن عائشة رضي الله عنها زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:ما من مصيبة تصيب المسلم إلا كفر الله بها عنه، حتى الشوك ہوة يشاكها .
(نبی کریم ﷺ کی زوجۂ مطہرہ عائشہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مصیبت بھی کسی مسلمان کو پہنچتی ہے ،اللہ تعالیٰ اسے اس کے گناہ کا کفارہ کر دیتا ہے ، ایک کانٹا بھی اگر جسم کے کسی حصہ میں چبھ جائے۔)
دنیا جائےآزمائش اور امتحان گاہ ہے۔ مشقت و پریشانی اور بیماری کا گھر ہے۔ اس نے اب تک کتنے خوش لوگوں کو رنج دیا ہے ، کتنے یار ایک دوسرے سے بچھڑے،باپ بیٹے جدا ہوئے اور دوست سے دوست محروم ہوئے۔ سچ فرمایا اللہ تعالیٰ نے:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِيْ كَبَدٍ
(سورۃ البلد: 4)
(ہم نے انسان کو تکلیف (کی حالت) میں (رہنے والا) بنایا ہے۔)
انسان کی زندگی یکساں نہیں گزرتی کہ اس کی زندگی میں صرف خوشیاں ہی خوشیاں رہیں، کبھی غموں کی تیز دھوپ اسے نہ جُھلسائے،بلکہ زندگی خوشیوں اور غموں کا مجموعہ ہے۔ خوشی ملنے پر انسان کو کیا کرنا چاہیے اور غم سے واسطہ پڑنے پر انسان کو کیا کرنا چاہیے؟
بندۂ مومن کی شان تو یہ ہے کہ وہ خوشی ملنے پر اپنے رب کریم کا شکر ادا کرتا ہے اور مصیبت میں صبر کرکے ثواب کماتا ہے،گویا اس کے لیے دونوں صورتوں میں نفع کمانے کا موقع ہوتا ہے۔اس تعلق سے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’مومن پر تعجب ہے کہ اس کا ہر معاملہ خیروالا ہے اور یہ بات سوائے مومن کے کسی کو حاصل نہیں، اگر مومن کو خوشی ملے توشکر کرتا ہے جو اس کے لیے خیر ہے اور اگر اسے مصیبت پہنچے تو صبر کرتا ہے،اس میں بھی مومن کے لیے خیر ہے۔‘‘
یہاں وہ انسان مراد ہے جسے اللہ تعالیٰ مختلف مصائب اور آزمائش میں مبتلا کرے لیکن وہ انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھتا ہے اور صبر سے کام لیتا ہے، اور آزمائش کے باوجود اللہ تعالیٰ کے متعلق گمان اچھا ہی رکھتا ہے، چناں چہ خوشنودی اور مصیبت کے مطابق ثواب کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر آزمائش ناراضگی کی ہی وجہ سے نہیں ڈالتا بلکہ یا تو مکروہ چیز کو دور کرنے کے لیے یا گناہوں کے کفارے کے لیے یا مرتبہ بلند کرنے کے لیے آزماتا ہے اور بندہ جب خوشی خوشی اسے قبول کرلیتا ہے تو یہ مقصد حاصل ہوجاتا ہے۔
حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اے ابن آدم! اگر تو مصیبت کی ابتداء کے وقت صبر کرے گا اور ثواب کی نیت رکھے گا تو میں تیرے لیے جنت کے سوا اور کسی ثواب پر راضی نہیں۔ ‘‘
یہاں یہ اشارہ ہے کہ نفس پر مشکل صبر، جس کا بڑا ثواب ہے، وہ مصیبت اور آزمائش کی ابتدا ءکا وقت ہوتا ہے، اس لیے یہ بات اس انسان کی دلی قوت اور صبر کے مقام پر ثابت قدم رہنے پر دلالت کرتی ہے، بخلاف اس شخص کہ جو بعد میں صبر کرتا ہے، کیوں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مصیبت کا دکھ اور تکلیف بھول جاتی ہے اور اس کی حرارت میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔
قرآن حکیم میں ارشاد ہے :
’’ اور ہم کسی نہ کسی طرح تمھاری آزمائش ضرور کریں گے، دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال و جان اور پھلوں کی کمی سے اور ان صبر کرنے والوں کو خوش خبری دے دیجیے کہ انھیں جب کبھی کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔(سورۃ البقرہ: 155تا157)
معلوم ہوا کہ جب مومن اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو تسلیم کرلیتا اور انا للہ پڑھتا ہے تو تین بھلائیوں کا مستحق ٹھہرتا ہے (1) اللہ کی نوازشیں (2) رحمت (3)ہدایت یافتہ ہونے کی سند۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی سکھلایا ہے کہ مصیبت کے وقت اللہ تعالیٰ کو پکارا جائے، اجر و ثواب کا سوال اور مصیبت کے بدلے اچھائی طلب کی جائے۔
جب اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ کے بعد گناہ مٹا دینے کا ارادہ رکھتے ہیں اور آزماکر اسے مزید نکھارنا چاہتے ہیں تو اس کے گناہوں کا بدلہ اس دنیا میں ان مصیبتوں کے ساتھ دے دیتے ہیں، جس سے بندے کی آزمائش بھی مقصود ہوتی ہے جو اس پر آتی ہے، اور یہ ان کے لیے کفارہ ہے، اسی لیے مومن کو دنیا میں جو مصیبت لاحق ہوتی ہے،وہ کبھی تو اس کے لیے رب العالمین سے قربت کا سبب بن جاتی ہے، کبھی اسے اس مرتبہ پر پہنچا دیتی ہے،جو بغیر اس طرح کی قربانیوں کے حاصل نہیں ہوتے اور کبھی بندے کو غافلوں کی صف سے نکال کر صبر و شکر کرنے والوں کا مقام دلاتی ہے ، چناں چہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا:
’’اے اللہ کے نبی ! لوگوں میں سب سے سخت آزمائش کس کی ہوتی ہے؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا:
’’انبیاء کی، ان کے بعد علی الترتیب افضل لوگوں کی ،آدمی اپنے دین و ایمان کے مطابق آزمایا جاتا ہے۔ اگر اس کے دین میں پختگی ہےتو اس کی آزمائش بھی سخت ہوتی ہے، اور اگر اس کے دین میں لوچ اور نرمی ہے تو اسی اعتبار سے آزمائش بھی کم ہوتی ہے۔ چناں چہ آزمائش مومن بندے کے ساتھ برابر لگی رہتی ہے، یہاں تک کہ اسے اس حالت میں چھوڑتی ہے کہ وہ زمین پر چلتا پھرتا ہے اور اس کے اوپر کوئی گناہ باقی نہیں رہتا۔‘‘
انبیاء و رسل کے علاوہ اللہ کے دیگر مومن بندوں کو جو صبر آزما مصیبتیں پہنچیں اور جن آزمائشوں میں وہ مبتلا کیے گئے وہ بھی سبق آموز ہیں، خاص طور سے حضرت ایوب علیہ الصلوٰة والسلام کا واقعہ مومنین کے لیے بہت بڑی عبرت اور مصیبت زدوں کے لیے باعث تسلی ہے۔
انسان پر جو مصیبتیں آتی ہیں، وہ بے شمار ہیں، لیکن مصیبتوں پر جب آدمی صبر کرتا اور رب العالمین سے ثواب کی امید رکھتا ہے تو یہ اس کے لیے باعث اجر و ثواب ہوتی ہیں۔اللہ ہم سب کو ایسی مصیبت سے محفوظ رکھے ،
آمین!
٭ ٭ ٭
0 Comments