تہی تمنا کی تہی دامانی

روبی جائے واردات پر تیزی سےپہنچی، پولیس کا عملہ اپنے کام میں مصروف تھا ۔گھر کے باہر لوگوں کا جم غفیر چہ مگوئیوں میں مصروف تھا۔ وہ ایک طرف،جہاں مقتولہ کے رشتہ داروں کے ہونے کا امکان تھا ،اس طرف جانے لگی، اس کے گلے میں لٹکے پریس کے آئی کارڈ کی وجہ سے اسے کسی دشواری کا سامنا نہیں ہوا ۔
آج صبح ہی وہ ناشتے سے فارغ ہو کر دن بھر کی پلاننگ میں مصروف تھی، تبھی اسے اپنے ساتھی رپورٹر کی کال آئی،اس کے ساتھی نے بتایا کہ ایک لڑکی قتل ہوئی ہے اور اس کے قاتل نے اس سے قتل کر کے اس کے جسم کے ٹکڑوں کو بوری میں بھر کر جنگل کے مختلف حصوں میں پھینک دیا ہے۔
یہ واقعہ منظر عام پر آتے ہی پورے علاقے میں سنسنی پھیل گئی تھی، اس کے ساتھی نے اسے سارے حادثےکو بالتفصیل کور کرنے کی ہدایت اور ضروری اطلاعات دیں اور ساتھ ہی یہ بتایا کہ دوپہر میں جماعت اسلامی ہند کی مہم’’اخلاقی محاسن ،آزادی کے ضامن‘‘ کا افتتاحی پروگرام ہے، تمھیں وہاں بھی جانا ہوگا۔
اس مہم کا چرچا وہ کافی دنوں سے سن رہی تھی اور اس کے اغراض وہ مقاصد سے بھی لاعلم نہیں تھی۔ روبی نے برا سامنہ بنایا اور اپنے ساتھی سے کہا کہ میں بس قتل کی واردات کو ہی کور کرنے جا سکتی ہوں۔ یہ لمبے لمبے مذہبی بیان مجھ سے سنے نہیں جاتے۔ اس پروگرام کو کور کرنے کے لیے تم کسی اور کو بھیج دو، اور ہاں! جماعت کے لوگوں کو بتاؤ کہ اخلاق کب تک سکھاتے رہیں گے؟ سب سے زیادہ تعلیم یافتہ قوم ہے، آج کے دور کی آزادی سے جیتے ہیں اور عیش بھی کرتے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ لاپرواہی سے زور سے ہنس دی ۔
روبی کو رپورٹر ہونے کی وجہ سے ہر چیز اور ہر سن گن پر توجہ دینے کی عادت تھی اور اس بنا پر وہ بغیر کسی تفتیش کے یہ جان چکی تھی کہ مقتولہ ایک 28,29سال کی نوجوان خوب صورت لڑکی تھی، جو کہ چھوٹے سے دیہات سے جاب کی خاطر ممبئی آئی ہوئی تھی۔ ایک غریب مسلم گھر کی یہ لڑکی ممبئی میں ایک سیلز گرل کا کام کرتی تھی اور پچھلے دو سال سے اپنی کولیگ کے ساتھ لیو ان ریلیشن میں اس اپارٹمنٹ میں مقیم تھی۔
لڑکی کے گھر والے وہاں شاک کی کیفیت میں بیٹھے نظر آئے۔ خوف وہراس،پریشانی اور غم ان کے چہروں سے صاف چھلک رہا تھا۔ ایک ادھیڑ عمر کی خاتون ،جس نے اپنے چہرے کو دوپٹے سے چھپا رکھا تھا ،زار و قطار روتی نظر آئی۔وہ سمجھ گئی کہ یہ مقتولہ کی والدہ ہو سکتی ہے۔
معلوم کرنے پر اس کا اندازہ درست نکلا ،وہ اس کی والدہ کے قریب جا کر تسلی دینے لگی، مقتولہ کی والدہ نے استفہامیہ نظروں سے روبی کی طرف دیکھا۔ تو روبی نے بتایا کہ میں ایک رپورٹر ہوں، یہ سنتے ہی اس کی والدہ نے اپنےچہرے کو اچھی طرح چھپانے کی کوشش کی، اور کہا:’’ بہن! میں کچھ نہیں بتا سکتی۔ پولیس کو بتا دیا ہے جو کچھ بتانا تھا۔ آپ مجھے اپنی بیٹی کا ماتم کرنے دو بس۔‘‘وہ رکھائی سے کہہ کر اٹھنے لگی، تبھی روبی نے ہاتھ تھام کر انھیں دوبارہ بٹھا دیا۔

’ ٹھیک ہے ٹھیک ہے! آپ پریشان مت ہوئیے ،اگر آپ نہیں چاہتیں تو میں کچھ نہیں پوچھوں گی، لیکن کیا آپ انصاف نہیں چاہتیں؟‘‘
’’انصاف ؟ہونہہ! اس ملک میں انصاف؟‘‘وہ استہزاءکے ساتھ ہنسی ۔
’’یہاں صرف ماں باپ کی بے بسی کا تماشہ دیکھا جاتا ہے۔ اس طرح کی مصالحے دار خبروں پر تم جیسے لوگ اپنے کاروبار کو چمکاتے ہو۔سیاست دان اپنی سیاست چمکاتے ہیں۔پولیس اپنا نام چمکاتی ہے ۔این جی اوز اپنی شہرت کو چمکاتے ہیں،اور سب مل کر اس لڑکی اور اس کے گھر والوں کو عمر بھر کے لیے بدنامی کے اندھیروں میں دھکیل دیتے ہیں۔‘‘وہ افسوس سے سر جھٹک کر جانے لگی تو روبی دوبارہ ان کی راہ میں حائل ہوئی۔
’’دیکھیے !آپ کا غم میں سمجھتی ہوں ،چلیے انصاف کی خاطر نہ سہی، لیکن دوبارہ کسی بیٹی کے ساتھ اس طرح کے واقعات نہ ہوں، اس خاطر ہی آپ مجھے ساری داستان بتا دیجیے۔‘‘روبی کی بات سن کرمتفکر نگاہوں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بیٹھ گئی۔ کچھ پل یوں ہی خاموشی کی نذرہوئے ۔پھر روبی نے دیکھا کہ مقتولہ کی والدہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔
کچھ توقف کے بعد وہ رندھے ہوئے گلے سے گویا ہوئی:
’’ یہ بات تم نے اچھی کہی کہ میری بیٹی کے ساتھ جو کچھ ہوا، اللہ نہ کرے۔ کسی بھی بچی کے ساتھ ایسا ہو، میری بیٹی کی کہانی سن کر ایک بھی لڑکی راہ راست پر آگئی تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گی کہ اللہ پاک میری بیٹی کی مغفرت کر دے۔‘‘
’’ہائے میری گنہ گار بیٹی! اپنے گناہوں کی دنیا میں سخت سزا پائی اس نے،اللہ آخرت میں اسے بخش دے ۔‘‘وہ تڑپ رہی تھی بلک رہی تھی، ایسا لگتا تھا بہت دیر سے جو بند باندھا ہوا تھا ،وہ ٹوٹ گیا ہے ۔روبی نے انھیں ٹوکا نہیں، انھیں رونے دیا ،اور چپ چاپ اپنے پرس میں رکھی پانی کی بوتل نکال کر مقتولہ کی والدہ کی طرف بڑھائی۔وہ ایک ہی سانس میں اچھا خاصا پانی پی گئی۔پھر اپنے لبوں کو صاف کر کے اپنی سانس پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگی ۔
’’مجھے اوپر تلے چھ بچے ہیں، تین بیٹے تین بیٹیاں،انجم ان سب سے بڑی تھی،ہم لوگ غریب گھر کے دیہاتی ۔ جب تک مفت تعلیم حاصل ہوتی اتنا ہی بچوں کو پڑھاتے لیکن انجم بچپن سے ہی بہت ذہین تھی، اس نے ہمارے گاؤں میں ہی گریجویٹ کیا اور اپنے خوابوں کو پورا کرنے ممبئی کا رخ کیا،جہاں اسے کمپنی میں جاب مل گئی ،وہ کم ہی گاؤں آتی تھی اور ہم لوگ بھی ممبئی زیادہ نہیں آسکتے تھے۔‘‘مقتولہ کی والدہ کھوئے کھوئے انداز میں اس سے بتانے لگی۔انجم نے بتایاتھا کہ وہ ایک گرلز ہاسٹل میں رہتی ہے ۔بعد میں کچھ عرصے میں ہی اس میں بہت ساری تبدیلیاں نظر آنے لگیں ۔وہ مہنگے لباس اور مہنگی جویلری سینڈلز وغیرہ کا استعمال کرنے لگی۔میں اس سے پوچھتی تو یہی کہتی کہ سیلری اچھی مل رہی ہے۔ سارا گاؤں اسے دیکھ کر حیران ہوتا تھا۔وہ جب بھی گاؤں آتی لڑکیاں اسے گھیر لیتیں، اس پر رشک کرتیں، وہ اب اپنے بہن بھائیوں کے تعلیمی اخراجات میں بھی مدد کرنے لگی تھی اور میرے لیے بھی کچھ نہ کچھ لے آتی تھی۔
اس کی ماں دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رودی، پھر اپنے دوپٹے کے پلو سے چہرے کو صاف کرتے ہوئے کہنے لگی:
’’ہائے !میں نے اس سے کیوں نہ روکا؟ لالچ میں اندھی ہو کر میں نے بھی اس کے کرتوتوں سے نظر پھیر لی۔ہائے! وہی گاؤں کی عورتیں اب تھوک رہی ہیں۔ اپنے بچوں کو ہمارے سائے سے بھی دور رکھ رہی ہیں۔میں نے اسے کیوں نہ دین کی تعلیم دی؟‘‘ وہ بلکتے ہوئے کہنے لگی۔
’’اس نے، زمانے کےفیشن میں زنا کو بھی غلط نہ سمجھا ،جب میں اس کو بتانے لگی تھی کہ بیٹا یہ گناہ ہے ،تو وہ ہنس کر کہتی کہ نہیں امی! ممبئی میں کئی لوگ اس طرح رہتے ہیں اور بڑے فخر سے لوگوں کو بتاتے ہیں۔’’لیو اِن ریلیشن‘‘ میں رہنا تو آج کل اپ ڈیٹ رہنے کی نشانی ہے، سرکار نے بھی اس کی اجازت دی ہے ۔جیسے نکاح میں ہم پیپر سائن کرتے ہیں ویسے ہی اس میں بھی کرتے ہیں ۔میں نے اس سے کہا بھی کہ بیٹا بعد میں تجھے کوئی قبول نہیں کرے گا ۔تو وہ کہتی کہ بعد کو بعد میں دیکھیں گے، ابھی تو عیش سےجی لیں۔ میں نے اس سے کہا کہ گاؤں میں لوگوں کو معلوم ہوگا تو سب ہم پر انگلیاں اٹھائیں گے۔ وہ کہنے لگی کہ امی ابھی تو میرے پیسوں کو، میری چمک دمک کو دیکھ کر انگلیاں نہیں اٹھائیں گے بلکہ اپنی لڑکیوں کو بھی میرے راستے پر چلائیں گے، ہائے! میں اسے دنیا کا خوف نہ دلاتی، خدا کا خوف دلاتی تو شاید وہ راہ راست پر آجاتی، لیکن میں نے ہی خدا کی رضا سے آنکھیں پھیر لیں ۔
خود میں بھی یہی سوچنے لگی کہ اچھا ہے، شادی بیا ہ، جہیز کے اخراجات سے بچ رہے ہیں۔ میں نے آخرت کا نہ سوچا، اسی لیے اللہ نے شاید اسے ایسی موت دی کہ وہ سب کے لیے نشان عبرت بن گئی۔ اس سے محبت کرنے کے دعوے کرنے والا ،اس کے لیے اپنے خاندان کو چھوڑنے والے نے ہی اس بس اس کا استعمال کیا اور اسے بے دردی سے مار کر اس طرح بکھیر دیا کہ اس کی مکمل لاش تک نہیں مل رہی۔وہ روتے روتے اس کی طرف دیکھنے دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔
’’تم میری بیٹی کی کہانی ضرور زیادہ سے زیادہ شائع کرواؤ، ساری حقیقت دنیا کے سامنے لاؤ ۔تم سب کو بتاؤ کہ اللہ کی راہ سے ہٹ کر رسوائی اور ذلت کے سوا کچھ نہیں ہے۔بچیوں سے کہو کہ وہ نہ بہکیں۔ کسی کے جھوٹے وعدوں کے حصار میں نہ آئیں۔ماں باپ کی محبت بھی خود غرض ہو سکتی ہے ،لیکن اللہ کی محبت دونوں جہاں میں رسوائی سے بچانے والی محبت ہے۔تم… تم بتاؤ سب کو یہ داستان،ضرور بتاؤ !‘‘وہ ہذیانی انداز میں کہتی جا رہی تھی اور روبی ایک عزم سے وہاں سے اٹھ کر لوٹنے لگی کہ جا کر ’’جماعت اسلامی ہند‘‘ کے لوگوں کو بتائے کہ’’ اخلاقی محاسن،آزادی کے ضامن ‘‘اس مہم کی ضرورت آج کے دور کےلیےپیاسے کو سمندر دینے جیسی ہے ۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے