ٹوٹتے دل بکھرتے خاندان

’’اور اگر تم لوگوں کو کہیں میاں بیوی کے تعلقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہوتو ایک حکم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو، وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ ان کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور باخبر ہے۔‘‘(سورۃالنساء: 35)
چھٹی کا دن تھا۔ ننھا سلیمان اپنے پسندیدہ کھلونے نکالے بیٹھا تھا ۔ ایک ایک گاڑی کو نکالتا اور چلا کر چیک کرتا کےصحیح چل رہی ہے یا نہیں؟عمر تو اس کی یہی کوئی 5 سال ہوگی،لیکن گاڑیوں کے شوق کی بنا پر اس نے اپنے داداجان سے چھوٹی چھوٹی گاڑیوں کی مرمت خوب سیکھ لی تھی۔ اس کے ٹول بکس میں سب ضروری اوزار موجود رہتے۔ اسکروڈرائیور اورچھوٹے موٹے نٹ بولٹ وغیرہ۔ سلو چلنے والی گاڑیوں کی آئیلنگ بھی کرلیتا ،ابھی وہ اپنی ایک کار کو چیک کرہی رہا تھا کہ اندر کمرے سے زور زور کی آوازوں پر وہ سہم گیا۔
’’ تم نے میرا سکون غارت کر رکھا ہے۔‘‘ یہ ابو کی آواز تھی۔وہ آہستہ سے اٹھ کر دروازے کے قریب پہنچ گیا۔ مما کے رونے کی آواز آرہی تھی۔
’’ میرا تو دل ہی ٹوٹ گیا۔‘‘دیوار سے لگ کر ننھا سلیمان سوچنےلگا، بڑا ہوکر میں ٹوٹے دلوں کو جوڑنا بھی ضرور سیکھ لوں گا۔

مثالی حکم

ایک میاں بیوی میں کسی معاملے پرجھگڑا ہوگیا۔بیوی اپنے باپ کے پاس پہنچی اور اپنے شوہر کی شکایت کی، حال سنایا اور زار وقطار رونے لگی ۔
باپ نے بیٹی کو اس طرح روتے دیکھا تو دل بھر آیا۔آب دیدہ ہوگیا۔ شفیق باپ نے بیٹی کو سمجھاتے ہوے کہا:
’’بیٹی!میاں بیوی میں کبھی کبھی ایسی باتیں ہو ہی جاتی ہیں۔وہ کون سے میاں بیوی ہیں جن کے درمیان کبھی کوئی رنجش کی بات نہ ہوتی ہو اور بیٹی ! یہ کیسے ممکن ہے کہ مرد سارے کام ہمیشہ عورت کی مرضی کے مطابق ہی کیا کرے اور اپنی بیوی سے کچھ نہ کہے۔جاؤ ! اپنے گھر جاؤ! خدا تمھیں خوش اور آباد رکھے اور میں تم دونوں کو خوش دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی رکھوں۔میں نے تمھارا نکاح خاندان کے سب سے افضل نوجوان سے کیا ہے۔ ‘‘
شفیق والد کے یہ جملے سن کر بیٹی اپنے گھر کو آباد کرنے خوشی خوشی لوٹ آئی۔مذکورہ واقعے میں شفیق باپ بحیثیت حکم حضور پرنور محمد ﷺ ہیں اور بیٹی حضرت فاطمہ زہراؓ ۔بھلا اس سے اچھی مثال اور کس کی ہوسکتی ہے؟یہ ہے وہ رویہ ،جس سے قصر دل آباد ہوتے ہیں۔
نکاح کی گانٹھ سے ایک اجنبی مرد اور عورت ، میاں اور بیوی کا مقدس رشتہ پاتے ہیں۔ایک قلب ایک جان بنتے ہیں، جو سنت رسول (ﷺ ) بھی ہے۔ اسلام زوجین کے درمیان تعلق کے نتیجے سے وجود میں آنے والے انسٹی ٹیوٹ خاندان کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ میاں بیوی کا خوش گوار تعلق ہی اصل میں معاشرے کے استحکام کی بنیاد ہے۔
دوسری جانب شیطان اس مقدس رشتے میں دراڑ ڈال کر سب سے زیادہ خوش ہوتا ہے۔
موجودہ دور میں ہمارے جمہوری ملک عزیز میں نئے نئے قوانین نے بھی شیطان کے پسندیدہ کاموں کو آسان کردیا ہے، کبھی ٹرپل طلاق تو کبھی مطلقہ کے نفقے سے متعلق۔جب شیطان کا وار کام کرجاتا ہے تو حکم کا چیلنجنگ رول شروع ہوتا ہے جس کا ذکر سورۃ النساء کی آیت نمبر 35 میں کیا گیا ہے۔
حکم کون ہوتے ہیں؟مرد کے رشتے داروں میں سے ایک اور عورت کے رشتے داروں میں سے ایک متقی و مخلص ہوتے ہیں۔
حکم کیا کرتے ہیں؟حکم نہایت ٹھنڈے ماحول میں جمع ہوتے ہیں ۔حکم غور و فکر کرتے ہیں کہ زوجین کے درمیان کدورت کیوں پیدا ہوئی ؟
تعلقات کیوں کشیدہ ہوئے ؟جس کی وجہ سے نہ صرف دو دل، دو افراد بلکہ دو خاندانوں کے درمیان پیچیدگی پیدا ہوئی اور زوجین کے درمیان مشترکہ زندگی کے اچھے عوامل غیر مؤثر ہو گئے ۔
حکم دونوں خاندانوں کی شہرت اور عزت کا بھی خیال رکھتے ہیں، اور دونوں خاندان کے مفادات کا بھی ،جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہورہے ہیں،اور زوجین کے چھوٹے بچے ہوں تو ان کی مستقبل کا بھی خیال رکھتے ہیں ۔ایسی Condition میں جب کہ میاں اور بیوی اپنی اپنی بات منوانا اپنے لیے باعث عزت سمجھتے ہیں، یہ اپنے علم و بصیرت و دور اندیشی سے معاملے کو سمجھتے اور سلجھاتے ہیں۔
سب سے اہم حکم، میاں اور بیوی کے رازوں کے امین ہوتے ہیں ۔حکم ایسے نیک بخت ہوتے ہیں ،جن پر میاں اور بیوی کو اعتماد ہوتا ہے کہ وہ ان کے رازوں کو پس پردہ رکھیںگے، ان کی عزت کو طشت از بام نہیں کریں گے۔حکم کی نشست و برخاست زوجین کے درمیان اصلاح کی خاطر ہوتی ہے ۔
زوجین کی محبت و الفت جو محض غصے اور انا کی وجہ سے دب گئی تھی، حکم کے اخلاص و تقوی سے جی اٹھتی ہے، اور اللہ کریم ناراض میاں بیوی کے درمیان موافقت کی صورت نکال دیتا ہے۔جب مسلم معاشرے مین اتنے خیرخواہ حکم موجود ہوں تو ہم کیوں اپنے ٹوٹے دلوں کو غیر اسلامی عدالتوں میں لے جائیں جہاں نہ صرف دو افراد بلکہ دونوں خاندانوں کی دھجیاں اڑائی جاتی ہوں؟

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

1 Comment

  1. عامر

    ماشاءاللہ

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے