ادھورا رہ کر مکمل ہوا(قسط: 6)

(ایک مہینے بعد)

وہ اگست کی ایک پرمسرت سی صبح تھی۔رات بھر بارش برسنےکے بعد آسمان صاف ہوگیا تھا۔زائنہ اپنے کمرے میں آئینے کے سامنے کھڑی تیار ہورہی تھی۔اس نے دوپٹہ سیٹ کرتے ہوئے خود کو آئینے میں دیکھا۔صاف رنگت، چہرے پر سنجیدگی،کانوں میں سونے کی بالیاں ،گلے میں ہلکا موتیوں کا ہار،بالوں کو ڈھیلی چوٹی میں باندھے،ہلکے جامنی رنگ کا فراک پہنے اور شہد رنگی آنکھوں کے نیچے گہرے کالے حلقے کو کنسیلر سےچھپائے وہ صفائی سے کیے گیےہلکے سے میک اپ میں اچھی لگ رہی تھی۔
پچھلےایک مہینے میں اس کی شخصیت بالکل بدل گئی تھی۔وہ بالکل ویسی نہیں رہی تھی جیسی ہوا کرتی تھی۔ہر وقت بولتی رہنے والی ، خوش مزاج لڑکی سے وہ سنجیدہ، کم گو ، اور خاموش سی رہنے والی لڑکی کب بن گئی ؟وہ محسوس ہی نہ کر سکی۔اس ایک مہینے میں اسے کئی بار لگا تھا کہ اس کی زندگی ختم ہوگئی ہے۔وہ اب نہیں بچے گی لیکن ڈھیٹ بنی وہ آج بھی زندہ تھی۔
زندگی میں ہمیں کئی بار لگتا ہےکہ اگر ہمارے ساتھ یہ ہوا تو ہم جی نہیں پائیں گےیا اگر ہم سے وہ شخص چھوٹ گیا تو ہم مر جائیں گے،لیکن ہم نہیں مرتے،نہ جینا چھوڑتے ہیں،کیوں کہ مرنا تو سکون کی نشانی ہوتی ہے ناں؟اور کسی کے چھوڑ جانے پر ہمیں سکون تو نہیں ملتا،صرف تکلیف ہوتی ہے،ایسی اذیت ناک تکلیف جو صرف جسم سے روح نکلتے وقت محسوس ہوتی ہیں،اور اُس حالت میں ہم صرف موت کے قریب جاکر واپس آتے ہیں۔اتنے قریب کہ سانسیں حلق میں اٹکنے لگتی ہیںاور پھر ہم وہ بن جاتے ہیں،جس کا ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا۔
’’تیار ہو بیگم ؟ممی بابا نیچے انتظار کررہے ہیں ہمارا۔‘‘ عیان باہرسے اسے آوازیں دیتا گھڑی دیکھتاہوا ہوا اندر آیا۔وہ اس کی آواز پہ مڑے بغیر ہی اس کا شیشے میں اترتا عکس دیکھنے لگی۔وہ اس کے کچھ فاصلے پر کھڑا بلیو جینس پر پہنی ہوئی سفید شرٹ کے کف موڑ رہا تھا۔شہد رنگی نگاہوں کو محسوس کرکے اس نے اوپر نگاہیں کیں۔مرر کےاندر دونوں کی نگاہیں ملیں۔اس ایک نگاہ کو اس کے وجود پر ڈال کر وہ اس کے سراپے کو حفظ کرچکا تھا۔
’’اچھی لگ رہی ہو۔‘‘وہ دھیما سا مسکرایا۔
وہ جو اسے ہی دیکھ رہی تھی اس اچانک کی گئی تعریف پر خفت سے نگاہیں نیچے کیں ۔اس سےکچھ پل کچھ کہا نہ گیا۔عیان کے کہے الفاظ سے زیادہ خود کے وجود پر پڑتی اس کی نگاہیں اسے کنفیوز کررہی تھیں۔وہ بات بدلتی کہنےلگی:
’’میں بس جی برقع پہن کر ابھی آرہی ہوں۔‘‘ اس کی گڑبڑاہٹ دیکھ کر اس نے مسکراہٹ دبائےسر جھٹکا۔زائنہ کے لہجے میں ابھی بھی اسے کہیں کہیں ٹھنڈک سی محسوس ہونے لگتی تھی۔عیان کے لیے اس کے لہجے کی یہ ٹھنڈک اب نئی نہیں رہی تھی۔وہ اسے سنبھالنے کا فن سیکھ رہاتھا۔
زائنہ الماری کھول کر برقع نکالنے لگی تھی۔وہ اسے دیکھ رہا تھا۔یہ ایک مہینہ جس طرح سے اس نے اسے سنبھالا تھا یہ بس وہی جانتا تھا۔اس کا نیند میں چیخیں مار کر اٹھنا، ہر تیسرے دن ہاتھ پیر کا اکڑ کر بےہوش ہوجانا، وہ آج بھی نہیں بھولا تھا۔اسے لگ رہا تھا کہ وہ دھیرے دھیرے ٹھیک ہورہی ہےیا یہ شاید اس کاوہم تھا،کیوں کہ شانزے تو اس کےٹھیک ہونے کی ہر امید کھو چکی تھی۔وہ ان ہی خیالوں میں تھا کہ وہ برقع پہن کر آگئی۔
’’چلیے!‘‘اس نے اپنے وجود پر پڑتی اس کی نگاہوں پر غور کیے بغیر کہا۔وہ اس کی نگاہوں کی عادی ہورہی تھی یا وہ اس پر غور کرنے کی سرے سے عادی ہی نہیں تھی، وہ سمجھ نہیں سکا۔وہ کہہ کر آگے دروازے کی طرف بڑھ گئی۔وہ پیچھے اسے دیکھتا ہوا کار کی چابی جیب سے نکال کر انگلی میں گھماتا باہر نکالا۔

٭ ٭ ٭

اس وقت رات کے دس بج رہے تھے۔عیان کے کمرے میں زرد بتیاں روشن تھیں۔وہ ہلکے گرین آدھے بازوؤں کی ٹی شرٹ میں ملبوس بستر پر لیٹا کمبل پیروں پر پھیلائےسوچتی نگاہوں سے اُسے گلابی رنگ کااسکارف لپیٹے بڑے انہماک سے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔وہ پہلی رکعت پوری کرکے جائےنماز پرخدا کے دربار میں کسی فرماںبردار غلام کی طرح کھڑی اب سجدہ کرنے کو جھک رہی تھی۔ اسے آج بھی نماز پڑھتے ہوئے اپنی بیوی کے چہرے پر وہ عجیب سا سکون نظر آیا جو عام طور پر دکھائی نہیں دیتا تھا۔زائنہ کے چہرے کا یہ سکون اس کے بے چین دل کو سکون پہنچانے کےلیے کافی تھا، لیکن آج مسٹر فرقان کی دعوت پر ہوا واقعہ اس کے ذہن کو اپنے حصار میں لےکر پریشان کررہا تھا۔اس کی نگاہوں کے سامنے پھر سے دوپہر کامنظر گھومنےلگا۔
وہ آج شام کا وقت تھا۔فنکشن اوپن ایریا میں رکھا گیا تھا۔جہاں اس کے سارے دوست اور جاننے والے مسٹر فرقان کے ریزورٹ پر جمع ہوئے تھے۔وہ دونوں بھی عیان کے والدین کے ساتھ وہاں پرمدعو تھے۔مردوں کا انتظام پول سائیڈ ایریا کی طرف کیا گیا تھا اور خواتین کےلیے سامنے گارڈن میں کرسی ٹیبل لگاکر بیٹھک بنائی گئی تھی۔
شام میں کھانے سے فارغ ہوکر ساری خواتین گھیرا بنائے بیٹھی تھیں۔عیان بھی پول سائیڈ پر کھڑا ہاتھ میں کول ڈرنک کا گلاس تھامے اپنے عزیز دوست فرزان سے باتیں کرتا سرسری نگاہ گارڈن کی طرف بھی ڈال رہا تھا۔ وہ اس ڈائریکشن میں بیٹھی تھی کہ وہ اس کا چہرہ کچھ فاصلے سے ہی سہی، لیکن صاف دیکھ سکتا تھا۔اس کے گرد دائرے بناتی کچھ خواتین بیٹھی باتیں کررہی تھیں۔وہ برقعے میں خاموش سی ان کی باتیں سن رہی تھی ،ساتھ ہی کچھ کچھ باتوں کا ہلکے سے انداز میں مسکراکر کر جواب بھی دے رہی تھی۔عیان کی نگاہوں کے تعاقب میں فرزان کی نگاہیں بھی گارڈن کی طرف دوڑیں۔اس نے شرارتاً لب دبائے اس کے بازو میں گھونسا مارا۔
’’یار! شادی ہوگئی ہے تیری ،اب تو اپنی حرکتوں سے باز آجا۔کب سے دیکھ رہا ہوں خواتین کو تاڑے جارہا ہے۔‘‘
’’شٹ اپ یار!اپنی گھٹیا سوچ اپنے تک ہی رکھا کر۔‘‘وہ بدمزہ ہوا۔
’’تو کیا خواتین میں اپنی بیگم کو دیکھ رہا تھا؟‘‘وہ بنااثر لیےاسے چھیڑ رہا تھا۔وہ اس کے بچپن کا دوست تھا۔ اس نے بھی عیان کے ساتھ ایم بی اے کرکے ٹیچنگ کو پروفیشن بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔وہ دونوں اب یو پی سی یونیورسٹی میں اپنے اپنے مضمون کے ایچ او ڈی تھے۔
’’ہاں !ظاہر ہے اسے ہی دیکھ رہا ہوں۔‘‘ اس کی نگاہیں ابھی بھی دور سے ہی صحیح اسی پر ٹکی ہوئی تھیں۔
’’ظاہر ہے بھئی!شادی کے بعد دوستوں کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی لڑکے بیوی کو ہی یاد کرتے ہیں۔‘‘وہ جیسے برا مان رہا تھا۔
’’کیوں ؟تو جیلس ہورہا ہےکیا؟‘‘وہ مسکراتا ہوا کہنے لگا۔
’’جیلس!سیرئیسلی عیان؟میں تو فیکٹ بتارہا تھا کہ شادی کے بعد لڑکے بدل جاتے ہیں۔خیر کیسی چل رہی ہے تیری شادی شدہ زندگی؟‘‘وہ جیسے یاد آنے پر پوچھنے گا۔
’’ہمم الحمدللہ!ٹھیک چل رہی ہے۔‘‘وہ ابھی اور کچھ اور کہنے ہی والا تھا کہ اسے دور سے ہی زائنہ کے چہرے کے تاثرات بدلتےہوئے محسوس ہوئے۔
’’تم سچ کہہ رہی ہو؟مجھے تو یقین ہی نہیں ہورہا کہ تم نے ایچ ایس سی تک ہی پڑھا ہے۔‘‘ عیان کو اپنی بیوی کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے کی وجہ سمجھنے میں ایک پل لگا تھا۔شاید کسی خاتون نے اس سے کچھ پوچھا تھا۔ وہ سن نہیں سکا مگر اس نے دیکھا کہ جواب میں شہد رنگ کی آنکھیں پل بھر کو کرب سے بند ہوئی تھیں۔
وہ فرزان سے ’’ایک منٹ! ابھی آتا ہوں۔‘‘ کہتاہوا اس کی طرف بڑھنے لگا۔اسے خواتین کے حصے میں بنی کیاریوں اور درختوں کے پاس پہنچتے ہی ان کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔وہاں نیلا سوٹ پہنی عورت زائنہ کے جواب پر حیرانی سے کہہ رہی تھی۔
’’تم سچ کہہ رہی ہو؟مجھے تو یقین ہی نہیں ہورہا کہ تم نے ایچ ایس سی تک ہی پڑھا ہے۔‘‘زائنہ ابھی ہمت جمع کرکر کچھ کہتی کہ دوسری خاتون بولنے لگی:
’’ویسے تم لکی ہو زائنہ ! تمھیں دیکھ کر کہیں سےنہیں لگتا کہ تم نے اتنی ایوریج تعلیم حاصل کی ہے،ورنہ لڑکیوں میں تو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی ان کے انداز میں جہالت محسوس ہوتی ہے۔‘‘ اس خاتون کا لہجہ تمسخر اڑانے والا تھا۔زائنہ کو اپنا گفتگو کا مرکزز بننا برا لگ رہا تھا،لیکن وہ چاہ کر بھی بات کا رخ بدل نہیں پارہی تھی۔
یوں سب کی توجہ کا مرکز بننا اور خود کا مذاق اڑاتے دیکھنا تکلیف دہ ہوتا ہے،لیکن یہ جس پر بیت رہی ہوتی ہے صرف وہی سمجھ سکتا ہے۔وہاں بیٹھی خواتین کو اس سے مزہ لیتے ہوئےدیکھ کر عیان کی ماتھے کی رگیں تن گئیں۔تبھی اس نے مسز فرزان کو کہتے سنا:
’’ویسے تمھاری ابھی عمر ہی کیا ہے؟تم چاہو تو ابھی سے ہی آگے کی تعلیم حاصل کرسکتی ہو۔عیان بھائی بھی سپورٹ کریں گے تمھیں۔‘‘ فرزان کی بیوی کا مفت مشورہ سن کر عیان نے تنے ہوئے ماتھے کے ساتھ ایک نگاہ دور کھڑے مسٹر فرقان سے باتیں کرتے ہوئے اپنے عزیز دوست فرزان پر ڈالی۔اس نے دیکھا کہ دوسری عورتوں بھی نگاہیں پھیر کر ادھر ہی دیکھ رہی ہیں۔زائنہ کے پاس کے ٹیبل پر بیٹھی مسز یعقوب کو بھی اس گفتگو میں مزہ آرہا تھا۔وہ وہاں سے اٹھ کر مسز فرزان کے کرسی کے پاس رکھی خالی کرسی پر آکربیٹھ گئی اور کچھ دیر بعد مسکراہٹ دبائے بظاہر افسوس سے کہنے لگی:
’’ویسے تمھیںبرا فیل ہوتا ہوگا ناں؟تمھارے ساتھ کے دوسرے لڑکیاں ڈاکٹر ،انجینیئر اور پتہ نہیں کیا کیا بن رہی ہوںگی اور تم صرف ایچ ایس سی پاس ہو۔‘‘ ساری خواتین دبے ہونٹوں سے مسکرانے لگیں۔زائنہ کا شرمندگی کے مارے برا حال ہورہا تھا۔ اس کا دل چاہا کہ وہ وہاں سے بھاگ جائےیا انھیں کچھ کہے، جس سے وہ سب خاموش ہوجائیں،مگر اس کی آواز اسے حلق میں اٹکتی محسوس ہورہی تھی۔اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اسے ہوا کیا ہے؟ وہ ایسی تو نہیں تھی۔وہ زائنہ عارف تھی۔اسے اپنے لیے لڑناتو آتا تھا،لیکن اب اس سے کچھ بولا نہیں جارہا تھا۔
جب یتیمی کا داغ انسان کے وجود کو اپنی گرفت میں لیتا ہے تو وہ سنبھل نہیں پاتا۔اس بھری دنیا میں جن دو عزیز ہستیوں کے سائےتلے ہم خود کو مضبوط تصور کرنے لگتے ہیں۔جب یہ سائے ہم سے چھوٹتے ہیں تو ہم ٹھنڈی شام سے بھری دوپہر کے ریگستان کے تپتے صحرا میں پہنچ جاتے ہیں،اور تب بدلاؤ کا وہ لمحہ ہمارا منتظر کھڑا ہوتا ہے، جس کا ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا ۔ ہم وقت کے ساتھ اتنے بدل جاتے ہیں کہ اپنے آپ کو ہی پہچان نہیں پاتے اور تب ہمیں احساس ہوتا ہےکہ زندگی کا سب سے تکلیف دہ لمحہ خود کو اجنبی بنتے دیکھنا ہوتا ہے۔
درختوں کے پار کھڑے عیان کے صبرکا پیمانہ لب ریز ہوا۔اس سے مزید اپنی بیوی کی بےعزتی دیکھی نہیں جارہی تھی۔اس نے جینس کی جیب سے موبائل نکال کر وہیں کھڑے کھڑے اس کی طرف دیکھتے ہوئےاس کو کال ملائی۔

٭ ٭ ٭

عالیانہ ہاسپیٹل سے سیدھا اپنے کمرے میں آئی تھی۔ ممی کی باتوں سے وہ بری طرح سہم گئی تھی۔ اس نے برقع پر پہنا ہوا دوپٹہ کھنیچ کر اتارا،اور برقع نکالے بغیر پلنگ پر ڈھےگئی۔وہ پریشان تھی،بہت پریشان۔اس کی لمبی لمبی سانسوں کی آواز کمرے میں چلتے پنکھے کی گھومنے کی آواز میں بھی صاف سنائی دےرہی تھی۔اس نے بیڈ پر پڑا موبائل اٹھایا۔وہ کال لسٹ میں ایف کے کالم میں انگلی پھیرتی اس کے نام پر رکی۔
’’وہ لڑکا اتنے دھڑلے سے تمھیںاپنی بیوی بنانے کی باتیں کررہا تھا اور تم کہہ رہی ہو وہ صرف دوست ہے۔‘‘ ماں کی کہی باتیں اس کے کانوں میں گونج رہی تھیں۔ اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے اس کا نمبر پریس کیا۔ بیل بجنے لگی تھی۔ وہ جھٹکے سے اٹھی۔نیلی آنکھیں اپنے وجود میں سمندر سمائےبہنے کی منتظر کھڑی تھیں۔ دوسری طرف سے بیل مسلسل جارہی تھی۔آخری بیل پر فون اٹھایاگیا۔
’’ہیلو!کون بول رہا ہے؟‘‘ نیند میں ڈوبی اس کی مخمور سی آواز سنائی دی۔ اس کی آواز پر اس کی تیز سانسوں نے آنسوؤں کا رخ لے لیا تھا۔نیلی آنکھوں نے اشارہ پاتے ہی بہنا شروع کیا۔ فاخرگہری نیند سے جاگاتھا۔ اس نے آنکھوں کو ملتے ہوئے سامنےلٹکی گھڑی پر نگاہ ڈالی۔وہاں صبح کے سات بجے تھے۔تبھی اسپیکر سے اس کی آنسوؤں میں ڈوبی آواز سن کر وہ چونکا۔
’’فاخر! میں بول رہی ہوں۔‘‘ اس کی آواز سن کر وہ رضائی پرے کرتا بستر سے اٹھ بیٹھا۔وہ اتنی صبح کیوں کال کررہی تھی،اسے فکر ہونے لگی۔
’’عالیانہ تم؟ سب ٹھیک ہے ناں؟اتنی صبح فون کیسے کیا؟‘‘ نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور چلی گئی تھی۔دوسری طرف سےوہ کہنے لگی:
’’فاخر! ممی کی طبیعت بہت خراب ہوگئی تھی کل سے۔میں اور بابا انھیں ہاسپیٹل لے کر گئے تھے ابھی۔ ڈاکٹر نے انھیں اسٹریس لینے سے منع کیا ہے۔‘‘ اس کے جو منہ میں آرہا تھا وہ ہچکیوں کے درمیان کہہ رہی تھی ۔اس کے آنسو اسے بدحواس کررہے تھے۔وہ بےچینی سے کہنے لگا:
’’عالیانہ پلیز! تم پہلے ریلیکس ہو جاؤاور مجھے پوری بات بتاؤ، انھوں نے تم سے کیا کہا؟‘‘ عالیانہ کو جیسے اسی سوال کی امید تھی۔
’’انھوں نے مجھے بہت برا بھلا کہا فاخر!تم سے ملنے پر موبائل پر بات کرنے سے منع کردیا۔ وہ بہت ناراض ہیں مجھ سے۔‘‘ اسے دوبارہ رونا آنے لگا۔وہ ممی کی باتوں سے جتنی ڈسٹرب تھی،اس سے زیادہ اسے اس بات کا دکھ تھا کہ کہیں اس کی ممی اسے اور فاخر کو ہمیشہ کے لیے الگ نہ کردیں۔وہ اسے کھونا نہیں چاہتی تھی۔کسی قیمت پر بھی نہیں۔
’’عالیانہ !وہ غصے میں ہیں، ابھی اس لیے ایسا کہہ رہی ہوں گی۔تم پلیز فکر مت کرو۔ تھوڑا وقت دو انھیں، وہ ٹھیک ہوجائیں گی۔‘‘ وہ پریشانی سے کمرے میں ٹہل رہاتھا۔اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ اسے کس طرح حوصلہ دے۔
’’نہیں فاخر! وہ بہت سیریس تھیں۔وہ مجھے تم سے ملنے نہیں دیںگی۔ وہ ہمیں الگ کردیں گی فاخر!‘‘ وہ ڈری ہوئی تھی۔ آج وہ واقعی بہت ڈر گئی تھی۔ اگر ممی کو معلوم ہونے پریہ ہوا ہے تو پھر بابا اور بھائیوں کو معلوم ہوا تو کیا ہوگا؟یہ خیال ہی اس کی جان لے رہا تھا۔
’’عالیانہ! ہمیں کوئی الگ نہیں کرسکتا۔ وہ ماں ہے تمھاری یار۔ وہ اچانک معلوم ہونے پر پریشان ہوسکتی ہیں،لیکن تمھیں تکلیف ہو ایسا کوئی کام نہیں کرسکتیں۔‘‘ وہ سمجھارہا تھا۔اس کی باتوں سے وہ بھی اندر ہی اندر بہت پریشان ہوگیا تھا،لیکن عالیانہ پر اپنی پریشانی ظاہر نہیں کرسکتا تھا۔
’’نہیں فاخر! تم انھیں نہیں جانتے۔تم پلیز اپنا رشتہ لے آؤ۔پلیز فاخر! مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔‘‘ وہ منت بھرے لہجے میں کہتی رونے لگی تھی۔تبھی فاخر کو نیچے سے اپنی ماں کی ناراض آوازیں آئیں۔وہ اسکی بہنوں کو شاید کسی بات پر ڈانٹ رہی تھیں۔کیا وہ اس وقت عالیانہ کو رشتہ بھیجنے کی پوزیشن میں تھا؟ اس کے دماغ نے دل سے سوال کیا۔دل جو پس و پیش میں مبتلا تھا۔عالیانہ کے اس طرح بہتے آنسوؤں میں بھیگ کر ہار ماننے لگا۔
’’عالیانہ! میں بہت جلد اپنے والدین کو تمھارے گھر لاؤں گا یار۔تم رونا تو بند کرو۔‘‘ وہ پریشانی سے کہہ رہا تھا۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ بھاگ کر اس کے گھر پہنچ جائےلیکن یہ اس کے بس میں نہیں تھا۔وہ انکارکرتی کہنے لگی:

’’نہیں فاخر!تم پرامس کرو مجھ سے۔تم کل نہیں،بلکہ آج ہی تم رشتہ لاؤگے۔فاخر! پلیز تم پرامس کرو مجھ سے۔‘‘وہ بچوں کی طرح روتے ہوئے وعدہ لینا چاہتی تھی۔
’’عالیانہ! میں کہہ رہا ہوں ناں، میں جتنا جلد ہوسکے اتنا جلدی لاؤں گا۔ امی بابا مجھے منع نہیں کریں گے۔تم پلیز ٹرسٹ کرو مجھ پر ۔‘‘ وہ اسے خود پر بھروسہ دلا رہا تھایا خود کو اپنے والدین کی محبت پر وہ اندازہ نہیں کرسکا۔کمرے کے باہر نیچے سے اس کی ماں کی آوازیں لگاتارآرہی تھیں۔کیا وہ مان جائیں گی؟ کیاوہ منا پائےگا؟ کچھ دیر دونوں کے درمیان خاموشی چھائی رہی۔عالیانہ لمبی سانس کےدرمیان کہنے لگی:
’’فاخر! ممی کو تم نہیں جانتے،وہ کچھ ضرور کریںگی۔ وہ پہلے سے ہی میری جلد شادی کرنا چاہتی تھیں۔ اب وہ نہیں رکیںگی۔وہ ضرور رشتہ دیکھنے لگ جائیں گی۔‘‘ وہ جیسے مستقبل محسوس کررہی تھی۔فاخر کا د ل اس کی کسی اور سےشادی کی بات پر ڈوب کر ابھرا ۔ اس کی باتوں سے اس کا دل بھی بےانتہا گھبرارہا تھا،لیکن اس نے پنی ہمت جمع کی:
’’کچھ نہیں ہوگا۔ میں کہہ رہا ہوں ناں۔ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔دیکھو!میں آج ہی ممی سے بات کرتا ہوں اور ہم کل ہی آئیں گے تمھارے گھر۔تم بس پریشان مت ہو۔‘‘ اس کے بہتے آنسو اسے تکلیف دے رہے تھے،اور اس کاڈر اب وہ بھی محسوس کرنے لگا تھا۔
’’تم سچ کہہ رہے ہو؟ تم آج ہی بات کروگے آنٹی انکل سے؟‘‘ وہ بے یقینی سے پوچھنے لگی۔ پل بھر کو اس کا رونا بند ہوگیا تھا۔
’’ہاں! میں وعدہ کرتا ہو ں یار !آج ہی بات کروں گا۔ تمھاری شادی صرف مجھ سے ہوگی۔ سنا تم نے عالیانہ؟ تم بے کار کی فکروں کو اپنے ذہن میں نہ آنے دو۔ ‘‘وہ بے چین ہوگیا تھا۔ اس کی عالیانہ کی شادی کسی اور سے کیسے ہوسکتی تھی بھلا؟کوئی ایسا سوچ بھی کیسے سکتا تھا؟‘‘اسے شدید غصہ آرہا تھا۔
’’فاخر! میں تمھارے آنے کا انتظار کروں گی۔ مجھے بس تم سے امید ہے فاخر! بس تم سے۔‘‘اس کی بھیگی سی آواز نےفاخر کے دل کو مٹھی میں لےلیا تھا۔
’’میں تمھاری امید ٹوٹنے نہیں دوںگا عالیانہ! کبھی بھی نہیں ٹوٹنے دوں گا۔‘‘ اس کا لہجہ پختہ تھا۔ فاخر کے ان الفاظ نے عالیانہ کےزخمی دل پر مرہم کاکام کیا۔کچھ دیر کی خاموشی کے بعد وہ کہنےلگی:
’’فاخر! ایک اور بات کہنی ہے مجھے۔‘‘
’’ہاں،کہو۔‘‘وہ جیسے کچھ سوچ رہا تھا۔
’’اب میرا گھر سے نکلنا ممکن نہیں ہے۔ممی اب مجھے اکیلے کہیں نہیں جانے دیںگی،کالج بھی نہیں۔‘‘فاخر کے ہاتھ سے موبائل فون چھوٹتے چھوٹتے بچا۔
’’عالیانہ تم کیسی باتیں کررہی ہو یار؟ابھی سمسٹر باقی رہتا ہے ہمارا۔تم کالج نہیں آئیں تو فیل ہوجاؤگی۔تم بات کرو آنٹی سے، وہ ایسا نہیں کرسکتیں۔‘‘اسے سخت جھٹکالگا۔کیا وہ اسے کبھی دیکھ نہیں پائےگا؟کیا یہ ممکن تھا کہ وہ کالج آئے اور اس سے ملے بغیر چلاجائے؟ اس کی فکروں سے ان جان وہ کہہ رہی تھی۔
’’تم نہیں جانتے ناںممی کو۔وہ جو سوچ لیتی ہیں وہ کرکے ہی رہتی ہیں۔میری پڑھائی، فیوچر ہر چیز داؤ پر ہے۔پلیز! تمہارے علاوہ مجھے کوئی بھی اس مصیبت سے نہیں نکال سکتا۔‘‘وہ منت کررہی تھی۔وہ زندگی میں پہلی بار اس سے منت کررہی تھی۔فاخر نے کرب سے اپنی آنکھیں بند کیں،اور پل بھر بعد
جب اس نے آنکھیں کھولیں تو اس میں ایک عجیب قسم کا جنون تھا۔
’’تم اس مصیبت میں بالکل نہیں رہوگی عالیانہ!سنا تم نے؟میں تمھیں اس عذاب میں کبھی نہیں رہنے دوں گا۔بس آج کا دن دو تم مجھے۔کل سب ٹھیک ہوجائےگا۔‘‘اس کا لہجہ کسی پہاڑ کی طرح مضبوط تھا۔یہ الفاظ اس کےبےترتیب سانسوں کو ترتیب دےرہے تھے۔وہ جیسے ایک دم ہی سکون میںآگئی۔اس نے کچھ دیر مزید باتیں کیں پھر فون رکھ دیا۔
موبائل رکھ کر فاخر کتنی دیر پلنگ پر پریشان بیٹھا سر دونوں ہاتھوں میں دیے سوچتا رہا۔اسے سمجھ نہیں آرہا تھا، وہ اس مسئلے سے کیسے نمٹے؟عالیانہ کو اس نے کہہ دیا تھا کہ وہ کل ہی رشتہ لینے اپنے والدین کے ساتھ آئےگا،لیکن وہ جانتا تھا کہ یہ اتنا آسان نہیں تھا، جتنا وہ ظاہر کررہا تھا۔ابھی وہ صرف بیس سال کا تھا۔اس کے سامنے کام یاب ہونے کےلیے ایک لمبا سفر منتظر کھڑا تھا۔ بہنوں کی شادی تو ایک وجہ تھی، لیکن اپنا شان دار کیریئر بنانا اس کےلیے محنت، وقت اور پیسہ خرچ کرنا ایک دوسری اہم وجہ تھی۔وہ اس کےدرمیان شادی کیسے کرسکتا تھا؟ لیکن اگر وہ اس وقت پیچھے ہٹ جاتا تو عالیانہ کو ہمیشہ کےلیے کھودیتا۔وہ کسی کی اور کی ہوجاتی۔یہ خیال اسے بد حواس کررہا تھا۔عالیانہ کے بغیر تو اس نے مستقبل کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔اس نے کبھی ایسا کوئی خواب دیکھا ہی نہیں تھا جس میں وہ نہ ہو۔

(جاری…)

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے