درس قرآن
زمرہ : النور

یا بنی آدم قد أنزلنا علیکم لباسا یواری سوءاتکم ریشا وّلباس التقویٰ ذلک خیر

(سورۃ البقرہ: 26)

(اے آدم کے بیٹو! ہم نے تمھارے لیے لباس اتارا جو تمھاری برائی کی جگہوں کو چھپاتا ہے اور تمہارے لیے سامان زینت اتارا اور تقویٰ کا لباس وہی تمہارے لیے بہتر ہے ۔)
اس فرمودۂ الٰہی سے کئی باتیں معلوم ہوتی ہیں :
پہلی بات تو یہ کہ لباس اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔یہ اتنی بڑی نعمت ہےکہ ہم اس کا شکر ادا کرنے سے عاجز ہیں۔یہ اتنی بڑی نعمت ہے کہ اگر یہ نعمت حاصل نہ ہوتی تو ہم میں اور حیوانوں میں کوئی فرق نہ ہوتا، بلکہ لباس کی نعمت نہ ہونے کی صورت میں ہم حیوانوں سے بھی بدتر نظر آتے۔
دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ لباس کا اصل مقصد ان جگہوں کو چھپانا ہے جہاں سے برائی سر اٹھاسکتی ہے اور جو لوگوں کے لیے فتنے کا باعث بن سکتی ہے۔گویا لباس کا مقصد محض شرم گاہ کو چھپانا نہیں ہے بلکہ اس کا کام ان جگہوں کو چھپانا ہے جہاں سے شیطان حملہ آور ہوسکتاہے اور جہاں سے دلوں میں برے خیالات پیدا ہوسکتے ہیں ۔
ہمیں ایسا لباس پہننا چاہیے جو ہمارے پورے جسم کے لیےساتر ہو ۔ ایسا نہ ہو کہ سینہ کھلا ہوا ہو، یا پیٹ کھلا ہوا ہو یا ہاتھ کھلا ہوا ہو یا ٹانگیں کھلی ہوئی ہوں یا جسم کا کوئی بھی اندرونی حصہ کھلا ہوا ہو ۔
اسی طرح وہ لباس اتنا باریک نہ ہو جس سے جسم جھلکتا ہو ،نہ اتنا تنگ اور چست ہو کہ اس سے جسم کے تمام اعضاء الگ الگ نظر آتے ہوں۔
اگر لباس ایسا ہے جو پورے جسم کے لیے ساتر نہیں ہے یا ایسا ہے جس سے جسم جھلکتا ہے یا ایسا لباس ہے جو جسم کے تمام جوڑ بند یا تمام نشیب و فراز کو ظاہر کرتا ہے، تو ایسا لباس اسلام میں نا پسندیدہ اورشریعت کی منشاء کے خلاف ہے ۔
قرآن پاک میں لباس کو زینت یا سامان زینت بھی کہا گیا ہے ،مگر اس زینت سے مراد بے قید زینت نہیں ہے۔ اس سے مراد وہ زینت نہیں جو لباس کے مقصد ہی کو ضائع کردے،اس سے مراد وہ زینت نہیں جو عورت کی عزت وعصمت کی حفاظت کرنے کے بجائے اسے بالکل خاک میں ملا دے۔اس سے مراد وہ زینت نہیں جو عورت کے لیے خطرہ اور مرد کے لیے فتنہ بن جائے۔
اس موقع پر ’’ریشا‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے ۔

قد أنزلنا علیکم لباسا یواری سواءتکم و ریشا

ؔ’’ریش‘‘کا لفظ کسی پرند ےکے پروں کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔یہ پر اس پرندے کا لباس بھی ہوتے ہیں اور اس کے لیے زینت بھی ۔اس سے معلوم ہوا کہ لباس کے اندر وہی زینت مطلوب ہے جو لباس کے مقصد کو نقصان نہ پہنچائے ۔

لہٰذا زینت کی وہ ساری شکلیں جو عورت کو عریانی اور بےحیائی کی طرف لے جاتی ہیں ،وہ اسلام میں حرام ہیں۔
کسی مسلم خاتون کے لیےہر گز جائز نہیں ہے کہ وہ اس طرح کی شیطانی زینت کا خیال بھی دل میں لائے۔اس طرح کے رجحانات اور اس طرح کی خواہشات عورتوں میں اسی وقت پیدا ہوتی ہیں جب ان کےدل تقویٰ سے خالی ہوتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے دو طرح کے لباس بنائے ہیں:
ایک روحانی لباس
اور دوسرا جسمانی لباس
روحانی لباس تقویٰ ہے اور جسمانی لباس کپڑے ہیں۔
روحانی لباس کے ساتھ جب جسمانی لباس ہوتا ہے تو یہ لباس انسان کے وقار میں اضافہ کرتا ہے اور اس کی شخصیت میں جاذبیت پیدا کرتا ہے ،اور اسے ہر برے کام اور ہر برے مقام سے دور رکھتا ہے ،لیکن اگر انسان اس روحانی لباس سے عاری ہو تو اس کے جسم پر لباس ہوتے ہوئے بھی وہ عریاں اور برہنہ نظر آتا ہے، اس لیے ہمارے رب نے فرمایا:

ولباس التقوی ذلك خیر

انسانی زندگی میں لباس کی بڑی اہمیت ہے ۔ یہ لباس انسان کو بنانے یا بگاڑنے میں بڑا اہم رول ادا کرتا ہے ۔اسی طرح لباس انسان کی طبیعت ، اس کی تہذیب ، اس کے کلچر ، اس کے عقائد ، اس کے رجحانات اوراس کے جذبات کا آئینہ دار ہوتاہے ۔
کسی قوم کا لباس ہی دیکھ کر بہت حد تک اس کی تہذیب اور اس کے کلچر کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ایک متقی اور خدا ترس قوم کا لباس کبھی وہ نہیں ہوسکتاہے جو ایک کافر اور خدا بیزار قوم کا لباس ہوتا ہے ۔ایک شریف قوم کا لباس کبھی ویسا نہیں ہوسکتاہے جیسا کسی بے حیا اور ذلیل قوم کا لباس ہوتا ہے ۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی پیاری کتاب میں لباس کے سلسلے میں واضح رہ نمائی کی تاکہ مسلم قوم اپنے لباس و پوشاک میں بھی دوسری قوموں سے ممتاز رہے۔
ہمیں کتنا تعجب ہوتا ہے ،اور ساتھ ہی بے انتہا افسوس بھی، جب ہم بہت سی مسلم بہنوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ لباس میں جدید فیشن کو پسند کرتی ہیں اور ایسی عورتوں کی نقالی کرتی ہیں جنھیں شرم وحیاء سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا ہے ۔یہ چیز مسلم عورت کے لیے باعث شرم ہے کہ وہ اسلامی کلچر یا قرآنی کلچر کے مقابلے میں گم راہ قوموں کے کلچر کو ترجیح دے ۔
آج مسلم قوم کے زوال کے جو اہم اسباب ہیں ان میں کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے یہ اس دور کا بہت بڑا فتنہ ہے۔ اس فتنے سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا محاسبہ کرنے اور اپنا نفع ونقصان پہچاننے اور اپنی عاقبت کو سنوارنے کی توفیق دے،آمین!

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

Comments From Facebook

1 Comment

  1. صالحہ پروین فیاض

    الحمدللہ بہت ھی عمدہ تحریر اور سبق آموز ھے
    اللہ رب العالمین مزید قلم میں طاقت عطافرمائے

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے