ٹی ٹائم
زمرہ : ٹی ٹائم

جن کےرتبے ہیں سوا ان کی سوا مشکل ہے

اماں جان اور دادی اماں کی یہ پوری کوشش ہوتی تھی کہ بچے خوش و خرم رہیں اور ان کی نفسیات پر کوئی برا اثر نہ پڑے۔ اماجان کہتی تھیں:’’انسان کا بچپن خوشیوںسے بھرپور ہونا چاہیےاور اسے کبھی عدم تحفظ کااحساس نہ ہونے پائے،کیوں کہ کسی قسم کی محرومی اگر بچپن میںانسان کو ڈس لےتو یہ چیز اس کی شخصیت کو گہنا دیتی ہے—یہ تلخ یادیںپھر ساری زندگی آسیب کی طرح اس کا پیچھا کرتی ہیں۔ہر بچے کو اپنے گھر میںایک اہم فرد کی طرح احساس ہونا چاہیے،تاکہ اس میں خود اعتمادی پیدا ہو سکے،—انھیں یہ فکر کھائے جاتی تھی کہ:’’ میرے بچے، بچپن ہی میں بوڑھے ہو گئے ہیں اور ان کا بچپنا چھن گیا ہے۔ ‘‘اس کے ازالے کے لیے انھوں نے بڑے جتن کیے اور مختلف طریقوں سے ہمیں مصروف رکھا۔
ایک روز ملتان جیل سے ابا جان کا پیغام آیا: ’’ہر بچہ مجھے الگ الگ خط لکھے۔‘‘ چناں چہ ہم سب نے انھیں الگ الگ خط لکھے ۔ پھر ان خطوں کے جواب میں ابا جان نے ہم سب کو اپنے ہاتھ سے علیٰحدہ علیٰحدہ خط لکھے اور ہم میں سے ہر ایک کو ایک ایک چھوٹی سی تھیلی بھیجی۔ ابا جان کی نیلے رنگ کی ایک قمیص جو پرانی ہو چکی تھی، اسے کاٹ کر انھوں نے خود سوئی دھاگے سے تھیلیاں سی کر تیار کی تھیں۔ ان تھیلیوں میں چھلے ہوئے چلغوزے، بادام، کشمش، پستے اور اخروٹ بھرے ہوئے تھے۔ ہر تھیلی کے اوپر، آٹے کی لئی سے چسپاں کی ہوئی چٹ پر ہم میں سے ہر ایک کا نام لکھا ہوا تھا۔ کسی پر نور نظر، کسی پر جان پدر اور کسی پر جگر گوشہ لکھنے کے بعد بچے کا نام لکھا ہوا تھا۔
ان خطوں اور تھیلیوں میں کیا تھا کہ انھیں دیکھے بغیر دادی اماں تو بے ساختہ بلک بلک کر رو پڑیں، اماں جان کا چہرہ زرد پڑ گیا اور وہ سارا دن خاموش رہیں۔ جیل سے آنے والی یہ چھوٹی چھوٹی تھیلیاں زبان حال سے اسی طرح بول رہی تھیں، جیسے کوئی جیتا جاگتا انسان آپ بیتی سنا رہا ہو۔ وہ جیل کی اداسی، تنہائی، بچوں سے دوری، گھر کی یاد اور معلوم نہیں کیا کیا بیان کر رہی تھیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ابا جان، عزم و ارادے کا کوہ گراں تھے لیکن وہ تھیلیاں جن پر جان پدر، گوشۂ جگر اور نور نظر کی چٹیں لگی ہوئی تھیں، یہ بتا رہی تھیں کہ ارادے اور عزم کے اس پہاڑ کے اندر ایک دھڑکنے والا دل بھی ہے اور یہ اس دل کی مجسم دھڑکنیں ہیں۔
دوسری طرف یہ نور نظر، جان پدر اور جگر گوشے ، اس وقت اتنے چھوٹے اور بے شعور تھے کہ جلدی جلدی اپنی اپنی تھیلی کھول کر خشک میوہ جات کے پھنکے مار گئے۔ انھوں نے اپنے بچپنے میں یہ سوچا بھی نہ کہ کسی محبت و الفت سے وہ چلغوزے، ابا جان نے اپنے ہاتھ سے چھیلے ہوں گے اور پھر کس محبت سے وہ تھیلیاں بنائی ہوں گی اور پھر کسی پیار سے ہر بچے کا فرداً فرداً نام لکھا ہو گا۔ ہم بچوں نے تو اپنا کام کر کے قصہ تمام کیا لیکن دادی اماں اور اماں جان نے وہ خالی تھیلیاں سنبھال کر رکھ لیں۔ اب خیال آتا ہے کہ کاش وہ تھیلی آج بھی میرے پاس ہوتی، جس پر ابا جان نے جان پدر کے بعد میرا نام لکھا تھا۔ وہ تو ایک انمول اثاثہ اور قیمتی یادگار تھی!

-تاب:شجر ہائے سایہ دار،صفحہ: 48,49 ،از:سیده حمیرا مودودی

ہم سے پوچھیے اس خارزارِ الفت کا نام

مولانا حسرت موہانی سے کسی نے پوچھا : ’’حضرت!وہ آپ کا رسالہ نکالنے کا تجربہ کیسا رہا؟‘‘
فرمایا : ’’بھئی!انتہائی مشکل کام ہے۔ اس بات سے اندازہ لگائیے کہ پنجاب میں ایک شخص (مرزا قادیانی) نے نبوت کا دعویٰ کیا اور ایک رسالہ بھی نکالا۔ نبوت اچھی خاصی چل نکلی، لیکن رسالہ نہ چل سکا۔‘‘

!انشا جی اٹھو، اب کوچ کرو

1970 ءکے آغاز میں لکھی ہوئی یہ غزل بہت مشہور ہوئی ، امانت علی خاں نے جب یہ غزل گائی تو اس کے کچھ ہی مہینے بعد انتقال کر گئے ۔ امانت علی خاں کے بیٹے اسد امانت علی نے بھی جب یہ غزل گائی تو یہ ان کی آخری غزل ثابت ہوئی ۔ ابن انشا نے خود اپنی موت سے ایک دن پہلے ایک دوست کو خط میں لکھا کہ منحوس غزل اور کتنوں کی جان لے گی۔

!اے وعدہ فراموش

ایک اعرابی نے کہا کہ فلاں شخص کے پاس جب بھی جاتا ہوں یا تو وہ سینے پر ہاتھ مارتا ہے، یا ماتھے پر۔
پوچھا: ’’وہ کیوں؟‘‘
کہنے لگاکہ جب میں کسی کام کے لیے اس کےپاس جاتا ہوں تو سینے پر ہاتھ مار کر کہتا ہے: ’’چلو! کام ہو گیا۔‘‘
پھر جب کچھ عرصے بعد جاتا ہوں تو ماتھے پر ہاتھ مار کہتا ہے:
’’اوہ! میں تو بھول گیا۔‘‘

کہ آشیاں کسی شاخ چمن پہ بار نہ ہو

مفتی محمدشفیع ،رمضان میں شدید بیمار رہے۔اپنے بیٹے مفتی تقی عثمانی کو کہنے لگے کہ میرا دل کرتا ہے کہ رمضان میں موت کےلیےدعا کروں، لیکن اس لیے نہیں کرتا کہ لوگوں کو جنازے کی وجہ سے تکلیف اور مشقت ہوگی۔

محبوب کیا ہوتا ہے؟

اشفاق احمد کہتے ہیں کہ میرے بیٹے نے BSc كے ساتھ اردو رکھ لی۔ بانو قدسیہ اسے غالب پڑھا رہی تھیں۔
بیٹے نے پوچھا:’’ امی ! محبوب کیا ہوتا ہے؟‘‘
بانو کے جواب سے اسے تسلی نہیں ہوئی تو میں نے کہا کہ جس سے محبت کی جائے۔
بیٹا کہنے لگا: ’’یہ تو ترجمہ ہے۔ سائنس تعریف مانتی ہے۔گھر میں دو دو ادیب ہیں، محبوب کا ایک کو بھی پتہ نہیں۔‘‘
پھر ہم تینوں اپنے بابا جی کے پاس گئے۔ان سے پوچھا تو انھوں نے جواب دیا:
’’محبوب وہ ہوتا ہے جس کا غلط بھی ٹھیک نظر آئے ۔‘‘

شرافت

جیل میں ساتھیوں نے یوسف علیہ السلام سے کہا تھا :
’’ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ایک نیک آدمی ہیں ۔‘‘
اور جب آپ نے مصر کا اقتدار سنبھال لیا ۔تو بھی ان کے بارے میں یہی کہا گیا :
’’ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ایک نیک آدمی ہیں۔‘‘شریف اور باوقار انسان ہمیشہ شریف اور باوقار ہوتا ہے ۔چاہے وہ کہیں پر بھی ہو۔

آخری جلد ساز

ایک ایسی دنیا میں جہاں ای کتابوں (E-Books) کا راج تھا، ایک چھوٹی سی دکان ایک مرتے ہوئے فن کے ثبوت کے طور پر سلامت کھڑی تھی۔ آخری جلد ساز پینسٹھ سالہ رحمت ایک گھسے ہوئے ناول کے صفحات کی احتیاط سے سلائی کر رہا تھا۔ اس کے ہاتھ فنکارانہ انداز سے یوں حرکت کر رہے تھے جیسے وہ دھاگے اور کاغذ کا رقص پیش کر رہا ہو۔
جب اس نے آخری سلائی مکمل کی، ایک نوجوان لڑکی ہاتھ میں موبائل لیے شاید غلطی سے اندر داخل ہوئی۔ اردگرد دیکھ کر وہ باہر جانے کےلیے مڑی مگر پھر واپس پلٹی اور غور سے بوڑھے کے ہاتھوں میں موجود شے کو دیکھا۔ حیرت سے اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔
’’یہ کیا چیز ہے؟‘‘اس نے کتاب کے سرورق کو چھوتے ہوئے پوچھا۔ رحمت مسکراتے ہوئے بولا:
’’تاریخ کا ایک ٹکڑا۔ ایک ایسی کہانی جو شاید ہم بوڑھوں کے ساتھ ہی مر جائے گی۔‘‘

-اقصٰی گیلانی

درست استعمال

مولانا محمد بشیر کوٹلوی بڑے ظریف طبع ، اور حاضر جواب تھے ،آپ اپنا ایک لطیفہ بیان کرتے ہیں کہ متحدہ ہندوستان کے زمانے میں ، مَیں اکثر دہلی جایا کرتا تھا ۔
ایک مرتبہ فراش خانہ کے جلسۂ میلاد شریف میں گیا تو ایک دہلوی مولوی صاحب سےتعارف ہوا ۔دہلی والوں نے پوسٹر میں میرے نام کے ساتھ ’’شیرِ پنجاب ‘‘ لکھا تھا اور ان مولوی صاحب کے نام ساتھ ’’ فخرِ دہلی ‘‘،ایک مجلس میں سارے احباب بیٹھے تھے ، یہ پوسٹر سامنے تھا ۔
دہلوی مولوی صاحب نے مزاحاًفرمایا:
’’مولانا! اگر شیر پنجاب سے ’’ ی ‘‘ اڑجائے تو باقی کیا رہ جائے گا ؟‘‘
مطلب اُن کا یہ تھا کہ شیر پنجاب سے ’’ی‘‘ نکال دی جائے تو باقی ’’شرِ پنجاب‘‘ رہ جاتاہے ۔
میں نے عرض کیا:
’’اور مولانا! اگر فخرِ دہلی کے فخر سے ’’ ف ‘‘ اُڑجائے تو باقی کیارہ جائےگا ؟‘‘
( باقی ’’خَر‘‘ رہ جاتاہے ، خر فارسی میں گدھےکو کہتے ہیں ۔)اس لطیفے سے حاضرین بہت محظوظ ہوئے ۔
ایک صاحب جو شاعر بھی تھے اور شاعر بھی دہلی کے ؛ بڑی متانت سے بولے:
’’قبلہ ! ان حروف ’’ ی ‘‘ اور ’’ ف ‘‘ کو اڑائیےمت ، اپنے استعمال میں لائیے!شیر کی ’’ ی ‘‘اِن مولانا کو دے دیجیے ، تاکہ یہ خر کے بیچ لگا کر ’’ خیر ‘‘پا سکیں ،اور فخر کی ’’ ف ‘‘ آپ لے لیجیے ،تاکہ شر کے آگے لگا کر ’’ شرف ‘‘ حاصل کر سکیں۔‘‘
لفظوں کا برمحل استعمال بھی ایک خوب صورت ہنر ہے ، یہ ہنر جاننے والا واقعی بڑا ہنر مند ہوتا ہے ۔

وضاحت

ہم سیاچین پر تھے تو بیگم کو Passcom کے ذریعے فون کرتے تھے۔
بیگم کہتی کبھی Love You ہی کہہ دِیا کرو۔
میں نے کہاکہ یہ بیچ والے ہمارے فون سُنتے ہیں۔ دوسرے دِن OC Signal کا فون آیا کہ سر ہم آپ کی باتیں نہیں سُنتے، جو مرضی کہا کریں۔
یہ سیاچین کی سردی میں ہنسنے کا سبب بنا اور یہ بات بیگم کو بھی بتائی۔
بیگم نے کہا: ’’خط لکھ دِیا کرو۔‘‘
میں نے اپنے خط میں لِکھا کہ ہمارے خط سنسر ہوتے ہیں اِس لیے خط میں کوئی ایسی ویسی بات نہ لکھنا۔
تیسرے دن سِگنل آفس کی طرف سے مُجھےایک چِٹھی مِلی،جس میں لکھا تھا:
’’سر!ہم کسی کاخط نہیں کھولتے،آپ ہم پر یہ غلط الزام نہ لگایا کریں۔‘‘

-میجر جنرل محمد عارف (ریٹائرڈ)

بدقسمت

کچھ طلبہ ایسے ہوتے ہیں جو صرف کتاب کے ستائیسویں صفحے کو ہی پڑھتے ہیں اور امتحان میں بھی سوالات اسی صفحے سے آتے ہیں۔
لیکن بدقسمت ہم جیسے طالب علم، اگرچہ ہم کتاب کو حفظ کر لیں اور صفحہ نوے کی دسویں سطر بھول جائیں، تو امتحان کا سوال کچھ اس طرح ہوتا ہے:
’’صفحہ نوے کی دسویں سطر تحریر کریں!‘‘

– احمد خالد توفیق
عربی سےترجمہ: اسد اللہ میر الحسنی

حکم

قدرت اللہ شہاب کی بیگم ڈاکٹر عفت لندن کے ایک ہوٹل میں بیٹھی تھیں۔ اسی ٹیبل پر ایک فوجی افسر وردی پہنے بیٹھا تھا۔ فوجی افسر نے ڈاکٹرعفت سے پوچھا : ’’لیڈی ! آپ مسلمان ہیں؟‘‘
’’الحمدللہ!‘‘ ڈاکٹر عفت نے کہا۔
فوجی بولا : ’’کیا میں آپ سے ایک بات پوچھ سکتا ہوں؟‘‘
’’پوچھیے !‘‘ ڈاکٹر عفت نے کہا۔
فوجی بولا : ’’آپ سور کا گوشت کیوں نہیں کھاتے؟‘‘
عفت نے کہا : ’’میرے اللہ کا حکم ہے کہ مت کھاؤ، اس لیے نہیں کھاتی۔‘‘
فوجی بولا : ’’اس حکم کے پیچھے کیا دلیل ہے؟‘‘
عفت نے کہا: ’’آپ فوجی ہو کر حکم کے مفہوم کو نہیں جانتے؟ حکم کی عظمت کو نہیں جانتے؟ حکم دلیل اور مصلحت سے بے نیاز ہوتا ہے۔‘‘

-کتاب:تلاش ،از:ممتاز مفتی

کرکٹ

یہ کھیل دراصل گڈریوں کا تھا۔گڈریے اپنی بھیڑوں کو ہانکنے والی لکڑیوں کے ذریعہ یہ کھیل کھیلتے تھے۔بھیڑوں کو ہانکنے والی اس لاٹھی کا نام ’’کرک‘‘
تھا،یہی لکڑی اگر چھوٹی ہوتی تو اسے کرکٹ کہا جاتاتھا۔یہ لاٹھی آگے سے مڑی ہوتی تھی،اور گڈریے وقت گزاری کےلیے اسی سے کھیلتے تھے۔1770 ءتک کرکٹ سیدھے بلے کے بجائے اسی آگے سے مڑی ہوئی لاٹھی سے کھیلی جاتی رہی۔

-کتاب:لفظوں کی انجمن میں،از:سید حامد حسین

پچیس لفظوں کی کہانی چھوٹو

’’چھوٹو!ایک چائے۔‘‘مالک نے ہانک لگائی۔
’’تمھارے بڑوں نے پڑھایا نہیں؟‘‘میں نے پوچھ لیا۔
’’اپنے گھر کا بڑا میں ہی ہوں صاحب!‘‘

-احمد بن نذر

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے