فروری ۲۰۲۳
زمرہ : ادراك

اقتدار، بالادستی، حکمرانی؛ چاہے وہ کسی ایک ملک کی ہویا ایک چھوٹے سےقریے کی یا آپ کے اپنے گھر کی۔ ایک موقع ہے، ایک مہلت عمل ہے۔آپ اس مہلت کو عظیم نعمت سمجھتے ہوئے کارِ خیر کرتے ہیں یا اس موقع کو عیش کوشی، ناانصافی، توڑ جوڑ کی پالیسی اور سفاکی میں گزار دیتے ہیں ،یہ آپ پر منحصرہے۔ مہلت تو چھین لی جائے گی یہ’’ نوشتہ ٔدیوار‘‘ ہے ،اٹل حقیقت ہے ۔
Writing on the wall یہ ایک انگریزی ضرب المثل ہے ،اردو میں اسے نوشتۂ دیوار( دیوارپر لکھاہوا) کہتے ہیں، مطلب اٹل حقیقت ۔
اس ضرب المثل کو بائبل کے ایک کہانی سے جوڑا جاتا ہے ۔قصہ بائبل میں کچھ یوں بیان کیا گیا ہے کہ ڈھائی ہزار سال پہلے کی بات ہے ۔ بابل کا آخری بادشاہ بلیشظر اپنے درباریوں کے ساتھ رقص وسرور ، محفل نشاط سجائے بیٹھا تھا۔ ظلم و بربریت ، سفاکی و قتل غارت گری جب ان کی فتح میں تبدیل ہوئی تو طاقت کا نشہ سر چڑھ کر بولنے لگا۔ یروشلم کے معبد سے لوٹے ہوئے مقدس طلائی برتنوں میں شراب پی جارہی تھی۔اچا نک غیب سے ایک ہاتھ نمودار ہوا اور اس نے دیوار پر چند لفظ لکھے۔ بادشاہ یہ دیکھ کر خوف سے تھر تھر کانپنے لگا۔ غیبی ہاتھ نے چارالفاظ لکھے اور پھر آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ وہ الفاظ یہ تھے:
Mene-Mene-takel-Peres.یہ کسی اجنبی اور نامانوس زبان کے الفاظ تھے۔ بادشاہ اور درباریوں نے انہیں سمجھنے کی تمام تر کوشش کی،مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ منادی کی گئی کہ جو بھی اس نوشتۂ دیوار کا مطلب بتائے گا، انعام و اکرام سے نوازا جائے گا، ناکام ہونے پر انہوں نے بابل کے بڑے بڑے عالموں ،نجومیوں اور روحانی پیشواؤں کو طلب کیا۔ بادشاہ نے اب انعام بڑھاتے ہوئے پیش کش کی کہ جو اس عبارت کو پڑھ کر اس کا مطلب سمجھائےگا ،اسے سونے میں تو لا جائے گا۔ عامل اور نجومی کوشش کرتے رہے مگر وہ ان الفاظ کا راز نہ جان سکے۔
بادشاہ کی راتوں کی نیند اڑ گئی ۔ وہ ہر وقت سوچتا رہتا کہ اس غیبی ہاتھ نے آخر کیا پیغام دیا ہے؟ ایک دن اس کی ملکہ نے مشورہ دیا کہ بابل میں دانیال نامی شخص رہتا ہے، جس کا جسم تو انسان کا ہے لیکن غالبا ًروح کسی دیوتا کی ہے، اسے بلایا جائے ۔
یہ حضرت دانیال تھے، اپنے عہد کے سب سے برگزیدہ بزرگ ۔بادشاہ نے حضرت دانیال کو بلایا اور کہا :’’سنا ہے کہ تم ہرمشکل گتھی بڑی آسانی سے سلجھا لیتے ہو۔ اگر تم دیوار پر لکھی اس عبارت کا مطلب مجھے سمجھانے میں کامیاب رہے تو خلعت فاخرہ کے ساتھ تمہارے گلے میں سونے کی مالا ڈالی جائے گی اور تمہیں سلطنت کا تیسرا بڑا عہدہ بھی سونپا جائے گا۔‘‘ حضرت دانیال نے کہا کہ مجھے تمہارے سونے چاندی کی ضرورت نہیں، مگر میں یہ مسئلہ حل کر دیتا ہوں۔ انہوں نے چندلمحوں کے لیے غور کیا اور پھر بادشاہ سے کہا:’’تمہارا باپ بھی اس سلطنت کا فرماں روا تھا، لیکن اس نے عیش وعشرت، ظلم و بربریت اور سفاکی و جارحیت کا راستہ اپنا کر خود کو تباہ کر لیا۔ اب تم نے بھی اس کی پیروی کی، اسی لیے تباہی اور بربادی تمہارا مقدر ہے‘‘۔
اس کے بعد حضرت دانیال نے بتایا: ’’Mene کا مطلب ہے کہ تمہاری بادشاہی کے دن پورے ہو گئے ہیں ۔Takel کا مطلب ہے کہ تمہیں کسوٹی پر پرکھا گیا، لیکن تم ناقص اور ہلکے نکلے۔Peres سے مراد ہے کہ تمہاری سلطنت عنقریب دشمنوں میں تقسیم ہوجائےگی ۔‘‘بائبل میں بیان کی گئی کہانی کے مطابق اسی رات بادشاہ قتل کر دیا گیا اور جلد ہی اس کی سلطنت دو دشمن ریاستوں کے قبضے میں چلی گئی۔
اس کہانی سے انگریزی میں ضرب المثل Writing on the wall مشہور ہوئی ۔اردو میں اسے نوشتۂ دیوار ( دیوار پر لکھا ہوا ) کا نام دیا گیا ویسے یہ ضرب المثل دنیا کی بہت سی زبانوں میں مختلف ناموں سے موجود ہے۔ بائبل کی کہانی تو ختم ہو چکی، مگر تاریخی الفاظ کی گونج ہر دور میں سنائی دیتی ہے، کیونکہ یہ اصول فطرت بھی ہے، سورۃ الاعراف میں ذکر ہے:

قَالَ ٱهْبِطُواْ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِى ٱلْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَٰعٌ إِلَىٰ حِينٍۢ

(اُتر جاوٴ، تم ایک دُوسرے کے دشمن ہو، اور تمہارے لیے ایک خاص مدّت تک ہی زمین میں جائے قرار اور سامانِ زیست ہے۔)

بہر حال انسان کو فنا ہے، تاہم اس کا عمل طے کرے گا کہ اس نے خود کو مقام عبرت پر پہنچایا یا اس کی زندگی بطور نصیحت یاد رکھی جائے گی ۔صدیوں تک ایسی کہانی پیغام بن کر قائم رہتی ہے ۔

پچھلے دو ڈھائی ہزار سال کی تاریخ کا جائزہ لے کر مؤرخین نے یہ نتیجہ نکالا کہ ہر سلطنت اور حکمران کو خواہ وہ جس قدر عظیم ہو، ایک نہ ایک دن ضرور نوشتۂ دیوار سے واسطہ پڑتا ہے ۔مؤرخین کہتے ہیں کہ ایک وقت ایسا آ تا ہے جب اس کا انجام واضح دکھائی دینے لگتا ہے، مگر بدقسمتی سے بیشتر حکمران دیوار پر لکھے تقدیر کے اٹل اور نہ بدلنے والے فیصلے کا درست ادراک نہیں کر پاتے ۔ ہر انسان کے پاس اللہ کی عطا کردہ نعمتوں پر تصرف کا اختیار ہوتا ہے ۔وہ اپنے دائرے کا حکمراں ہوتا ہے، چاہے وہ اپنے گھر، اپنی فیملی ،اپنے ادارے، اپنے حلقے، یا کمپنی پر حکمرانی کرتا ہو یا کسی ملک کا اقتدار اس کے پاس ہو؛ بہرکیف وہ راعی ہے اور اس سے اس کی رعیت کی بابت سوال کیا جائے گا ۔جب بھی وہ اپنی رعیت پر باختیار ہوتا ہے، اس کے تین مرحلےہوتے ہیں ۔

تاریخ دانوں نے ماضی کے حکمرانوں کی حکمرانی کو تین مرحلوں میں تقسیم کیا ہے،جس کااطلاق ہرفرد کے تصرف، آزادی و اختیار کے دور پر ہوگا۔پہلے مرحلے میںانسان تصرف کی اس آزادی کا غلط فائدہ اٹھاتا ہے، اور وسائل پر اپنا اختیار سمجھ کر سب کو غلام سمجھ لیتا ہے۔ مشاورت کاراستہ نہیں اپناتا ،مختلف حماقتوں اور بد ترین تدابیر کے باعث اپنی رعیت میں اپنے دشمن پیدا کرلیتا ہے ۔جیسے گھروں میں حکمرانی کااحساس ساس کی رعیت میں بہو کو دشمن بنالیتا ہے ۔تنظیم کاذمہ دار مشاورت کاراستہ ترک کردے تو اپنے درمیان ساتھیوں کو دشمن بنالیتا ہے، اپنے ہی چاہنے والوں کی جانب جھکاؤ Subjectivityتنفر پیدا کردیتی ہے ۔اسی طرح کمپنی کا مینیجر بھی قرابت دار کا ہی لحاظ کرے اور انصاف کی ڈگر چھوڑ دے تو سمجھ لیں گرفت کمزور ہوگی ۔ملک کا حکمراں بھی پورے خزانے کو اپنے ہی ہم مذہب اور ہم فکرافراد کی جانب جھونک دے تو یہ عمل رعیت میں انتشار پیدا کرے گا ۔ہر ایک کا پہلا دور عدل و انصاف کے خلاف ہوتو توازن بگاڑ دیتا ہے ۔ رعیت میں تین گروہ پیدا ہوجاتےہیں۔ایک وہ جو قریبی ہوں، جن کو ذمہ دار کی کوئی بات بری نہیں لگتی ،دوسرے وہ جو متنفر ہوتے ہیں ،تیسرے وہ جن کو کسی معاملے سے کوئی علاقہ نہیں، ہر چیزسے بے خبر ہوتےہیں ۔

ان حالات میں حاکم کی اقتدار پر گرفت کمزور ہونے لگتی ہے ۔ غیر محسوس انداز میں معاملات حکمران کی مٹھی سے ریت کی طرح پھسلتے جاتے ہیں ۔اکثر حکمرانوں اور آمروں کو اس کا احساس نہیں ہو پاتا ۔ اگر کسی کو اندازہ ہو بھی جائے تو وہ اپنی مقبولیت کی خوش فہمی میں اصلاح احوال کی زحمت نہیں کرتا۔

اس کی مثال ایسی کشتی کی طرح ہے جس کے پیندے میں سوراخ ہو گیاہو اور پانی آہستہ آہستہ اندر آنے لگا ہو۔ دوسرا مرحلہ زیادہ شدید اور تباہ کن ثابت ہوتا ہے ۔

عوام میں ایک طبقے کی نفرت رنگ لاتی ہے، مخالفت کو عروج ملتا ہے، رفتہ رفتہ بغاوت کا دائرہ وسیع تر ہوتا ہے اور بدامنی پھیل جاتی ہے،پھر قابو پانامشکل ہوجاتا ہے۔ماضی کی غلطیاں اور خرابیاں رنگ لا چکی ہوتی ہیں۔تیسرے مرحلے میں ہر چیز ہاتھ سے نکل جاتی ہے ۔

اسی لیے ظلم و ناانصافی کی راہ چاہے وہ اعلیٰ پیمانے کی حکمرانی میں ہو، یا ادنیٰ درجے کی ذمہ داری میں یا انسانی کی تصرف کی آزادی میں، حتی کہ اپنی جسمانی قوت اور صلاحیت میں بھی انسان جب توازن کھو دے اور اپنی ذات کو فوقیت دےدے تو توازن کا بگاڑ فساد کا موجب بنتا ہے ۔ انسان کو زندگی میں نعمتیں عطا کرنا اور ان نعمتوں کو برتنے کا اختیار اللہ ہی کی عطا ہے اور ایک مدت بعد واپس لینا بھی اٹل حقیقت ہے ۔یہی نوشتۂ دیواریعنی Writing on the wall ہے ۔یہی نوشتۂ دیوار انسان کو اپنی روش کے احتساب کی دعوت دیتا ہے۔مہلت عمل کو قیمتی سمجھنے کا احساس اجاگر کرتا ہے ۔یہ نوشتہ ہر فرد کے لیے تازیانۂ عبرت ہے ایک عام انسان کےلیے، جس کی تحویل میں رعیت ہے،جسے تصرف کی آزادی ہے ۔

ہم اپنی ذات کا جائزہ لیں! اولاد پر تصرف کی آزادی ہے تو ان کے درمیان انصاف قائم کریں، انہیں عدل کا پابند بنائیں ۔وسائل پر اختیار ہے تو اتنا خرچ نہ کریں کہ یوز اینڈ تھرو کلچر میں الجھ کر رہ جائیں ۔اپنے جسم پر تصرف کا اختیار ہے تو آنکھوں سے اسکرین دیکھنے کا اتنا کام نہ لیں کہ وہ بغاوت پر آمادہ ہوجائیں ۔غرض یہ کہ اس تصرف کی آزادی کا چھین لیا جانا نوشتۂ دیوار ہے، ہر چیز روبہ زوال ہے ۔

برسرِ اقتدار قوتیں آپ کو سفاکی اور ظلم سے گزرتی نظر آرہی ہیں تاہم ظلم و بربریت، سفاکی، ناانصافی کسی بھی حکمرانی کو نوشتہ دیوار یاد دہانی کے لیے کافی ہے اور مظلوموں کے لیے حوصلہ افزاء ہے احساس کہ ظلم کی عمر طویل نہیں ہے ۔

Comments From Facebook

5 Comments

  1. Rehana khanam arif ahmad

    ماشاءاللہ بہت اچھا مضمون لکھا ہے آپ نے عنوان دیکھ کر ہی مضمون پڑھنے کا شوق پیدا ہو گیا
    نئے طریقے سے بات سمجھ آئی
    اللہ تعالیٰ آپ کو صحت و تندرستی عطا فرمائےصلاحیتوں میں اضافہ کرے
    بہت بھترین

    Reply
  2. محمد الیاس

    بہت ہی عمدہ اسلوب بیان اور نصیحت آموز بلاشبہ ادراک زمرہ کے ادراک کی تعبیر ہے۔بارک اللہ فیک

    Reply
  3. نام *عبد الحق فلاحی

    بڑی خوشی کی بات ہے کہ آج ہادیہ میگزین میں شایع اس کہانی کے ذریعے “نوشتہء دیوار ” کی حقیقت تاریخی حوالے سے سمجھ آ گیء۔ جزاک اللہ۔

    بڑی قیمتی معلومات ،مصنفہ نے اس کہانی کے ذریعے قارءین‌کو فراہم کی ہے۔
    جزاھا اللہ عنہا و عن المسلمین۔
    ع: اللہ کرے ،زور قلم اور ہو زیادہ۔

    Reply
  4. Muhammad Ayyub khan

    Ma sha Allah!A very absorbing article.Please compile your articles and publish in the form of the book.May Allah bless you with health wealth wisdom and more happiness aameen ya Rabbal aalameen.

    Reply
  5. Dr Arifa Sultana

    . .After a long time read such beautiful peace of writing. May Allah bless you with more wisdom

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

فروری ۲۰۲۳