رسول اللہ ﷺ کے اخلاق انسانی کمال کی معراج

اچھے اخلاق انسانی شخصیت کا وہ جوہر ہیں جو اسے کمالِ انسانیت کی رفعتوں تک لے جاتےہیں۔ جس دل میں یہ نور بسا ہو، وہ انسان اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہوتا ہے۔ انسان کے اندر پائے جانے والے اچھے یا برے اخلاق ہی اس کی اصلیت کا آئینہ ہوتے ہیں، اور یہی پیمانہ اس کے کردار کی عظمت یا پستی کو طے کرتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا ہمیشہ ان ہی شخصیات کو اپنا امام اور رہ نمامانتی آئی ہے، جنھوں نے اپنی عملی زندگی میں اخلاق و کردار کی پختگی اور انسانی سیرت کی اصلاح کا درس دیا۔
اس کائنات میں جتنے بھی رہ نما اور مصلحین آئے، جنھوں نے انسانیت کو اخلاق کی روشنی میں زندگی بسر کرنے کی دعوت دی، ان سب میں سب سے عظیم، کامل اور بے مثل ہستی حضرت محمد ﷺ کی ذاتِ مبارکہ ہے۔ آپ ﷺ کا ہر قول و فعل، ہر انداز اور ہر عمل دنیا کے ہر فرد کے لیے ایک مکمل نمونہ اور اسوۂ حسنہ ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں:
’’بے شک رسول اللہ کی ذات تمھارے لیے بہترین نمونہ ہے۔‘‘
(سورۃ الاحزاب: 21)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ وہ کامل زندگی جو انسان کو زندگی کے ہر پہلو میں راہ نمائی عطا کرتی ہے، وہ حضرت محمد ﷺ کی سیرتِ مبارکہ ہے۔ آپ ﷺ کے اخلاق کی بلندی کو خود اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یوں بیان فرمایا:
’’اور بے شک آپ اخلاق کے عظیم مرتبے پر فائز ہیں۔‘‘(سورۃ القلم: 4)
یہ اللہ کی گواہی ہے کہ کائنات کے تمام انسانوں میں سب سے بلند اور پاکیزہ اخلاق حضرت محمد ﷺ کے ہیں۔ آپ ﷺ نے اپنی بعثت کا مقصد واضح کرتے ہوئے فرمایا:
’’مجھے اس لیے بھیجا گیا ہے کہ میں اخلاقی فضائل کی تکمیل کروں۔‘‘(صحیح بخاری)
یہ حدیث آپ ﷺ کی بعثت کے مقصد کو واضح کرتی ہے کہ آپ ﷺ کا مشن لوگوں کو اخلاقی بلندیوں کی طرف متوجہ کرنا اور ان کے کردار میں اعلیٰ صفات پیدا کرنا تھا۔ حضرت محمد ﷺ کے اخلاقِ حسنہ وہی ہیں جن کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے قرآن میں دی ہے۔ وہی قرآنی اخلاق آپ ﷺ کی ذاتِ مبارکہ میں اپنی مکمل اور کامل صورت میں مجسم نظر آتے ہیں۔
آپ ﷺ فرماتے ہیں:
’’تم میں سب سے بہترین وہ ہے جو سب سے زیادہ اخلاق حسنہ والا ہو۔‘‘(صحیح مسلم)
الغرض، رسول اکرم ﷺ کااخلاقِ عالیہ انسانی زندگی کی حقیقی معراج ہے اور اسوۂ حسنہ کے بغیر فلاح کا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ آپ ﷺ کا پیغام ایک ایسا چراغ ہے جو رہتی دنیا تک انسانیت کے دلوں کو منور کرتا رہے گا، اور آپ کی سیرت اس دنیا میں اعلیٰ اخلاق و کردار کا سب سے روشن مینار ہے۔
حضرت عائشہؓ سے جب صحابہ ٔکرامؓ نے سوال کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کیسے تھے، تو حضرت عائشہؓ نے جواب دیا:
’’رسول اللہ ﷺ کا اخلاق تو قرآن ہی تھا، کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟‘‘
یہ مختصر مگر جامع جواب دراصل ایک عظیم حقیقت کی طرف اشارہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے اخلاق وہی تھے جو قرآن میں موجود ہیں۔ یعنی قرآن ہمارے لیے ایک کتاب ہے،اور اس کتابِ انقلاب کی عملی تفسیر رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ مبارکہ ہے۔ گویا آپ ﷺ کی سیرت قرآن کا عملی نمونہ اور کامل تصویر ہے۔
محمد ﷺ کی سیرتِ طیبہ کے چند واقعات پر نظر ڈالنے سے ہی ہمیں آپ ﷺ کے عظیم اور بلند اخلاق کا اندازہ ہوتا ہے، جو اپنی مثال آپ ہیں۔

(1) صداقت اور راست بازی

رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ، خصوصاً نبوت سے قبل کی زندگی، صداقت و امانت کی بے مثال شہادت ہے۔ آپ ﷺ کو معاشرے میں ’’صادق‘‘ اور ’’امین‘‘ کے القاب سے پہچانا جاتا تھا۔ ہر شخص آپ ﷺ کی سچائی اور دیانت کا گواہ تھا۔ ایک مشہور واقعہ جو آپ کی صداقت کو ثابت کرتا ہے، سیرت کی کتابوں میں نقل ہوا ہے۔صفا کی پہاڑی پر کھڑے ہو کر جب آپ ﷺ نے مکہ کے لوگوں سے سوال کیا:
’’تم نے بچپن سے مجھے دیکھا ہے، تمھاری میرے بارے میں کیا رائے ہے؟ تم نے مجھے سچا پایا یا جھوٹا؟‘‘
تمام لوگوں نے بہ یک آواز کہا:
’’اے محمد ! ہم نے آپ کی زندگی میں کبھی سچائی کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔‘‘
یہ وہ بے مثال سچائی تھی جس نے لوگوں کے دلوں میں آپ ﷺ کی عظمت کو راسخ کیا۔ آپ ﷺ کی زبان سے ہمیشہ حق اور صداقت کے کلمات نکلتے، اور یہی سچائی آپ کے اخلاقِ حسنہ کا بنیادی حصہ تھی۔ آپ نے اپنی پوری زندگی لوگوں کو سچائی کی دعوت دی۔
ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’اگر تمھاری امانت تمھیں واپس نہیں کی جاتی، تو یہ تمھاری دیانت داری کا امتحان نہیں ہے۔‘‘(سنن ابوداؤد)
یہ حدیث اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ آپ ﷺ کی صداقت اور امانت داری ہر وقت اور ہر صورت میں برقرار رہی، خواہ معاملہ اپنے پیروکاروں کا ہو یا مخالفین کا۔

(2) درگزر اور عفو

رسول اللہ ﷺ کے اخلاقِ حسنہ کی ایک اور نمایاں صفت عفو و درگزر تھی۔ آپ ﷺ ہمیشہ لوگوں کو معاف فرما دیتے، چاہے انھوں نے آپ کو کتنی ہی تکالیف کیوں نہ پہنچائی ہوں۔ دشمنوں کے ظلم و ستم، مخالفت، اور اذیتوں کے باوجود آپ ﷺ نے ان کے معافی مانگنے پر نہ صرف انھیں معاف کیا بلکہ اپنی شفقت اور محبت کے دامن میں جگہ دی۔
ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:
’’جس نے تمھیں تکلیف دی ہو، اسے معاف کر دو، جو تمھارے ساتھ زیادتی کرے، اس پر صبر کرو۔‘‘(مسند احمد)
مکہ میں13 سالہ زندگی میں، جہاں آپ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو بے پناہ مظالم کا سامنا کرنا پڑا، آپ ﷺ نے کبھی بدلہ نہ لیا۔ آپ کی بیٹیوں کو طلاق دی گئی، آپ کے ساتھیوں کو اذیتیں دی گئیں، آپ ﷺ پر پتھر برسائے گئے، لیکن آپ ﷺ نے ہر ظالم کو معاف کر دیا۔ آپ نے اپنے چچا حضرت حمزہؓ کو شہید کرنے والے کو بھی معاف کر دیا۔
یہ درگزر، معاف کرنا، اور صبر و تحمل آپ ﷺ کے عظیم اخلاق کی عظیم ترین مثالیں ہیں۔
ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:
’’ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو لوگوں کو معاف کرتا ہے، اور عفو و درگزر کرتا ہے۔‘‘(صحیح مسلم)
یہ وہ اخلاق تھے جو انسانی فطرت کی بلندی کو ظاہر کرتے ہیں، اور یہی وہ صفات ہیں جن کی دعوت آپ ﷺ نے اپنے عمل سے دی۔
اخلاق حسنہ اور اعلیٰ صفات کی جب بات کی جائے تو رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ طیبہ ایک کامل نمونہ اور عملی تفسیر کے طور پر سامنے آتی ہے۔ آپ ﷺ کی ذاتِ مبارکہ میں ہر اعلیٰ اخلاق اپنی کامل ترین صورت میں موجود تھا، اور یہ اخلاق محض الفاظ نہیں بلکہ آپ ﷺ کے اعمال اور کردار کی شکل میں ظاہر ہوتے تھے۔ ان ہی اخلاق میں چند صفات ایسی ہیں جو انسانی زندگی کی بنیاد ہیں اور آپ ﷺ نے انھیں اپنے عمل کے ذریعے دنیا کے سامنے واضح کیا۔

(3) امانت و دیانت

اخلاقِ حسنہ کی اہم صفات میں ایک امانت اور دیانت داری ہے، اور رسول اللہ ﷺ کی شخصیت میں یہ صفت مکمل ترین صورت میں پائی جاتی تھی۔ آپ ﷺ لوگوں کی امانتوں کا نہایت خیال رکھتے اور دیانت داری سے ان کا حق ادا کرتے۔ اس وصف کی خاص بات یہ ہے کہ آپ ﷺ نے یہ دیانت داری نہ صرف مسلمانوں کے ساتھ بلکہ اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی برابر رکھی۔ نبوت سے پہلے ہی آپ ﷺ کو ’’صادق‘‘ یعنی سچائی کے لقب کے ساتھ ’’امین‘‘ یعنی امانت دار کے لقب سے بھی نوازا گیا تھا۔
سیرت کی کتابوں میں متعدد واقعات موجود ہیں جو اس صفت کی گواہی دیتے ہیں۔ ایک حدیث میںحضرت علیؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’امانت کا حق ادا کرنے والا وہ نہیں ہے جو چھوٹی بڑی امانت میں فرق کرے، بلکہ وہ ہے جو ہر امانت کو اس کے مالک تک واپس کرے، چاہے وہ معمولی ہو یا بڑی۔‘‘(سنن ابوداؤد)
یہ روایت اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ ﷺ کا امانت اور دیانت داری کا معاملہ ہر وقت اور ہر حال میں ایک جیسا تھا، خواہ معاملہ اپنے ساتھیوں کا ہو یا مخالفین کا، حتیٰ کہ مکہ سے ہجرت کے وقت بھی آپ ﷺ نے حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ لوگوں کی امانتیں واپس کریں، حالاں کہ وہی لوگ آپ ﷺ کے دشمن تھے اور آپ ﷺ کو ہجرت پر مجبور کر رہے تھے۔یہی دیانت آپ ﷺ کے اخلاق کی ایک روشن مثال ہے جس نے لوگوں کے دلوں میں آپ ﷺ کی سچائی اور عظمت کو راسخ کر دیا۔

(4) شیریں کلامی اور نرم مزاجی

اخلاقِ حسنہ کی ایک اور اہم صفت جو رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ مبارکہ میں اپنے کمال پر تھی، وہ شیریں کلامی اور نرم مزاجی ہے۔ آپ ﷺ ہمیشہ لوگوں سے نرمی، خوش اخلاقی اور مسکرا کر بات کیا کرتے تھے۔ آپ ﷺ کی گفتگو میں نہ کبھی سختی ہوتی اور نہ کوئی مصنوعی رعب و دبدبہ۔ صحابۂ کرامؓ فرماتے ہیں:
’’ہم نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ نرم کلام کرنے والا کبھی نہیں دیکھا۔‘‘(ترمذی)
آپ ﷺ نہایت شفقت اور محبت کے ساتھ لوگوں سے گفتگو فرماتے اور جو کوئی بھی آپ ﷺ کے پاس آتا، اسے عزت اور احترام سے نوازتے۔ ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمیشہ مسکراتے ہوئے بات کیا کرتے تھے اور نہایت نرم دل اور خوش اخلاق تھے۔(صحیح بخاری)
یہ نرمی اور محبت کا رویہ آپ ﷺ کے عظیم اخلاق کی اہم علامت تھی۔ آپ ﷺ کی مسکراہٹ اور حسنِ سلوک نے ہزاروں لوگوں کے دلوں میں اسلام کی روشنی بھری، اور آپ ﷺ کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو یہی تھا کہ آپ ﷺ نے لوگوں کے دلوں کو مسکراہٹ اور حسنِ اخلاق سے جیتا۔
رسول اللہ ﷺ کی یہ صفات ہمیں بتاتی ہیں کہ انسان کی عظمت اس کے قول و فعل میں پائی جانے والی نرمی، صداقت، اور دیانت داری میں مضمر ہے۔ آپ ﷺ کا ہر عمل اور ہر اخلاق قرآن کی تفسیر اور عملی نمونہ ہے، اور آپ ﷺ کی سیرت قیامت تک کے لیے انسانیت کے لیے بہترین رہ نماہے۔

(5) شرم و حیاء

شرم و حیاء اعلیٰ اخلاق کی نہایت بلند صفت ہے، اور رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ مبارکہ میں یہ صفت اپنی کامل ترین صورت میں جلوہ گر تھی۔ آپ ﷺ کے اندر اس قدر حیا تھی کہ حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں:
’’رسول اللہ ﷺ کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا ءوالے تھے، اور جب کوئی ناپسندیدہ بات دیکھتے تو آپ کے چہرۂ مبارک سے اس کا اندازہ ہوجاتا۔‘‘
(صحیح بخاری)
یہ آپ ﷺ کی حیا کا عملی اظہار تھا کہ آپ ﷺ ناپسندیدہ باتوں کا اظہار کیے بغیر اپنے چہرے کے تاثرات سے اپنی ناپسندیدگی ظاہر کرتے، لیکن کبھی کسی کو بہ راہِ راست شرمندہ یا خفا نہ کرتے۔ اگر کوئی آپ ﷺ کے سامنے معذرت خواہ ہوتا تو آپ ﷺ اپنی گردن جھکا لیتے تاکہ اسے بھی عزت ملے اور شرمندگی سے بچ جائے۔ آپ ﷺ طعنہ زنی اور عیب جوئی سے ہمیشہ گریز کرتے، کیوں کہ آپ ﷺ اسے حیاء کے خلاف سمجھتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ کا طرزِ عمل بازاروں میں بھی حیاء کا ایک نمونہ تھا۔ جب آپ ﷺ بازار سے گزرتے تو نظریں جھکا کر اور خاموشی سے گزرتے، کسی کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھتے تاکہ لوگوں کی عزت و وقار محفوظ رہیں۔ آپ ﷺ کی اس اعلیٰ صفت کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ آپ ﷺ نے خود فرمایا:
’’حیا ءایمان کا ایک حصہ ہے۔‘‘(صحیح مسلم)
یہی وجہ ہے کہ حیاء کو رسول اللہ ﷺ کے اخلاق حسنہ کا ایک بنیادی جزو قرار دیا گیا ہے، کیوں کہ حیا ءانسان کو ہر برائی سے بچاتی ہے اور اخلاقی بلندی کی طرف لے جاتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے یہ اخلاق، جو سراپا قرآن کی تعلیمات کا عملی اظہار تھے، ہمیں بتاتے ہیں کہ اعلیٰ کردار اور عظیم اخلاق ہی انسان کو کمال تک پہنچاتے ہیں۔ آپ ﷺ کی سیرت ایک زندہ جاوید مثال ہے، جو قیامت تک انسانیت کے لیے مشعلِ راہ بنی رہے گی۔

رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کی جامعیت

ان تمام صفات کے علاوہ، رسول اللہ ﷺ کے اخلاق حسنہ میں بے شمار دیگر اعلیٰ صفات شامل تھیں، جو اپنی کامل ترین صورت میں موجود تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں آپ ﷺ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:
’’اور بے شک آپ اخلاق کے عظیم مرتبے پر فائز ہیں۔‘‘(سورۃالقلم: 4)
اور اسی لیے اللہ سبحانہ‘ وتعالیٰ نے آپ ﷺ ہی کی ذاتِ اقدس کو ہمارے لیےاسوۂ حسنہ قرار دیا ہے۔
’’بے شک رسول اللہ کی ذات تمھارے لیے بہترین نمونہ ہے۔‘‘
(سورۃ الاحزاب : 21)
یعنی رسول اللہ ﷺ کی سیرت ہر مسلمان، چاہے وہ مرد ہو یا عورت، جوان ہو یا بوڑھا، ہر انسان کے لیے بہترین اور کامل ترین نمونہ ہے۔ آپ ﷺ کی حیاتِ طیبہ ایک ایسی عملی مثال ہے جس کی پیروی ہر مسلمان کے لیے لازم ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی زندگی میں ان اعلیٰ اخلاقی صفات کو نہ صرف اپنایا بلکہ اپنی امت کو بھی ان کی تعلیم دی۔
خلاصہ یہ کہ رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ طیبہ کا ہر پہلو، چاہے وہ صداقت ہو یا عفو درگذر، امانت و دیانت ہو یا شیریں کلامی اور نرم مزاجی، شرم و حیا ہو یا دیگر اخلاقی صفات، ہمیں اس بات کی تلقین کرتا ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں بھی ان ہی اعلیٰ صفات کو اپنائیں اور رسول اللہ ﷺ کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں، تاکہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہوسکیں۔

٭ ٭ ٭

رسول اللہ ﷺ کے اخلاق وہی تھے جو قرآن میں موجود ہیں۔ یعنی قرآن ہمارے لیے ایک کتاب ہے،اور اس کتابِ انقلاب کی عملی تفسیر رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ مبارکہ ہے۔ گویا آپ ﷺ کی سیرت قرآن کا عملی نمونہ اور کامل تصویر ہے۔
محمد ﷺ کی سیرتِ طیبہ کے چند واقعات پر نظر ڈالنے سے ہی ہمیں آپ ﷺ کے عظیم اور بلند اخلاق کا اندازہ ہوتا
ہے، جو اپنی مثال آپ ہیں۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے