میں نے زندگی میںتجربے سے سیکھا ہے کہ رشتے قربانیوں کےمحتاج ہوا کرتے ہیں، کیونکہ یہ بن تو بڑی آسانی سے جاتے ہیں، لیکن نبھتے فقط قربانیوں سے ہیں۔ لامحالہ، قربانیاں ہی اصل پہیےہیں رشتوں کی گاڑی کے، جبکہ ہم رشتہ اس سے رکھتے ہیں جس سے محبت ہو، انسیت ہو، لگن ہو یا مطلب ہو، لیکن محبت تو جانوروں سے بھی ہوجاتی ہے۔ اس لیے رشتے کی ڈور قربانیوں سے مضبوط ہوتی ہے، ناکہ محبت سے۔
جہاں برتن ہو وہاں ٹکراؤ لازمی ہے، اور اس سے پیدا ہونے والی شے آواز ہے۔ لیکن اُن آوازوں پر شکوے اور اعتراض کرنے والا احمق ہوتا ہے۔کیونکہ رشتوں میں غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں،اور صرف غلط فہمیوں کو اس بات پر قدرت حاصل ہے کہ وہ رشتوں میں کھٹاس پیدا کرکےانھیں توڑ دیں۔
ایک بات ہمیں ذہن نشیںکر لینی چاہیےکہ بازار سے دھاگا چاہے جتنا مضبوط خرید کرلے آئیں، اُس سے سلے ہوئے کپڑے بھی کبھی نہ کبھی پھٹ جاتے ہیں، مگر یہ انسان ہی ہوتا ہے جو بجائے اُس پھٹے کپڑے کو پھینک دینے کے، اسے پیوند کے سہارے دوبارہ قابلِ استعمال بناکر پہنتا ہے، اور اس کپڑے کو ایک اور موقع دیتا ہے۔
پھر وہی انسان غلط فہمیوں کو قربانی جیسے ہتھیار سے مات اور شکست دے کر رشتے کیوں نہیں سنبھال پاتا؟ انسان کیوں قطع تعلق کرلیتاہے اور رشتوں کو دوبارہ موقع نہیں دیتا؟ آخر رشتوں کو پیوند لگا کر قطع تعلقی سے کیوں نہیں بچاتا ہے؟قربانی اگر رشتوں میں موجود ہو، تو یہ ڈور ایک مضبوط خاندان تشکیل دیتی ہے، ورنہ گھراور خاندان کا ہر فرد آپسی تفرقات و ناچاقی کے باعث بکھر جاتا ہے۔
فروری ۲۰۲۳
زمرہ : گرلز پلانٹ
Comments From Facebook
فروری ۲۰۲۳
0 Comments