مئی ۲۰۲۴

جہیز ایک لعنت ،جہیز ایک سماجی برائی،ان جیسے ٹاپکس پر ہم بچپن سے مضامین لکھتے آئے ہیں۔ سسرالیوں نے نئی نویلی دلہن کو جہیز کے لیے جلا کر مار ڈالا۔جہیز میں گاڑی نہ ملنے کی وجہ سے دولھے نےکیا نکاح سے انکار۔اس طرح کے ہیڈ لائنز ہم ہر روز ٹی وی پراور اخبار میںپڑھتے اور سنتے آرہے ہیں۔سرکار ہر دفعہ نت نئے قانون بھی بنا چکی ہے ،کیا اس پر عمل پیرا ہوا ہے کبھی؟ نہیں ، ہم 5جی کے دور میں جینے والے لوگ ہیں ۔ چیزوں کی تمیز رکھتے ہیں، این آر سی کے لیے آواز اٹھا سکتے ہیں ۔ ہمیں پتہ ہے کہ جہیز ہمارے سماج کا ناسور ہے،پھر اس کےلیے کوئی سخت قدم کیوں نہیں اٹھایاجاتا ؟ کچھ سال پہلے گجرات کی عائشہ عارف خان نے ویڈیو بناکر خودکشی کر لی ۔تب ہر نیوز چینل پر بحث مباحثوں ہونے لگے ،سخت قانون کی مانگ اٹھی،وہ بھی بے نتیجہ رہی۔
ہمارا پڑھا لکھا سماج تو یہ دلیل دیتا ہے کہ ہماری حیثیت تھی ،اس لیے ہم نے بیٹی کو اتنا کچھ دیا، لیکن یہ ان کی کم ظرفی ہے ،یہ ان غریب بچیوں کا نہیں سوچتے، جنھیں رات دن طعنہ زنی میں جینا ہوتا ہے ۔یہ ماڈرن طبقہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی اس دقیانوسی رواج کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ ’’ ہم دولھن سے پہلے ہی سامان اس کے سسرال میں سیٹ کردیتےہیں ۔‘‘اور تو اور، ایک اور نئی بدعت پیداہو گئی، شادی ہال میں دولھا، دولھن کی انٹری ،نعوذ باللہ!
بڑے بڑے اسٹیج ،مہنگے ڈیکورشن کی لاگت لاکھوں میں ہوتی ہے۔ اسی کو وہ لوگ اپنی حیثیت کے ترازو میں تولتے ہیں ، لیکن دوسری طرف ایک غریب باپ اپنی بیٹی کی خوشی کے لیے اپنی عمر بھر کی کمائی لگادیتا ہے ،اور نت نئے چونچلوں کو پورا کرنے کےلیےجو قرض لیتا ہے ، اس کوچکانے میں اس کی بچی کھچی زندگی صرف ہو جاتی ہے ۔کئی لڑکیاں ذہنی توازن کھو بیٹھتی ہیں ،کئی جان بحق ہوجاتی ہیں،اس کا اثر لڑکوں پر بھی ہوتاہے ، وہ اپنی ازدواجی زندگی میں سکون نہیں پاتے، وہ بھی کہیں نہ کہیں اس کرب سے گزرتے ہیں ،صحیح اور غلط کے درمیان لٹک کر رہ جاتے ہیں ۔
حضرت میر تقی میرؔ کا یہ قصہ مشہور ہے کہ جب ان کی بیٹی کی شادی ہوئی تو انھوں نے اپنا سب کچھ بیچ کر جہیز اکٹھا کیا ،اور خود فٹ پاتھ پر رہنے لگے۔ یہ بات جب ان کی بیٹی کو پتہ چلی تو اسے گہرا صدمہ لگا اور انتقال کر گئی ۔تب میرؔ صاحب کےمنہ سے جو الفاظ نکلے وہ یوں تھے:

اب آیا خیال اے آرام جاں اس نا مرادی میں
کفن دینا ہی بھول گئے ہم اسباب شادی میں

یہ ان کا آخری شعر مانا جاتا ہے ۔اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جہیز کی لعنت اچھے اچھوں کو لے ڈوبی ہے،بڑے غضبناک قصے ہیں ۔
کچھ پڑھے لکھے جاہل تو نبی پاک ﷺ کا حیلہ لگواتے ہیں کہ ہمارے نبی نے بھی بی بی فاطمہ ؓکو جہیز دیا تھا ، جو آدھا سچ لیے بیٹھے ہیں ، جنھیں یہ نہیں پتہ کہ آپﷺ نے حضرت علیؓ سے ہی رقم لے کر اسباب ضرورت خریدا تھا۔
دراصل ہم نے اپنادین سیکھنا ہی ضروری نہیں سمجھا ، ہم نے واہیات فلمیں اور ڈراموں کو دیکھ کر اپنی زندگیوں کو ان ہی کی طرح بے ڈھنگ بنا دیا ۔
دادا جی کہا کرتے تھے کہ ہمارے بچپن میں جہیز کو چھپاکر دیا جاتا ، بند کمروں میں چند ذمہ داران کے بیچ باتیں ہوا کرتی تھیں، کچھ دنوں کے بعد لوگ ریڈیو کی مانگ کرنے لگے ،اس بعد ٹی وی دینا عام بات ہو گئی، اب اس کی جگہ مہنگی گاڑیوں نے لے لی ، اس سے بد ترین حالات کیا ہو سکتے ہیں ۔
بقول یامین انصاری ؒ:’’جو لوگ جہیز مانگتے ہیں ،وہ اپنے بیٹے کا نکاح نہیں، سودا کرتے ہیں ۔‘‘
یہ جہیز کی لعنت ہے کہ ہمارے معاشرے کی کئی لڑکیوں کی شادی کی عمر نکل گئی۔ایک سروے کے مطابق مسلمانوں میںہر دن خلع اور طلاق کا ریشیو بڑھتا جارہا ہے ،جس کی وجہ جہیز کی ڈیمانڈ پوری نہ کر پانا ہے ۔لوگ اپنے بیٹوں کو موٹی موٹی ڈگریاں دلواتے ہیں، مگران کی ضروریات پوری کرنے کا دباؤ آنے والی بہو کے ماں باپ کے کندھوں پر لاد دیتے ہیں ، اسی لیے بیٹی کی پیدائش پر اکثر لوگ خوشی کا

اظہار نہیں کرتے ۔
اس پر ندیم ظفر نے کیا خوب لکھا ہے:
اے دوستو! جہیز بھی لعنت عجیب ہے
اثرات خوفناک ہیںسایہ مہیب ہے
ایک رسم ہے جو کھائے ہوئے سماج کو
جس نے بدل دیا ہمارے مزاج کو

یہ عجیب سرکس ہے دوستو! ہمیں سسٹم پر ٹھیکرا پھوڑ کر کچھ حاصل نہیں ہوگا، نہ ہی ہمارے آباء واجداد کو کوسنا ہے، اگر بدلاؤ چاہیے تو اپنے آپ کو بدلنا چاہیے، اتناکہ دین پرپورے طورپر عامل بن جائیں کہ ہر چیز کرنے سے پہلے دیکھیں کہ ہمارا رب اس کے لیے کیا کہتاہے؟ کہاں اجازت ہے؟ وہ دیکھیں! میں لڑکیوں کو اعلیٰ سے تعلیم حاصل کرکے خود مختاری کی صلاح نہیں دوں گی، کیوں کہ اس میں بھی عمر نکل جاتی ہے، آپ ایسا ہم سفر چنیں جو آپ کی گرہستی اور تعلیمی سفر کا ساتھی ہو۔لڑ کوں کو چاہیے کہ وہ پہلے اس قابل ہو جائیں کہ اپنا اور اپنے آل کے اخراجات اٹھا سکیں،تبھی نکاح کے لیے ہامی بھریں، اور غیور قوم کا معمار بنیں،اسی طرح ہم ایک صاف معاشرے کی بنیاد رکھیں گے۔
اللہ ہم سب کو نبیوں اور صحابہ کےنقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا کرے، ایک ایسا ماحول بنائیںکہ لوگ جہیز کے نام سے کانپیں، جہاں بھی ضروری ہو، اس کےخلاف آواز اٹھائیں، سوشل میڈیا کا یوز کریں، اپنے موبائل سے ہم ویڈیو بناکر اپنی قوم میں بیداری لاسکتے ہیں ۔ا للہ ہمیں اس جہیز کی لعنت کو جڑ سےختم کرنے کی ہمت اور طاقت دے !

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مئی ۲۰۲۴