مئی ۲۰۲۴

قدرت کا عطا کردہ گلدستہ ٔحیات متنوع رشتوں سے مالا مال ہے، جس کی مہکار اس ماں سے ہے جو اپنی خوشبو بکھیرتی ہے تو پھیلتی چلی جاتی ہے۔ ماں محبت کا وہ حقیقی پیکر ہے جس کی گود دنیا کی محفوظ ترین جگہ ہوتی ہے۔ وہ ان مول متاع حیات جس کی محبت کا نقشہ اس صورت میں ابھرتا ہے کہ بی بی ہاجرہ کا اسماعیلؑ کے لیےتڑپ تڑپ کر پانی تلاش کرنا اور صفا و مروہ کے پتھریلے پہاڑ کے چکر لگانا اور پھر دریائے رحمت کا جوش میں آنا اور زمزم کا امڈتا چشمہ پھوٹ پڑنا؛ یہ ماں کا وہ عظیم کردار ہی ہے جو رب ذوالجلال کو اس قدر پسند آتا ہے کہ اسے اسلام کے پانچویں رکن حج کا مستقل رکن بنا دیتا ہے۔
وہ ماں کی ممتا ہی ہے جو فرعون کے دربار میں پلتے شیر خوار کے لیے جب تڑپتی ہے تو رحمت الہٰی اس کی تربیت کا بندوبست کردیتی ہے اور رب کریم اس عظیم شاہ کار کا نقشہ موسیٰؑ کی ماں کے نام سے نہایت حسین پیرایہ میں پیش کرکے قرآن کی زینت بنا دیتا ہے۔
ماں حقیقی محبت کا وہ پیکر ہی ہے کہ جب اس کی عظمت و حقوق کی بات آتی ہے تو اویس قرنی جیسے جلیل القدر تابعی کو شرف صحابیت سے محروم کردیتی ہے،لیکن محبت کے اس پیکر کا جواب خدمت کی شکل میں دینے پر اس شخصیت کو مستجاب الدعوات بنا دیتی ہے۔
دنیا کے نشیب وفراز سمجھانے والی،اپنی راتوں کی نیند،اپنی چھوٹی بڑی خواہشیں قربان کرکےخوش ہونے والی اور بڑی آسانی سے بغیر احسان جتائےاپنی اولاد کوزندگی سے ملانے والی ماںکی قربانیوں کا ذکر رب کریم ’’حملتہ کرھا و وضعتہ کرھا ‘‘ کے انداز میں پیش کرتا ہے تو فرش تا عرش اس کی عظمت کا اعتراف ہونے لگتا ہے۔
اسلامی معاشرے میں عمر رسیدہ افراد اور بالخصوص والدین کو کس قدر اہمیت دی گئی ہے، اس کا اندازہ رب ذوالجلال کے اس کلام سے لگایا جاسکتا ہے، جو اپنی الوہیت کے ذکر کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کرتا ہے اور ان کے ساتھ بدسلوکی کو گناہ کبیرہ قرار دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَقَضىٰ رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاَهُمَا فَلاَ تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلاَ تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيمًاOوَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًاO(سورہ بني اسرائيل: 23-24)

(اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمھارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انھیں ’’اُف‘‘ بھی نہ کہنا اور انھیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو۔اور ان دونوں کے لیے نرم دلی سے عجز و اِنکساری کے بازو جھکائے رکھو اور (اﷲ کے حضور) عرض کرتے رہو : اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انھوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا۔)
والدین اور بالخصوص ماں کی عظمت کا اعتراف نبی کائنات ﷺ کی زبان مبارک سے جب ہوتا ہے تو انسانوں میں سب سے پہلا تین گنا حق ماں کا قرار پاتا ہے اور اس کے بعد والد اس حقوق کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا :
’’یارسول اللہ! لوگوں میں حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟‘‘
فرمایا : ’’تمھاری والدہ۔‘‘
انھوں نے عرض کیا : ’’پھر کون ہے؟‘‘
فرمایا : ’’تمھاری والدہ۔‘‘
انہوں نے عرض کیا : ’’پھر کون ہے؟ ‘‘
فرمایا : ’’تمھاری والدہ۔‘‘
انھوں نے عرض کیا : ’’پھر کون ہے؟‘‘
فرمایا : ’’پھر تمھارا والد ہے۔‘‘( متفق علیہ)
اور رہا باپ کا حق، تو رضائے الٰہی ہی اس سے مربوط ہے۔ ارشاد نبوی ہے:

عن عبداللہ بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ’’رضا الرب في رضا الوالد، وسخط الرب في سخط الوالد ‘‘( سنن ترمذی ، رقم الحدیث: 1900 )

(عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رب کی رضا والد کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔‘‘)
نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

’’ما أکرم شاب شيخا لسنه إلا قيض اﷲ له من يکرمه عند سنہ‘‘

(’’جو جوان کسی بوڑھے کی عمر رسیدگی کے باعث اس کی عزت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس جوان کے لیے کسی کو مقرر فرما دیتا ہے جو اس کے بڑھاپے میں اس کی عزت کرے گا۔‘‘)(ترمذي، رقم: 372)
غرض یہ کہ اسلام میں والدین کا ایک واضح تصور موجود ہے، لیکن مغرب کی اندھا دھند تقلید میں آج اسلامی معاشرہ بھی ان بے جا اور ناقابل قبول رسومات کی ادائیگی میں مصروف عمل نظر آتا ہے، جسے ہم مدرز ڈے یا فادرز ڈے سے جانتے ہیں، جس کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہر لمحہ اولاد کی توجہ حاصل کرنے کے حق دار ماں باپ محض ایک دن سرخ پھولوں کا گل دستہ لے کر اپنے حقوق سے دست بردار ہوجائیں۔
تاریخی اعتبار سے اگر مدر ڈے کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت وا ہوتی ہے کہ اس دن کا آغاز سن 1870ء میں ہوا ،جب جولیا وارڈ نامی عورت نے اپنی ماں کی یاد میں اس دن کو شروع کیا ۔ جولیا وارڈ اپنے عہد کی ایک ممتاز مصلح، شاعرہ، انسانی حقوق کی کارکن اور سوشل ورکر تھیں۔ بعد ازاں 1877ء کو امریکہ میں پہلا مدر ڈے منایا گیا۔ 1907ء میں امریکی ریاست فلاڈیفیا میں اینا ایم جاروس نامی اسکول ٹیچر نے باقاعدہ طور پر اس دن کو منانے کی رسم کا آغاز کیا۔ اس نے اپنی ماں این ماریا ریویس کی یاد میں یہ دن منانے کی تحریک کو قومی سطح پر اجاگر کیا ،یوں ان کی ماں کی یاد میں باقاعدہ طور پر امریکہ میں اس دن کا آغاز ہوا۔ یہ تقریب امریکہ کے ایک چرچ میں ہوئی۔ اس موقع پر اس نے اپنی ماں کے پسندیدہ پھول تقریب میں پیش کیے۔ اس تحریک پر اس وقت کے امریکی صدر وڈ رولسن نے ماؤں کے احترام میں مئی کے دوسرے اتوار کو قومی دن کے طور پر منانے کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد یہ دن ہر سال مئی کے دوسرے اتوار کو منایا جاتا ہے۔ اس مناسبت سے برطانیہ میں اس دن کو Mothering Sunday بھی کہا جاتا ہے۔
( ایم ایس پاکستانی، www.minhaj.org)
چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں سال بھر والدین سے غافل رہنے والی اور اپنے والدین کو اولڈ ہومز میں رکھنے والی اولاد اس روز بیش قیمت تحفے تحائف کے ساتھ اپنی ماؤں سے ملاقات کر کے اپنی محبت و عقیدت کا نذرانہ پیش کرتی ہے، اور اپنی زندہ ماں کے لیےسرخ پھولوں اور مردہ ماں کے لیے سفید پھولوں کا گل دستہ ان کی قبروں پر چڑھا کر خود کو دنیا کا سب سے خوش قسمت انسان سمجھتی ہے، اور زندگی کا سب سے پہلا سبق سکھانے والے استاد کے حقوق کو فراموش کردیتی ہے۔ہر ملک میں مدر ڈے کو منانے کے لیے مختلف دن مختص ہیں تاہم امریکہ، ڈنمارک، فن لیند، ترکی، آسٹریلیا اور بیلجیم میں یہ دن مئی کے دوسرے اتوار کو ہی منایا جاتا ہے،مگر قربان جائیے !اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ جس کے دین میں ماں باپ کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ وہ گھروں کے تاحیات سربراہ ہوا کرتے ہیں، جن کی معزولی کا کوئی تصور موجود نہیں۔ وہ ان مول تحفہ جس کی خدمت جنت کا حق دار بناتی ہے اور رب کریم کی رضا کو واجب کرتی ہے، مگر افسوس کہ مغرب کی تقلید نے آج اسلامی معاشرہ کو بھی ایک مہلک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے جہاں جنریشن زی اپنے والدین کو اولڈ ہومز میں رکھنے کی جانب گام زن ہے۔
لیکن ہم غور کریں کہ کسی خاص موقع کی طرح ریمائنڈر میں سیٹ کرکے اسے اس کے خاص ہونے کااحساس دلاناجس نے دنیا میں ہمیں سب سے خاص سمجھا،کیاٹھیک ہے؟حیات انسانی میں سب سے عظیم ہستی کا ٹائٹل اپنے پاس رکھنے والی شخصیت کے لیےمحض ایک دن خاص کردینا ،کیا یہ شخصیت اور انسانیت کا قتل نہیں ہے؟یہی وہ سوالات ہیں جو یقینا ًآج بھی جواب کے متلاشی ہیں۔ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اسلام میں تو ہر لمحہ اور ہر دن مدر ڈے اور فادر ڈے ہے۔
کسی شاعر کے مدرز ڈے کے رد میں پیش کردہ نظم کے یہ چند اشعار جو چیخ چیخ کر ماں کی عظمت اور حقوق کی ترجمانی کرتے ہیں:

کہہ دو فلک سے ، اپنے اجالے سمیٹ لے
روشن، ہماری ذات کا مینار ماں سے ہے
کرتی ہےوہ، زمیں کے ستاروں کی پرورش
اے آسمان ! توبھی ضیابار ماں سے ہے
مخصوص کیسے ہوگا ’مدرڈے‘ میں ایک دن
یہ وقت ، یہ زمانہ ، یہ سنسار، ماں سے ہے
اُس ذات کو نہ قید کرو ، ماہ و سال میں
سورج ہر اک زمانے کو، درکار ماں سے ہے
رُک جائیں وہ قدم، تو ٹھہر جائے کائنات
سن لیجیے ! کہ وقت کی رفتار ماں سے ہے

( فریدی مصباحی،fareedimisbahi.com)
کاش ہم ماں کی اس عظمت کا راز پا سکیں جو رب رحیم کے کلام میں پنہاں ہے۔ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو ماں کی عظمت سے روشناس کرے اور ان کے حقوق کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!

٭ ٭ ٭


ہم غور کریں کہ کسی خاص موقع کی طرح ریمائنڈر میں سیٹ کرکے اسے اس کے خاص ہونے کااحساس دلاناجس نے دنیا میں ہمیں سب سے خاص سمجھا،کیاٹھیک ہے؟حیات انسانی میں سب سے عظیم ہستی کا ٹائٹل اپنے پاس رکھنے والی شخصیت کے لیےمحض ایک دن خاص کردینا ،کیا یہ شخصیت اور انسانیت کا قتل نہیں ہے؟یہی وہ سوالات ہیں جو یقینا ًآج بھی جواب کے متلاشی ہیں۔ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اسلام میں تو ہر لمحہ اور ہر دن مدر ڈے اور فادر ڈے ہے۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مئی ۲۰۲۴