تمباکو:تعارف و ماہیت (ورلڈ نوٹو بیکوڈے، MAY 31)

یہ مشہور پتے ہوتے ہیں ۔ان کے اندر چار قسم کے مؤثر جوہر پائے جاتے ہیں جن میں ایک نکوٹن ہوتا ہے ،جس میں زہریلی اور نشہ آور اثرات پائے جاتے ہیں ۔

طریقہ ٔاستعمال

(1) ان پتوں کو خشک اور باریک کر کے گڑ یا شکر کے ساتھ ملا کر اس کا دھواں کھینچتے ہیں۔
(2) اس کو خوشبودار بنا کر پان میں رکھ کر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
(3)اسی سے بیڑی اور سگریٹ بھی بنائے جاتے ہیں ۔ تمباکو کی باریک پتیوں سے بنی ہوئی کاغذ میں لپٹی ہوئی بتی کو سگریٹ کہتے ہیں یا ایسی ہی کاغذ کی بتی بنا کر کوئی اور نشہ آور دوا لپیٹی جاتی ہے۔

بطور دوا استعمال

اس کے فائدے بہت ہی کم ہیں ،اور اس کے نقصانات زیادہ ہیں ،طبی طور پر اس کا استعمال مقی، مسکن درد، منفث بلغم، مخرج رطوبات اور معطس کے طور پر کیا جاتا ہے۔
(1) مقی:اس کے پتوں کا شربت جوش دے کر یا پانی میں پیس یا چھان کر یا گڑیا شیرے میں ملا کر پلاتے ہیں، تاکہ قےلائیں اور اس کے ذریعے بلغم نکلے ۔
(2)مسکن درد:اس کا سفوف بنا کر منجن کے طور پر سنون کی شکل میں دانتوں کے درد میں استعمال کرتے ہیں۔
(3)منفث بلغم:یعنی پھیپھڑوں میں تحریک دے کر وقتی طور پر کھانسی کے ذریعے بلغم کو خارج کرتا ہے۔
(4)معطس:یعنی نزلہ و زکام کی وجہ سے جو درد سر ہوتا ہے اس کے پتوں کو باریک پیس کر ہلاس بناتے ہیں ،اور سونگھاتےہیں جس سے فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
(5)مخرج رطوبات: ہونے کی وجہ سے اس کا میل جو حقے میں بچتا ہے اس کو ابتدائے موتیابند اور دھند کے ازالے کے لیے آنکھ میں لگاتے ہیں۔ان سارے طبی فائدوں کے باوجود اس کا استعمال انسان کو عادی بنا دیتا ہے کیوںکہ یہ نشہ آور تاثیر رکھتا ہے اور اس کے ذریعے دوسرے تمام نظام جسمانی کو نقصان پہنچتا ہے۔

پیداوار و کاشت

اس کی کاشت سب سے پہلے وسطی امریکہ میں مایا کے لوگوں نے کی وہ اس کو اپنے مذہبی تہواروں میں مقدس منشیات کے طور پر استعمال کرتے تھے۔1605ءمیں ہندوستان میں پرتگالیوں کے ذریعے یہ پودا پہنچا۔
آج دنیا کے124 ملکوں میں تمباکو کی کاشت تقریبا ًملین ہیکٹر زرخیز زمین پر کی جاتی ہے، یہ ایک بڑا منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ چائنا کے بعد ہندوستان اس کی کاشت میں دوسرے نمبر پر آتا ہے اور ہندوستان کی5% آبادی اس سے فائدہ اٹھاتی ہے اس تمباکو کی صنعت و کاروبار میں50 لاکھ لوگوں کی معاش ٹکی ہوئی ہے۔ اس لیے ہندوستان میں اس کی پیداوار پر ابھی تک کوئی پابندی نہیں لگائی گئی ہے ۔
ہندوستان میں جن علاقوں میں اس کی پیداوار زیادہ ہے، وہ مندرجہ ذیل ہیں:
(1) گجرات: 41فی صد
(2) آندھرا پردیش: 22فی صد
(3)کرناٹک: 16فی صد
(4) تلنگانہ: 11فی صد
لیکن اس کے ذریعے لاکھوں نہیں ،بلکہ کروڑوں ہم وطن بھائیوں اور بہنوں کے صحت کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے، خاص طور پر بچوں، نوجوانوں اور ہر عمر کے طبقے کے لوگ اس کے استعمال سے ذہنی اور جسمانی طور پر معذور زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔
تمباکونوشی سے ہونے والے چند لازمی بیماریاں:
(1) سرطان: یعنی کینسر، خاص طور پر پھیپھڑوں اور جگر کا سرطان
(2) نظام تنفس کی بیماریاں
(3) دل کی بیماریاں
(4) ذیابیطس
(5) مختلف قسم کے انفیکشنز
(6) دانتوں اور مسوڑھوں کی بیماریاں
(7)قوت سماعت اور قوت بصارت میں کمی
(8)تپ دق یعنی ٹی بی
(9) وجع مفاصل یعنی جوڑوں کا درد
(10) قوت مدافعت میں کمی
ہرسال آٹھ ملین لوگ محض تمباکو نوشی کی وجہ سے موت کو گلے لگاتے ہیں۔(WHO رپورٹ)

 منشیات کا عادی ہونے کی وجوہات

(1) ذہنی سکون کی کمی
(2) اضطراب و بے چینی کی کیفیت
(3) مایوسی
(4) والدین یا گھر والوں کی محبت اور شفقت میں کمی
(5) زندگی کے تلخ تجربات یا حادثات
(6) محبت میں یا زندگی کے دوسرے مقاصد اور منصوبوں میں ناکامی کا سامنا
(7) قوت اشتہا یعنی بھوک کی زیادتی
(8) اچھی نیند کی کمی
(9) غلط صحبت
(10) رنج وغم اور ڈر یا خوف کے جذبات
ان سارے مسائل کا حل منشیات کبھی نہیں ہیں۔ نشہ آور ادویات یا چیزیں انسان کو فرار کا راستہ دکھاتی ہیں، وقتی طور پر مسائل پر پردہ پڑ جاتا ہے، لیکن زندگی اس کے علاوہ کئی خطرناک دوسرے مسائل کی لپیٹ میں آ جاتی ہے۔
حقیقت میں مسائل کم نہیں ہوتے ،بلکہ انسان کی زندگی سے سنجیدگی چلی جاتی ہے۔ اس کی نفسیات ایسی ہو جاتی ہےکہ وہ زندگی کو ایک کھیل اور مذاق تصور کرتا ہے اور صرف دل کا بہلاوا اور مزہ اور لطف کا ذریعہ سمجھتا ہے اور اپنے انجام سے غافل ہو جاتا ہے ،حتی کہ دنیا اور آخرت دونوں نقصان برداشت کر لینے بھی کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا اور اس کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ماؤف ہو جاتی ہے۔

روک تھام کی تدابیر

 تمبا کو نوشی اور سگریٹ نوشی کے اس نقصان کو پیش نظر رکھتے ہوئے سب سے پہلے دنیا میں نیوزی لینڈ ایسا ملک ہے جس نے آئندہ نسلوں کی حفاظت کے لیےقانونی طور پر اس پر پابندی عائد کی اور ہندوستان میں جہاں پر کسی حد تک پابندی عائد ہوئی اس میں سب سے پہلا علاقہ چندی گڑھ ہے۔

COPTA

یہ وہ ایکٹ ہے جوہندوستان کی سرکار کی جانب سے 2003ءمیں پاس کیاگیا ہے ۔ اس کا مطلب ہے:

Prohibition of cigarette and other products of tobacco advertisement,regulation of trade and commerce production,supply and distribution.

اس ایکٹ کے تحت کچھ پابندیاں تمباکو اور سگریٹ نوشی کے اشتہارات پر عائد کی گئیں، لیکن اس کی کاشت پر کوئی مؤثر روک تھام ابھی تک نہیں کی گئی۔ہمارے ملک ہندوستان میں ابھی اس سلسلے میں اس کے نقصانات کو پیش نظر رکھتے ہوئے جو اہتمام کیے گئے ہیں ،یپ اسی کا ایک حصہ ہے۔

World No Tobacco day

جو کہ31 Mayکو ہر سال منایا جاتا ہے اور اس کی شروعات عالمی سطح پر 1987 ءسے ہوئی۔ اس کا مقصد یہی تھا کہ عالمی سطح پر تمباکو نوشی کی اس عادت کے نقصانات اور اس سے ہونے والے بیماریوں سے لوگوں کو بچایا جائے۔ ابھی2024ءمیں جوWorld No Tobacco dayمنایا جائے گا، اس کا مرکزی موضوع ’’بچوں کو تمباکو نوشی سے محفوظ رکھیں ‘‘یا’’منشیات و نشہ آور صنعت وکاروبار سے بچوں کی حفاظت‘‘ہوگا۔ اس بار اس پروگرام کے تحت لوگوں میں شعور بیدار کرنے کی کوشش کی جائے گی اور اس کے لیے مختلف سطحوں پر عوامی پروگرامس اورا سکولوں اور کالجز میں اس کے پروگرامس اور پبلک مارچز یعنی بینرز کے ذریعے، اشتہارات کے ذریعے اس بات کا پرچار کیا جاتاہے اور کیا جائے گا کہ تمبا کو نوشی صحت کے لیے بہت مضرا ور جان کے لیے مہلک ہے ،اور اس سلسلے میں دیگرعوامی پروگرامس کا بھی اہتمام کیا جائے گا، جس میں نعرے ،پلے کارڈز کے ذریعے اور سوشل میڈیا کے استعمال سے بھی اس میں مدد لی جاسکتی ہے ۔ اس سال بھی کئی سلوگن بنائے گئے ہیں جن کا مطلب ہے کہ تمباکونوشی کو منع کرو اور اپنی زندگی کی حفاظت کرو ،اپنی قیمتی زندگی سے مت کھیلیں ، وقتی تفریح اورمزے کے لیےتمبا کو اور سگریٹ کاساتھ چھوڑ دو اس سے پہلے کہ زندگی آپ کا ساتھ چھوڑدے۔
پچھلے سال جو ورلڈ نو ٹوبیکو منایا گیا تھا اس کا مرکزی موضوع رہا کہ غذا کی کاشت کاری کرو، تمباکو کا روک تھام کرو۔ ان اشتہارات اور ان کوششوں کے باوجود بھی اس کا بڑھتا ہوا رجحان، خاص طور سے نوجوانوں میں لمحۂ فکریہ ہے اور اس کے لیے اور زیادہ مؤثر اقدامات انفرادی و اجتماعی، ہر سطح پر کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔

٭ ٭ ٭


مسائل کا حل منشیات کبھی نہیں ہیں۔ نشہ آور ادویات یا چیزیں انسان کو فرار کا راستہ دکھاتی ہیں، وقتی طور پر مسائل پر پردہ پڑ جاتا ہے، لیکن زندگی اس کے علاوہ کئی خطرناک دوسرے مسائل کی لپیٹ میں آ جاتی ہے۔
حقیقت میں مسائل کم نہیں ہوتے ،بلکہ انسان کی زندگی سے سنجیدگی چلی جاتی ہے۔ اس کی نفسیات ایسی ہو جاتی ہےکہ وہ زندگی کو ایک کھیل اور مذاق تصور کرتا ہے اور صرف دل کا بہلاوا اور مزہ اور لطف کا ذریعہ سمجھتا ہے اور اپنے انجام سے غافل ہو جاتا ہے ،حتی کہ دنیا اور آخرت دونوں نقصان برداشت کر لینے بھی کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا اور اس کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ماؤف ہو جاتی ہے۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مئی ۲۰۲۴