درس قرآن
زمرہ : النور

وَاٰتِ ذَا الۡقُرۡبٰى حَقَّهٗ وَالۡمِسۡكِيۡنَ وَابۡنَ السَّبِيۡلِ وَلَا تُبَذِّرۡ تَبۡذِيۡرًا ۞اِنَّ الۡمُبَذِّرِيۡنَ كَانُوۡۤا اِخۡوَانَ الشَّيٰطِيۡنِ‌ ؕ وَكَانَ الشَّيۡطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوۡرًا ۞وَاِمَّا تُعۡرِضَنَّ عَنۡهُمُ ابۡتِغَآءَ رَحۡمَةٍ مِّنۡ رَّبِّكَ تَرۡجُوۡهَا فَقُلْ لَّهُمۡ قَوۡلًا مَّيۡسُوۡرًا ۞وَلَا تَجۡعَلۡ يَدَكَ مَغۡلُوۡلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَلَا تَبۡسُطۡهَا كُلَّ الۡبَسۡطِ فَتَقۡعُدَ مَلُوۡمًا مَّحۡسُوۡرًا ۞(سورۃ بنی اسرائیل: 26-29)

(اور تم قرابت دار اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق دو اور فضول خرچی نہ کرو، بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا نا شکرا ہے۔اور اگر تمھیںاپنے رب کی رحمت کے انتظار میں جس کے ملنے کی تم کو امید ہو ، کبھی ان سے اعراض کرنا پڑے تو انھیں نرم گفتاری سے جواب دے دو۔ اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھو اور نہ اسے بالکل کھلا چھوڑو کہ ملامت زدہ اور در ماندہ ہوکر بیٹھے رہو۔)

یہ سورہ اسراء کی آیات ہیں، جس میں عقیدۂ توحید کو اخلاق وآداب اور انفرادی و اجتماعی فرائض کا منبع بتایا گیا ہے۔تمام قرآنی اوامر کی بنیاد توحید ، عدل و احسان اور ذوی القربیٰ کے لیے انفاق پر ہے۔
سورۂ نحل کی آیت نمبر 9 میں اس کا اختصار سے ذکر تھا ۔ اور اس سورہ میں بہت تفصیل سے ان اوامر و منہیات کا ذکر ہے،جس کی وجہ سے ان آیات کو قرآنی منشور ، اسلامی زندگی کا دستور کہا جاتا ہے۔ان آیات میں چار دفعات کا ذکر ہے، جس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ آدمی کی دولت ، اس کی کمائی صرف اسی کے لیے نہیں ہوتی ہے، بلکہ اپنی ضروریات میں اعتدال سے خرچ کرتے ہوئے رشتہ دار وں، مسکینوں اور دیگر ضرورت مندوں پر بھی خرچ کرنا واجب ہے۔
• ماقبل آیات میں خدائے واحد کی بندگی کی تاکید اور شرک کی مذمت کی گئی ہے،کیوں کہ تمام عقائد و احکامات عقیدۂ توحید ہی سے پھوٹتے ہیں ،اسی سے افعال و معاملات عبادت میں تبدیل ہوتے ہیں،اور اس کے بعد بہت خوب صورت اسلوب میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید ہے۔ مذکورہ آیات میں وسیع انسانی تعلقات کو مستحکم رکھنے اور باہمی اخوت و محبت کی فضا قائم کرنے پر زور دیا گیا جس کی بنیاد انفاق اور تعاون پر ہے۔

• وآت ذالقربى حقه … حقوق العباد کا دائرہ بہت وسیع ہے ۔والدين اعزه واقرباء سے شروع ہو کر سماج کے کم زوروں اور ضرورت مندوں پر محیط ہوتا ہے۔رشتے اور قرابت کی اہمیت پر قرآن و حدیث میں بار بار توجہ دلائی گئی ہے۔جیسے سورہ نساء کی پہلی آیت میں یہ تاکید ہے۔

واتقوا الله الذي تساءلون به والأرحام

 (اللہ سے ڈرو اور رشتوں کی حق تلفی سے ، انھیں باهم کاٹنے سے ، ایک دوسرے کو بدظن کرنے سے، جذبات مجروح کرنے سے ، اپنے غیظ و غضب کا نشانہ بنانے سے، انھیںاذیت دینے سے بچو !)
رشتے اور قرابت کی تین بنیادیں ہے: نسب ، صہر اور رضاعت۔
تینوں ہی رشتوں کا احترام ان کے حقوق کی ادائیگی کی تاکید ہے، البتہ الأقرب فالا قرب کا اُصول ملحوظ رہنا چاہیے، کیوں کہ بعض لوگ دور کے رشتہ داروں سے اچھے تعلقات رکھتے ہے اور قریبی لوگوں سے قطع رحمی کے مرتکب ہوتے ہیں۔آپؐ کی اس حدیث سے صلہ رحمی کی اہمیت واضح ہوتی۔

عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ قال سمعت رسول االلہ صلی االلہ علیہ وسلم یقول: ’’من سرہ ان یبسط لہ فی رزقہ وان یسألہ فی أثرہ فلیصل رحمہ ‘‘

( جسے یہ بات پسند ہو کہ اس کے رزق میں کشادگی عطا کی جائے اورعمر دراز کی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے ۔)
’’حقہ ‘‘کہہ کر اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا کہ یہ صرف اخلاقی نہیں، بلکہ قانونی حق ہے ،اور مالی اور جسمانی ہر قسم کا تعاون مطلوب ہے ۔ دینے والوں کو احسان جتانے یا لینے والوں کو خفت محسوس کرنے کی ضرورت نہیں ۔ ان حقوق کی ادائیگی شریعت اسلامی کے اہم ترین واجبات میں سے ہے۔ تہذیب مغرب کی طرح اسلامی شریعت کی یہ روح نہیں کہ جب لڑکا عاقل بالغ اور صاحب اختیار ہو جائے تو بیوی کو ساتھ لے کر الگ ہو جائے اور والدین سے صرف رسمی تعلق باقی رہ جائے اور دوسرے رشتہ داروں اور حاجت مندوں کے حقوق سے دست بردار ہو جائے ،دوسرا درجہ مسکین کا ہے، اور قرابت دار مسکین ہو تو اس کا حق دوگنا ہو جاتا ہے۔
’’وابن السبيل ‘‘ (راستے کا بیٹا) یعنی مسافر جو حالت سفر میں ہو، یہ ضروری نہیں کہ وہ مسکین ہو ۔ آپ ﷺ نے مسافر کا یہ حق بتایا ہے کہ کم از کم تین دن تک اس کی ضیافت کی جائے ۔ قیام و آرام کا نظم کیا جائے ۔ دوران سفر دیگر مسافروں سے ہم دردی اور تعاون کا جذبہ ہو تو یہ اسلام کے پیغام پہنچانے کا بہترین ذریعہ ہوگا۔
اپنے مال سے ان حقوق کی ادائیگی انسانی نفس پر بہت گراں گزرتی ہے، جیسے سورۃ البلد میں فرمایا:

فلا اقتحم العقبة وما أدراك ما العقبةفك رقبة او اطعام في يوم في مسغبة(الآیۃ)

 ولاتبذر تبذیرا یعنی مذکورہ لوگوں کے حق دبا کر مال کو اپنی خواہشات کی تکمیل میں نہ اڑاؤ ۔
اسلام مکمل طور پر اپنے نفس کی راحت اور آسائشات پر خرچ کرنے سے نہیں روکتا، بلکہ جائز حدود کے اندر اس کی اجازت ہے ۔ اسراف و تبذیر یہ دونوں لفظ هم معنی ہیں مگر ان کے استعمال میں ذرا فرق ہے ۔
اسراف کسی بھی فعل میں حد سے تجاوز کرنا ،اور اس کا زیادہ استعمال خرچ میں حد سے تجاوز کے لیے ہوتا ہے ۔
قال اللّہ تعالیٰ:

وکلو اواشربوا ولاتسرفوا انہ لا یحب المسرفین

تبذیر:بیج کی طرح بکھیر دینا، نام و نمود کے لیےنا جائز کاموں میں مال کو برباد کرنا ۔
اس آیت میں فضول خرچی کی غایت درجہ مذمت کی گئی ہے ،کیوں کہ ایسا شخص شیطان کا ہمنوا ،اس کی سرگرمیوں میں معاون بن جاتا ہے ۔
کسی کار خیر میں نہ خود انفاق کرتا ہے اور نہ دوسروں کو رغبت دلاتا ہے، بلکہ مفلسی کے ڈر سے ہاتھ باندھ لیتا ہے جس سے اللّٰہ تعالیٰ نے متنبہ فرمایا :

 الشیطٰن یعدکم الفقر ویامرکم بالفحشاء واللہ یعدکم مغفرۃ منہ و فضلا واللہ واسع علیم

فضول خرچی کا تعلق قلت و کثرت سے نہیں، بلکہ خرچ کے مقام ومحل سے ہے۔مال ودولت کے بے جا استعمال کی دو صورتیں ہیں، اکتناز و ادخار اور تبذیر یعنی ذخیرہ اندوزی اور فضول خرچی ،اسلام میں دونوں ہی مذموم ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’یقیناً اللّٰہ تعالیٰ تمہارے لیے تین چیزوں کو ناپسند کرتا ہے ۔قیل و قال ، اور کثرت سے سوال اور ضیاع مال۔‘‘ (بخاری: 1477)
مزید فرمایا :

کلوا واشربوا و تصدقوا والبسوامالم یخالطہ اسراف

(کھاؤ پیو اور صدقہ کرو اور ایسے لباس پہنو جس میں اسراف ،خود پسندی اور غرور شامل نہ ہو۔)
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے :

 کفی بالمرء سرفاأن یاکل کل ما اشتھی

( ہر پسندیدہ چیز کو کھانا (اس کے حصول کے درپے ہو نا) بھی اسراف ہے۔)
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جائز اور مباح کاموں میں بھی زیادہ خرچ کرنا اسراف ہے۔پانی کا ضیاع حد سے زیادہ ہوتا ہے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہر جاری پر وضو کرنے والے کو بھی اس سے منع کیا ہے ۔

تبذیر کے نقصانات کا جائزہ

 یہ لوگ اللہ کے یہاں مبغوض ہوتے ہیں ۔

انہ لا یحب المسرفین

تبذیر سے خود غرضی ،خود نمائی، فخرو غرورجیسے اخلاقی رذائل پروان چڑھتے ہیں۔
اس کے برے اثرات صرف افراد تک محدود نہیں رہتے، بلکہ پورا سماج اس سے متاثر ہوتا ہے ،خواہشات کی تکمیل ہی مقصد زندگی بن جاتا ہے ۔
اعلیٰ قدریں مفقود ہو جاتی ہیں ۔ جیسے اس وقت مسلم سماج میں بھی شادی کے اسراف اور اس سے متعلق دوسرے رسوم و رواج تباہی کا سبب بن گئے ہیں ۔ اگر اس برائی پر قابو پا لیا جائے تو مسلم قوم کی معاشی پستی کا تدارک ہو سکتا ہے مگر کسی نہ کسی حد تک دین دارانہ مهذب تعلیم یافتہ طبقہ بھی اس میں شامل ہے۔ یہی اسباب ہیں جن کی وجہ سے فضول خرچ شیطان کا بھائی بن جاتا ہے ، وہ کسی کار خیر میں حصہ نہیں لیتا ،بلکہ شیطان کی طرح اپنے رب کا نا شکر ابن جاتا ہے ،اور پھر طبقاتی تفاوت سے امیر وغریب کےما بین نفرت اوردشمنی کی خلیج
بڑھتی جاتی ہے ۔
بحیثیت مجموعی وہ قوم ترقی کے مدارج طے کرنے سے محروم ہو جاتی ہے، جس کی زندہ مثال هم ہندوستانی مسلمان ہیں، حالانکہ اسلام نے وہ اصول بنائے ہیں جس سے مال بہتر طریقے سے سماج میں گردش کرتا رہے ۔

کی لایكون دولة بين الاغیاءمنكم

صارفیت اور فضول خرچی کے تعلق سے سید سعادت اللہ صاحب کے یہ اقتباسات آیات کی مناسبت سے مفید ہوں گے:
’’فضول خرچی کی یہ انتہاہے کہ آنے والی نسلوں کے لیے نہ پانی باقی رہے گا نہ صاف ہوا۔صارفیت اور فضول خرچی کا سرمایہ دارانه مغربی تہذیب کی اہم بنیاد ہے۔ دنیا بھر میں بے کار خریداری کا جنون پیدا کرنا ۔
خریداروں کو نت نئے طریقوں سے لبھانا ۔ اس صارفیت پسند کلچر نے دولت کی بےپناہ ہوس کو جنم دیا ۔ دولت کمانا زندگی کی واحد دل چسپی اور مقصد بن گیا ۔ قابلیت کا پیمانہ پیسہ کمانے کی صلاحیت پر ہے ۔ صارفیت ہی نے سود کی لعنت کو جنم دیا ۔ ہر آدمی کی یہ خواہش ہے کہ اس کے پاس اچھا گھر ہو، عمدہ کار ہو ۔ آسائش کی ساری چیزیں موجود ہوں اور اس کی تکمیل کے لیے سودی قرضوں کا چلن شروع ہوا ۔مغربی تہذیب کے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ اس مسئلہ کا تعلق بھی خواتین سے بڑا گہرا ہے ، گھر کا بجٹ ، اشیاء صرف کا انتخاب ، معیار زندگی کا تعین یہ سب اکثر گھرانوں میں عورتوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے ۔ خواتین چاہیں تو اس سیلاب کے آگے بند باندھ سکتی ہیں ۔‘‘
وإما تعرضن عنهم : قرآنی تعلیمات کی خوب صورتی دیکھیےکہ اگر کوئی شخص ادائے حق کے قابل نہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ حق داروں سے وعدہ کرے کہ خوش حالی میسر آنے پر وہ ان کا حق ادا کرے گا، اور ان سے نرمی سے گفتگو کرے ،ان کی دل داری ملحوظ رکھے ، اور ساتھ اپنے رب کی رحمت و فضل کے لیے دعا کرتا رہے۔
ولا تجعل یدک مغلولة :توازن اور اعتدال اسلامی نظام کا بنیادی خاصہ ہے اور افراط و تفریط سے برائیوں کی راہ کھل جاتی ہے۔ اس آیت میں بخل او اسراف سے بچ کر اعتدال کی راہ اختیار کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے اس کے علاوہ بے شمار آیات میں ترغیب و تشویق کے ساتھ انفاق پر ابھار اگیا ہے اور شح نفس کی مذمت کی گئی۔
سورہ فرقان کی آیت نمبر67 میں اہل ایمان کی یہ صفت بتائی گئی :

والذين إذا انفقوالم یسرفواولم یقترواوکان بین ذالک قواما.

اللہ کی رضا اور جنت کی طلب ایک بلند محرک ہے جو انفاق اور اکتساب میں اعتدال پر قائم رکھتی ہے ۔ اس کے برعکس جس کو آخرت پر یقین نہ ہو وہ مال میں تصرف پر خود کو آزاد اور خود مختار سمجھتا ہے اور اسراف و تبذیر کر کے دادو تحسین لوٹنا چاہتا ہے۔ ان آیات سے یہ پیغام ملتا ہے کہ اجتماعی زندگی میں تعاون، ہم دردی ،حق شناسی کی روح کارفرما ہو ۔ انفاق میں اعتدال اور میانہ روی ہو، ادائیگی حق سے معذوری کی صورت جب خوش خلقی کا مظاہر ہو اور اپنے رب سے عفوو کرم کی دعا کرتے ر ہیں، ذلك

فضل الله يؤتيه من يشاء۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:


دنیا بھر میں بے کار خریداری کا جنون پیدا کرنا ۔ خریداروں کو نت نئے طریقوں سے لبھانا ۔ اس صارفیت پسند کلچر نے دولت کی بےپناہ ہوس کو جنم دیا ۔ دولت کمانا زندگی کی واحد دل چسپی اور مقصد بن گیا ۔ قابلیت کا پیمانہ پیسہ کمانے کی صلاحیت پر ہے ۔ صارفیت ہی نے سود کی لعنت کو جنم دیا ۔ ہر آدمی کی یہ خواہش ہے کہ اس کے پاس اچھا گھر ہو، عمدہ کار ہو ۔ آسائش کی ساری چیزیں موجود ہوں اور اس کی تکمیل کے لیے سودی قرضوں کا چلن شروع ہوا ۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مئی ۲۰۲۴