ٹی ٹائم
زمرہ : ٹی ٹائم

چارہ

ایک مولوی صاحب کسی گاؤں میں پہنچے۔ انھیں تبلیغ کا بڑاشوق تھا۔ جمعہ کا خطبہ پورے ایک ہفتے میں تیار کیا، لیکن قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ جمعہ کے دن صرف ایک نمازی مسجد آیا۔ مولوی صاحب کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں۔ انھوں نے اس شخص سے کہا کہ تم واحد آدمی ہو جو مسجد آائے ہو۔ بتاؤ مجھے کیا کرنا چاہیے؟
وہ شخص بولا:
’’ مولوی صاحب! میں ایک دیہاتی آدمی ہوں۔ مجھے اتنا پتہ ہے کہ میں اگر بھینسوں کے لیے چارہ لے کر پہنچوں گا، اور وہاں صرف ایک بھینس ہو تو میں اسے چارہ ضرور دوں گا۔‘‘
مولوی صاحب بہت خوش ہوئے۔ انھوں نے بھی لمبی چوڑی تقریر کر ڈالی۔ اس کے بعد انھوں نے دیہاتی سے پوچھا کہ بتاؤ خطبہ کیسا تھا؟
دیہاتی نے لمبی جمائی لی اور کہا:
’’ مولوی صاحب! میں ایک دیہاتی آدمی ہوں، صرف اتنا جانتا ہوں کہ اگر میرے سامنے ایک بھینس ہوگی ،تو میں ساری بھینسوں کا چارہ اس کے آگے نہیں ڈالوں گا۔‘‘

قبولیت دعا

پوچھا گیا : ’’دعا کے لیے کیا ضروری ہے ؟‘‘
کہا : ’’دھیان ۔‘‘
پوچھا : ’’دھیان کیسے ملے ؟‘‘
کہا : ’’وجدان سے ۔‘‘
پوچھا : ’’وجدان کیا ہے ؟‘‘
کہا : ’’سارے وجود کا ایک نقطے پر
مرتکز ہو جانا ۔‘‘
پوچھا : ’’کوئی مثال ؟‘‘
کہا : ’’کسی ماں سے اس کا بچہ اوجھل کردو،اسے بچے کی گمشدگی کی اطلاع دے کراسے اتنا کہہ دو کہ بس اب دعا کر نا، پھر دیکھو کہ ماں کا سارا وجود کیسے دعا میں ڈھل جاتا ہے ۔حالت اضطرار میں مانگی جانے والی دعا کی قبولیت کی راہ میں کوئی شے حائل نہیں ہو سکتی۔‘‘

احسان

مختار مسعود بیوروکریٹ تھے اور مصنف بھی ، وہ2017ء میں انتقال کر گئے، لیکن 2002 ء میں انھوں نے اپنی ساری جمع پونجی اکٹھی کی، جو کہ دس کروڑ روپیہ بنی، اور اُسے آزاد کشمیر کی ایک فاؤنڈیشن کے حوالے کر دیا، اور انھیں اسکول بنانے کا کہا ۔ فاؤنڈیشن نےا سکول بنا دیا اور مختار مسعود صاحب کو افتتاح کی دعوت دے دی ، مختار مسعود صاحب نے یہ دعوت تین شرائط کے ساتھ قبول کی ۔
ایک کہ افتتاح کی کوئی تقریب نہیں ہو گی ۔
دو کہ افتتاح چھٹی والے دن ہو گا ۔
تین کہ ڈونیشن کی کوئی تشہیر نہیں کی جائے گی ۔
یوں مختار مسعود صاحب ایک اتوار کوا سکول کے افتتاح کے لیےچلے گئے ، وہ خالی کلاس روم میں گئے ، بلیک بورڈ پر ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم ‘‘ لکھا اور واپس آ گئے ۔
جب کسی نے مختار مسعود صاحب سے پوچھا کہ آپ نے یہ ا سکول کھولنے کے لیے چوکی ( گاؤں کا نام ) کا انتحاب کیوں کیا؟ تو مختار مسعود صاحب نے جواب دیا :
’’ میرے دادا کشمیر سے چوکی کے راستے پنجاب میں داخل ہوئے تھے ، وہ رات چوکی میں رکے تھے اور چوکی گاؤں کے لوگوں نے اُن کی بہت خدمت کی تھی ، میرےدادا ساری عمر چوکی کے لوگوں کی تعریف کرتے رہے، میں اس گاؤں میں اسکول بنا کر یہ احسان اتارنا چاہتا ہوں۔‘‘
یہ واقعہ دو حصوں پر مشتمل ہے ، پہلا حصہ ڈونیشن ، سادگی اور تشہیر پر مشتمل ہے۔ اُس بندے نے اپنی زندگی کی ساری جمع پونجی ڈونیٹ کر دی اور کسی کے سامنے نام تک لینا گوارا نہیں کیا ،جب کہ دوسرا حصہ پہلے حصے کو بھی پیچھے چھوڑ دیتا ہے ۔ بڑے لوگ ایسے ہی بڑے نہیں ہوتے ، اُن کے دادا نے ایک رات گاؤں میں گزاری اور ساری عمر اُس گاؤں کی مہمان نوازی کی تعریف میں گزار دی،پھر پوتے نے دادا کی وہ بات پلے باندھ لی اور ساری عمر کی جمع پونجی اُس گاؤں پر لگا دی ۔

– جاوید چوہدری

تضاد

٭عربى اديبہ احلام مستغانمى نے اپنے ادب مىں مردوں كى ہجو كى اور مردوں سے عورتوں كو ڈراىا ، لىكن اس نے خود چار بار شادى كى۔
٭محمود دروىش عربى ادىب اور شاعر ہے، اس نے اپنے اشعار مىں اسرائيل كى ہجو كى لىكن اس كى بيوى اسرائىلى تھى۔
٭متنبى بہت بڑا عرب شاعر تھا، اس نے اپنے بارے مىں كہا كہ تلوار اور صحراء مجھے اچھى طرح جانتے ہىں، لىكن اتنا بزدل تھا كہ اپنے قاتل كے سامنے تلوار تك نہ اٹھا سكا۔
٭ڈىل كارنىگى امرىكى مصنف اور ادىب ،جس نے مشہور زمانہ كتاب: How to Stop Worrying and Start Living لكھى ، لىكن خودا سٹرىس مىں آكر اپنى زندگى كا خاتمہ خودكشى كى صورت مىں كىا۔
٭جان جاك روسو انگرىزى مصنف اور ادىب ،جس نے تربىت اولاد پر كئى كتب لكھىں، لىكن اس كے اپنے بچوں نے اسے اولڈ ہوم مىں داخل كرواىا۔
اس لىے ہر چىز پڑھىں اور سنیں، لىكن ہر الم غلم كو سچ نہ سمجھىں۔ اس وقت دنىا انتہائى فضول، لایعنی چیزوں اور جھوٹ سے بھرى ہوئى ہے۔

– عبدالباسط عابد

کرکٹ

کرکٹ دراصل گڈریوں کا کھیل تھا۔ خود اس کا نام گدڑیوں کی لاٹھی کی یاد دلاتا ہے ۔ کرک گڈریوں کی اس لاٹھی کو کہتے تھے جو ایک سرے پر مڑی ہوتی تھی اور بھیڑوں کو ہانکنے کے کام آتی تھی۔ اس قسم کی چھوٹی لاٹھی کو کرکٹ کہتے تھے۔ گدڑیوں نے اپنا وقت گزارنے کے لیے اپنی اس لاٹھی سے اس کھیل کو کھیلنا شروع کیا اور1770ء تک کرکٹ کے بلے بجائے سیدھے ہو نے کے، آگے سے مڑے ہوتے تھے ۔

– کتاب:لفظوں کی انجمن میں،از:سید حامد حسین

وسائل کا استعمال

مرغی کے انڈے کے چپٹے سر ےمیں اللہ تعالیٰ نے آکسیجن کا ایک بلبلہ رکھا ہے۔ انڈوں پر بیٹھی ہوئی مرغی بغور دیکھ دیکھ کر اس سرے کو اوپر کرتی رہتی ہے۔آپ نے اکثر اُسے چونچ سے انڈوں کو کریدتے ہوئے دیکھا ہوگا، اُس وقت وہ اصل میں یہی کام کر رہی ہوتی ہے۔اللہ نے مرغی کو بھی سائنس دان بنایا ہے۔
بچے کا منہ اوپر کی جانب بنتا ہے، اگر انڈے کا چپٹا رُخ اوپر رہے تو چوزہ تخلیق کے مراحل کی تکمیل ہوتے ہی اُس بُلبلے سے سانس لینا شروع کرتا ہے، لیکن اس کے پاس مہلت محض اتنی ہوتی ہے کہ وہ آکسیجن کے اس بُلبلے کے ختم ہونے سے پہلے پہلے اپنے خول کو توڑ کر باہر نکلے،باہر آکسیجن کا سمندر اس کے انتظار میں ہوتا ہے۔
چناں چہ اگر وہ اُس بُلبلے کو ہی زندگی سمجھ کر استعمال کرے اور خول کو توڑنے کی کوشش نہ کرےتو پھر کچھ ہی لمحوں بعد وہ اندر ہی اندر مر جاتا ہے۔اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب چوزہ خول کو اندر سے توڑ نہیں پاتا، تو وہ بولتا اور فریاد کرتا ہے،پھر ماں باہر سے چونچ مار کر اُس خول کو توڑ دیتی ہے، اور یوں وہ آزاد دنیا میں آ جاتا ہے۔
ہم بھی ایک خول میں بند ہیں، جہاں ہماری ضروریات کا مختصر سا سامان ہے جیسے بینک بیلنس ہوگیا ، سیونگ ہوگئی ، محدود وسائل ہوگئے ۔ ہم بس ان ہی کو استعمال کرتے رہتے ہیں ، ان ہی کو کھاتے رہتے ہیں ،اگر ہم بھی اس خول سے باہر نہ نکلے تو ایک دن یہ وسائل ختم ہوجانے ہیں ، ہماری زندگی میں نہیں تو ہماری نسلوں میں ضرور ختم ہو جائیں گے ۔اس لیے ہمیں ان وسائل کو استعمال کرنے کے بجائے ان سے مزید وسائل پیدا کرنے چاہئیں ، تاکہ ہمارے نصیب میں مسائل کی بجائے وسائل کے اسباب ہوں ،اور یہی ترقی ہے ۔

بدخط

صفی الدین ہندی بدنویسی کے حوالے سے کافی مشہور تھے، لوگ اکثر انھیں ان کی بدخطی کا طعنہ دیا کرتے تھے۔وہ اپنے متعلق بیان کرتے ہیں کہ مجھے ایک دفعہ کتابوں کے بازار میں ایسی کتاب ملی جس کا خط میرے خط سے بھی بدتر تھا، میں نے خوشی خوشی وہ کتاب اس کی متعینہ قیمت سے زیادہ قیمت میں خرید لی؛ تاکہ اب اگر کوئی مجھے بدخطی کا طعنہ دے اور کہے کہ تم سے بڑا بدخط دنیا میں کوئی نہیں، تو میں بطور دلیل اس کے سامنے یہ کتاب پیش کرکے اس کا منھ بند کروا سکوںگا،لیکن جیسے ہی میں کتاب لےکر گھر پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہ تو وہی کتاب ہے جس کی کتابت میں نے خود کافی پہلے کی تھی۔

ظالم بادشاہ

‏جب ہم نے پڑھا کہ سکندر اعظم 356 ق م میں پیدا ہوا اور 323 ق م میں وفات پائی تو ماسٹر جی سے پوچھا کہ یہ کیسے؟ ایک آدمی 356 میں پیدا ہو اور 323 میں مرے؟ تو ماسٹر جی نے سوال کا سنجیدہ لہجے میںجواب دیا کہ پرانے زمانوں میں ظالم بادشاہ ایسے ہی مرا کرتے تھے۔

– مشتاق احمد یوسفی

 سوئی اور قینچی

ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ درزی اپنے چھوٹے بیٹے کو دکان پر ساتھ لے گیا اور کپڑوں کی کٹائی کرتا اور ساتھ ہی سوئی دھاگے سے سلائی کرتا، جب قینچی سے کٹائی کرتا تو بعد میں قینچی کو اپنے پاؤں کے نیچے دے دیتا اور جب سوئی دھاگے سے سلائی کرتا تو بعد میں سوئی کو اپنی ٹوپی میں لگا دیتا۔
جب کئی بار اپنے باپ کو ایسا کرتے دیکھا تو بیٹے سے رہا نہیں گیا، اور اپنے درزی باپ سے وجہ پوچھی، جس پر باپ نے کیا ہی معقول جواب دیا کہ بیٹا !یہ جو قینچی ہے ناں میں اس کو ہر بار کٹائی کے بعد اس لیے پاؤں کے نیچے دبا لیتا ہوں، کیوں کہ یہ کاٹنے کا کام کرتی ہے اور سوئی کو اس لیے ٹوپی پر لگا لیتا ہوں کیوں کہ یہ جوڑنے کا کام کرتی ہے۔
لہٰذا، جو کاٹنے کا کام کریں انھیں پاؤں تلے رکھنا چاہیے ،اور جو جوڑنے کا کام کریں، انھیں سر پر رکھنا چاہیے۔یہی کچھ آج کل دیکھنے کو ملتا ہے، جو لوگ نفرتیں پھیلاتے ہیں وہ کاٹنے کا کام کرتے ہیں ،اور جو محبتیں پھیلاتے ہیں وہ جوڑنے کا کام کرتے ہیں،اس لیے ہمیں خود فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کس کو سر پر بٹھانا ہے اور کس کو پاؤں تلے رکھنا ہے۔

دائرہ

دائرے چھوٹے بڑے ہر قسم کے ہوتے ہیں، لیکن یہ عجیب بات ہے کہ قریب قریب سبھی گول ہوتے ہیں۔ ایک اور عجیب بات ہے کہ ان میں قطر کی لمبائی ہمیشہ نصف قطر سے دگنی ہوتی ہے۔ جیومیٹری میں اس کی کوئی وجہ نہیں لکھی گئی۔ جو کسی نے پرانے زمانے میں فیصلہ کر دیا، اب تک چلا آ رہا ہے۔ ایک دائرہ اسلام کا دائرہ کہلاتا ہے۔ پہلے اس میں لوگوں کو داخل کیا کرتے تھے، آج کل داخلہ منع ہے، صرف خارج کرتے ہیں۔

– کتاب:اردو کی آخری کتاب،از:ابن انشاء

پچیس لفظوں کی کہانی
بنگلہ

’’دونوں کے اپنے بنگلے ہیں،اپنی کمپنی ہے،ایک بیٹا امریکہ میں رہتا ہے اور ایک کینیڈا میں۔‘‘
’’اور آپ؟‘‘پوچھا۔
دھیرے سے بولے:
’’اولڈ ایج ہوم میں۔‘‘

– احمد بن نذر

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مئی ۲۰۲۴