پارلیمانی انتخابات آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟

جن کی بنیاد ہی فساد و عناد پر ہو،اور جن کی سرشت میں ہی منافرت و تعصب شامل ہوں،وہ وقتی طور پر خواہ اپنے مکروہ چہروں پر خواہ کیسے بھی خوش نما مکھوٹے لگا لیں،مگر جب وقت پڑتا ہے تو خیالات سے تعفن و غلاظت کےاٹھتے بھبھوکے اور چہروں سے بد نمائی کے نشانات باوجود ہزارہا کوششوں کے نہ ہی چھپ پاتے ہیں،نہ ہی ان کے پوشیدہ رکھے جانے میں ادنیٰ کامیابی بھی حاصل ہو پاتی ہے۔کہاوت مشہور ہے کہ کاٹھ کی ہنڈیا بار بار نہیں چڑھتی،ایسے ہی چکنی چپڑی باتیں کرکے منہ میں رام بغل میں چھری رکھنے والوں کے پاپ کا گھڑا بھی بالآخر ایک نہ ایک دن بیچ چوراہے پر پھوٹ ہی جاتا ہے۔فریب دینے والا چاہے کوئی ایک شخص ہو یا پوری جماعت،بہر حال ملمع سازی اور دھوکہ دہی کا یہ کاروبار زیادہ دیر نہیں چل پاتا۔
فی الوقت کچھ ایسا ہی پارٹی ملک کے سامنے ہے۔وہ سیاسی جماعت جس نے اپنی سابقہ حکومت پر کرپشن کے الزامات لگائے،انھیں ملک کو لوٹنے والا بتایا،ملک کی ترقی کی راہ کا روڑا باور کروایا،پھر اپنی ہوس اقتدار کو تسکین دینےکےلیے پارٹی نے مذہب کا بھی خوب خوب سہارا لیا،ایک مخصوص مذہب،اس کے معابد،درس گاہوں،تنظیموں،جماعتوں اور سربرآوردہ شخصیات کو ہدف ملامت بناکر اقتدار پر قابض ہونے کا خواب دیکھا اور شومی قسمت کہ اس میں کام یاب بھی ہو گئی،مگر دس برس میں اپنے اقتدار کے دوران دیکھا گیا کہ اس کے وعدوں کی حقیقت اردو شاعری کے محبوب جفا پیشہ کے خوش کن وعدوں سے زیادہ نہیں ہے۔
اس وقت جب کہ ملک میں ہونے والے عام انتخابات کے 7 مرحلوں میں سے 2 مرحلوں کی ووٹنگ مکمل ہو چکی،پولنگ کی شرح میں گذشتہ دو انتخابات یعنی 2014 ءاور 2019 ءکے مقابلے میں واضح کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔پولنگ کی گھٹتی ہوئی شرح کے تعلق سے سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پولنگ کی شرح میں یہ کمی جہاں برسر اقتدار سیاسی جماعت اور اس حلیفوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہو سکتی ہے،وہیں انتخابات سے عوام کی اکتاہٹ اور اور نوجوانوں میں پنپنے والی ناامیدی کا صاف اشارہ ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ پہلے مرحلے کے مکمل ہوتے ہی روزگار،ترقی،امدادی رقوم اور دیگر کاموں کو ’’مودی کی گارنٹی‘‘ کا نام دے کر حصولیابیاں شمار کروانے والے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے ہم نواؤں کے سر اچانک ہی بدل گئے،اور ان کی گاڑی ترقی کی شاہ راہ سے اچانک نیچے اتر گئی ،اور اترتے اترتے مذہبی منافرت کے کیچڑ میں جا گری۔
دیکھتے ہی دیکھتے -سچ یا جھوٹ- اپنے دس سالہ دور اقتدار میں ترقیاتی منصوبوں کو عملی پہنائے جانے کا تذکرہ کرنے کے بجائے ایک مخصوص مذہب اور اس کے ماننے والوں کو ٹارگٹ کیا جانے لگا کہ یہی ان کا پسندیدہ موضوع بھی ہے،اور چوں کہ انھوں نے گذشتہ دس برس ہی کیا؟اس پہلے بھی ہمیشہ یہی کیا ہے،سو انھیں اسی میں مہارت بھی ہے،اسی لیے آخرش:
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
تو اندازہ ہوا کہ ان کی زنبیل سے یہی کچھ برآمد ہونا تھا،کیوں کہ اس کے سوا ان کے پاس کچھ ہے ہی نہیں،لیکن اس سے اس پارٹی کو نقصان اور اس کے حریفوں کو یہ فائدہ ہوا کہ جمہوریت کی سب سے بڑی طاقت یعنی عوام کے ایک بڑے طبقے کو اندازہ ہو گیا کہ گذشتہ دس سالوں کے اپنے نکمے پن کو چھپانے کےلیے ان کی جانب سے پھر وہی ’’دھرم کارڈ‘‘ کھیلا جا رہا ہے،لہٰذا عمومی طور پر عام آدمی کی جانب سے اس کو مسترد کر دیا گیا اور یہ کہا گیا کہ ہمیں اب کرپشن،مہنگائی،بے روزگاری،تعلیم،بجلی،پانی،سڑک اور دیگر ترقیاتی امور اور ان سے متعلق منصوبوں کو زمین پر اتارے جانے کے بارے میں بات کرنی اور سننی ہے۔
سوشل میڈیا اور نیوز چینل پر عوامی رائے دیکھیں اور سنیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ موجودہ حکمراں جماعت اور اس کے مکھیا سے تنگ آ چکے ہیں اور اب مذہبی منافرت میں غرق و مدہوش رہنے کے بجائے اپنے بنیادی مسائل کا حل چاہتے ہیں،تاہم یہ کوئی دو اور دو چار کی طرح اتنا بھی صاف نہیں ہے کہ اس طرح کی آراء پر آنکھ بند کرکے یقین کر لیا جائے اور انھیں ہی سب کچھ سمجھ کے مطمئن ہو جایا جائے۔یوں بھی ابھی سات میں سے محض دو مرحلوں کی پولنگ مکمل ہوئی ہے،ابھی مزید مرحلے باقی ہیں،جو انتخابی نتائج کو بالکل تبدیل کر سکتے ہیں۔اس انتخاب میں اپوزیشن کا متحد ہو کر لڑنا ملک کے حق میں ہے،گوکہ یہ بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا،مگر:
ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا
بہرحال،ابھی ’انڈیا‘ جس شدت کے ساتھ مقابلہ کر رہی ہے،اس نے حزب اقتدار کے چھکے چھڑا دیئے ہیں،اور انھیں یہ بتلا دیا ہے کہ یہ 14 ءاور 19ءکے انتخابات نہیں ہے کہ نیٹ گول کے ذریعہ جیت حاصل کر لی جائےگی۔پہلے حکومت کے نشے میں چور جو لوگ اپوزیشن لیڈران کو منہ لگانا بھی اپنی کسر شان سمجھتے تھے،وہ راہل گاندھی کے بیان پر وضاحت دیتے ہوئے بیک فٹ پر نظر آرہے ہیں۔گذشتہ انتخابات میں انھوں نے اپوزیشن پر صرف حملے کیے تھے،اس لیے جب ادھر سے اقدامی یا جوابی کارروائی ہو رہی ہے تو ان کے اوسان خطا ہوئے جا رہے ہیں،اور انھیں دو قدم پیچھے ہٹ کر یہ وار روکنا پڑ رہا ہے،یہ یقیناً اپوزیشن کی بڑی کام یابی ہے کہ اس نے انھیں جواب دینے اور وضاحت کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔اس انتخاب کا نتیجہ چاہے کچھ بھی ہو،راہل گاندھی خصوصاً اور ’انڈیا ‘ کے دیگر لیڈران یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ:
مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا
زمینی حقائق پر نگاہ رکھنے والوں کی بات تسلیم کی جائے تو یہ بات یقیناً خوش آئند اور سکون بخش رہی ہے کہ اب تک کے دونوں مرحلوں میں بعض علاقوں کے استثناء کے ساتھ مسلمانوں میں پولنگ کی شرح میں گذشتہ دونوں عام انتخابات کے بالمقابل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ظاہر ہے کہ ووٹنگ کے تئیں یہ بیداری مختلف شخصیات،تنظیموں ،اداروں اور جماعتوں کی مشترکہ جد وجہد کا نتیجہ اور ان کی کوششوں کا ثمرہ ہے،اب بھی جن علاقوں اور انتخابی حلقوں میں پولنگ نہیں ہوئی ہے،وہاں عوام کو اس تعلق سے آگاہ کیے جانے اور انھیں اپنی ذمہ داری کے احساس دلائے جانے کی سخت ضرورت ہے۔اس حوالے سے عموماً خواتین کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے،جب کہ ضروری ہے کہ انھیں بھی سیاسی معلومات فراہم کی جائیں اور انھیں حق رائے دہی کے استعمال کےلیے مستعد کیا جائے۔
بعض تجزیہ کاروں کی یہ رائے بھی اہمیت رکھتی ہے کہ اس پارلیمانی انتخات کے دو مرحلوں میں بظاہر تبدیلی کو دستک دیتے دکھلایا جا رہا ہے،مگر یہ ایسا ہی ہو سکتا ہے جیسا اتر پردیش کے پچھلے اسمبلی انتخاب میں ہوا تھا کہ ابتدائی دو مرحلوں میں مسلم اکثریتی علاقوں میں ووٹنگ ہوئی تھی،سو اس کی بنیاد پر اپوزیشن کی جیت کے چرچے ہو رہے تھے،مگر یہ ایک اسٹریٹجی تھی کہ اس کے ذریعہ رولنگ پارٹی نے اپنے ووٹرز کو چوکنا کر دیا تھا،پھر نتیجہ جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے،اس لیے محض دو مرحلوں کے بعد ہی ریزلٹ ڈیکیلیئر کر دینا سیاسی سوجھ بوجھ کی کمی کا ثبوت اور قبل از وقت خوش فہمی میں مبتلا ہونا کہا جائےگا۔
گوکہ اس رائے سے اختلاف کی کافی گنجائش موجود ہے ،مگر امکانی طور پر اسے بھی پیش نظر رکھا جانا چاہیے کہ ای وی ایم میں میں بھی گڑبڑی کی جا سکتی ہے،ورنہ کیا وجہ ہے کہ الیکٹرول بانڈ کو سپریم کورٹ کے ذریعہ غیر قانونی اور غیر دستوری قرار دیئے جانے پرچپ شاہ بنے رہنے والے وزیر اعظم نریندر مودی ای وی ایم پر سپریم کورٹ کی رائے آتے ہی بلیوں اچھلنے لگے اور کہا کہ بیلیٹ پیپر کا دور کبھی واپس نہیں آئے گا۔کیا ای وی ایم کے تعلق سے اندیشوں اور خدشات کو اس سے تقویت نہیں ملتی؟کہ:
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
جہاں ایک طرف ’’نیائے پتر‘‘(انصاف نامہ) کے غلغلے ہیں وہیں دوسری جانب 400 پار کا نعرہ ہوا میں بلند ہو رہا ہے،ظاہری آثار و قرائن کی روشنی میں کوئی رائے تو قائم کی جا سکتی ہے،مگر پل پل تبدیل ہونے والے سیاسی منظرنامے کے بارے کوئی یقینی،فیصلہ کن اور حتمی رائے نہیں دی جا سکتی۔چناں چہ ابھی ہی یہ کہہ دینا بہت عجلت میں اور قبل از وقت ہوگا کہ اقتدار کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مئی ۲۰۲۴