الیکشن کے بعد تبدیلی کا منصوبہ
زمرہ : ادراك

آج ملک جس دو راہے پر کھڑا ہے، وہ کسی کی آنکھ سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ وزیر اعظم کے بیان سے بات بالکل صاف ہے کہ یہ ووٹ بھی نفرت کی بنیاد پر طلب کیے جارہے ہیں اور ووٹرز کو خوش کرنے کے لیے فیصلے بھی اسی بنیاد پر کیےجائیں گے ۔
ایک طرف خوف کا ماحول ہے دوسری طرف کوششیں ہیں کہ ووٹرز میں بیداری لائی جائے اور تبدیلی کے لیے حوصلے بلند رکھے جائیں ۔تبدیلی کے لیے جاگنے والے بہت دیر سے جاگے ، جاگنے والوں کو تاہم کوسا نہیں جاتا، ہر انقلاب سے پہلے جاگنا اہم ہوتا ہے اور جاگنے والے بنیاد کا پہلا پتھر ثابت ہوتے ہیں، توقعات بہرحال اتنی جلدی وابستہ نہیں کی جاسکتیں ۔
نفرت کے اس ماحول سے زندہ دل اور امن پسند، انصاف پسند افراد نالاں ہیں۔ بلاشبہ اس کا حل یہی ہے کہ عوام میں اپنے ووٹ کےدرست استعمال کے لیے بیداری لائی جائے ۔ ذی شعور تحریکات کوششیں بھی کر رہی ہیں، یہ کوششیں چند ماہ اور سال دو سال میں انقلاب نہیں لاتی ہیں، انقلابات کی تاریخ بتاتی ہے کہ انقلابات کی ایک پوری سائنس ہوتی ہے۔ آئیے! اس پر ایک کہانی سنتے ہیں۔
انگریزی یہ مقولہ
It takes twenty years in an over night change
( راتوں رات تبدیلی آنے میں بھی بیس سال لگ جاتے ہیں ۔)
یہ جملہ ایک نوبل پرائز مین نے اپنی کامیابی پر ہونے والے انٹرویو میں اس وقت کہا، جب ٹی وی اینکر نے سوال کیا کہ کیسا محسوس کررہے ہیں آپ؟ اس وقت جب اپنی جوانی عسرت وتنگ دستی میں گزار کر آپ آج ایک نوبل پرائز مین ہیں، راتوں رات آئی اس تبدیلی کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟ تب اس نوبل پرائز مین نے کچھ لمحے اس اینکر کی طرف دیکھا، دیکھنے کے انداز نے اس سفر کی ساری داستان دیکھنے والی آنکھ کو سنادی، اور اس کی زبان سےیہ جملہ نکلا :
It takes twenty years in an over night change
یہ جملہ دہرانے والا شخص گارشیا مارکیز تھا، جو اپنااسکول مکمل کرنے کے بعد پڑھائی کے لیے دوسرے ملک چلا آیا۔ یہاں کا ماحول اس کو کچھ خاص نہیں بھایا، اس نے کتابوں میں پناہ لی ،خوش قسمتی سے اسکول میں اسے کلاسیک ادب سے روشناس کرایا گیا۔جلد ہی اس کی ملاقات چلی کے لیجنڈری شاعر پابلونرودا کے مداحین کے گروپ سے ہوگئی۔ اسے ہسپانوی شاعری پڑھنے کا موقع ملا۔ یونیورسٹی میں اس نے قانون کے مضمون کا انتخاب کیا، مگر وہ قانونی کتب کے بجائے دن رات شاعری ہی پڑھتا رہتا۔ ایک رات اس کے دوست نے نثر کی کتاب پڑھنے کو دی۔ نصف شب کو اپنے خستہ حال بستر میں لیٹ کر اس نے کتاب پڑھنی شروع کی۔ یہ بیسیویں صدی کے سب سے بڑے علامتی فکشن نگار کافکا کا ناول میٹا مارفوس (The Metamorphosis) تھا۔ اس کہانی نے اس کے زندگی کی کاپا پلٹ دی۔ اس نے کہانی لکھنی شروع کی۔اپنی صحافتی جاب کے ساتھ برسوں تنہائی میں گزارتا رہا، اور گھنٹوں کرسی پر بیٹھا ناول لکھتا رہا۔ پہلا ناول کسی نے پبلش نہ کیا،بلکہ اسے لوٹا دیا گیا۔ وہ دوسر،ا تیسرا، چوتھا ناول انتہائی فاقے،تنگ دستی اور جگہ کی تبدیلی کے دوران لکھتا رہا، ہر وقت مایوسی کے حصار میں رہا، پانچواں ناول اس نے ’’ تنہائی کے سوبرس ‘‘ لکھا ،جو گارشیا ماکیز کی داستان حیات ہی ہے ۔ارجنٹینا کے پبلشر نے بیس ہزار کاپیاں پہلے ایڈیشن کی فروخت کیں اور پھراس کے درجنوں ایڈیشن چھپے، 69 زبانوں میں اس کاترجمہ ہوا ۔
یہ ایک فرد کی سخت اور کڑی محنت ہے۔ کامیابی سے پہلے کے انقلابات کی تاریخ بھی کچھ ایسے افراد کے گروہ کی مستقل اجتماعی و انفرادی محنت سے کامیاب ہوتی ہے ۔
حکومتیں فوراًنہیں بدلتیں، انقلابات کی بھی ایک پوری سائنس ہوتی ہے۔انقلاب کی بات کرنے والوں کو خاص طور پر یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیےکہ انقلاب میں سب سے زیادہ اہمیت آئیڈیالوجی کی ہے۔
کسی انقلابی جماعت کے پاس ایک مضبوط نظریہ اور واضح مقصد ہونا چاہیے ۔ وہ انقلابی جماعت ہو جو عوام خصوصاً کم زور طبقوں اور محروم لوگوں،بالخصوص خواتین میں تبدیلی کے لیے کھڑے ہونے کا شعور پیدا کرے۔ اس شعور کے لیے ان کی تعلیم ، صحت اور حقوق کا احساس ان کو دلایا جائے ۔
انقلابی جماعت کےلیے معقول تعداد میں ایسے کمیٹیڈ کارکنوں کی ضرورت ہوتی ہے جو اپنے گھر، خاندان کیریئر اور مستقبل کی پروا کیےبغیر پورے معاشرے کی بہتری کے لیےفل ٹائم کام کر لیں ۔اسلامی انقلاب کے اراکین صحابۂ کرامؓ تھے،جن کی طرح روئے زمین پر کوئی کمیٹیڈ ہے ہی نہیں۔ فل ٹائمرز کے بغیر کام ایک قدم آگے نہیں چل سکتا۔ ان کے ساتھ اچھی خاصی تعداد میں ایسے والنٹیئر ز چاہیے ہوتے ہیں ،جو چاہے جز وقتی کام کریں مگر ان کااپنے کاز سے کمٹمنٹ اور خلوص مثالی ہونا چاہیے۔ وہ نظریہ جس کے عملی نفاذ کی خاطر انقلاب برپا کیا جارہا ہے۔ پھر ضروری ہے کہ یہ فل ٹائمر اور والنٹیئر زایک اچھی جامع حکمت عملی کے ساتھ عوام کے مختلف طبقات میں کام کریں۔
تبدیلی کے فضا ہموار کرنے والے اذہان کی بھی سخت ضرورت ہے۔انقلابات کی تاریخ پڑھیں!انقلاب فرانس سے پہلے روسو ، والینٹر، مونتیسکیو کی فلسفیانہ تحریروں نے راہ ہموار کی تھی ، آزادی کا شعور بیدار کرنے والے ضروری نہیں کہ تبدیلی تک زندہ رہیں ،تاہم ماحول کی ہمواری برسہا برس تک جنون کے ساتھ جاری رہتی ہے۔ کارل مارکس روس کے انقلاب کے وقت زندہ بھی نہیں تھا ، انقلاب ایران سے پہلے کئی علماء و دانشوران نے اپنی تحریروں سے علمی فضا ہموار کی،جن میں علی الشریعتی کا نام سر فہرست ہے۔انقلابات کا یہ میکانزم اتنا مشہور اور مسلم ہے کہ اسلامی انقلاب عرب کا بھی یہی کینوس رہا ہے ۔اسلامی انقلاب کی تگ ودو پیارے نبی ﷺ کی ہے ،جس میں بھی اذہان و قلوب کی تبدیلی کا کام پیارے نبی ﷺ نے کیا۔

تبدیلی کا طویل المیعاد منصوبہ

ہمارے یہاں بھی سماج کی اسٹڈی کرنے والے نوجوانوں کی تعداد ہونی چاہیے، اپنے حقوق اور آزادی اور اپنی کوتاہی کا ادراک سب سے اہم چیز ہے۔ خواتین ، مزدوروں، کسانوںاور محنت کشوںکےذہنوں کو بدلا جائے، انھیں احساس دلایا جائے کہ نفرت کے سوداگر مذہبی نفرت کی آڑ میں کس طرح مہنگائی بڑھاتے جارہے ہیں،حتی کے عوام کا ایک روپیہ بھی ان کی جیب کے بجائے سرمایہ داروں کے بینک میں رکھنے پر مجبور کررہے ہیں ۔انھیں سمجھایا جائے کہ ٹیکس ادا کرنے کا یہ نظام ایک غریب سے لےکر متوسط اور ارب پتی کے لیے یکساں ہے ،امبانی اور اڈانی کے لیے ٹیکس ادا کرنا اور خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوںکا ادا کرنا یکساں نہیں ہے ۔
ہم اگر انقلابی سوچ رکھتے ہوں تو ہمیں یہ آنا چاہیے کہ سماج کون سے عوامل کی بنیاد پر کھڑا ہے اور کن حساس مباحث سے بچنے کی ضرورت ہے؟اور کن مباحث کو عوام کے لیے زبان زد عام و خاص بنانے کی ضرورت ہے؟ ہمیں عوام کو سوال پوچھنا سکھانا ہوگا۔سا لہاسال تبدیلی کے فیبرک کو تیار کرنے میں لگ جاتے ہیں ۔

خواتین کے لیے الیکشن کے بعد کا منصوبہ

(1) وہ طالبات جو کچھ پڑھنا چاہتی ہیں ،ان کے لیے سعادت اللہ حسینی صاحب نے اپنی کتاب میں لکھاہےکہ سیاسیات اور سماجیات کو موضوع بنائیں ،وہ وکالت کریں ،وہ صحافت کے میدان سے جڑیں، انھیں صحافت کا معیار بلند کرنے کے لیے آگے آنا چاہیے۔ ان کے لیے سب سے اہم موضوع اسلامی معیشت کا تصور ہے، بلاسودی نظام سے متعارف کروانے کے لیے اپنی زندگی کو ایک والنٹیئر کی حیثیت سے وقف کرنا چاہیے ۔
(2) تعلیمی نظام کی بہتری اور کمرۂ جماعت میں تدریس کا فریضہ انجام دینے والے اساتذہ کو وقت اور حالات کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے حقیقی تاریخ سے طلبہ کو متعارف کروانا چاہیے، نفرت کے سوداگر درسی کتاب میں اپنی کارستانی دکھادیتے ہیں، تاہم تبدیلی کے خواہاں افراد کا ایجنڈا تحقیق اور درست معلومات پہنچانا مشن بن جائے تو انقلاب کی بنیاد ثابت ہوتی ہے ۔
(3) گھریلو خواتین کو یاد رکھنا چاہیے کہ کنزیومر قومیں سماج میں تبدیلی نہیں لاتی ہیں، بلکہ غلامی پورے معاشرے کا مقدر بنتی ہے کہ اس لیے بے لگام شاپنگ اور شادی بیاہ کے فضولیات سے اجتناب کریں،کیوں کہ انقلاب کسی ایک طبقے کی قربانی سےنہیں آتا۔ ہندوستان کا یہ سیاسی انقلاب بھی ہر فرد کے تعاون کا جڑا ہے ۔فضول خرچی سے اجتناب ،پیسےکی بچت کمانے سے زیادہ کی جائے، تعلیم پر خرچ کیا جائے، خاندان میں خوف وہراس کے بجائے حوصلے بلند کرنے والی گفتگو کریں، نفرت کی سیاسی بیان بازی سے نہ خود خوف زدہ ہوں نہ خاندان کو ہونے دیں ۔یاد رکھیں! ہماری صحابیات حوصلے بلند رکھنے میں درک رکھتی تھیں، تاریخ ان کے کردار سے روشن ہے ۔
(4) ہر فرد علم میں اضافہ کرے۔ ملک کی سیاست میںاپنی دماغی صلاحیت صرف کرے ۔عدل وانصاف کے قیام ، کم زور اور ناتواں افراد کے حقوق کے لیے کھڑاہونا سیکھے ،نہ ظلم سہےنہ ظالم بنے ۔ انسانیت نوازی اور عدل کے قیام میں ہم میں سے ہر ایک ملک کی عوام میں باضمیر افراد کو بلا شرکت غیر اپنے مشن میں شامل کرے ۔
(5) موجودہ حالات اور حکومت کےاشاروں سے صاف ہےکہ نفرت کی تجارت میں ڈاکیومنٹس کی اہمیت بہت ہے ،اپنے گھروں کی پکی خریدی کی جائے۔ الیکٹرک میٹرز اپنے نام پر ہوں، جو اس گھر کا مالک ہو ۔بچوں کے نام تمام ڈاکیومنٹس میں درست رہیں ، اپنی شناختی اور الیکشن کارڈ بنے ہوئے ہوں، ٹیکس ادا کیا جائے تاکہ ریکارڈ رہے ۔ دستاویزات کو اپ ڈیٹ کرنے میں اگر مرد حضرات تساہل برتیں ،تو خواتین اخراجات کے بوجھ کو کم کریں ،اور ترجیحی بنیاد پر یہ کام کروائیں ۔
(6) لاک ڈاؤن کے بعد تجزیہ نگاروں نے سرمائے کو جمع اور بچت کی بات کہی ہے اور سعادت اللہ حسینی صاحب نے زندگی نو میں اپنے اشارات میں امت کی تمکین وترقی کے بات میں کمانے کے رجحان اور سرمایہ کو بڑھانے کی بابت تفصیل سے لکھا ہے، معاشی ترقی کے لیے لازم ہے کہ ہم پیسے کو جمع کریں، جو ہماری ہر پریشانی میں مدد گار ہوگا ۔خصوصاً خواتین پیسے کو سامان خرید کر کچرا بنادیتی ہیں ۔سوچ لیجیے کہ بلڈوزر میں جن کے گھر تباہ ہوئے، ان کے پاس اسباب کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے؟ تاہم بینک میں موجود پیسہ ہر ایک کے مصیبت میں سہارا بن سکتا ہے ۔اس لیے پر تعیش زندگی سے زیادہ استحکام پر توجہ دی جائے، یہ وقت کا تقاضاہے ۔
یہ دور نریٹیو اور ڈسکورس کا دور ہے، فقروں میں بات یہاں سنی جاتی ہے، ہر دور میں انقلاب کی تاریخ اصطلاحات سے جڑی رہی ہے ۔انقلاب فرانس، انقلاب روس اور ایرانی انقلاب کا حوالہ بطور خاص دیا جاتا ہے۔ میڈیا میں ویسے بھی اصطلاحات کی بڑی اہمیت ہے کہ ایک یا دو لفظوں کو یا درکھنا آسان ہے۔ یوکرائن میں حکومت بدلی گئی تو اسے پنک ریولوشن ( گلابی انقلاب ) کا نام دیا گیا۔کر غیزستان میں آنے والی تبدیلی کو’’ ٹیولپ ریولوشن‘‘ کہا گیا۔تیونس میں 2011 ءہونے والی تبدیلی کو ’’ جیسمین ریوولوشن‘‘کہا جاتا رہا ہے۔ دو چار برسوں میں یہ پنک، ٹیولپ ، وائلیٹ انقلاب پانی میں رکھے نمک کے ڈلے کی طرح تحلیل ہو گئے ۔
یہ تبدیلیاں برسہا برس کی کوشش سے آئیں ،لیکن افراد کی اندرونی تربیت نہیں ہوئی تو باقی نہیں رہ سکیں۔ہندتوا انقلاب افراد کی جہالت کے سہارے سے جھاگ کی طرح بیٹھے گا، لیکن ہماری مستقل کوشش کے بعد ہی کوئی تبدیلی آئے گی ۔

٭ ٭ ٭


گھریلو خواتین کو یاد رکھنا چاہیے کہ کنزیومر قومیں سماج میں تبدیلی نہیں لاتی ہیں، بلکہ غلامی پورے معاشرے کا مقدر بنتی ہے کہ اس لیے بے لگام شاپنگ اور شادی بیاہ کے فضولیات سے اجتناب کریں،کیوں کہ انقلاب کسی ایک طبقے کی قربانی سےنہیں آتا۔ ہندوستان کا یہ سیاسی انقلاب بھی ہر فرد کے تعاون کا جڑا ہے ۔فضول خرچی سے اجتناب ،پیسےکی بچت کمانے سے زیادہ کی جائے، تعلیم پر خرچ کیا جائے، خاندان میں خوف وہراس کے بجائے حوصلے بلند کرنے والی گفتگو کریں، نفرت کی سیاسی بیان بازی سے نہ خود خوف زدہ ہوں نہ خاندان کو ہونے دیں ۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مئی ۲۰۲۴