مئی ۲۰۲۴

کثرت میں وحدت یااتحاد کا وہ تصور ہے جہاں مختلف مذاہب، ثقافت، نسل،زبان ،نظریات ،طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد ایک ہی خطے میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کا بھر پور تعاون کرتے ہوں۔

ہندوستان میں تنوع

’’تنوع میں اتحاد‘‘ یہ لفظ آزادی کے بعد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے اپنی مشہور کتاب ’’The Discovery of India‘‘ میں سب سے پہلے وضع کیا تھا۔
ہندوستان بھر پور تنوع کی سرزمین تصور کیا جاتا ہے، ہندوستان تقریباً 5000 سال پرانی خوش رنگ تہذیب و ثقافت کا گہوارہ ہے، جہاں صدیوں سے مختلف رنگ و نسل کے لوگوں نے مل کر امن و سکون کے میٹھے راگ گائے ہیں، اور ہندوستان کو ست رنگی ملک بنایا ہے۔
آئیے ہندوستانی تہذیبی تنوع کو سمجھتے ہیں!
مشہور ماہر لسانیات گریئرسن نے 179 زبانوں اور 544 بولیوں کو نوٹ کیا ، مزید یہ کہ 1971 ءکی مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں 1652 زبانیں بولی جاتی ہیں، ہمارے ہندوستانی آئین میں تقریباً 22 زبانوں کا ذکر ہے جن میں آسامی، بنگالی، گجراتی، ہندی، کنڑ، کشمیری، کونکنی، ملیالم، منی پوری، مراٹھی، اوڑیا، پنجابی، سنسکرت، سندھی، تامل، تیلگو، اردو، بوڈو ، نیپالی، سنتھالی، میتھلی، ڈوگری یہ ساری زبانیں شامل ہیں۔
ہندوستان میں ایک طرف لمبے سروں والے بحیرۂ روم کی نسل کے لوگ رہتے ہیں تو دوسری طرف چوڑے سروں والےالپائن نسل کے لوگ بھی رہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں کئی کروڑ قبائلی لوگ پناہ لیے ہوئے ہیں اور سب اپنی الگ ہی ثقافت کے ساتھ ایک ہی سر زمین پر امن کے ساتھ چل رہے ہیں، ہندوستان میں تقریباً 3000 ذات پات کے گروہ موجود ہیں۔ ہندوستان میں مختلف مذاہب مثلاً ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی کا وجود عرصہ ٔقدیم سے زندہ ہے ۔ہندوستان کے دستور کا آرٹیکل 27 – 28 میں مذہب کی آزادی کا تصور ہندوستان کو مکمل سیکولر تصور کرواتا ہے، ہندوستان ’’دنیا ایک خاندان ہے‘‘ کے تصور پر یقین رکھتا ہے، ہندوستان کثیر لسانی اور کثیر ثقافتی قدروں کی مثال ہے۔

تنوع میں اتحاد کے فوائد

ہندوستان ایک متنوع ملک ہے، ہندوستان کی ثقافت ساری دنیا میں ممتاز ترین ثقافت مانی جاتی ہے۔
اگر ہم غور کریں تو سمجھ سکتے ہیں کہ فطرت میں موجود ہر شے تنوع کا اظہار کر رہی ہے، فطرت کی ہر شے چوں کہ تنوع میں ہے اسی لیے فطرت کا ہر کام بآسانی وقت مقررہ پر انجام پارہا ہے۔
تنوع میں اتحاد کے لامتناہی فوائد ہیں، جب ہم ایک ایسے خطے میں قیام پذیر ہیں جہاں مختلف زبانیں، تہذیب، ثقافت، نسلیں موجود ہوں وہ خطہ ہمیں ہر دن نئے نئے طریقوں، رسوم رواج،تہواروں، الگ الگ پکوانوں، مختلف طرح کے لباسوں، اور بولیوں سے روشناس کرواتا ہے.
تنوع میں اتحاد ٹیم ورک، کاروبار، سماجی مسائل کو حل کرنے، معاشی کمزوریوں کو دور کرنے، سیاحت میں غیر معمولی حد تک مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

ملک کے زوال میں فرقہ واریت کا کردار

فرقہ واریت سے مراد ہی کسی ایک طبقہ کی حمایت کرتے ہوئے اس طبقے کو دوسرے طبقات سے لڑانا ہے۔فرقہ واریت کا کھیل اس وقت کھیلا جاتا ہے جب لوگوں کو آپس میں لڑواکر بری طاقتوں کو اپنا مقصد پورا کرنا ہو۔
فرقہ واریت کا مقصد نوجوانوں کا Brain wash کرکے ان کی تمام توانائیوں کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنا ہوتا ہے، اس کےلیے جوانوں کے ذہنوں میں کسی خاص طبقہ کی نفرت بٹھا کر اس طبقہ کے خلاف لڑنے، نفرت انگیز تقریریں کرنے، نفرت انگیز مواد کا استعمال کرنے کےلیے نوجوانوں کو بخوبی استعمال کیا جاتا ہے، نوجوانوں کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ اس طبقہ کے خلاف لڑنا ہی تمھارا بہترین کیریئر ہے، اور اسی میں تمھارا مستقبل پوشیدہ ہے، اور اس طرح ملک کے اندر بد امنی، بے روزگاری، قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوکر ملک زوال کی طرف بڑھنا شروع ہوجاتا ہے۔
فرقہ واریت کو مضبوط طریقہ سے قائم کرنے کےلیے پرنٹ میڈیا سے لےکر سوشیل میڈیا کا منظم اور منصوبہ بند طریقہ سے استعمال کیا جاتا ہے۔
نفرت انگیز فلمیں تیار کرواکر ذہنوں سے کھیلا جاتا ہے، اور مخالف فرقے کو ظالم و جابر ثابت کرنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے۔
جب نوجوانوں میں فرقہ واریت بھر دی جاتی ہے تو نوجوانوں کا ذہن تعلیم سے اور ہر طرح کے تعمیری کام سے ہٹ کر تخریب کاری، غنڈہ گردی کی طرف مائل ہوجاتا ہے،مجموعی طور پر ملک تباہ ہو جاتا ہے۔
نفرت کا یہ خونی کھیل کھیلا جاتا ہے تخت حکومت حاصل کرنے کےلیےاور اس طرح کی بری طاقتیں جھوٹ و فریب کا زہریلا کھیل کھیل کر حکومت کی گدی پر قابض ہو جاتی ہیں، Dictators اور بیمار ذہن لوگوں کے ہاتھوں میں حکومت چلی جاتی ہے، جب Dictators لوگوں پر قابض ہوتے ہیں تو ملک تباہ ہو جاتے ہیں، جس طرح ہٹلر، Benito Mussolini کی حکومتوں نے ہزاروں لوگوں کی زندگیاں چھین لی۔

ملک کے اندر قومی یک جہتی کو پروان کیسے چڑھائیں؟

(1) افراد کو educate کیا جائے،صدیوں سے فرقوں کے مابین جو نفرت لوگوں کے ذہنوں میں چھائی ہوئی ہے، انھیں educate کر کے ختم کیا جائے۔
(2) بین طبقاتی نفرت کو ختم کیا جائے۔
(3)نوجوانوں کی توجہ بین طبقاتی لڑائیوں سے نکال کر اچھے روز گار کی طرف، ملک کی ترقی کی طرف، ملک کی سالمیت کی طرف، اور خودی کے ارتقاء کی طرف گامزن کی جائے۔
(4)ملک میں ایسی طاقتوں کا خاتمہ کیا جائے، جو نوجوانوں کے دلوں میں نفرت بھرتے ہیں۔
(5)کسی خاص طبقہ کو غنڈہ گردی، یا جرائم سے جوڑنے والی فلموں پر پابندی عائد کر دی جائےاور بین طبقاتی محبت کو پروان چڑھانے والی فلموں کو تیار کیا جائے۔
(6) ہندوستان میں ہر سال بے روزگاری بڑھتی جا رہی ہے، روز گار کو بڑھانے کے نئے مواقع فراہم کیے جائیں۔
(7) اسکولز ،کالجز اور یونیورسٹیوں میں ایسا نصاب پڑھایا جائے جس سے مختلف ذاتوں، اور طبقات کے درمیان محبت، ایثار و قربانی، اور احترام کا جذبہ پیدا ہو،اور نئی نسل کو یہ بات معلوم ہو کہ محبت اور ایک دوسرے کا احترام ہی ملک میں امن و سکون اور ترقی کی راہیں ہموار کرسکتے ہیں۔
(8) بڑی بڑی لائبریریاں تعمیر کی جائیں، جن میں سیکولرازم کی کتابیں رکھی جائیں۔
یہ وہ انقلابی تبدیلیاں ہیں جن کا استعمال نسل نو کی بقا، ترقی و نشوونما میں مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

مذہب نہيں سکھاتا آپس ميں بير رکھنا
ہندی ہيں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:


فرقہ واریت کا مقصد نوجوانوں کا Brain wash کرکے ان کی تمام توانائیوں کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنا ہوتا ہے، اس کےلیے جوانوں کے ذہنوں میں کسی خاص طبقہ کی نفرت بٹھا کر اس طبقہ کے خلاف لڑنے، نفرت انگیز تقریریں کرنے، نفرت انگیز مواد کا استعمال کرنے کےلیے نوجوانوں کو بخوبی استعمال کیا جاتا ہے، نوجوانوں کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ اس طبقہ کے خلاف لڑنا ہی تمھارا بہترین کیریئر ہے، اور اسی میں تمھارا مستقبل پوشیدہ ہے، اور اس طرح ملک کے اندر بد امنی، بے روزگاری، قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوکر ملک زوال کی طرف بڑھنا شروع ہوجاتا ہے۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مئی ۲۰۲۴