مئی ۲۰۲۴

 سوال :

 ایک حدیث اس مضمون کی ملتی ہے:
’’ اگر حوا نہ ہوتی تو کوئی عورت کبھی اپنے شوہر کے ساتھ خیانت نہ کرتی۔‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نوع ِ انسانی کی ماں حضرت حوا نے اپنے شوہر حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ خیانت کی۔ یہ کیسی خیانت تھی؟ اس کی صراحت حدیث میں نہیں ہے۔ حضرت آدم اور حضرت حوا کو جب جنت میں بسایا گیا تو وہاں شیطان نے انھیں بہکایا ،چنانچہ انھوں نے اس درخت کا پھل کھا لیا جس سے انھیں منع کیا گیا تھا۔ بائبل میں توحوا کو قصوروار ٹھہرایا گیا ہے کہ شیطان نے پہلے انھیں اپنے دام ِفریب میں گرفتار کیا، پھر ان کے کہنے سے آدم نے ممنوعہ درخت کا پھل کھالیا ،لیکن قرآن اس سلسلے میں دونوں کو برابر کا قصوروار ٹھہراتا ہے۔ براہ کرم رہ نمائی فرمائیں ۔کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ اگر ہاں تو اس میں مذکور خیانت کا کیا مطلب ہے؟

 جواب:

سوال میں جس حدیث کا ٹکڑا نقل کیا گیا ہے، اس کا مکمل متن یہ ہے:

لَو لَا بَنُو اِسرائِیل لَم یَخنَز اللَّحمُ ، وَلَولَا حَوّاء لَم تَخُن اُنثیٰ زَوجَھَا

(اگر بنی اسرائیل نہ ہوتے تو گوشت کبھی نہ سڑتا اور اگرحوا نہ ہوتی تو کوئی عورت کبھی اپنے شوہر کے ساتھ خیانت نہ کرتی۔)
یہ حدیث صحیح بخاری(3330،3399)، صحیح مسلم(1470) ،مسند احمد(8032)، صحیح ابن حبان(4169)، مستدرک حاکم(7545)، شرح السنۃ بغوی(2335)، صحیفۂ ہمام بن منبّہ(58) اور دیگر کتب ِ حدیث میں آئی ہے ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سند کے اعتبار سے یہ صحیح ہے۔ اس حدیث میں جو باتیں کہی گئی ہیں ان کا ظاہری مفہوم مراد نہیں ہے۔ پہلا جملہ یہ ہے:
’’ اگر بنی اسرائیل نہ ہوتے تو گوشت کبھی نہ سڑتا۔‘‘
اس کا مطلب یہ نہیں کہ بنی اسرائیل سے پہلے گوشت نہیں سڑتا تھا، چاہے جتنے دنوں تک رکھا رہے، بنی اسرائیل کے حرص و بخل اور بری خصلتوں کی وجہ سے گوشت سڑنے لگا۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کا نظام طبیعیاتی قوانین پر استوار کیا ہے۔ چیزوں میں فساد جراثیم کی وجہ سے واقع ہوتا ہے۔ جب بھی گوشت زیادہ عرصے تک رکھا رہے گا، جراثیم کی وجہ سے گل سڑ جائے گا۔ایسا بنی اسرائیل سے پہلے بھی ہوتا تھا اور ان کے بعد بھی۔ ممکن ہے، بنی اسرائیل سے پہلے لوگ ذخیرہ اندوزی نہ کرتے رہے ہوں، اس لیے انھیں اس خاصیت کا علم نہ ہوپایا ہو۔ بنی اسرائیل نے ذخیرہ اندوزی شروع کر دی، تب پتہ چلا کہ گوشت زیادہ دن رکھنے سے سڑ جاتا ہے۔
دوسرے جملے میں کہا گیا ہے کہ حضرت حوا نے خیانت کی، چنانچہ بعد کی عورتیں بھی خیانت کرنے لگیں ۔خیانت سے مراد بدکاری نہیں ہے ،بلکہ اپنی ذمہ داری نہ ادا کرنا ہے۔ ہر عورت کی ذمہ داری ہے کہ اس کا شوہر اگر کوئی غلط کام کرنے لگے تو اسے اس سے باز رکھنے کی کوشش کرے اور اسے صحیح اور جائز کام کی ترغیب دے۔ اس ذمہ داری کو حوا نے پورا کیا ،نہ عموماً عورتیں اسے انجام دیتی ہیں۔ شیطان کے بہکاوے میں آ کر جب حضرت آدم علیہ السلام نے ممنوعہ درخت کا پھل کھا لینے کا ارادہ کیا تو حضرت حوا کی ذمہ داری تھی کہ انھیں اس سے روکنے کی کوشش کرتیں اور انھیں یاد دلاتیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنے سے منع کیا ہے ۔اس کے بجائے انھوں نے حضرت آدم ؑکے ساتھ خود بھی وہ پھل کھا لیا ۔اسی طرح عام عورتوں کا رویّہ اپنے شوہروں کے معاملے میں یہی ہوتا ہے ۔شوہر اگر کسی غلط کام کا ارتکاب کر رہا ہو، یا حرام کمائی گھر میں لا رہا ہو تو بیوی اسے روکنے کی کوشش نہیں کرتی۔ وہ نظر انداز کر دیتی ہے اور خاموش اختیار کر لیتی ہے۔
شارحین ِ حدیث نے اس حدیث کی یہی توضیح و تشریح کی ہے۔ ابن ہبیرہؒ(م: 560ھ) نے لکھا ہے:
’’ حوا کی اپنے شوہر سے خیانت یہ تھی کہ جب انھوں نے دیکھا کہ آدم ؑنے ممنوعہ درخت کا پھل کھانے کا تہیہ کر لیا ہے تو ان کو اس سے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ اسی کو حدیث میں ’خیانت ‘سے تعبیر کیا گیا ہے۔‘‘(الافصاح عن معانی الصحاح)
علامہ ابن الجوزیؒ(م: 597ھ) فرماتے ہیں: ’’حوا کی خیانت کا مطلب بس یہ ہے کہ انھوں نے اپنے شوہر کو ممنوعہ درخت کا پھل کھانے سے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کے علاوہ’خیانت‘ کا کوئی دوسرا معنیٰ نہیں ہے۔‘‘(کشف المشکل من حدیث الصحیحین)
یہی بات ابو السعادات ابن الاثیرؒ(م: 606ھ) نے اپنی کتاب’’ جامع الأصول فی أحادیث الرسول‘‘ میں اس حدیث کے ضمن میں لکھی ہے ۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر عورت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شوہر کو دین پر چلانے کی کوشش کرے ۔شوہر جو چاہے کرے، اس پر خاموشی اختیار کرنا عورت کو زیب نہیں دیتا، بلکہ خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ اس کی غلط روی پر ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسے متنبہ کرے اور اللہ کی ناراضی کے کاموں سے بچانے کی کوشش کرے۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مئی ۲۰۲۴