درس حدیث : خرچ میں میانہ روی
زمرہ : النور

کھانے اور پینے میں اعتدال

عن عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما مرفوعاً : “كُلُوا، وَاشْرَبُوا، وَتَصَدَّقُوا، وَالْبَسُوا، غَيْرَ مَخِيلَة، وَلَا سَرَف”(ابن ماجه)

( کھاؤ ، پیو ، صدقہ کرو اور پہنو بغیر تکبر اور فضول خرچی کے ۔)
عبدﷲ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ سعدؓ کے پاس سے گزرے جب وہ وضو کررہے تھے تو ارشاد فرمایا:
’’ اے سعد! یہ اسراف کیسا؟‘‘
عرض کیا:
’’ یا رسول اللہ ! کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟‘‘
فرمایا:
’’ہاں !اگرچہ تم بہتی نہر پر ہو۔‘‘
درج بالا احادیث اللہ کے اس فرمان سے ماخوذ ہے :

كلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا ۚ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ
(سورۃ الاعراف : 31)

کھانا پینا اور اللہ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانا دین داری اور تقویٰ کے خلاف نہیں ہے ، دین داری اور تقوی ٰکے خلاف جو چیز ہے وہ ہے اسراف۔
اسراف ،خرچ کرنے میں حد سے تجاوز کرنے کا نام ہے ، بعض نے کہا ہے کہ حرام کھانا یا حلال چیز میں سے ضرورت اور اعتدال سے زیادہ کھانا اسراف ہے ، بعض نے کہا ہے کہ اسراف اس بات کا نام ہے کہ مناسب جگہ پر مناسب مقدار سے زائد مال خرچ کیا جائے ،جب کہ تبذیر یہ ہے کہ نامناسب موقع پر خرچ کیا جائے ۔
اللہ تعالیٰ قائم بالقسط ہے ،اس وجہ سے وہ مقسطین یعنی عدل و اعتدال سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ، یہ بے اعتدالی افراط کی نوعیت کی بھی ہو سکتی ہے ، تفریط کی نوعیت کی بھی، اور یہ دونوں ہی باتیں خدا کی پسند کے خلاف ہیں ، اللہ یہ پسند کرتا ہے کہ آدمی کھانے پینے اور پہننے کو مقصود بنا لے اور رات دن اسی کی سردیوں میں مشغول رہے، پورا کا پورا مال اپنے اوپر ہی خرچ کر ڈالے ، اس میں دوسرے کے حق کو نہ پہچانے اور نہ اللہ کو یہ پسند ہے کہ بالکل رہبانیت ہی اختیار کر لے ۔
تبذیر اور تفریط دونوں ہی شیطان کی نکالی ہوئی راہیں ہیں ، خدا زندگی کے ہر پہلو میں عدل و اعتدال کو پسند کرتا ہے، انسان جب راہِ حق سے بھٹکتا ہے وہ افراط کا شکار ہوتا ہے یا تفریط کا شکار ہوتا ہے ۔
اصلی نقطہ یہ ہے کہ عدل و اعتدال کیا ہے اور حدِ اسراف کیا ہے ؟
یہ بات انسان کی عقل سلیم اور فطرت سلیم پر چھوڑ دی گئی ہے، اس لیے کہ کوئی قانونی حد بندی ممکن نہیں ہے، حالات کے اعتبار سے اس میں فرق ہو سکتا ہے، ایک غنی اور ایک فقیر دونوں کے لیے کوئی ایک معیار مقرر نہیں ہو سکتا ہے ، دونوں کو اپنے مال سے فائدہ اٹھانا اور کھانا پینا مباح ہے لیکن اسراف اور تبذیر جائز نہیں ہے، اس لیے کہ :
’’اللہ تعالیٰ مسرفین کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘
کے الفاظ معمولی نہیں ہیں ، خدا جن کو دوست نہیں رکھتا ،لازماً وہ اس کے نزدیک مبغوض ہیں ۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:


اللہ تعالیٰ قائم بالقسط ہے ،اس وجہ سے وہ مقسطین یعنی عدل و اعتدال سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ، یہ بے اعتدالی افراط کی نوعیت کی بھی ہو سکتی ہے ، تفریط کی نوعیت کی بھی، اور یہ دونوں ہی باتیں خدا کی پسند کے خلاف ہیں ، اللہ یہ پسند کرتا ہے کہ آدمی کھانے پینے اور پہننے کو مقصود بنا لے اور رات دن اسی کی سردیوں میں مشغول رہے، پورا کا پورا مال اپنے اوپر ہی خرچ کر ڈالے ، اس میں دوسرے کے حق کو نہ پہچانے اور نہ اللہ کو یہ پسند ہے کہ بالکل رہبانیت ہی اختیار کر لے ۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مئی ۲۰۲۴