مئی ۲۰۲۴

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْۤا اِلَى اللٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًاؕ-عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ یُّكَفِّرَ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ یُدْخِلَكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُۙ-یَوْمَ لَا یُخْزِی اللٰهُ النَّبِیَّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗۚ-نُوْرُهُمْ یَسْعٰى بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ بِاَیْمَانِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَ اغْفِرْ لَنَاۚ-اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ (سورۃ التحریم : 8)

(اے ایمان والو!اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جس کے بعد گناہ کی طرف لوٹنا نہ ہو، قریب ہے کہ تمہارا رب تمھاری برائیاں تم سے مٹا دے اور تمھیں ان باغوں میں داخل کر دے، جن کے نیچے نہریں رواں ہیں ۔جس دن اللہ، نبی اور ان لوگوں کو جو اُن کے ساتھ ایمان لائے رسوا نہ کرے گا، ان کا نور ان کے آگے اور ان کے دائیں دوڑتا ہوگا، وہ عرض کریں گے، اے ہمارے رب! ہمارے لیے ہمارا نور پورا کردے اور ہمیں بخش دے، بےشک تو ہر چیز پرخوب قادرہے۔)
دنیا کی زندگی محض دھوکا و فریب کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ پتہ نہیں کس پل ، لمحہ ، وقت اور عمر میں ساتھ چھوڑ جائے، بس ایسا سمجھیے کہ یہ محض پانی کی وہ بوند ہے جو ہاتھ میں تھمتی ہی نہیں اور زمین پر گر جاتی ہے ۔ ایک موہوم سا تعلق جو کسی بھی لمحہ ،کسی بھی عمر میں ساتھ چھوڑ جائے ۔ اس لمحے میں ہم بے گناہ ہوں یاگناہ گار ۔یہ خیال و گمان میں ہو کہ نہیں کہ یہ دنیا ایک عمر پر پہنچنے کے بعد ہی دھوکہ دیتی ہے ، ایسا تو بالکل ہی نہیں ہوتا ۔ضروری تو نہیں کہ یہ دنیا عمر رسیدہ ہونے پر ہی دھوکہ دے، یہ تو نادان عمر میں بھی ساتھ چھوڑ سکتی ہے اور پختہ عمر میں بھی ۔
ہاں! یہ نادان عمر میں ساتھ چھوڑے تو معافی قبول ہے، کیوں کہ اس عمر میں تو اپنے لخت جگر کو ماں باپ بھی معاف کردیتے ہیں، تو وہ رب تو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا اور معاف کرنے والا ہے۔ اس عمر میں انسان نادان ہوتا ہے، لیکن یہ جو پختہ عمر ہوتی ہے ناں جسے جوانی کہتے ہیں، وہ نادان نہیں ہوتی، نہ اس عمر میں کیا گیا کوئی بھی گناہ نادان ہوتا ہے اور نہ یوں ہی درگزر کیا جاتا ہے، کیوں کہ اس عمر میں ہم نادان نہیں ہوتے بلکہ دانا ، عقل مند اور با شعور ہوتے ہیں ۔ ہم اس عمر میںجو کوئی بھی گناہ کریں، وہ معافی کے قابل نہیں ہوتا، اس عمر میں گناہ کے دو اصول ہوتے ہیں، ایک وہ گناہ جو جانتے ہوئے کیا جائے ، اور اس اصول کے تحت کیے گئے گناہ کو اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرتا، اور دوسرا اصول جو ہمیں پتہ نہ ہو کہ یہ گناہ ہے ۔ ان جانے میں ہوجائےتو اس گناہ کو اللہ تعالیٰ ہماری نادانی اور غلطی سمجھ کر معاف کردیتا ہے، لیکن ہاں اے دانا انسان ! وہ جو پہلا اصول ہے ناں، اس میں بھی اللہ تعالیٰ معافی کو قبول کرلیتا ہے، بشرطےکہ معافی رب کے پیمانہ اور اصول کے مطابق ہو، جو رب نے بتایا ہے۔
اے اشرف المخلوقات! تم جاننا چاہو گے وہ طریقہ اور اصول کیا ہے ؟! وہ طریقہ قرآن میں موجود ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’اے ایمان والو! تم اللہ کے سامنے سچی خالص توبہ کرو۔ قریب ہے کہ تمھارا رب تمھارے گناہ دور کردے اور تمھیں ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔(سورۃ التحریم: 8)
خالص توبہ یہ ہے کہ جس گناہ سے وہ توبہ کر رہا ہے، اسے چھوڑ دے۔ اس پر اللہ کی بارگاہ میں ندامت کا اظہار کرے۔آئندہ اسے نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرے۔اگر اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے تو جس کا حق غصب کیا ہے، اس کا ازالہ کرے۔جس کے ساتھ زیادتی کی ہے اس سے معافی مانگے۔ ساتھ ہی ساتھ اس آیت( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْۤا اِلَى اللٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًا…)سے چھ باتیں معلوم ہوئیں :
(1)لفظ ’’نصوح‘‘ کو سمجھ لیتے ہیں۔ نصوح سے مراد ہے ’’بالکل خالص۔‘‘ یہ لفظ’’ النصیحہ‘‘ سے ماخوذ ہے۔ انسان گناہ کرنے کے بعد جب اللہ رب العزت سے سچے دل سے توبہ کرتا ہے اور اپنی جانب سے ہر ممکن کوشش کرتا ہے کہ اب اس سے یہ گناہ دوبارہ سرزد نہ ہو، تو اسے ’’توبۃالنصوح‘‘ کہا جاتا ہے۔
(2)توبہ گناہوں کی معافی اور جنت کامُستحق ہونے کا ذریعہ ہے۔
(3)مُتَّقی مومن قیامت کے دن حضورِ اکرمﷺ کے ساتھ ہوں گے۔
(4) قیامت کا دن نبی کریم ﷺ اوران کے ساتھ والوں کی عزت کا ، جب کہ کافروں کی رُسوائی کا دن ہو گا۔
(5) مومن اگرچہ گنہ گار ہو، لیکن ان شَا ء اللّٰہ آخرت کی رسوائی سے محفوظ رہے گا، اگر اسے سزا بھی دی جائے گی تو اس طرح کہ اس کی رسوائی نہ ہو۔
(6)ابتداء میں پل صراط پر منافقوں کو نور ملے گا، لیکن جب درمیان میں پہنچیں گے تو وہ نور بجھ جائے گا۔
فی زماننا حالات ایسے پرفتن ہیں کہ گناہ کا ارتکاب کرنا بے حد آسان ،جب کہ گناہ سے بچنا بے حد دشوار اور نیکی کرنا بہت مشکل ہو چکا ہے ،لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ گناہوں سے بچنے اور نیک کام کرنے کی بھرپور کوشش کرے اور جو گناہ اس سے سرزَد ہو چکے ہیں ،ان سے سچی توبہ کرے کیوں کہ سچی توبہ ایسی چیز ہے جو انسان کے نامۂ اعمال سے اس کے گناہ مٹادیتی ہے ،چناں چہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

 وَ هُوَ الَّذِیْ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ وَ یَعْفُوْا عَنِ السَّیِّاٰتِ وَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ(سورۃ الشوریٰ : 25)

(اور وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور گناہوں سے درگزر فرماتا ہے اور جانتاہے جو کچھ تم کرتے ہو۔)
حضرت عبداللّٰہ بن مسعودؓ سے روایت ہے،رسولِ اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے وہ شخص جس کا کوئی گناہ نہ ہو۔‘‘
( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر التوبۃ،4 / 491، الحدیث : 4250)
حضرت انسؓ سے روایت ہے،رسولِ کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’جب بندہ اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے تو اللّٰہ تعالیٰ اعمال لکھنے والے فرشتوں کو اس کے گناہ بُھلا دیتا ہے،اس کے اعضا ءکو بھی بھلا دیتا ہے اور اس کے زمین پر نشانات بھی مٹا ڈالتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ قیامت کے دن اللّٰہ تعالیٰ سے ملے گا تو اس کے گناہ پر کوئی گواہ نہ ہوگا۔‘‘
( الترغیب والترہیب،کتاب التوبۃ والزہد،الترغیب فی التوبۃ والمبادرۃ بہا واتباع السیّئۃ الحسنۃ،4 / 48،الحدیث : 17)
یاد رکھیے! محض زبان سے توبہ توبہ کرلینا معنی نہیں رکھتا۔خالص، صاف اور سچے دل کے ساتھ معافی مانگی جائے ، خالص توبہ کی جائے، اس کےعلاوہ کیے گئے گناہ کا رب کے پاس اعتراف کیا جائے اور سب سے اہم اصول کہ اب اس گناہ کو دوبارہ نہ کرنے کا مصمم اور پختہ ارادہ کیا جائے۔ اس طرح کہ اگر دوبارہ قلب اور قدم ڈگمگائے تو یہ ارادہ اس سے روک لے ،یہ خالص دل سے کی گئی توبہ اور یہ خالص رب سے کیا گیا اعتراف ان ڈگمگاتے دل و دماغ اور قدم کو روک لے۔
ہم جو یوں شب و روز پریشان اور مضطرب ہوتے ہے ناں گناہوں کی وجہ سے،یہ گناہ ہماری روح پر دھیرے دھیرے ہی پر ضرب لگاتے جاتےہیں اور سمجھ نہیں آتا کہ یہ بے چینی کس بات کی ہے؟یوں تو چاہیے کہ ہر لمحہ، ہر پل، ہر وقت ہی رب سے توبہ و استغفار اور شکرگزاری کا دامن تھامے رکھے تاکہ جب ان نا معلوم سی سانسوں کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے تو اچھے اعمال کا دامن اپنے ہاتھ رہے۔
اے ہمارے رب! ہمیں سابقہ گناہوں سے سچی توبہ کرنے اور آئندہ گناہوں سے بچتے رہنے کی توفیق عطا فرما، آمین!
اے ہمارے رب! ہمیں کامل نور عطا فرما اور ہمیں بخش دے، یقیناً تو ہر چیز پر قادر ہے ۔آمین یا رب العالمین!

٭ ٭ ٭


خالص توبہ یہ ہے کہ جس گناہ سے وہ توبہ کر رہا ہے، اسے چھوڑ دے۔ اس پر اللہ کی بارگاہ میں ندامت کا اظہار کرے۔آئندہ اسے نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرے۔اگر اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے تو جس کا حق غصب کیا ہے، اس کا ازالہ کرے۔جس کے ساتھ زیادتی کی ہے اس سے معافی مانگے۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مئی ۲۰۲۴