مئی ۲۰۲۴

شام کا وقت ہورہا تھا، ہر طرف سکوت طاری تھا، کبھی کبھی پرندوں کی چہچہاہٹ اس سکوت کو توڑدیتی تھی جو فضا میں چھایا ہوا تھا ،آسمان ابھی برس کر کچھ خاموش ہوا تھا ۔ سورج بادلوں کی فوج سے فرار اختیار کرنا چاہ رہا تھا، جو مسلسل اسے شکست دے رہے تھے ۔منظر ایسا تھا کہ روح کے تاروں کو چھیڑ رہاتھا ۔
انجیل فطرت کی اس تصویر کے ذریعے مصور سے ہم کلام تھی۔ وہ بالکنی میں اپنے گھٹنوں کو سینے سے لگائے غم کی مجسم شکل بنی ہوئی تھی ۔ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اس کے ریشمی بال اڑارہے تھے ۔آج طہٰ کو گزرے چار ماہ دس دن ہوچکے تھے ۔طہٰ کا ایکسیڈنٹ والا دن کسی فلم کی طرح اس کے ذہن کے پردے پر چل رہا تھا۔ آنکھوں پر دھند چھا گئی تھی۔ وہ ماضی میں لوٹ آئی تھی۔

٭ ٭ ٭

انجیل تیار سی کار کے پاس کھڑی تھی اس نے پانچ سالہ تیمور کی انگلی پکڑ رکھی تھی۔وہ دونوں طہٰ کے منتظر تھے جو آدھے گھنٹے سے فون پر لگا ہوا تھا ۔ دوران گفتگو طہ ٰمسلسل لان کے چکر کاٹ رہا تھا ۔
’’ممی !ہم کب جائیں گےآخر ؟‘‘ تیمور نے تنک کر کہا تھا۔
’’تھوڑا صبر کرلو بیٹا!‘‘ انجیل نے تیمور کے گال پر تھپکی دیتے ہوئے کہا تھا ۔
’’طہٰ !چلو بھی ،اب ہم ساری چھٹی یہیںکھڑے گزار دیں کیا ؟‘‘ انجیل کے لہجے میں خفگی در آئی تھی۔ طہٰ فون بند کرتے مسکراتا ہوا ادھر ہی چلا آرہا تھا ۔
’’ہاں بھئی چلو! اتنی جلدی کس لیے؟‘‘ طہٰ نے بڑی تابع داری سے فرنٹ ڈور کھولتے ہوئے کہا تھا ،اور انجیل مصنوعی سنجیدگی کے ساتھ تیمور کو لیے اپنی نشست سنبھال چکی تھی ،اور طہٰ بھی اپنی نشست سنبھال چکا تھا۔کار تارکول کی سڑک پر رواں دواں تھی ۔
’’بابا! مجھے لگا آپ ہمیں سرے سے لے جانا ہی نہیں چاہتے ہیں،تبھی تو کب سے فون پر لگے ہوئےتھے۔‘‘تیمور خفگی سے کہہ رہا تھا ۔
’’بیٹا !میں چاہتا تھا کہ ہم گھر میں ہی چھٹی انجوائے کریں، لیکن میں تم لوگوں کی ضد کی وجہ سے ادھر لایا ہوں ۔‘‘طہٰ نےفوراً صفائی پیش کی تھی۔
’’طہٰ دیکھو جلدی! ‘‘انجیل کی گھبرائی ہوئی آواز پر چونک کر طہٰ نے سڑک کے پار دیکھا تو اس کے اوسان خطا ہوچکے تھے ،ان کی کار کے عین سامنے ایک سیاہ مرسڈیز تیز رفتاری کے ساتھ آرہی تھی، شاید اس گاڑی کے بریک فیل ہوئے تھے ،اس گاڑی کا ڈرائیور مسلسل ہارن بجارہا تھا۔
’’ طہٰ کار سائیڈ میں لو جلدی!‘‘
’’ باباپلیز کار سائیڈ میں لیں جلدی !‘‘انجیل رودینے کو تھی، جب کہ تیمور زور زور سے رورہا تھا ۔
’’ یار! اس کے بھی بریک نہیں لگ رہے ہیں ۔‘‘طہٰ یک دم پریشان ہوا تھا ۔ اسی لمحے وہ سیاہ مرسڈیز طہٰ کی کار سے ٹکرائی تھی۔ انجیل کی دل خراش چیخ نکلی تھی۔ کار کے دروازے آپ ہی آپ کھلے تھے، داہنی جانب طہٰ دور جاگراتھا،اس کا سر کسی پتھر سے ٹکرایا تھا۔ انجیل اور تیمور بائیں جانب گرے تھے۔ تیمور کا سر بری طرح پھٹا تھا۔وہ بے ہوش ہوچکا تھا۔انجیل کو بری طرح چوٹیں آئیں تھی ۔اس کا عبایا دو تین جگہ سے پھٹ چکا تھا، درد کی ٹیسیں اس کی کمر میں اٹھ رہی تھیں، لیکن ان زخموں کو نظر انداز کرتی وہ تیمور کی طرف لپکی تھی ۔
’’تیمور !تیمور! اٹھو میرےبچے! ‘‘وہ بہتے آنسوؤں کے ساتھ کہہ رہی تھی ۔
’’اللہ مدد کر پلیز!‘‘ وہ التجائیہ نظروں سے آسمان کی طرف دیکھ رہی تھی ۔سڑک سنسان تھی ۔جس کار نے انھیں ٹکر ماری تھی وہ بھی دور جاگری تھی۔ انجیل حواس باختہ سی کبھی تیمور کو ہوش میں لانے کی کوشش کررہی تھی، کبھی طہٰ کو اٹھانے کی کوشش کررہی تھی ،جو درد سے کراہ رہا تھا، اس کے سر سے بھل بھل خون بہہ رہا تھا ۔
’’ طہٰ طہٰ! پلیز ہوش میں آؤ !تمھیں اللہ کا واسطہ! آنکھیں بند نہ کرو!‘‘ وہ طہٰ سے منت کر رہی تھی ،جو بار بار آنکھیں بند کیے دیتا تھا۔
’’ طہٰ تم ہم لوگوں کو اکیلا چھوڑ کر نہیں جاسکتے، پلیز اٹھ جاؤ!‘‘
’’ میں…میں…‘‘طہٰ بدقت بول رہا تھا ۔
’’میں تم…دونوں کو…اللہ کی امان میں…دیتا ہوں۔‘‘ زور کی ہچکی طہٰ کو آئی تھی ۔
’’ طہٰ! ایسا مت کہو پلیز !ایسا مت کہو، تمھیں کچھ نہیں ہوگا، بھروسہ رکھو اللہ پر ۔‘‘ انجیل کی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ پھر کہنے لگا تھا ۔
’’انجیل !میرا بیٹا امانت ہے تمھارے پاس، پایۂ تکمیل تک پہنچانا اسے ۔‘‘طہٰ کے آنسو تواتر کے ساتھ بہہ رہے تھے جب کہ انجیل دیوانہ وار مدد کے لیے ادھر ادھر دوڑ رہی تھی ۔
’’اشْھدُ انْ لّا اِلٰہ…‘‘ایک ہچکی کے ساتھ طہ ٰکی سانس اکھڑ چکی تھی اور اس کی گردن دائیں جانب ڈھلک گئی تھی ۔
انجیل دوڑتی ہوئی طہٰ کے پاس آئی تھی اور اسے بے حس و حرکت دیکھ کر اس نے فلک شگاف چیخ ماری تھی۔ اس کا سر چکرایا تھا اور وہ بے ہوش ہوکر گری تھی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اس کی کل کائنات فنا ہوچکی تھی ۔

٭ ٭ ٭

عصر کے وقت انجیل کی آنکھیں کھلی تھیں ۔وہ کسی ہاسپیٹل میں تھی ۔صبح والا منظر نگاہوں کے سامنے گھوم رہا تھا۔ گرم گرم آنسو اس کا چہرہ بھگورہے تھے۔ ایک لمحے کے لیے تو اس کا دل چاہا کہ وہ اللہ تعالی سے شکوے کرے،کیوں اس نے اس کےبچپن میں ہی یتیم کردیا ؟ کیوں یتیمی کا داغ اس کے معصوم بچے کے پیشانی پر سجایا؟ لیکن وہ چاہتے ہوئے بھی زبان پر کچھ نہ لا سکی تھی۔ وہ قرآن سے جڑی لڑکی تھی آخر۔
اسے صبر کرنا تھا صبر کی پہلی چوٹ والا صبر!
طہٰ کے بعد اسے تیمور کا خیال آیا تھا ۔
’’تیمور …تیمور!‘‘ وہ زور زور سے چلارہی تھی۔ اس کی چیخوں کی آواز سنتے ہی امجد صاحب( انجیل کے خسر) کمرے میں وارد ہوئے تھے۔
’’ابو! میرا تیمور کیسا ہے؟کہاں ہے وہ؟‘‘وہ سوال پر سوال کررہی تھی۔
امجد صاحب اپنے آنسو روکنے کی ناکام کوشش کررہے تھے ۔
’’تیمور بالکل ٹھیک ہے میری بچی !بس اس کے سر پر چوٹ آنے کی وجہ سے وہ بے ہوش ہوگیا تھا، لیکن … ‘‘آنسو تواتر کے ساتھ ان کی آنکھوں سے بہنے لگے تھے۔
’’…لیکن طہٰ اس دنیا میں نہیں رہا !‘‘ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے تھے۔ انجیل نے شدت غم سے اپنی آنکھیں میچ لی تھیں۔ اس کی آنکھیں بھی برسنے لگی تھیں۔امجد صاحب نے اسے بڑی محبت سے اپنے ساتھ لگایا تھا ۔

٭ ٭ ٭

’’السلام علیکم ممی! ممی!‘‘ تیمور کی آواز پر وہ چونک کر حال میں لوٹ آئی تھی۔ آنکھوں پر چھائی دھند ہٹ گئی تھی۔ اس نے سرعت سے اشکوں کو صاف کیا تھا۔
’’وعلیکم السلام میری جان!آگئے تم؟کیسا گزرا آج کا دن ؟‘‘
’’بہت اچھا الحمدللہ !‘‘
’’اور آپ کا؟ آپ تو میری غیر موجودگی میں روتی رہی ہے ناں ؟‘‘ تیمور خفگی سے پوچھ رہا تھا ۔
’’آپ پلیز ایسے نہ رویا کریں ،میرا دل دکھتا ہے۔‘‘ تیمور اب التجا کر رہا تھا ۔
’’نہیں رویا کروں گی بابا! سوری! اور داداجان اور تمھارابیگ کہا ںہے ؟‘‘
’’داداجان کسی سے بات کررہے تھے تو میں خود ہی چلا آیا، اور میرا بیگ بھی ان ہی کے پاس ہے۔‘‘
’’اور دادو کہاں ہیں ممی؟‘‘تیمور نے پھر سوال داغا تھا ۔
’’وہ اپنے کمرے میں ہیں بیٹا!‘‘
’’ تم کتنے سوال کرتے ہو؟‘‘ انجیل نے مسکراتے ہوئے اس کے سوال کا جواب دیا تھا ۔

’’ممی !مجھے بابا بہت یاد آتے ہیں، وہ کیوں ہمیں چھوڑ کر چلے گئے ؟‘‘جن سوالات سے وہ بچنا چاہ رہی تھی، تیمور وہی سوالات اس سے پوچھ رہا تھا ۔
’’بیٹا !ادھر آؤ!‘‘ انجیل نے اسے کاندھوں سے پکڑ کر اپنے قریب کیا تھا ۔
’’بیٹا اللہ کی مرضی ہے ۔ وہ جس کو جب چاہے اپنے پاس بلا لیتا ہے۔ اس سے کبھی بھی کیوں نہیں پوچھتے میری جان!تم دعا کیا کرو کہ اللہ پاک ہم سب کو تمھارے بابا کے ہم راہ جنت میں داخل کریں! ٹھیک ؟‘‘
’’ٹھیک۔‘‘ تیمور نے مسکراکر کہا تھا ۔
’’ممی !دادا دادو کتنے اچھے ہیں، وہ ہمارے لیے اپنا گھر چھوڑ آئے، مجھے داداجان نے کہا ہےکہ وہ اب ہمارے ساتھ ہی رہیںگے۔‘‘وہ خوشی خوشی بتارہاتھا۔
’’ہاں بیٹا! وہ بہت اچھے ہیں، اللہ ان کو جزا دے۔‘‘
’’ممی !میں بھی ابو کی طرح بہت نیک بنوں گا۔‘‘اس معصوم کے لہجے میں عزم تھا ۔
’’ان شاءاللہ میرے بچے! ان شاءاللہ۔‘‘انجیل نے تیمور کو اپنی بانہوں میں بھرتے ہوئے کہا تھا۔اس کی آنکھیں پھر برسنے لگی تھیں، لیکن یہ آنسو شکر کے تھے۔
اس کا دل شکر کے جذبات سے بھر چکا تھا کہ اللہ نے اسے جینے کی ایک وجہ تھمائی تھی ۔اس کی زبان پر یکایک وہ الفاظ درآئے تھے، جو اس کے والد کی وفات پر اس کے ڈپریشن میں چلے جانے کی وجہ سے اس کے استاد نے اس سے کہے تھے:

’’جو ملا ہے دل سے لگائے رکھ
جو چلا گیا اسے بھول جا

کیوں کہ یہی زندگی کا اصول ہے میری بچی!‘‘
انجیل پھر سنبھل گئی تھی۔اسے کل سے پھر نئی زندگی شروع کرنی تھی۔
نہیں ،زندگی نہیں ،زندگی تو وہ جنت میں شروع کرےگی،اپنے پیاروں کے ساتھ، اس دنیا میں تو اسے جنت کے حصول کے لیے دوڑ دھوپ کرنی تھی اور وہ اس کے لیے تیار تھی ۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

1 Comment

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مئی ۲۰۲۴