ایفائے عہد: ایمان کی علامت

اسلام کا لفظی معنی ہوتا ہے گردن جھکانا،اطاعت کرنا، چوں کہ اب اگر تدبر و تفکر کیا جائےتو اسلام وہ واحد مذہب ہے جو کثرت اوصاف سے متصف ہے اور ان ہی اوصاف میں سے ایک صفت ایفاء عہد بھی ہے۔ اس کا ڈکشنری میں معنی و مفہوم وعدہ، عہد پورا کرنا، قول و قرار پورا کرناہے،جب کہ مسلمان کا عہد و پیمان باقی سارے فرائض کی طرح ایک عظیم اور اہم فرض ہے۔اب اگر کوئی بھی مسلمان قول و قرار کے ساتھ راستہ باز نہ ہو تو یہ اس نعمت سے محروم ہو کر رہ گیا ہے، کیوں کہ قرآن مجید اس کی تائید کرتا ہے کہ انسان کے قول اور فعل کا تضاد بہت ہی بری خصلت ہے۔ جس سے انسان لوگوں کی نظروں میں گر جاتا ہے اور اللہ تو ایسی بات کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ زبان سے ایک بات کہہ دینا آسان ہے ،لیکن اس کو نبھانا آسان نہیں ہوتا، لہٰذا جو بات کرو سوچ سمجھ کر کرو۔ (تیسیر القرآن)

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ

(اے ایمان والو ! ایسی بات کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں؟)

كَبُرَ مَقۡتًا عِنۡدَ اللٰهِ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ

(اللہ کے ہاں یہ سخت ناپسندیدہ بات ہے کہ تم ایسی بات کہو جو تم کرتے نہیں۔)
قرآن مجید چوں کہ ہر زمانے کے لوگوں سے مخاطب ہے ،اس لیے ان آیات کو پڑھتے ہوئے یوں سمجھیں کہ آج یہ ہم سے سوال کر رہی ہے کہ اے ایمان کے دعوے دارو ! تم کیسے مسلمان ہو ؟ تمہارے قول و فعل میں اتنا تضاد کیوں ہے ؟ تم اللہ پر ایمان کا اقرار بھی کرتے ہو اور دن رات دن اس کے احکام کو پائوں تلے روندتے بھی رہتے ہو۔ تم رسول اللہ ﷺ کی ذات سے عشق و محبت کے دعوے بھی کرتے ہو، لیکن جب عمل کے میدان میں آتے ہو تو آپ ﷺ کی سنتوں کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیتے ہو ۔ ذرا تصور کیجیے ! آج اگر اللہ کا کلام نازل ہو تو ہمارے ایمان ،ہمارے کردار اور ہمارے عمل پر کیا کیا تبصرہ کرے، اور اگر آج حضور ﷺ خود تشریف لاکر اپنی امت کی حالت دیکھ لیں تو کیسا محسوس کریں ؟(بیان القرآن)
چوں کہ آج کل ہمارے معاشرے میں جو خرابیاں عام ہو رہی ہیں، ان ہی خرابیوں میں سے ایک بڑی خرابی ایفائے عہد کی خلاف ورزی ہے، جس نے ہمارے معاشرے کو بے سکونی اور بے اطمینانی کی حالت سے دوچار کر دیا ہے۔ہمارے معاشرے میں معاہدوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہی ہے،چوں کہ ایفائے عہد کی خلاف ورزی کا معمول بن چکا ہے، جب کہ اگر اسلامی تعلیمات اور حضور اکرم صَلَّی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ ہمارے لیے ایک عظیم الشان اور بہترین نمونہ ہے، چوں کہ اللہ تعالیٰ اپنی مقدس کتاب میں فرماتے ہیں :
’’اور جب وہ عہد کر لیں،وہ اپنے عہد پورا کرنے والے ہیں ۔‘‘(سورۃ البقرة )
اللہ تعالیٰ اور ایک جگہ سورۃ المعارج، آیت نمبر : 21میں ایفائے عہد کے بارے میں یوں فرماتے ہیں:

وَالَّذِيۡنَ هُمۡ لِاَمٰنٰتِهِمۡ وَعَهۡدِهِمۡ رٰعُوۡنَ ۞

(جو اپنی امانتوں کی حفاظت اور اپنے عہد کا پاس کرتے ہیں۔)
اس آیت کریمہ کی تفسیر مولانا مودودیؒ یوں فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ
امانتوں سے مراد وہ امانتیں بھی ہیں، جو اللہ تعالیٰ نے بندوں کے سپرد کی ہیں، اور وہ امانتیں بھی جو انسان کسی دوسرے انسان پر اعتماد کر کے اس کے حوالے کرتا ہے۔ اسی طرح عہد سے مراد وہ عہد بھی ہیں، جو بندہ اپنے خدا سے کرتا ہے، اور وہ عہد بھی جو بندے ایک دوسرے سے کرتے ہیں۔ ان دونوں قسم کی امانتوں اور دونوں قسم کے عہد و پیمان کا پاس ولحاظ ایک مومن کی سیرت کے لازمی خصائص میں سے ہے۔ حدیث میں حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے سامنے جو تقریر بھی فرماتے، اس میں یہ بات ضرور ارشاد فرمایا کرتے تھے :

الا، لا ایمان لمن لا امانۃ لہ ولا دین لمن لا عھد لہ

( خبر دار رہو! جس میں امانت نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں، اور جو عہد کا پابند نہیں اس کا کوئی دین نہیں ۔) (بیہقی فی شعب الایمان)
اور ایفائےعہد کے سلسلے میںسورۃ النمل، آیت نمبر: 91میں اللہ تعالیٰ یوں فرماتے ہیں:

 وَ اَوۡفُوۡا بِعَهۡدِ اللّٰهِ اِذَا عَاهَدتُّمۡ وَلَا تَنۡقُضُوا الۡاَيۡمَانَ بَعۡدَ تَوۡكِيۡدِهَا وَقَدۡ جَعَلۡتُمُ اللّٰهَ عَلَيۡكُمۡ كَفِيۡلًا‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ يَعۡلَمُ مَا تَفۡعَلُوۡنَ‏ ۞

(اللہ کے عہد کو پورا کرو، جب کہ تم نے اس سے کوئی عہد باندھا ہو، اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو، جب کہ تم اللہ کو اپنے اوپر گواہ بنا چکے ہو، اللہ تمہارے سب افعال سے باخبر ہے۔)
اور سورۂ بنی اسرائیل میں یوں فرمایا گیا ہے:

وَاَوۡفُوۡا بِالۡعَهۡدِ‌ۚ اِنَّ الۡعَهۡدَ كَانَ مَسۡــئُوۡلًا ۞

(عہد کی پابندی کرو، بے شک عہد کے بارے میں تم کو جواب دہی کرنی ہوگی۔)
اللہ تعالیٰ ایفائے عہد یعنی جو اپنے وعدے کاپاس لحاظ رکھتے ہیں، ان ہی کی خصوصیت بیان کی ہے،سورۃالمومنون، آیت نمبر: 8میں ارشاد فرمایا ہے:

وَالَّذِيۡنَ هُمۡ لِاَمٰنٰتِهِمۡ وَعَهۡدِهِمۡ رَاعُوۡنَ ۞

(اپنی امانتوں اور اپنے عہد و پیمان کا پاس رکھتے ہیں۔)
اس آیت کریمہ کی تفسیر مولانا مودودیؒ یوں فرماتے ہیں :
’’ امانات کا لفظ جامع ہے ان تمام امانتوں کے لیے جو خداوند عالم نے، یا معاشرے نے، یا افراد نے کسی شخص کے سپرد کی ہوں، اور عہد و پیمان میں وہ سارے معاہدے داخل ہیں جو انسان اور خدا کے درمیان، یا انسان اور انسان کے درمیان، یا قوم اور قوم کے درمیان استوار کیے گئے ہوں۔ مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ کبھی امانت میں خیانت نہ کرے گا، اور کبھی اپنے قول وقرار سے نہ پھرے گا۔‘‘

آیت کے جز لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ کی مو لانا مودودیؒ اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں :
’’اس ارشاد کا ایک مدعا تو عام ہے جو اس کے الفاظ سے ظاہر ہو رہا ہے، اور ایک مدعا خاص ہے جو بعد والی آیت کو اس کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے معلوم ہوتاہے ۔پہلا مدعا یہ ہے کہ ایک سچے مسلمان کے قول اور عمل میں مطابقت ہونی چاہیے۔ جو کچھ کہے اسے کر کے دکھائے، اور کرنے کی نیت یا ہمت نہ ہو تو زبان سے بھی نہ نکالے۔ کہنا کچھ اور کرنا کچھ، یہ انسان کی ان بدترین صفات میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں نہایت مبغوض ہیں، کجا کہ ایک ایسا شخص اس اخلاقی عیب میں مبتلا ہو جو اللہ پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتا ہو۔‘‘
نبی کریم ﷺ نے تصریح فرمائی ہے کہ کسی شخص میں اس صفت کا پایا جانا ان علامات میں سے ہے جو ظاہر کرتی ہیں کہ وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

ایٰۃ المنافق ثلاث(زاد مسلم وان صام و صلی و زعم انہ مسلم) اذا حدث کذب و اذا وعد اخلف واذا أتمن خان
(بخاری و مسلم)

(منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ اگرچہ وہ نماز پڑھتا ہو روزہ رکھتا اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہو۔ یہ جب بولے جھوٹ بولے، اور جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے، اور جب کوئی امانت اس کے سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے۔)
ایک اور حدیث میں آپﷺ کا ارشاد ہے:

اربع من کن فیہ کان منافقا خالصا ومن کانت فیہ خصلۃ منھن کانت فیہ خصلۃ من النفاق حتی یدعھا، اذا اتمن خان واذا حدث کذبواذا عاھد غدر، واذا خاصم فجر
(بخاری و مسلم)

(چار صفتیں ایسی ہیں جس شخص میں وہ چاروں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے، اور جس میں کوئی ایک صفت ان میں سے پائی جائے اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت ہے، جب تک کہ وہ اسے چھوڑ نہ دے۔ یہ کہ جب امانت اس کے سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے، اور جب بولے تو جھوٹ بولے، اور عہد کرے تو اس کی خلاف ورزی کر جائے، اور لڑے تو اخلاق و دیانت کی حدیں توڑ ڈالیں۔)
اور اسی آیت کی مزید وضاحت ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی صاحب روح قرآن میں یوں کرتے ہیں:
’’الْمَقْتُ … اہل لغت اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: الْمَقْتُ اشدالابغاض، المقت بغض من امرقبیح رکیۃ یعنی حددرجہ کا بغض، خصوصاً وہ بغض جو کسی قبیح حرکت کے باعث ہو۔ انسان کی اخلاقی کمزوریوں میں سے یہ کمزوری بہت تکلیف دہ اور نقصان کا باعث ہے کہ انسان کے قول و عمل میں تضاد ہو۔ وہ جس بات کا دعویٰ کرے عمل کی دنیا میں اس پر پورا نہ اترے۔ اگر وہ ایک ایسا دعویٰ کرتا ہے جس پر وہ عمل کرنے کا ارادہ ہی نہیں رکھتا تو یہ تو ایک بدترین عیب ہے،لیکن اگر وہ دعویٰ کرتے وقت عمل کا ارادہ تو رکھتا تھا لیکن بعد میں عملی دشواریوں کو دیکھتے ہوئے اس نے عمل کا ارادہ بدل ڈالا۔ تو یہ چیز بھی بجائے خود ایک مسلمان کے لیے انتہائی قبیح حرکت ہے۔ جھوٹ بولنا، وعدے کی خلاف ورزی کرنا یا امانت میں خیانت کرنا یہ سب اسی خصلت کے شاخسانے ہیں،اور آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے منافق کی نشانیاں قرار دیا ہے جس کا ذکر آچکا ہے،اور سیرت و کردار کی تعمیر میں اس کا جو حصہ ہے شاید اسی کا نتیجہ تھا کہ آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ہر خطبہ جمعہ میں ہمیشہ اس کا ذکر ضرور فرماتے تھے۔ کبھی فرماتے: لا ایمان لمن لاعہدلہ اور کبھی فرماتے: لادین لمن لاامانۃ لہ کیوں کہ جو شخص اپنے قول کا ایفاء کرنے والا ہے وہ نہ کبھی وعدے کی خلاف ورزی کرتا ہے اور نہ کبھی امانت میں خیانت کرتا ہے۔ اسی وجہ سے مسلمانوں میں اس عیب کے پیدا ہونے کا کبھی امکان بھی محسوس نہیں کیا جاتا تھا۔‘‘
اور مزید وضاحت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ اپنی تفسیر ’’معارف القرآن‘‘ میں فرماتے ہیں:
انسانوں کی عزت اور کامیابی ایمانی اوصاف و کمالات پر ہی موقوف ہے، جس کے لیے قول وفعل کی مطابقت ویکسانیت چاہیے۔ قول وفعل میں تضاد نفاق کی علامت ہے، اس لیے اے مسلمانو ! اے ایمان والو! کیوں کہتے ہو اپنے منہ سے وہ بات جو تم نہیں کرتے ہو؟ بڑی ہی ناراضگی کی بات ہے اللہ کے نزدیک کہ تم وہ چیز کہو جو نہیں کرتے ہو، اس طرح کے دعوے اور لاف زنی جھوٹوں اور منافقوں کا کام ہوتا ہے، اور نفاق انسان کی سب سے بڑی کم زوری ہے تو ظاہر ہے کہ ایسی کم زوری کے بعد دشمن کا کیا خاک مقابلہ کرے گا اور فتح و کامرانی کی کیوں کر تو قع ہوسکتی ہے؟ ایمان والوں کو تو چاہیے کہ صداقت اور عزم وہمت کے حامل بن کر اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔‘‘
اللہ تعالیٰ ایفائے عہد کو اپنی نسبت پر سورۂ آل عمران، آیت نمبر: 9میں یوں فرماتے ہیں :
’’یقیناً اللہ تعالیٰ اس وعدے کے خلاف نہیں کرے گا۔‘‘
اس آیت کریمہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کی پاسداری کرتا ہے نہ کہ خلاف ورزی کرتا ہے،لہٰذا جو اس نے بتایا ہے وہ ہو کر رہے گا ۔
اللہ تعالیٰ سورۂ احزاب میں سچے لوگوں کے بارے میں اس طرح بیان فرماتے ہیں:

لِّيَسْأَلَ الصَّادِقِينَ عَن صِدْقِهِمْ ۚ وَأَعَدَّ لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا أَلِيمًا
(آیت نمبر : 8)

(تاکہ اللہ تعالیٰ پوچھ لے سچے لوگوں سے ان کے سچ کے بارے میںاور اس نے تیار کر رکھا ہے کافروں کے لیے ایک دردناک عذاب۔)
چونکہ انبیاء کے ایفائے عہد کی ان سے باز پرس بھی ہوگی، جب کہ یہ محض عہد لینے تک ہی معاملہ نہیں ہو جاتا، بلکہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس عہد سے متعلق پیغمبروں سے بھی سوال کرے گا۔ان کی بھی باز پرس ہوگی، ان سے بھی پوچھا جائےگاکہ آپ نے میری دعوت کو اپنی قوم پہنچا دیا تھا؟ آیت کریمہ میں واضح کیا گیا ہے کہ ہم نے تمام جلیل القدر انبیاء سے بھی عہد لیا اور اس میں ہم نے بالکل نرمی اور مداہنت نہیں برتی، بلکہ ہر ایک سے مضبوط عہد لیا اور اب کو اس پر قائم اور استوار رہنے کی تاکید در تاکید فرمائی، اب یہاں چوں کہ آیت میں رسولوں کی جگہ صادقین کا لفظ آیا ہے،گویا ہر ایمان دار سے اس کے عہد کے متعلق سوال کیا جائے گا کہ اس کی کہاں تک پابندی کی گئی،پھر جن لوگوں نے اللہ کے ساتھ کیےہوئے عہد کو وفا کر کے پورا کیا ہوگا وہی لوگ صادق العہد قرار پائیں گے۔
مفسر مولانا امین احسن اصلاحی، سورۂ انفال، آیت نمبر : 56

اَلَّذِيْنَ عٰهَدْتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ يَنْقُضُوْنَ عَهْدَهُمْ فِيْ كُلِّ مَرَّةٍ وَّهُمْ لَا يَتَّقُوْنَ

(جن سے تم نے عہد لیا، پھر وہ اپنا عہد ہر بار توڑ دیتے ہیں اور وہ ڈرتے نہیں۔)
میں فرماتے ہیں کہ یہاں خاص طور پر اشارہ یہود کی طرف ہے، کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینۂ منورہ میں تشریف لانے کے بعد سب سے پہلے ان ہی کے ساتھ باہمی تعاون کی اپنی حد تک پوری کوشش کی تھی کہ ان سے خوش گوار تعلقات قائم رہیں۔ اب آیت میں ان ہی لوگوں کا حال بیان کیا گیا ہےکہ ظاہری طور پر اگر چہ یہودی اس معاہدے کے پابند تھے، مگر خفیہ طور پر مسلمانوں کے خلاف سازشوں سے بھی باز نہیں آتے تھے۔انھوں نے ہر مشکل مرحلے پر اس معاہدے کا پاس نہ کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کے ساتھ ساز باز کی، ان ہی کا ذکر یوں ہے: ’’ من الذین کفروا‘‘ اوپر ہم اشارہ کر آئے ہیں کہ ان لوگوں نے معاہدہ تو کرلیا، لیکن اس کو وفاداری کے ساتھ نبھایا ایک دن بھی نہیں۔ جب کوئی موقع امتحان کا آتا ،وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے سے باز نہ آتے۔ ان کی ہم دردریاں برابر قریش کے ساتھ رہیں۔ معاہدہ کرلینے کے بعد بار بار نقض عہد کا ارتکاب یہ ان کے دل کی سختی، کردار کی پستی اور ان کے احساس غیرت و حمیت سے خالی ہونے کی دلیل تھی۔ فی کل مرۃ سے مطلب یہ ہے کہ جس طرح کے حالات کے لیے معاہدہ وجود میں آیا تھا، اس طرح کی کوئی آزمائش جب کبھی پیش آتی تو یہ معاہدہ کا احترام نہ کرتے، بلکہ اس کی خلاف ورزی کر گزرتے۔ لا یتقون سے یہاں مطلب یہ ہے کہ نقض عہد اور اس کے نتائج سے نہیں بچتے ،حالاں کہ عہد کی پاسداری اور حرمت دنیا کے معروف میں بھی مسلم ہے اور اللہ کے یہاں بھی اس کی پرسش ہونی ہے۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مئی ۲۰۲۴