مئی ۲۰۲۴

آج فرزین اسکول سے لوٹا تو کچھ عجیب سی کیفیت تھی اس کی۔ کسی نہ کسی بات پر وہ ناراض دکھائی دے رہا تھا۔
مما نے کھانے کا پوچھا تو کہنے لگا:’’ مجھے نہیں کھانا ۔کیا پکایا ہوگا آپ نے؟وہی دال سبزی، ہنہ!‘‘
’’اچھا! لگتا ہے تھک گئے ہو۔منہ ہاتھ دھولو اور کچھ آرام کرلو۔میں آپ کےلیے شربت بناتی ہوں۔‘‘ فرزین کی مما نے پیار سے کہا۔
فرزین منہ ہاتھ دھوکر ہال میں داخل ہوا۔ ابو کو دادی اماں کے قریب بیٹھے دیکھ کر اسے تعجب ہوا۔ آج ابو خلاف معمول فرزین سے پہلے گھر جو پہنچے تھے۔
’’السلام علیکم بیٹا!‘‘ ابو نے پہل کی۔
’’وعلیکم السلام!‘‘ فرزین نے بجھا بجھا سا جواب دیا۔
’’کیا بات ہے فرزین! تھک گ ہو؟‘‘
’’ہوں۔‘‘ اس نےآہستہ سے جواب دیا۔
’’کیوں بھئ؟ کیا بات ہے؟ آٹو نہیں آیا تھا کیا؟‘‘ابو نے پوچھا۔
’’A.Cتو نہیں لگا ہے آٹو میں۔‘‘ فرزین منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔
ابو نے غور سے فرزین کو دیکھا۔وہ کچھ سوچ کر خاموش ہوگئے۔اتنے میں مما ٹرے میں ٹھنڈےاور میٹھےروح افزا کے گلاسزسجاے لے آئیں۔ابو نے اٹھ کر ٹرے سے گلاس اٹھایا اور دادی اماں کومحبت سے پیش کیا۔دادی ماں نے مسکرا کر بیٹے کے ہاتھ سے گلاس لیا۔
’’تم بھی لو بیٹے!‘‘دادی ماں کہنے لگیں۔ تب تک مما نے ایک گلاس ابو کی جانب بڑھایا،اور دوسرا فرزین کی طرف۔سب شربت کے چسکیاں لینے لگے۔ابو نے کن انکھیوں سے فرزین کو دیکھا۔ شربت کے گھونٹ لینے پر بھی فرزین کا چہرہ جوں کا توں تھا۔انھوں نے پہلو بدل کر دادی اماں کو مخاطب کیا:’’اماں! مجھے وہ کیری اور سونف کا شربت یاد آرہا ہے جو میرے اسکول سے لوٹنے پر آپ میرے لیے بنایا کرتی تھیں۔‘‘
’’یا اللہ! وہ بھی کیا دن تھے۔‘‘دادی اماں کو وہ پرانے غربت کے دن یاد آگئے۔
’’ مٹکے کے پانی سے تمھارے لیے شربت بناتی تھی۔ بیٹا تم بھی تو بھری دوپہر میں پیدل چل کر لوٹتے تھے مدرسے سے۔‘‘
’’ پیاری اماں! وہ شربت پی کر ، چادر کو گیلی کرکے کھڑکی پر لٹکادینا ، پھر اس کی ٹھنڈی ہوا میں سوجانا۔آہا ہا… ہا…!‘‘
اب فرزین کے حیرانی کی باری تھی۔ اس نے غور سے ابو کا چہرہ دیکھا۔فرزین کو اس کے ابو اپنی امی سے گفتگو کرتے ہوئےبالکل بچہ دکھائی دینے لگے۔اتنے میں فرزین کی مما گود میں ننھی مریم کو لیے ایک ہاتھ میں مریم کے کھانے کی پلیٹ لیے آ پہنچیں۔نیچے قالین پر آہستہ سے مریم کو کھلونے دےکر بٹھایا۔فرزین مما کے پاس کھسک آیا۔
دادی اماں ابو سے کہہ رہی تھیں:’’ بیٹا !کچھ کم تھا، لیکن اللہ نے بڑی خوش گواری دی تھی، الحمدللہ!آج بھی ہمارا خاندان خوش گوار ہے۔‘‘
دادی اماں سے یہ جملہ سن کر فرزین کا تجسس بڑھا۔اس نے آہستہ سے مما سے پوچھا:’’ مما! خوش گوار خاندان، یعنی …؟‘‘
’’خوش گوار خاندان یعنی خوش خاندان، جہاں گھر کے افراد ایک دوسرے سے خوش رہتے ہوں۔ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہوں، چھوٹے بڑوں کی عزت اور خدمت کرتے ہوں، اور بڑے چھوٹوں سے محبت اور دعائیں دیتے ہوں۔ایک دوسرے کی قدر کرتے ہوں ایک دوسرے کے شکر گزار رہتے ہوں، وہ خوش گواریعنی Happy Family کہلاتی ہے۔‘‘ مما نے اسے سمجھایا۔
کچھ دیر پہلے اسکول سے لوٹتے ہوئےآٹو کے انتظار میں کھڑے فرزین کی ملاقات شاداب سے ہوئی تھی۔ بڑی سی ایر کنڑیشنڈکار (Air conditioned car )،ڈرائیور کا آگے بڑھ کر شادب کا اسکول بیگ اٹھانا ،اس منظر نےفرزین کو بہت متاثر کیا تھا۔اب دادی اماں اور ابو کی گفتگو سے وہ بہت کچھ سمجھ چکا تھا۔
آفس سے آنے کے بعد ابو کا دادی ماں کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنا۔مما کا مسکرا کر ان کا استقبال کرنا۔ مما کا مقررہ وقت پر ان کے لیے کھانا اور دوا دینا اور دادی ماں کا وہ ڈھیروں دعائیں دینا۔ روزانہ رات میں سونے سے پہلے مریم اور فرزین کو دلچسپ کہانی سنانا ۔اذکار پڑھ کر دم کرنا۔
’’ یہی تو خوش گواری ہے۔‘‘وہ سوچنے لگا۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

3 Comments

  1. Umme shiza

    Mashallah..well explained.. happy family

    Reply
    • تحسین عامر

      شکریہ ڈیر بھانجی۔

      Reply
  2. تحسین عامر

    شکریہ ڈیر بھانجی۔

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مئی ۲۰۲۴