مئی ۲۰۲۴

کل شام اِک لڑکا ملا
بازار میں بیٹھا ہوا
اِک تھال ہاتھوں میں لیے
اور تھال حلوے سے بھرا
دیکھا جو مجھ کو دیکھتے
وہ اُٹھ کے یوں کہنے لگا
حلوہ مزے کا ہے بہت
چکھیے تو اِک ٹکڑا ذرا
دو پیس کے بس دو روپے
حلوہ نہیں مہنگا مرا
میں نے لیے کل پانچ عدد
اور پانچ کا سکہ دیا
کھایا تو خوب آیا مزہ
اب میں نے لڑکے سے کہا
سچ مُچ مزے کا ہے بہت
تیار یہ کس نے کیا؟
بولا کہ امی جان کے
ہاتھوں کا ہے یہ ذائقہ
پوچھا کہ والد آپ کے
کرتے ہیں کاروبار کیا؟
بولا کہ ابو جان کا
سایہ تو سرسے اُٹھ گیا
میں نے کہا افسوس ہے
یہ بات سُن کر دُکھ ہوا
پڑھ لکھ کے آگے بڑھنے کا
تم سے سہارا چھن گیا
لیکن مری اِس بات کو

سن کر وہ لڑکا ہنس دیا
کہنے لگا اے مہرباں!
اصلی سہارا ہے خدا
پڑھتا بھی ہوں لکھتا بھی ہوں
اب میٹرک ہوں کر چکا
آگے بڑھوں گا بالیقیں
محنت کا پاؤں گا صلہ
میں نے رسولؐ پاک کی
سیرت سے پایا حوصلہ
آقا مرے، مولا مرے
حضرت محمدؐ مصطفیٰ
تشریف لائے جب یہاں
تو باپ کا سایہ نہ تھا
پھر والدہ کا سایہ بھی
سرکار کے سر سے اُٹھا
دادا میاں رُخصت ہوئے
پھر چل بسے اُن کے چچا
لیکن خدائے پاک نے
اُن کو کیا سب سے بڑا
میں بے سہارا تو نہیں
میں ہوں غلامِ مصطفیؐ
لڑکے کی ساری گفتگو
میں غور سے سنتا رہا
پھر جھوم کر میں بول اُٹھا
شاباش لڑکے واہ وا
شاباش لڑکے واہ وا

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مئی ۲۰۲۴