مئی ۲۰۲۴

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو عبد یا بشر جیسے الفاظ کے بجائے خلیفہ،نائب،نمائندہ و جانشیں کے خطاب سے نواز کر ایک روحانی مرتبہ و منصب عطا کیا۔ اتنا ہی نہیں اپنی تخلیق کردہ باقی تمام مخلوقات میں نوع انسانی کو اشرف و ممتاز ہونے کا اعزاز بھی بخشا۔ تخلیق نوع انسانی کے موقع پر خدائے واحد نے مقصد تخلیق کو واضح کرتے ہوئے فرشتوں کے سامنے کہا تھا کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں۔

 وَاِذۡ قَالَ رَبُّكَ لِلۡمَلٰٓئِكَةِ اِنِّىۡ جَاعِلٌ فِى الۡاَرۡضِ خَلِيۡفَةً ؕ
(سورۃالبقرہ:30)

(اور یاد کرو جب کہ تمھارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔)
اللہ کے نظام کو ایک مکمل ضابطۂ حیات بنا کر زمین پر نافذ کرنا گویا کہ نوع انسانی کی بنیادی فکر ہے۔
بقول شاعر:

ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں تیرا نام رہے

تاریخ گواہ ہے کہ انبیاء و صالحین اور شہداء کی زندگیاں اسی مشن کےلیے وقف تھیں۔ نظام عدل کے قیام اور صالح معاشرے کی تشکیل کے خواب کو پورا کرنے میں انھوںنے تن من دھن کی قربانیاں پیش کیں۔ کوئی بھی خوفِ خدا نہ رکھنے والا شخص کسی عوامی منصب کا اہل نہیں ہو سکتا۔ حضرت عمرؓ خدا کے حضور جواب دہی کے خوف سے تھر تھر کانپتے تھے اور فرماتے تھے کہ اگر میری سلطنت میں ایک کتا بھی پیاسا مرجائے تو مجھے حساب دینا ہوگا۔
ایک صالح معاشرہ افراد کے کردار و عمل کی بلندی چاہتا ہے، تاکہ نظامِ زندگی کو بطورِ نمونہ پیش کرنے میں ہمارے قول و عمل میں تضاد نہ ہو، جس کی تاکید سورۃ الصف کی دوسری آیت میں یوں ہے:

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ ۞

(اے ایمان والو ! تم وہ بات کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں ؟)
خلافت ایک اعلیٰ و ارفع سیاسی نظام کا نام ہے، جس کے تحت بسنے اور زندگی گزارنےوالے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایمان دار ہو اور اس کا یہ مطلوبہ معیار بھی ہوکہ وہ صلہ رحمی، اخوت، محبت، مساوات، برداشت ،بردباری، بھائی چارہ و انسانیت کا علم بردار اور انصاف پسند ہو۔ یہ اللہ رب العالمین کی رضا و ابدی جنت حاصل کرنے کا راستہ فرداً فرداً ہم سے مطالبہ کرتا ہے۔
حالاتِ حاضرہ پر نظر ڈالیں تو آج ہندوستانی مسلمانوں کا حال کچھ یوں ہے:

گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سےزمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

آج ہندوستانی مسلمانوں کی بے عملی و بے راہ روی نے تباہی و بربادی کی کئی دروازے کھول دیئے ہیں۔ نتیجۃً آج ایک دوسرے کی جان و مال محفوظ نہیں،آج کوئی پُر اعتماد رہ بر و رہ نما نہیں، آج مسلمان طبقاتی کشمکش و فرقوں میں بٹ کر رہ گئے ہیں،ایسے حالات کو قرآن نے یوں بیان کیا ہے:
’’ خشکی و تری میں فساد برپا ہو گیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے‘‘
جس رسی (قرآن)کو اللہ تعالیٰ نے مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا تھا، آج ہند کے مسلمانوں نے اسے پس پشت ڈال دیا۔ فرد کی اصلاح کا مطلوبہ معیار آج ہمارے اندر نہ رہا۔ آج مسلمان جھوٹ بھی بول رہا ہے، بے ایمانی و خیانت بھی انجام دے رہا ہے، کیوں کہ وہ صرف قانونی مسلمان بن کر رہ چکا ہے۔
سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 14 میں آتا ہے:

قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا‌ ؕ قُلْ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَلٰـكِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَلَمَّا يَدۡخُلِ الۡاِيۡمَانُ فِىۡ قُلُوۡبِكُمۡ‌ ۚ وَاِنۡ تُطِيۡعُوا اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ لَا يَلِتۡكُمۡ مِّنۡ اَعۡمَالِكُمۡ شَيۡئًــا‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ ۞

(بدو نے کہا کہ ہم ایمان لائے۔ ان کو بتا دو کہ تم ایمان نہیں لائے، ہاں، یوں کہو کہ ہم نے اطاعت کرلی اور ابھی ایمان تمھارے دلوں کے اندر داخل نہیں ہوا ہے، اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو گے تو اللہ تمھارے اعمال میں سے ذرا بھی کم نہیں کرے گا۔ اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔)
آج ہم سب مسلمانوں کا یہ نہ صرف خواب ہے بلکہ اس خواب کو ہم شرمندۂ تعبیر کرنا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ قابل حکمران ہو اور ہمارا وطن عزیز ہندوستان امن و سکون کا گہوارہ بن جائے تو اپنا راستہ بدلنے کے بجائے ہمیں خود کو بدلنا ہوگا،تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے راہیں ہموار ہوں۔ جب حضرت آدمؑ کے سامنے خلیفہ کےمنصب کی بات کی گئی تو ان کے سامنے کوئی رعایا و معاشرہ نہیں تھا ،بلکہ انھوں نے اپنے نفس کے خلاف اللہ کے حکم کواپنی ذات پر ترجیح دی۔ کمال یہ نہیں ہے کہ کوئی فرد خود کو امیدوار سمجھے اور اپنے آپ کو پیش کرے ،بلکہ کمال تو یہ ہے کہ افرادِ معاشرہ ہمیں اس قابل سمجھیں اور ہمارا انتخاب کرنے پر مجبور ہوں جائیں۔ آگے چل کر جو بھی حکومت بنے وہ خلافت راشدہ کی مثال بنے اور صالح معاشرہ کہلائے۔ یہ ہمارا فرضِ اولین ہے کہ اپنے کردار و عمل کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالیں۔ ہمارے قول و عمل میں کوئی تضاد نہ ہو۔ اگر ہم اپنے ہم وطنوں کو ایک مخصوص پارٹی کو رائے ( ووٹ ) دینے پر ابھاریں تو وہ ہم پر آنکھیں موند کر بھروسہ کر سکیں۔ یہاں ہمیں اپنی خودی کو جگانے کی ضرورت ہے، تب کہیں جا کر ظلمتِ شب کا سینہ چاک ہوگا اور ہماری کھوئی ہوئی ساکھ دوبارہ بحال ہو سکے گی۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مئی ۲۰۲۴