مئی ۲۰۲۴

ہندوستان میں پارلیمانی انتخابات جاری ہیں، جس کےپانچ مرحلوں میں سے ابھی 3مرحلے باقی ہیں۔ پہلا مرحلہ 19 اپریل کو تھا، اور نتائج کا اعلان 4 جون کو کیا جائے گا۔ جہاں سبھی سیاسی جماعتیں مختلف کیمپین اور انتخابی ریلیوں میں لگی ہوئی ہیں، وہیں بی جے پی پھر سے نفرت کی سیاست کرتی نظر آ رہی ہے۔ اس دفعہ پارٹی کے کسی اور کارکن نے نہیں، بلکہ خود وزیراعظم نے زہر اگلا ہے۔
گذشتہ اتوار 21 اپریل کو وزیر اعظم نریندر مودی نے راجستھان میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر کانگریس اقتدار میں آئی تو وہ ہندوؤں کی دولت کو’ ’در اندازوں‘‘ اور’ ’بہت سے بچے‘‘ پیدا کرنے والوں میں تقسیم کر دے گی، کانگریس کا منشور ہے کہ وہ ملک بھر سے لوگوں سے ان کے اثاثے لے کر عوام میں برابر تقسیم کریں گی۔
نریندر مودی نے دعویٰ کیا کہ کانگریس پہلے حکومت میں کہہ چکی ہے کہ ہندوستان کے اثاثوں پر مسلمانوں کا حق ہے۔اس لیے اس کا مطلب ہوا کے وہ یہ اثاثے لے کر انھیں بانٹیں گے ،جن کے زیادہ بچے ہیں۔ مودی نے مسلمانوں کے لیے ’’گھس پیٹھیوں‘‘ جیسا لفظ استعمال کیا ،جو ان کی ذہنی سطح کی عکاسی کرتا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ میری ماؤں اور بہنوں یہ اربن نسل کی سوچ آپ کا منگل سوتر بھی محفوظ رہنے نہیں دے گی۔
مودی نے سامعین سے سوال پوچھاکہ کیا آپ کی محنت کی کمائی دراندازوں کو دینی چاہیے؟
وزیراعظم کے اس کانگریس مخالف بیان کے پیچھے کتنی سچائی ہے؟
مودی کا یہ بیان سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کی 2006 ءکی تقریر کا ایک ٹکڑا ہے، جس میں منموہن سنگھ نے اقلیتوں اور دوسرے پس ماندہ طبقوں کو بااختیار بنانے کی بات کی تھی، تاکہ وہ ترقی کے ثمرات میں حصہ لے سکیں اور کہا تھا کہ ملک کے وسائل پر ان طبقوں کا پہلا حق ہونا چاہیے۔ سابق وزیراعظم کا یہ بیان اس وقت بھی کافی تنازع میں آ گیا تھا۔ انھوں نے ایک پریس ریلیز میں واضح کیا کہ وزیر اعظم کا’ ’وسائل پر پہلا دعوی‘‘ کا حوالہ ان تمام ’’ترجیحی‘‘ حلقوں کے بارے میں تھا، بشمول ایس سی، ایس ٹی، او بی سی، خواتین اور بچوں اور اقلیتوں کی ترقی کے پروگرام۔ایک ملک کی ترقی تبھی ممکن ہے جب کہ اس میں رہنے والا ہر طبقہ ترقی کرے۔
وزیراعظم کا مسلم اقلیت کے خلاف یہ نفرت آمیز بیان کوئی نئی بات نہیں ہے، بلکہ اس سے پہلے بھی سنہ 2002 ءمیں گجرات کے مہلک فسادات کے چند مہینوں بعد ہونے والے ریاستی اسمبلی کے انتخاباتی مہم دوران جب انھوں نے بھیڑ سے پوچھا کہ کیا سرکار کو’ ’ریلیف کیمپ چلانا چاہیے؟ کیا ہمیں بچے پیدا کرنے کے مراکز کھولنے چاہیں؟‘‘
مسلمانوں کے زیادہ بچے ہونے پر یا ان کی آبادی پر اگر وزیراعظم کا یہ بیان آتا ہے تب بھی اس کے پیچھے کوئی حقیقت نہیں ہے۔ 2011 ءکے سینسس کے مطابق 1951 ءسے لے کر 2011 ءتک مسلمانوں کی آبادی 136 ملین بڑھی ہے، جب کہ ہندوؤں کی 676 ملین بڑھی ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو ہندوؤں کی آبادی مسلمانوں کی آبادی سے 5 گنا زیادہ بڑھی ہے۔
مختلف سیاسی رہ نماؤں نے جہاں اس پر افسوس اور غصے کا اظہار کیا ہے، وہاں الیکشن کمیشن کی طرف سے اب تک کوئی کارروائی سامنے نہیں آئی ہے۔ Under representation of people’s act 1951 کے تحت مذہب کے نام پر ووٹ مانگنا، لوگوں کو بھڑکانا یا پھر کسی بھی مذہب پر تنقید کرنا غیر قانونی ہے۔ لہٰذا واضح سوال بنتا ہے کہ کیا نریندر مودی پر یہ قانون لاگو نہیں ہوتا۔
ایسا نہیں ہے کہ اس حکومت نے ملک کی فلاح و بہبودی کے لیے کچھ منصوبے نہ بنائے ہوں Skill India, Startup India, Make in India, وکاس اور اچھے دن کے نام پر عوام کو بہت سے خواب دکھائے گئے اور ان سے بہت وعدے بھی کیے گئے۔ حکومت کے پاس ایک اچھا موقع تھا کہ ان منصوبوں پر عمل درآمد کرتی اور پھر اس حوالے سے لوگوں سے ووٹ کی اپیل کرتی، پر حکومت کے وعدے کرنے اور نبھانے میں جو تضاد رہا اس نے وزیراعظم کو اس لائق نہیں چھوڑا کہ وہ لوگوں سے اس بنا پر اپیل کرتے، لہٰذا انھوں نے اپنے سب سے کار آمد ہتھیار یعنی مذہب کے نام پر لوگوں کو بھڑکانا، ڈرانا اور پھر ان سے ووٹ مانگ کر اقتدار پر آ جانے کو ترجیح دی۔
حیران کن ہے کہ جہاں سارے سیلیبریٹیز نےچپی سادھ رکھی ہے اور کوئی حکومت سے متعلق کوئی بات نہیں کرنا چاہتا ،وہاں بالی ووڈ اداکارہ لارہ دتا نے مودی کے اس بیان پر ستائشی انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے کہا کہ وزیراعظم کا یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ آپ جو چاہتے ہیں اس کے لیے آپ کو کھڑا ہونا پڑتا ہے۔
یہ الفاظ کسی جاہل اندھ بھکت کے ہوتے تو تعجب کی بات نہیں تھی، پر اونچی سطح کے پڑھے لکھے لوگ جب اس طرح کے بیان دیتے ہیں تو اس سے لوگوں کی ذہنی حالت کا اندازہ ہوتا ہے۔ عوامی سطح پر جب لوگوں سے بھاجپا حکومت سے متعلق سوال کیے گئے تو ایک خاتون نے کہا کہ اگر پیٹرول 500 روپے لیٹر اور گیس کا سلینڈر 5000 کا بکے تب بھی ہم بھاجپا کو ووٹ دیں گے۔ اس سے آپ اندازہ لگائیے کہ کس طرح بتدریج عوام کی ذہن سازی کی گئی ہے۔
حکومتی اہلکاروں کے ایسے بیان اور پھر عوامی سطح پر اس طرح کا رد عمل ہمارے لیے تشویش ناک ہے۔ یہ نہ صرف ہماری جمہوریت پر ایک سوالیہ نشان ہے بلکہ سیکولر ہندوستان کے اسٹیٹس کو بھی مسخ کرتا ہے۔ الیکشن، انتخابی ریلیاں، ووٹ، سیاست دانوں کے بڑھ چڑھ کر کیے جانے والے وعدے یہ سب چند سالوں کے وقفے میں ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے ،پر اس دفعہ جس طرح سے دستورِ ہند کو ٹھیس پہنچائی جا رہی ہے، عوام کے حقوق کا استحصال کیا جارہا ہے، اپوزیشن کے ساتھ گرفتاری کے معاملات ؛یہ سب کسی آنے والی ناگہانی صورت حال کی سنگینی کا احساس دلاتے ہیں۔ اپنے ملک سے محبت اور وفاداری کا تقاضا ہے کہ اس طرح کی سوچ کے خلاف ہم آواز بلند کریں، بیداری مہم چلائیں اور اپنے ووٹ کا سوچ سمجھ کر استعمال کریں ۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مئی ۲۰۲۴