جون ۲۰۲۴

أَعُوذُ بِاللٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قُلۡ اِنَّنِىۡ هَدٰٮنِىۡ رَبِّىۡۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍۚ دِيۡنًا قِيَمًا مِّلَّةَ اِبۡرٰهِيۡمَ حَنِيۡفًا‌ ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَ ۞
(سورۃالانعام: 161)

(اے محمد ؐ ! کہو میرے رب نے بالیقین مجھے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے، بالکل ٹھیک دین جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں، ابراہیم ؑ کا طریقہ جسے یک سُو ہوکر اُس نے اختیار کیا تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔)

قُلۡ اِنَّ صَلَاتِىۡ وَنُسُكِىۡ وَ مَحۡيَاىَ وَمَمَاتِىۡ لِلّٰهِ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَۙ ۞(سورۃ الانعام: 162)

(کہو! میری نماز، میرے تمام مراسِم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔)

’’کہہ دیجیے کہ میری نماز ،میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے ۔اس کا کوئی شریک نہیں ،مجھے اسی کا حکم ملا ہے اور میں سب سے پہلا فرماں بردار ہوں ۔‘‘(القرآن)
اللہ پر کامل ایمان اور یقین کا تقاضا یہ ہے کہ بندۂ مومن کی تمام کوششیں، کاوشیں ،بھاگ دوڑ اور محنت کا مقصد صرف اور صرف اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنا ہو، نیز اس کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کر دینے کا جذبہ بھی اس کے اندر موجود ہو۔ اللہ کی راہ میں جاںنثاری، قربانی اور خود سپردگی کی مثال قائم کرنے کے لیے ہر سال لاکھوں فرزندان توحید اللہ کے گھر کے مہمان بننے کا شرف حاصل کرتے ہیں اور حج کے ارکان کی ادائیگی میں ایک اہم فریضہ’’قربانی‘‘ کو پیش کر کے سنت ابراہیمی کی یاد تازہ کرتے ہیں، لیکن جو اس سفر کی سعادت سے محروم رہتے ہیں یا اس فریضے کو ادا کر چکے ہیں، انھیں بھی ہر سال حاجیوں کی طرح ہی اپنے مقام اور مسکن پر رہتے ہوئے اس قربانی کو اللہ کی نذر کرنے کا موقع حاصل ہو تاہے۔ اس سنت کو زندہ و تازہ رکھنے میں ان تمام بندوں کو جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور صاحب مال بھی ہیں،انھیں قربانی پیش کرنے کا موقع عنایت کر کے اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ نے بڑا کرم اور احسان کیا ،اور تمام عالم اسلام کو اس کی سعادت عطا فرمائی، اس پر ہم اس کا جتنا بھی شکر ادا کریں وہ کم ہے۔ گویا عید الاضحٰی یا عید قرباں کے موقع پر ایک عالمی اجتماع کے ذریعے اللہ کے شکر کو ادا کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں قربانی کی مثال قائم کر کے یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ ہم ہر وقت اللہ کی راہ میں اپنی قیمتی متاع کی اور مال کی قربانی، حتیٰ کہ جان عزیز کی قربانی کے لیے بھی تیار ہیں۔ اخوت اور محبت کے جذبے سے سرشار ہو کر اس عظیم فریضے کی ادائیگی کی جاتی ہے، چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ عید الاضحی کے موقع پر لاکھوں مسلمان اس ابراہیمی سنت کو زندہ کرنے کے لیے اپنے رب کے حکم کی فرماں برداری اور ابراہیم علیہ السلام کی سپردگی کی مثال کو قائم کرنے کی خاطر جانور کی قربانی پیش کرتے ہیں۔
ہر طرف اس موقع پر ماحول پرنور اور محلے ،گھر، بازار با رونق ہو جاتے ہیں۔قربانی کے جانور کو بازار سے لا کر اسے سجا سنوار کر خوب محبت کا اظہار کیا جاتا ہے، بڑے تو بڑے بچوں کا حال عجیب ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ گھر میں کسی چھوٹے بہن بھائی کی آمد پر بھی یہ حال نہ ہوتا ہوگا، جیسا قربانی کے جانور کی آمد پر ہوتا ہے ۔ بہترین سلوک کا مظاہرہ ہوتا ہے ،خاطر مدارات میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی، غرض یہ کہ ایک والہانہ عشق و محبت کا جذبہ تمام مخلوق خدا کے اندر دیکھنے کو ملتا ہے۔لوگ عید الاضحی کے دن اپنے پیارے جانوروں کی قربانی پیش کرنے کی فکر میں ہر طرف سرگرداں نظر آتے ہیں۔
اب یہاں سے ہی ایک المیہ دیکھنے کو ملتا ہے ،بہت ہی افسوس کے ساتھ اور اس احساس کے ساتھ اس موضوع کو قلم بند کرنے کی جسارت حاصل کی جا رہی ہے کہ عید الاضحی جیسے عظیم اور بامقصد تیوہار کا عید الاضحی کے دن ہی جس طرح محلے گلی کوچوں میں شیرازہ بکھرتا نظر آتا ہےکہ اس کو بیان کرنے سے قلم قاصر ہے۔ وہ اخوت اور محبت اور خود سپردگی، اظہار بندگی سب کے سب خاک آلود ہوتی نظر آنے لگتے ہیںاور اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر اس فریضہ کی ادائیگی کی رسم ادا کی جاتی ہے۔ کم از کم اس ملک عزیز میں جہاں ہمارے قریبی محلوں اور گلیوں میں دوسرے مذاہب کے لوگ یعنی برادران وطن قیام پذیر ہیں، ان پرہونے والےمنفی اثرات سے بے پرواہ ہو کر کسی نظم و ڈسپلن کے بغیر یہ سارا کام انجام پذیر ہوتا ہے۔
جہاں ماحولیات کی آلودگی کی فکررکھنے والے افراد موجود ہیں، وہاں کچھ شہروں میں اپارٹمنٹس اور محلے کی سوسائٹیوں کی جانب سے قربان گاہ کاباضابطہ انتظام کیا جاتاہے،پانی اور صفائی کا اہتمام، کارپوریشن کی گاڑیاں بلانے کا بھی انتظام کیا جاتا ہے، لیکن کچھ میٹرو سٹیز اور چھوٹے شہروں میں حالت بد سے بدتر نظر آتی ہے ۔سڑکوںپراور گلیوں میں خون کی دھاریں بہہ کرنا لیوں اور گٹر کو ڈھونڈتی خون کے نشانات چھوڑتی ہوئی نظر آتی ہیں، جانوروں کے چارے اورہر طرف بکھری ہوئی ان کی گندگی ماحولیات کی آلودگی کی داستان الم بیان کر رہی ہوتی ہے، لیکن کسی کو اس کی پرواہ نہیں ہوتی۔ محلے کا کوڑا کرکٹ اٹھانے والے صفائی کرمچاری کچھ حد تک تو ان کو ٹھکانے لگاتے ہیں، لیکن اطراف اور ماحولیات میں بکھری ہوی بدبو اورگندگی کا طوفان ایک نا خوش گوار فضا سے پراگندہ ماحول کافی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ دوسرے اور تیسرے دن بھی اس آلودگی کی فکر سے بے پرواہ ہو کر لوگ اپنی اپنی قربانی کے فرائض کی ادائیگی میں اس طرح مصروف ہوتے ہیںکہ انھیں گندگی کے ڈھیر، جانوروں کی پلید ی اور کوڑے کے ڈھیر نظر نہیں آتے ۔اپنے گھروں،پارکنگ اور دروازوں کے اندرونی حصوں کی صفائی اور دھلائی تو ضرور کر لی جاتی ہے، گوشت اعزہ وا قرباء کے گھروں میں پہنچا کر دعوتوں کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے، مگر کیا کہیے کہ سڑکیں، گلیاں، گٹر و نالے اس بدنظمی اور بد انتظامی کی داستان رو رو کر سنا رہے ہوتے ہیں۔اس پر ستم یہ ہوتاہےکہ جانوروں کتوں بلیوں کے پیٹ بھی بھر چکے ہوتے ہیں، چیل کوے منڈلاتے منڈلاتے تھک کرآشیانوں میں آرام کرنے لگتے ہیں ،
لیکن یہاں محلے کی گلی ،گٹر اور نالے بدبو کے طوفان کی بے زبان داستاں سنا رہے ہوتے ہیں اور فریاد کر رہے ہوتے ہیں کہ کہاں ہیں سوشل میڈیا پر پیغامات نشر کرنےوالے؟ہر طرف صفائی ستھرائی کا خیال رکھنے کی ہدایات بھیجنے والے ؟کہ گندگیوں کو شاہ راہوں اور کھلی سڑکوں پر گلیوں کے نکڑ پر نہ ڈالیں، کارپوریشن اور ایڈمنسٹریشن کو سپورٹ کریں۔
ایڈمنسٹریشن کی ڈھیلائی اور مسلمان قوم کی لاپرواہی جاری رہتی ہے۔ پھر دوسرے دن سے صفائی کرنے والے چھٹی کر کے گھر بیٹھ جاتے ہیں، شاید وہ ماحول کی گندگی کو برداشت نہیں کر پاتے ۔پکے ہوئے کھانے اور گھر میں اسٹور گوشت کو رات برات سڑکوں اور گلی کے نکڑوں پر انڈیلنے کا سلسلہ ہفتوں تک جاری رہتا ہے۔ ہماری قوم اپنی تمام کرتوتوں کے لیے جواز اور راستے ڈھونڈ کر آرام سے زندگی کی گاڑی کو کھینچنے کی عادی ہو چکی ہے ۔
ماحولیات کا تحفظ ،صفائی ستھرائی کے نظم کو برقرار رکھنا شاید ہم نے سیکھا ہی نہیں۔
اس کے برعکس ذرا کچھ مسلم ممالک کی بیداری اور ان کی حساسیت پر نظریں ڈالیں!یورپ ،یو ایس اور یو کے کی بات تو چھوڑیے، وہاں کے ڈسپلن اور عوام کی بیداری کی مثال تو دنیا کے سامنے ہے ہی لیکن ملیشیا، انڈونیشیا اور سنگاپور جیسے چھوٹے اور کم آبادی والے ممالک میں بھی اس قدر صفائی اور ڈسپلن ہے کہ بس نہ پوچھیے، لوگوں کی لمبی قطاریں اپنی باری کا انتظارکرتی ہیں، خواہ ہوائی اڈے، بس اڈے ہوں یا قربان گاہ ہو، لائن میں کھڑے رہ کر انتظار کرنا ہی ہوتا ہے، کسی کو نہ تو جلد بازی ہے نہ ایک دوسرے کو ہٹا کر آگے بڑھنے کی دوڑ، اطمینان سے سبھی کام انجام پذیر ہوتے ہیں، کسی کو کوئی جلدی نہیں ہوتی کہ میں بازی لے جاؤں، لیکن کیا کہیں ملک عزیز میں ہماری قوم کا حال یہ ہے کہ کوئی نظم وضبط کی پابندی نہیں ہے ،نہ کوئی محلہ کمیٹی ایسی قائم ہے جو آگے بڑھ کر منظم طریقے سے قربانی کا بیڑہ اٹھانے کے لیے کھڑی ہو اور لوگوں کو سہولیات مہیا کروانے کے لیے تیار ہو ۔ اسی طرح یہ بھی المیہ ہی ہے کہ لوگوں کا تعاون بہت ہی مایوس کن ہوتا ہے، ہر ایک کو بس اپنی فکر ہوتی ہے، ماحول کی آلودگی اور اس کے بحران پر کوئی فکر لاحق نہیں ہوتی۔

عید الاضحی کے موقع پر ماحولیاتی بحران کو کم کرنے کے لیے کیا لائحۂ عمل بنایاجائے ؟ ماحول اور فضا کو کس طرح پاک و صاف رکھا جائے؟ تاکہ فضائی آلودگی کو کسی قدر کم کیا جا سکے اور اس عید قرباں کے مبارک پیغام کی بہترین مثال قائم کرتے ہوے اچھے اثرات مرتب کیے جاسکیں۔ آئیے! اس پر کچھ تجاویز اور ترکیبیں تلاش کریں۔

قوموں کے عروج و زوال کا پیمانہ

قوموں کے عروج و زوال کی داستان جب لکھی جاتی ہے تو وہاں کے لوگوں کے اندر نظم و ضبط اور ڈسپلن ، ماحول کے تحفظ کے تعلق سے ان کی حساسیت اور اس کے لیے کیے گئے اقدامات، عوام بیداری کے ثبوت کے طور پر ذکرکیے جاتے ہیں ۔ قانون کی پابندی اورعوام کااجتماعی نظم بہت معنی رکھتا ہے ۔یہی ان کی کامیابی اور ترقی کی پہچان ہے ،اسی سے وہ قومیں لوگوں کے درمیان ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔اس کے علاوہ سڑکوں پر چلنے والا ٹریفک، سڑکوں پر بنے پبلک ٹوائلٹ میں صفائی کا نظم،کسی بھی پبلک ٹرانسپورٹ میں ،آفسز ،مالس یا پبلک مقامات پر داخل ہوتے وقت اپنی باری کا انتظار کرنا، ماحولیات کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا اور قانون کی پاسداری اور اس پر عمل کرنا اس قوم کی کامیابی و ترقی میں بہت معنی رکھتا ہے۔

دوسرے ممالک میں نظم کی پاسداری

جرمنی جانے کا اتفاق ہوا، لوگوں کو بسوں ٹرینوں میں سوار ہوتے وقت ایک لمبی قطاروں میں کھڑے ہوئے دیکھا ،حالانکہ کسی کو دھکیل کر اور کندھے اچکاتے ہوئے طاقت کا مظاہرہ کر کے آگے بڑھ کر بھی جگہ لی جا سکتی ہے،لیکن لوگوں کا صبر و سکون دیکھ کر حیرت ہوئی، کسی کو کوئی جلدی نہیں، ایک بس چھوٹ گئی تو دوسری کا انتظار ، پرسکون انداز میں سفر کو مکمل کرنا ، پہلے اترنے والوں کو موقع دینا، بوڑھوں اور بچوں کا خیال رکھنا اور مسکراتے ہوئے معزز انداز میں ایک دوسرے کو آگے جانے کا موقع دینا، شدید سردی کے باوجود کسی کو بس کے اندر یا گرم مقام پر پہنچنے کی جلدی نہیں ہوتی۔ کسی قوم کی ترقی و کامیابی میں اس کے اخلاق اور کردار کی خوب صورتی اس کے اندر تعلیم و تربیت اور تہذیب کی مثال پیش کر رہی ہوتی ہے۔

ہمارا رویہ کیا ہے؟

یہاں چند سوالات ذہن میں آتے ہیں کہ:
-1 کیا ہم اس صبر و تحمل کے مقام پر پہنچ سکتے ہیں؟
-2 صفائی ستھرائی اور ماحولیاتی بحران کو روکنے میں ہمارا کیا رویہ ہے؟
-3 قانون کی پاسداری و پابندی پر ہم کتنے کاربند ہیں؟
-3 پکے ہوئے کھانوں کو گھروں میں پارٹیوں میں شادیوں کے موقع پر ہوٹلوں اور اسٹریٹ پر ضائع کرنا کیا ہماری عادت نہیں بن گئی ہے؟
-4 کیا ہم بچتے ہیں؟ سواری کے اندر سے پھلوں کے چھلکے اور wrappers سڑکوں پر ڈالنے سے؟
-5 گھروں کی بالکنی سے کوڑا ،بالوں کے گچھے وغیرہ سڑکوں اور گلیوں میں ڈالنے سے ؟
یہ باتیں اس طرف متوجہ کرتی ہیں کہ ہمارا رویہ کیا ہے؟ کیا ہم ڈسپلن کے پابند ہیں ؟ذرا اس پر غور کریں!

ہمارا لائحہ ٔعمل کیا ہو؟

عید الاضحی کے موقع پر جہاں جانوروں کی قربانی ایک مذہبی اور دینی فریضہ ہے، وہیں صفائی کو بھی آدھا ایمان کہا گیا ہے، اس کا اطلاق ہماری اپنی انفرادی زندگی اور اجتماعی زندگی دونوں پر ہوتا ہے۔
-1 جہاں صفائی کے ادارے کارپوریشن اور ایڈمنسٹریشن کو اس کا اہتمام کرنا چاہیے، وہیں عوام الناس کو اپنے طور پر محلہ کے اندر محلہ کمیٹیاں اور سوسائٹی قائم کر کے صفائی ستھرائی کے نظم کو بحال کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔
-2 حکومت کو بھی اس طرف متوجہ کرنا چاہیے اور ان کا تعاون عوام کو بھی کرنا چاہیے۔
3 -اس ملک میں جہاں دوسرے برادران وطن بھی رہتے ہیں، اس بات کا خیال رکھنے کی شدید ضرورت ہے۔

چند تجاویز اور مشورے

-1 جانوروں کو لا کر رکھنے اور فروخت کرنے کے لیے معقول جگہ کا انتظام ہو۔
-2محلے اور گلیوں میں جانوروں کے باندھنے کے بجائے کسی ایک جگہ اجتماعی طور پر جانور باندھنے انتظام کیا جائے ۔
-3 قربانی کے جانور کے کھانے اور چارے کا انتظام ،اس کی صفائی کا اہتمام خود لوگوں کو کرنا چاہیے۔
-4 جانوروں کو بہت پہلے سے خرید کر محلے میں لوگوں کا رہنا محال نہ کیا جائے، خصوصاً وہاں جہاں دوسرے مذاہب کے لوگ سکون پذیر ہوں، وہاں اس پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
-5جانوروں کو ذبح کرنے کے بعد اس کے خون اور پلیدی کو بلیچنگ پاؤڈر سے ڈھک دینا چاہیے اور بعد میں اسے پیک کرکے کوڑادان میں ڈال دینا چاہیے۔
Cattle market -6 کا اہتمام کرنا چاہیے، جیسے دوسری اشیاء کی فروخت کے لیے نمائش کا اہتمام کیا جاتا ہے، اسی طرح صفائی اور ستھرائی کےساتھ منظم انداز میں جانوروں کے فروخت کے لیےاہتمام کیا جانا چاہیے۔
-7 جس اہتمام سےمارکیٹ سے جانور خریدا جاتا ہے، اسی اہتمام سے اس کی آلائشوں کی صفائی کا بھی انتظام کرنا چاہیے ۔
-8کارپوریشن کے ملازمین سے تعلقات استوار کیے جائیں،محلے کے کارپوریٹر کو بلا کر بات کی جائے کہ وہ روزانہ بلاناغہ صفائی کروائے۔
-9سڑکوں،شاہ راہوں، گلی کوچوں میں جانور ذبح کرنے سے پرہیز کیا جائے۔
-10 چرم قربانی کو فوراً ٹھکانے لگانے کا انتظام کیا جائے۔
-11گوشت کی تقسیم کے وقت غرباء مساکین کا خیال رکھا جائے۔
-12 جہاں قربانی ہوتی ہے وہاں محض گوشت کے تبادلہ کی خاطر گوشت بھیجنے کی زحمت سے بچیں۔
-13 غیر مسلموں کے ساتھ اچھے سلوک کا مظاہرہ کیا جائے۔
-14 سرکاری ملازموں کی طرف سے ایسے علاقوں کی رپورٹس حکومت کو بھیجی جاتی ہے، لہٰذا بے اصولی سے پرہیز کیا جائے ،تاکہ یہ چیزیں ہمارے لیے نقصان دہ ثابت نہ ہوں۔

ایک پیغام

جہاں ایک طرف اہل وطن میں قربانی کو لے کر بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں،وہیں ایک تلخ حقیقت بھی ہے کہ ہم صفائی کے سلسلے میں بالکل حساس نہیں ہیں۔ اس اہم فریضے کی ادائیگی کے وقت ہم اس بات کا خیال نہیں رکھتے کہ اس کی اصل روح کیا ہے؟ کہیں یہ ضائع تو نہیں ہو رہی ہے؟ دوسروں کے لیے اس میں جو پیغام ہے، شاید اسے ہم بھلا ہی دیتے ہیں۔ راستوں اور ہر جگہ ٹریفک جام کر دینا، لوگوں کے لیے رکاوٹ کھڑی کرنے کا سبب بننا ہماری عادت بن چکی ہے، لیکن وقت اور حالات اب ہمیں یہ خبر دے رہے ہیں کہ ہم اپنی اس غلطی کو سدھاریں ورنہ ہمارے لیے بڑی رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے۔ ماحولیات کی آلودگی کا سہرا ہمارے سر اس مقدس تیوہار کے موقع پر مڑھ دیا جائے ہم یہ کیسے برداشت کر سکتے ہیں؟ اس لیے ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہیے اور فکرمند ہو کر آنے والی اس عید قرباں کو مثالی اور بہترین بنانے کی فکر کرنی چاہیے۔اسی کے ساتھ آج ہر طرف ماحولیات کی آلودگی کا رونا رویا جا رہا ہے، فضا میں آلودگی کا اضافہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے ،ہوا مکدر اور زہریلی ہوتی جا رہی ہے، ہر کوئی اس فضا میں سانس لینے پر مجبور ہے، ہمیں اس کی فکر ایک بیدار امت کی حیثیت سے کرنی چاہیے اور اس میں اپنا مثبت اور فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔

کچھ نہ بدلے گا اگر اپ نہ بدلیں خود کو
پیرہن کیا ہے اس علاقے بدلتے رہیے

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

2 Comments

  1. سیدہ سلمیٰ

    ماشاءاللہ بہترین مضمون ہے
    ، تجاویز بھی شاندار اور قابل عمل ہیں.

    Reply
  2. سیدہ سلمیٰ

    عوام میں شعور بیداری کیلیےعیدالاضحیٰ سے پہلے عمومی اجتماعات میں اس موضوع پہ تقریر رکھی جاسکتی ہے.

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ۲۰۲۴