جون ۲۰۲۴
زمرہ : ادراك

جوحکومت اپنے دور میں کم زور طبقات کو ابھرنے کاموقع اور عورتوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو، اس حکمران کے کامیابی کے دعوے کرنا لغو بات ہے ۔ ملک میں بر سر اقتدار پارٹی کو ہم مستقل مذہبی منافرت اور بنیادی ذمہ داریوں نیز شہریوں کے تحفظ سے فرار اختیار کرتے دیکھ رہے ہیں ۔ملک کے ہر فرد میں اس بات کا شعور لازماً ہونا چاہیے کہ حکومت کی اہم ترین ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔
ہمارے ملک بھارت میں مودی حکومت کے 10 سالوں میں خواتین کے عدم تحفظ اور جنسی تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔سب سے زیادہ تشویش ناک بات تو یہ ہے کہ برسر اقتدار پارٹی کے وزراء اور عہدہ داروں کا وطیرہ یہ ہے کہ وہ عصمت دری کے کلچر کے خلاف بولنے والوں پر ہندوستان کو بدنام کرنے ، یا دیش کا باغی ہونے کا الزام لگادیتے ہیں۔ملک کی عوام بھی اب عورتوں پر ہونے والے ظلم پر آواز بلند نہیں کرتی ،گویا یہ معمول کی بات ہو ۔
ریاست گجرات میں 2002 ءمیں ایک مسلم خاتون بلقیس بانو کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کے 11 مجرموں کو جیل سے رہا کردیا گیا ۔ گویا مجرمین کی ہمت افزائی کی جارہی ہے ۔جن لوگوں نے مجرموں کی باعزت رہائی پر صدائے احتجاج بلند کیا اس احتجاج کو بھی وزاء نے غلط نظریے سے دیکھا اور اعلیٰ حکام مجرموں کی پشت پناہی کرتے رہے ۔
بھارت خواتین کے تحفظ میں انتہائی کم زور ہے،یہ عالمی سطح پر اٹھنے والی آواز نے ثابت کردیا۔ اس وقت جب یکم مارچ کو، ایک ہسپانوی بلاگرکے ساتھ اس کے برازیلین ساتھی کی موجودگی میںمشرقی ہندوستانی ریاست جھارکھنڈ میں سات مردوں کے ذریعہ اجتماعی عصمت دری کا واقعہ سامنے آیا ۔ انسٹاگرام پر ہسپانوی بلاگر خاتون نے اپنی زیادتی کا شکار ہونے جیسے ایک خوفناک خواب کو بیان کرتے ہوئے الزام لگایا کہ بھارت خواتین کے لیے انتہائی غیر محفوظ جگہ ہے۔ یہ ہسپانیوی جوڑا بھارت میں بائک کے سفر پر تھا ،یہ دونوں رات کو رک گئے تھے ،جب ان پر وحشیانہ حملہ کیا گیا۔
اس جوڑے کی ویڈیو خوب وائرل ہوئی، اور اس نے بڑے پیمانے پر عوام میں غم و غصے اور مذمت کے جذبات بھر دئیے ۔عالمی سطح پر بھارت کا سر شرمندگی سے جھک گیا ۔خاتون کےایک غیر ملکی سیاح ہونے کی وجہ سے اس خبر کو بین الاقوامی خبر رساں اداروں نے فوری طور پر اٹھایا اور یہ سوال اٹھائے گئے کہ ہندوستان خواتین کے لیے اتنا غیر محفوظ ہے، اقدامات کیوں نہیں کیے جاتے؟ ٹویٹر اور انسٹاگرام خواتین کی ناراض پوسٹس سے بھر گئے ۔
یہ بات نہیں ہے کہ بھارت میں خواتین کے تحفظ کے لیے اقدامات نہیں کیے گئے، قوانین تو موجود ہیں ۔خواتین کے علم میں لانے کے لیے یہاں سرسری ان قوانین کا ذکر ضروری ہے ۔انڈیا میں خواتین کے تحفظ کے لیے کئی اقدامات کیے گئے ہیں، بشمول قانونی وسماجی اقدامات۔

قانونی اقدامات

انڈین پینل کوڈ (IPC):

IPC میں خواتین کے خلاف جرائم کے لیے کئی سیکشن ہیں، بشمول جنسی زیادتی، جہیز مرگی، ڈومیسٹک تشدد اور ایسڈ حملے۔

پروٹیکشن آف ویمن فرام ڈومیسٹک وائلنس ایکٹ 2005 :

یہ قانون گھریلو تشدد سے خواتین کے تحفظ کے لیے ہے، اور اس میں متاثرہ خواتین کے لیے تحفظاتی احکام، رہائشی احکام اور مالی امداد کے احکام کا انتظام ہے۔

دی سیکسوئل ہراسمنٹ آف ویمن اٹ ورک پلیس (پیویشن آف ویمن) ایکٹ2013 :

یہ قانون کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی سے خواتین کے تحفظ کے لیے ہے ،اور اس میں شکایات کی تحقیقات اور متاثرہ خواتین کے لیے انصاف فراہم کرنے کا طریقۂ کار طے کیا گیا ہے۔

دی پروٹیکشن آف چائلڈرن فرام سیکسوئل آفینسز ایکٹ 2012 (POCSO):

یہ قانون بچوں کے جنسی استحصال سے تحفظ کے لیے ہے، اور اس میں مجرموں کے لیے سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔

انتظامی اقدامات

نیشنل کمیشن فار ویمن:

یہ ایک آئینی ادارہ ہے جو خواتین کے حقوق کے تحفظ اور ان کو بااختیار بنانے کے لیے کام کرتا ہے۔

مہیلا پولیس اسٹیشنز:

یہ پولیس اسٹیشنز ہیں جو خاص طور پر خواتین کے خلاف جرائم سے نمٹنے کے لیے قائم کیے گئے ہیں۔

ون اسٹاپ کرسیس سینٹرز:

یہ مراکز خواتین کو جنسی زیادتی، گھریلو تشدد اور دیگر جرائم کا شکار ہونے کی صورت میں مدد اور سپورٹ فراہم کرتے ہیں۔

1091 ہیلپ لائن:

یہ ایک 24 گھنٹے کی ہیلپ لائن ہے، جو خواتین کو قانونی، طبی اور نفسیاتی مدد فراہم کرتی ہے۔

سماجی اقدامات

عوامی شعور اجاگر کرنے کی مہمات:

حکومت اور غیر سرکاری تنظیمیں خواتین کے خلاف تشدد اور امتیازی سلوک کے بارے میں عوامی شعور اجاگر کرنے کے لیے مہمات چلاتی ہیں۔

خواتین کی بااختیاری کے لیے پروگرام:

حکومت اور غیر سرکاری تنظیمیں خواتین کو تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور معاشی مواقع تک رسائی فراہم کرنے کے لیے پروگرام چلاتی ہیں۔

خواتین کی قیادت کی ترقی:

حکومت اور غیر سرکاری تنظیمیں خواتین کو سیاست، کاروبار اور معاشرے کے دیگر شعبوں میں قیادت کے عہدوں پر فائز کرنے اور بااختیار بنانے کے لیے پروگرام چلاتی ہیں۔

ان اقدامات کے باوجود، انڈیا میں خواتین کے تحفظ کے لیے اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ خواتین کے خلاف جرائم کی شرح اب بھی زیادہ ہے، اور بہت سی خواتین کی قانونی اور سماجی انصاف تک رسائی نہیں ہے۔
بظاہرتحفظ کے لیے نظر آنے والے یہ قوانین اس وقت بے اثر ہوجاتے ہیں جب مذہبی منافرت میں یا سیاسی طور پر سماج کی تقسیم کی غرض سےنفرت کی کھیتی کرنے والے یا اپنے اثر ورسوخ کے زعم میں مدمست رہنے والے اقلیتوں کے ساتھ اس جرم کو روا رکھنے کی ترغیب دیتے یا مجرموں کی پشت پناہی کرتے نظرآتےہیں ۔
بھارت ایک قدیم تہذیب یافتہ ملک ہے ،تہذیب یافتہ اور کلچرڈ ملکوں کی عالمی سطح پر ایک پہچان ہوتی ہے،جس تہذیب کا خواتین کی عزت واحترام ہی سے اندازہ لگایا جاتا ہے ۔
عورتوں کے تحفظ کو یقینی بنانے اور مردوں کواعلیٰ اقدار کے فروغ کی جانب متوجہ کرنے کا کوئی ایجنڈا حکومت کے پاس نہیں ہے ۔عوامی شعور کا اندازہ اسی بات سے لگالیجیے !
لیکن پچھلے کچھ سالوں میں نفرت کے بازار گرم کرنے اور مذہبی منافرت کو ہوا دینے کے لیے باضابطہ مجرموں کو آزادی دی گئی،بلکہ وشو ہندو پریشد کی خواتین نے نوجوانوں کو مسلم لڑکیوں کے ساتھ ریپ جیسے جرم پر ابھارنے والے بیانات دئیے ۔
غیر ملکی سیاح خاتون کے ریپ پر قومی کمیشن برائے خواتین (NCW) کی سربراہ ریکھا شرما کا ردعمل ہے۔ ٹیوٹر پر ریکھا شرما نے متاثرہ بلاگر خاتون پر ’’ہندوستان کو بدنام کرنے‘‘ کا الزام لگایا۔ انھوں نے کہا کہ صرف سوشل میڈیا پر لکھنا اور پورے ملک کو بدنام کرنا اچھا انتخاب نہیں ہے ۔
ریکھا شرما ایک خاتون ہیں اور ان کا خواتین کے تئیں غیر حساس رویہ یہ احساس دلانے کے لیے کافی ہے کہ اندھی تقلید انسان کو انسانوں کے ظلم کو بھی چھپانے پر مجبور کردیتی ہے ،لیکن شرما کا جواب حیران کن نہیں ہے۔ 2014 ءمیں اقتدار میں آنے کے بعد سے حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنماؤں کی صنفی تشدد کے بارے میں غیر حساسیت واضح ہے۔
پچھلے دس سالوں کے دوران نریندر مودی حکومت نے بلند آواز سے اعلان کیا ہے کہ وہ ’’ناری شکتی‘‘ یا خواتین کی طاقت کی حمایت کرتے ہیں، لیکن وزیر اعظم نے خواتین کے خلاف مظالم پر مسلسل آنکھیں بند کر رکھی ہیں ۔منی پور میں میتی خواتین کو برہنہ کرکے جلوس نے بدتمیزی کی، اور ملک کے وزیر اعظم جو بیٹی بچانے کا نعرہ لگاتے رہےہیں، پامال ہوتی بیٹی کی عزت انھیں اس لیے نظر نہ آسکی کہ وہ خاتون اقلیتی طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔اکثر اسمرتی ایرانی جیسی وزیر جو خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارت کی سربراہ ہیں،جنسی تشدد کے خلاف عوامی سطح پر بولنے والے متاثرین پر تنقید کرتی نظر آتی ہیں ، اور ان پر حکومت کو بدنام کرنے کا الزام لگاتی رہی ہیں ۔
ایرانی اور شرما بی جے پی کے ان درجنوں رہنماؤں میں شامل ہیں جو ملک میں ریپ اور جنسی تشدد کے واقعات کو ڈھانکنے کی کوشش کرتے ہیں، خاص طور پر ایسے واقعات میں جہاں مجرم بی جے پی کا قانون ساز یاپارٹی کا کارکن ہو۔
جب اولمپک تمغہ جیتنے والی خواتین ریسلرز ساکشی ملک اور ونیش پھوگاٹ نے ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے سربراہ اور چھ بار بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ برج بھوشن شرن سنگھ پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا، تو انتظامیہ نے خواتین ریسلرز کو انصاف دینے سے انکار کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا ۔ آج تک، وزیراعظم نے اس معاملے پر اپنی چپی کو توڑنا گوارا نہیں کیا۔
بھارت کے ریپ کیسیز میں دن بہ دن اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ اتنےوسائل، ترقی اور ڈیجیٹل سیکورٹی کے باوجود اضافے کی صورت حال یہ ہےکہ یہ تعداد پچھلے سالوں کی طرح ہی ہے۔ جیسے کہ 2021 ءمیں 31,677 کیسز اور 2020 ءمیں 28,046 کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔
2022 ءمیں عصمت دری کے 31,516 واقعات رپورٹ ہوئے جو کہ اوسطاً روزانہ 86 ریپ کے واقعات ہیں۔ واضح رہے کہ یہ خطرناک اعداد و شمار صرف رپورٹ شدہ کیسز کی عکاسی کرتے ہیں۔ جنسی حملوں کے ارد گرد زبردست سماجی بدنامی کی وجہ سے، زیادہ تر کیس رپورٹ نہیں ہوتے ہیں۔
ریپ کے کیسز کی رپورٹنگ میں اضافہ ہوا ہے، کیوں کہ عوامی احتجاج اور میڈیا کی توجہ نے لوگوں کو ایسے واقعات رپورٹ کرنے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ البتہ زیادہ تر ریپ کے کیسز رپورٹ نہیں کیے جاتے، کیوں کہ سماجی بدنامی اور خوف کی وجہ سے متاثرین اکثر خاموش رہتے ہیں۔اس صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے قانونی اصلاحات کی گئی ہیں، مگر ابھی بھی کئی مسائل موجود ہیں ،جن پر قابو پانا ضروری ہے۔
دریں اثنا مغربی بنگال کے سندیش کھلی گاؤں میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے کئی واقعات قومی سرخیاں بن چکے ہیں۔ وہاں کی خواتین نے الزام لگایا ہے کہ ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کے مضبوط رہنما شاہ جہان شیخ نے ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی، جب کہ ان پر زبردستی اور زمینوں پر قبضے کا بھی الزام لگایا۔ 50 دنوں سے زیادہ شیخ گرفتاری سے بچارہا اور ریاست میں برسراقتدار ٹی ایم سی حکومت مبینہ طور پر اسےبچا رہی تھی۔ آخر کار کلکتہ ہائی کورٹ کے سخت حکم پر 29 فروری کو پولیس نے اسے گرفتار کر لیا۔
اگرچہ خواتین کے خلاف مظالم صدیوں سے قدامت پسند اور پدرانہ ہندوستانی معاشرے کی ایک واضح حقیقت رہے ہیں، لیکن بی جے پی حکومت کے تحت عصمت دری کرنے والے، چھیڑ چھاڑ کرنے والے اور سلسلہ وار مجرموں کو جو معافی مل رہی ہے وہ حیران کن ہے۔
’’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ اسکیم ‘‘ کا کھوکھلا نعرہ اب بالکل واضح ہے، بچانا اور پڑھانا صرف اکثریت کی بیٹی کے لیے ہے ،ملک اقلیتوں کے ساتھ یہ وعدہ نہیں تھا۔
ایک ہندو بالادستی پسند جماعت’’بی جے پی‘‘ پدرانہ نظام میں جکڑی ہوئی ہے اور ہندو اعلیٰ ذات کی بالادستی کو برقرار رکھتی ہے۔ لہٰذا، جب بی جے پی کے زیر اقتدار اتر پردیش کے ہاتھرس میں ایک غریب دلت (آؤٹ کاسٹ) لڑکی کے ساتھ اونچی ذات کے امیر ٹھاکر مردوں کے ذریعہ اجتماعی عصمت دری کی گئی، تو پولیس نے نہ صرف ٹھاکروں کے خلاف عصمت دری کے الزامات کو مسترد کر دیا، بلکہ متاثرہ لڑکی کی لاش کو بھی جلا دیا،وہ بھی شواہد کو تباہ کرنے کے لیے رات کو۔ عوامی احتجاج نے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ کو بالآخر کارروائی کرنے پر مجبور کیا، تاہم تین ملزمان کو چھوڑ دیا گیا اور چوتھے کو کم الزامات کے تحت سزا سنائی گئی۔
مدھیہ پردیش کے ساگر میں سولہ سالہ دلت لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی اور لڑکی پر جبر کیاگیا کہ وہ کسی سے شکایت نہ کرے ،تاہم لڑکی نے اپنی فیملی کو بتادیا اور بہت مشکل سے بھائی اور چاچا نے ایف آئی آر درج کروائی۔ ظلم کی انتہا تب ہوئی کہ 2019 ءمیںدرج ہوئے کیس کے بعد بھی مجرمین کو سزا نہیں دی گئی، حتیٰ کہ ٹھاکروں نے ایف آئی آر واپس لینے کے لیے زور ڈالا، لڑکی کی ماں کو سر عام برہنہ کیا، بھائی کا قتل کرڈالا ، حال میں چچا کا قتل کردیا گیا اور لڑکی جب ایمبولنس میں اپنی چچا کی نعش کو لارہی تھی، ایمبولنس میں اس لڑکی کا بھی قتل کردیا گیا ۔اتنا بڑا ظلم جنسی زیادتی اور چار قتل ،اس پر پورا ملک چپی سادھے ہوئے نظر آیا ۔
افسوس تو اس بات پر ہے کہ خواتین بھی خاتون پر ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کے بجائے نسل پرستی اور مذہبی منافرت میں سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ بولنے کا حوصلہ نہیں رکھتی ہیں ۔
بی جے پی اکثر حکومت میں خواتین وزراء کی اپنی ریکارڈ تعداد کو نمایاں کرکے ’’خواتین مخالف‘‘ ہونے کے الزامات کو روکتی ہے۔ تاہم جیسا کہ ان کا ٹریک ریکارڈ ظاہر کرتا ہے، بی جے پی کی خواتین سیاست دان پدرانہ نظام کے دفاع کے لیے منہ بولتی آوازیں ہیں۔ مثال کے طور پر ایرانی بی جے پی کے زیر اقتدار منی پور میں خواتین کے خلاف ہونے والے مظالم پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔خود مودی نے اکثر اپنی خواتین سیاسی مخالفین کے خلاف توہین آمیز تبصرے کیے ہیں، چاہے وہ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی ہوں یا کانگریس کی سینیئر رہنما سونیا گاندھی۔
اگر ہندوتوا کے پیروکاروں کے سپاہی بدتمیزی سے لطف اندوز ہوتے ہیں، تو اس کی وجہ اعلیٰ عہدہ داروں کا مجرموں کے تئیں نرم اور پرشفقت رویہ ہے ،گویا حکومت صرف ایک طبقے کی حکومت ہے۔

ایسے ماحول میں ہمارا لائحۂ عمل کیا ہو؟

(1)ایسے ماحول میں سماجی فعال خواتین کو آگے آنا چاہیے، خواتین اور ظلم کے خلاف بلا تفریق مذہب و ملت خواتین کو صدائے احتجاج بلند کرنی چاہیے۔خواتین کے تحفظ کے لیے بنائے گئے قوانین کا پرچار کرنا چاہیے ،تاکہ بیداری پھیلے ۔
(2) خواتین کی تحفظ کی تکنیک کو اسکول اور کالج میں سمجھانا چاہیے۔ دامنی پولیس گروپ کی خواتین اس ٹریننگ کے لیے اچھی سروس فراہم کرتی ہیں، نو عمر بچیوں سے لے کر تمام خواتین کوسیفٹی اقدامات سکھانے چاہئیں ۔
(3)خواتین کو بھی اپنے تحفظ کے لیے تنہا رات دیر گئے تک غیر محفوظ ماحول میں جانے سے گریز کرنا چاہیے۔ ناگزیر ہوتو اپنے موبائل میں پولس کا نمبرڈائل لسٹ میں ٹاپ پر رکھنا چاہیے ۔
(4)مظلوم کی مدد کرنی چاہیے۔ ایف آئی آر درج کروانے سے لے کر مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانے میں قانونی چارہ جوئی کرتے رہنا چاہیے ۔
(5)گھریلو تشدد اور فیملی جھگڑے سلجھانے کے لیے کاونٔسلنگ سینٹر کو بڑی تعداد میں شروع کرنا چاہیے ۔
(6)سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلا کر مظلوم کی آواز بننا چاہیے۔ ماس میڈیا اگر تساہل برتے یا حکومت کے دباؤ میں ہوتو سوشل میڈیا پر عام عوام کو بطور مدد سوشل میڈیا پر آواز بلند کرنی چاہیے ۔
(8)مجرمین کی پشت پناہی کرنے والوں کا پردہ فاش کرنا چاہیے۔
(9)کم عمر بچیوں کو سیفٹی ٹریننگ دینی چاہیے ۔
(10)کسی مظلوم کو بات چھپانے اور ظالم کو طاقت ور بنانے کا مشورہ کبھی نہیں دینا چاہیے ۔
غرض یہ کہ’’ ناری شکتی‘‘ خود ناری کا تحفظ کرسکتی ہے ،بس یہ عزم رکھیں کہ ہم تماشائی نہیں بنیں گےاور وہ کام جو حکومت کوکرنا چاہیے ،وہ سراپا احتجاج بن کر ہم کریں گے، اور ظلم کے خلاف ہمیشہ اپنے حوصلےبلند رکھیں گے ۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ۲۰۲۴