’’فکری یلغار اس کے منصوبے اور ہتھیار‘‘ یہ کتاب ان تقریروں کا مجموعہ ہے، جو ڈاکٹر عبدالصبور مرزوق نے مکہ مکرمہ میں رابطہ عالم اسلامی کے ثقافتی پروگرام کے موقع پر کی تھیں ۔اس کتاب سے ان کا مقصد فکری سورماؤں کے منصوبوں اوران کے مقاصد کو بے نقاب کرکے منظر عام پر لانا ہے، تاکہ اس کے بچاؤ کے اسباب سے واقف ہواجائے۔ اسلام دشمن ذرائع ابلاغ کی طرف سے اسلام اور اس کی روشن تعلیمات کے خلاف آوازیں بلند ہوتی رہتی ہیں۔ جن افکار و نظریات کو وہ اچھالتے اور پھیلاتے ہیں، ان کے اثرات ہماری قوم پر پڑ رہے ہیںاور تخریب کاری کی جھلک ہماری اخلاقی روایات میں نظر آرہی ہے۔ جن اخلاقی اقدار پر ہمارا ایمان ہے، دشمن اپنے ثقافتی پروگراموںاور باطل نظریات کی ترویج و اشاعت کے ذریعے اس میں رخنہ اندازی کررہاہے۔
اس کتاب میں ایسے تمام خطرات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس طرح کے موضوعات پر لکھنے اور بولنےکی آج اشد ضرورت ہے، تاکہ اس عالم گیر خطرہ کا تدارک کیا جاسکے اورنئی پود کو اس سے بچایا جاسکے۔نیز ہمارا موقف صرف دفاعی نہ ہو بلکہ دفاع کے ساتھ ساتھ اقدامی رول اختیار کیا جائے۔ اسلام کےتہذیبی و اخلاقی معیار کو بروئے کار لاتے ہوئے ہم دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہو کر مقابلہ کریں ۔فکری یلغار ایک ترقی یافتہ اور دلنشین اسلوب ہے ۔ہتھیار کے ذریعے ممالک کو غلام بنانے سے ان کے اندر آزادی کے حصول کا جذبہ بیدار ہوتا ہے ،اس لیے یہ نئ تکنیک اپنا ئی گئی کہ ذہنوں کو غلام م بنایا جائے۔
افکار پر حملہ
یہ نقطۂ نظر ایک مسلم قوم کی حیثیت سے بہت ہی خطرناک ہے۔ خیر امت، جسے انسانیت کو ہر مادی قوت سے نکال کر اللہ کی غلامی میں لانا ہے اوراس کے ذمے یہ فکر کرنا ہےکہ خلقِ خدا دنیا کی لذتوں میں نہ ڈوب کر رہ جائے،بلکہ بے تحاشہ خواہشات پوری کرنے کے بجائےمناسب انداز ضروریات زندگی کا انتظام کرے، وہ مرعوبیت کا شکار نہ ہو ،اسےموت کا ڈر نہ ہو، حرام لذتوں سے پرہیزا ور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی تڑپ سے سرشار ہو، باطل کا مقابلہ کرتے ہوئےکسی ابتلاء و امتحان میں نہ کمزور پڑے اور نہ اس کے پائےثبات میں لرزش پیدا ہو، حق کے غلبہ او رباطل کی بیخ کنی کے لیے جان کا نذرانہ پیش کرنے میں بھی ہچکچاہٹ نہ ہو۔
یہ سب کیسے ممکن ہے؟ جب کہ ذہنوں کو مسموم کرنے اور بگاڑنے والے دشمن کی کارستانیاں ہماری صلاحیتوں کو مفلوج کرنے کےلیےشب و روز کوشاں ہو۔دشمن کو اس بات کا اچھی طرح ادراک ہے کہ مسلمانوں کو دین اسلام بہت عزیز ہے، اس لیے یہ راستہ اختیار کیا کہ وہ ذہنوں کونشانہ بنائے اور مسلمانوں کی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے اثرات سے دور کردے، اسلامی کردار کے نقوش ان کے اندر سے مٹاکر ان کی حالت ایسی کردے کہ وہ نہ مسلمان کہلائیںنہ غیر مسلم۔
یہ حقیقت بھی عیاں ہوئی کہ مغربی تہذیب و افکار سے متاثر ہونے والوں نے اسلامی دنیا میں ثقافتی ارتقاء کےلیے محرک بن کر ہلچل پیدا کردی ۔
مصنف نےایسے نظریات و خیالات رکھنے والوں کی طرف مختلف حوالوں سےاشارے کیے ہیں۔
شعر جاہلی کے موضوع پربات کرکے قرآن مجید میں شکوک و شبہات کاتخم بویا ، اسلام اور اس کے اصول حکمرانی پر بات کرکے یہ شبہ پیدا کردیا کہ اسلام میں مذہب و سیاست کو ساتھ لےکرچلنے کی صلاحیت نہیں،عربی زبان میں علمی و تہذیبی زبان بننے کی صلاحیت نہیں ۔اس طرح کےحالات پیدا کیےگئے کہ عرب دنیا کا اتحاد پارہ پارہ ہوجائے، قرآن اور قرآنی علوم کے حصول کا راستہ مسلمانوں کے لیے بند ہوجائے۔ آزادیٔ نسواں کے نام پر عائلی نظام کو منتشر کیاگیا۔ ان فکری یورشوں کے باوجود مصنف ان پر غداری و خیانت کے الزام کو صحیح نہیں سمجھتے،بلکہ اسے فکری یلغار کا نتیجہ سمجھتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ مرعوبیت کےشکار ہوئے۔ کیونکہ حالات کے تبدیل ہونے کے بعد یہ صبح کے بھولے شام کو گھر لوٹ آئے، اور یہ لوگ جس طرح اس فکری یلغار کےشکار ہوئے، مصنف کہتے ہیں کہ وہ ہمارے لیے ایک دلیل و عبرت ہے۔
فکری یلغار کیوں؟
اسلام کی آواز کو کچلنےاور اس کے اثرات کو مٹانے کے لیے مسلسل کو ششیں کیں، لیکن ان کو ششوں کے بعد کچھ سیاسی و فوجی کامیابی انھیں ضرور حاصل ہوئی لیکن اسے مٹانے میں وہ نا کام رہے اور ناکام ہی رہیں گے۔جنگ احزاب میں یہود کے قبائل بنو قریظہ و بنو نضیر کا دوغلا پن، خلافت آل عثمان کا دور، حضوراکرم ﷺ کے انتقال پر مرتدین کی جماعت کا افواہ اڑانا کہ اسلام کی دعوت کا خاتمہ ہوگیا، تاتاریوں و مسیحوں کے شدید حملے، عثمانی خلافت کےدور میں اتاترک کا مسلمانوں کو اسلام سے دور کرنا ؛لیکن ان ساری کوششوں کے باوجود وہ دین کو مٹانے میں ناکام رہے۔ اسلام کے فرزندوں میں اسلام کی پوشیدہ روح ابھری اور دین کی تائید اور اس کے کلمہ کی سر بلندی کے لیے باطل کے سامنے وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔دین غالب ہونے کے لیے آیا ہے، مغلوب ہونے کے لیے نہیں، جیسا کہ اللہ کا وعدہ ہے۔ یہ حقیقت و یقیناً دشمنان اسلام کی نظروں سے اوجھل رہی۔
دشمنان اسلام پر خوف ودہشت طاری ہے کہ اگر اسلام کو مسلمانوں سے الگ نہیں کیا گیاتو مسلمانوں کونہ صرف یہ طاقتور بنائے گا ،بلکہ ہمارے لیے ایک بہت بڑا خطرہ بن جائے گا۔دین اسلام میں پوشیدہ مسلمانوں کی طاقتوں کے سرچشموںاور اس کی روحانی تاثیرسے وہ اچھی طرح واقف ہیں اورانھیں صحیح اندازہ ہوچکا ہے ۔ یہ حقیقت ان پر واضح ہوچکی ہے کہ اب تک انھوں نے جو کیا وہ بے کار ہے اور اب ان کی پوری توجہ ’’فکری یلغار‘‘کے منصوبے پر آکر جم گئی ہے کہ مسلمانوں کو حقائق اور مقاصد سے دور رکھا جائے، جب وہ یہ معیار و پیمانہ کھو دیں گے تو دوست و دشمن میں تمیز نہیں کرسکیں گے اور فکری یلغار سے یہ کام آسان اور نتیجہ خیز ہوجائےگا۔
فکری یلغار کے منصوبے
پہلا منصوبہ: ’’ اسلامی روح پہ قدغن‘‘
فکری یلغار کے محرکات و مقاصد:
(1)اسلامی روح پر روک
اسلام کو مسلم ملکوں میں محدود رہنے دیا جائے اور ہر قیمت پر اسے باہر پھیلنے سے روکا جائے ۔اسلام کو محدود کرنے کے لیے مخالفین کے ذرائع میں سےیہ ہے کہ اسلامی حقائق کی اصلی شکل بگاڑ کر مسلمانوں کی بدنما تصویر پیش کی جائے۔
اسلامی شریعت کے خلاف بے بنیاد پرو پیگنڈےکیے جائیں۔
(2) رائی کا پربت
مسلم ملکوں کے بعض کمزور پہلوؤں کو پہاڑ بناکر اس کی خوب اشاعت اور اسلام کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا ، مسلمانوں کی ہر غلطی اور بگاڑ کو اسلام کے ساتھ جوڑ دینا۔
(3) خو نخوار مذہب کے رنگ میں اسلام کی تصویر
اسلام تلوار کے زور پر چلتا ہے، ظلم و زیادتی کا قائل ہے ۔چور کے ہاتھ کاٹنے، شادی شدہ زانی کو رجم کرنے اور قاتل کی گردن اڑانے کا حکم دیتا ہے۔مخالفین ،عوام کواسلام سے متنفر کرتے اور اسلام کی گھناؤنی تصویر پیش کرتے ہیں اور اس کے لیے اسلامی حدود کے احکام کو مبالغے کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔
(4) اسلامی محاسن کی گھناؤنی تصویر
اسلامی شریعت کی تحقیر کرنا ،اسلام کی خوبیوں کو عیب اور کمزوریوں کی شکل میں پیش کرنا۔ طلاق اور تعدد ازدواج کے مسائل، مسلم عورت کو مظلوم پیش کرنا۔ مرد و عورت کو ایک دوسرے کا شریک حیات نہیں بلکہ حریف حیات بنا کر پیش کرتے ہیں۔
(5) اسلام کے پیروکاروں پرپسماندگی کا الزام
اسلام پر الزام ہےکہ اس کے متبعین ایجاد و اختراع کی قوتوں سے محروم ہیں۔ اسلام سست و کاہل بناتا ہے، عقل کو بے کار کردیتا ہے، اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا دین نہیں، بلکہ رسوم و عبادات کا ایک مجموعہ ہے۔
مصنف نے ان سارے الزامات کے دلائل کے ساتھ جوابات بھی تحریر کیےہیں۔ اسلام دشمن عناصر کے یہ منصوبے ایک منفی پہلو کی نمائندگی کرتے ہیں کہ اس کے کامیاب ہونے کی صورت میں اسلام کی اثر انگیزی پرزد پڑے گی ، دین سے علیٰحدگی کے رجحانات عام ہو جائیں گے اور اسلام مسلم ممالک میں محصور ہوکر رہ جائے گا۔
دوسرا منصوبہ:’’اسلام پر داخلی حملہ‘‘
اندرون ملک دین پر ضرب لگائی جائے اور مسلمانوں کے ایمان کو متزلزل کیا جائے۔ اس کے لیےپردے میں رہ کر دشمن کی کمیں گاہ میں داخلے کا طریقہ اختیار کیا، جیسا یونانیوں کی قدیم فوج شہر طروادہ میں داخل ہوئی تھی۔ خلافت عثمانیہ و عہد خلافت کو ختم کرنے اور اتاترک کی بغاوت میں یہی حربہ استعمال کیا گیا۔مسلمانوں کی صفوں میں داخل ہوا جائے اور اسلامی تعلیمات میں تحریف اور اسلامی تحریکوں میں مخالف اور پھوٹ ڈالنے والے پیداکردیئےجائیں۔
فکری یلغار کے عمومی ہتھیار
(1) مسلمانوں کے درمیان عقائد کے اختلاف کو ہوا دینا
مذہبی کشمکش اور اختلافات کو بھڑکاناان کا مقصد نہیں تھا، بلکہ سیاسی کارروائی اور اسلامی حکومت کو تہ و بالا کرنے کے لیےانہیں زینہ بنایا جارہا تھا ۔یہ کام تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف تحریکوں کے ذریعے انجام دیا گیا۔ جن میں سے چند یہ ہیں:زنگیوں کی تحریک ، قرامطہ کی تحریک، حشیشین کی تحریک۔
(2) صحیح عقائد میں بگاڑ پیدا کرکے شکوک و شبہات کے سیلاب میں ڈبو دینے کی کارروائی
مسلمانوں کے درمیان فرقہ بندی کے لیے شکوک پیدا کرکے ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کرکے آپس میں ایک دوسرے کا خوف پیدا کیا گیا۔ خلق قرآن کا مسئلہ، تو کہیں قرآن کی آیتوں کا انکار اور کچھ آیتوں کی تفسیر اس طرح کی کہ ان کی تحریک کی تائید ہوتی رہے۔ مختلف تخریب کاروں کے تاریخی تلخ حقائق اور ان کے منصوبے ،جو انھوں نے ایمان کو کمزور کرکے عقائد کی گرفت ڈھیلی کرکے اور قوم کو اخلاقی پستی میں مبتلا کرکے انھیں توڑنے کی کوشش کی کا تفصیلی ذکر ہے۔ آج کی اسلام دشمن قوتوں کے منصوبوں اور طریقۂ کار میں بھی یہی بات نظر آتی ہے ۔
تفسیر و حدیث میں اسرائیلیات :اسرائیلی روایتوں کی بھرمار اور بعض مسلمان مصنفین کا ان کو قبول کرنا،اسلام کے مآخذ میں بے بنیاد باتوں و خرافات کو داخل کردیا جائے اور الزام یہ دے دیا جائے کہ شریعت کے مآخذ غیر علمی اور نامعقول ہیں۔ اس طرح تردید کرنے والے تردید میں مصروف ہوکر اپنی توانائیاں اور صلاحیتیں صرف کرتے رہیں، اور کوئی تعمیری و تربیتی کام نہ ہو پائے۔
(3)جاہلی عصبیتوں کی جگہ نئی نئی عصبیتوں کا قیام
اسلام بیزار افکار و نظریات کا جال : لوگوں کے دلوں میں دین کا تقدس و احترام ہے، اس لیے دشمن اپنے نظریات کھل کر دین کے مقابلے میں پیش نہیں کرسکا ،اس لیے اس طرح کا راستہ اختیار کیا گیاکہ مقصد تو دین کی مخالفت ہے ،لیکن مذہبی طبقہ اس کو سن کر مدافعت کے لیےاٹھ کھڑا نہیں ہوتا،اور وہ ہے لادینیت کے بجائے’’علمانیت‘‘ کی اصطلاح۔ یعنی ایمان و اعتقاد انہی باتوں پر ہونا چاہیے جو مشاہدہ، تجربے، اور علمی تحقیقات کی روشنی میں سامنے آچکے ہیں۔ علمانیت کا یہ دعویٰ جھوٹا ہے۔ دشمن اس طرح پر فریب نام لےکر مذاہب کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے۔ سائنس، تمدن کے ذریعے نفسیاتی حربے آزما رہا ہے ۔اسلام ،علم ( سائنس) کا مخالف نہیں ۔فکری یلغارکرنے والے تخلیق کاروں نے علمانیت کے پردے میں مختلف نظریات دیئے۔ڈارون کا نظریۂ ارتقاء ،کارل مارکس کا جدید فلسفہ ٔتاریخ اور مارکسی نظریۂ کمیونزم وغیرہ۔
(4) اسلام دشمن تحریکوں کی داغ بیل اور ان کی مدد
قادیانیت اور بہائیت وہ اسلام دشمن تحریکات ہیں، جو اسلام دشمن عناصر کی تائید و تعاون سے کامیاب ہوئیں۔یہ ساری ہی تحریکیں اسلام سے بغض عداوت اور نبی ﷺ کی نبوت کی مخالفت و عناد میں برابر کی شریک ہیں۔ قادیانی سازش ،اس کے بانی اور اس کے باطل دعووں کا ذکر مولانا ابو الاعلیٰ مودودی، مولانا ابوالحسن علی ندوی وغیرہ نے اپنی تصانیف میں کیا ہے۔ اسلام نے مرد و عورت کو ان کی خلقت و تکوین کے اعتبار سے اپنے اپنے دائرۂ کار میں ایک مقام و حیثیت دی اور مرد کو ایک درجہ فضیلت دی ہے ،تاکہ ایک پاکیزہ ،خوشگواراور پر سکون معاشرہ وجود میں آئے، لیکن بہائیت نے اسلامی اقدار کی توہین کی۔ ہر سوسائٹی کے اخلاقی اقدار-چاہے مردوں کی ہوں یا عورتوں کی- کوپامال کرتے ہوئےساری بندشوں کو توڑدیا اور غیر اخلاقی و حیا سوز حرکتوں کی کھلے عام اشاعت کی ۔
ماسونیت نے مختلف انداز سے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور دنیا میں فکری انارکی کے باب میں بڑا اہم رول ادا کیا، اور کرتی جارہی ہے۔ قادیانیت وبہائیت ؛یہ اسی کے آلہٴ کار ہیں۔ ضرورت ہے مسلمانوں کو چوکنا رہنے کی۔’’اتحاد ادیان‘‘، ’’آزادی‘‘، ’’مساوات‘‘، ’’حقوق انسان‘‘، ’’حقوق نسواں’’ وغیرہ اصطلاحات مزعومہ کے فریب میں نہ آئیں۔ ان بھیانک خطروں سے آگاہ رہنے کی فکر کریں۔
’’ فکری یلغار‘‘نامی اس کتاب میں تفصیل سے ان تخریبی تحریکوں کا تعارف،ان کے مقاصد اور منصوبوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ان کو پڑھنے کے بعد یہ راز افشاء ہوجاتا ہے کہ ہم کس حد تک ان کے نرغے میں آچکے ہیں اور اب ہمارا یہ سب سے بڑا فریضہ ہے کہ اس حصار کو ہم اپنی پوری قوت سے توڑ دیں ۔
آخر میں جائزے و تجاویز کے باب میں کچھ سوالات اٹھائےگئے ہیں۔مثلاً:کیا اس یلغار کا مقابلہ نا ممکن ہے ؟اعتماد و توقعات کے ساتھ یہ بات کہی گئی ہے کہ نہ صرف ممکن ہے بلکہ آسان بھی ہے، مگراس وقت جب کہ ہم غفلت سے بیدار ہوگئے اور دین کے حقائق ہم پر واضح ہوگئے، اب دشمن کتنی بھی طاقت لگا لے ہمیں نقصان پہنچا نہیں سکتا۔ہم ازسر نو اپنی طاقت کے عظیم سرچشمے کی طرف لوٹ آئیں اور اخلاقی وعملی حیثیتوں سے دین کی روح سے چمٹ جائیں۔علوم عصریہ میں دشمن کی فوقیت ہمیں مقابلے کی قوت سے محروم نہیں کر سکتی۔ ہمارے اور دشمن کے درمیان فرق و فاصلہ ہماری غفلت و کوتاہی کا ہے۔
ہماری تاریخ گواہ ہےکہ ایجادات و اختراع اور نظریاتی وتجرباتی علوم و فنون میں مسلمانوں کا طوطی بولتا تھا ۔اب بھی کوئی مشکل نہیں ہےکہ ہم ہر میدان میں ترقی حاصل کریں اور اس کے لیے ضروری ہےکہ ہم مضبوط ایمان، عزیمت، حوصلہ اور مسلسل جدوجہد کو اپنائیں۔دشمن کے کےلیےمنصوبہ سازی میں عیسائی مبلغین اور مستشرقین کا اہم کردار رہا ہے۔ فکری یلغار کو مؤثرو متحرک بنانےمیں تخریب پسند تحریکوں پر ان کی توجہ ہوتی ہے ،وہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور فتنے پیدا کرنے والے خیالات کا ذکر کرتے ہیں۔اسلام اور رسول ﷺ کی ذات گرامی پر حملے ،گستاخیاں، الزام تراشیاں؛ یہ سب کھل کر ہمارے سامنے عیاں ہیں۔
عائلی نظام کو پراگندگی کی راہ پر لے جانے والے یہی فکری یلغار کےسر پرست ہیں ۔معاشرے کا پہلا یونٹ خاندان، یہ مستحکم تومعاشرہ مستحکم ، اس میں ضعف و کمزوری تو پورا معاشرہ ضعف و کمزوری کا شکار ہو کر تباہ ہو جائے گا ۔ نسل انسانی کی بقاء، تسلسل اور تربیت کے لیے خاندان کی ضرورت ہے ۔بچپن میں بچے کی شخصیت تربیت کی محتاج ہوتی ہے۔ خلافت کے لیے جس طرح کے افراد کی ضرورت ہوتی ہے، وہ خاندان سے ہی حاصل ہو سکتے ہیں۔ خاندان اسلام کا قلعہ اور خاندان کے بنیادی ستون مرد و عورت،نیز خاندان کی بنیادی اکائی عورت ہے ، فکری یلغار کے سرپرستوں نے اسلام کے قلعہ کی ملکہ عورت کو ٹارگٹ بنایا۔ فیشن پرستی ، آزادی و ترقی پسندی کے نام پر، مساوات کے نام پر عورت کو اخلاقی حصار سے باہر کھینچ لیا۔عورت کے ذہن کو مسموم کیا کہ تمہارےحقوق کے خانہ مین ایک عظیم الشان صفر کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، تم محکوم ہو ،تمہاری کوئی حیثیت نہیں ہے ۔عورت و مرد کو ایک دوسرے کا حریف بنا دیا۔ وہ جو ایک دوسرے کے معاون تھے، مدد گار تھے رفیق و دوست تھے، شریک حیات تھے ،انھیں حریف حیات بنادیا ۔
آزادی نسواں کے نام پرخواتین کو اتنی آزادانہ سوچ کا حامل بنا دیا ہے کہ وہ اب سسرال، شوہر، بچے پالنے، گھروں میں رہنے ، گھر کے کام کاج ؛ان تمام چیزوں سے اوپر اٹھ کر آزادانہ تنہا زندگی گزارنے کو آزادی سمجھ رہی ہیں۔ لیو ان ریلیشن شپ(Live-in relationship) کو بڑھاوا دیا جارہا ہے۔ بغیر شادی کے ازدواجی تعلقات قائم کرنا ایک فیشن بنتا جا رہا ہے۔نئی نسلوں کا مستقبل عورت کی توجہ اور تربیت کا محتاج ہے۔نئی نسل میں جہاںایمان و یقین ،اخلاقی قوت، استقامت، خود اعتمادی و خودداری، اپنے دین پر غیر متزلزل یقین اور اس کے لیے قربانی کا جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے وہیں دوسری طرف قوتِ ایجاد، فکری استقلال، بلند ہمتی اور اولوالعزمی پیدا کرنے اور جرأت و ذہانت کے ساتھ فکری یلغار کا مقابلہ کرنے کےلیے جوہر اور اوصاف پیداکیے جائیں ۔
خلاصہ یہ ہے کہ تمام صلاحیتیں بروئے کار لائی جائیں اور تمام اسلامی تحریکیں، مسلم دل و دماغ کو یکسو ہوکر سوچنے کی ضرورت ہے۔ یہ کتاب موضوع کی تمہید ہے اور آئندہ اس موضوع پر انجام دیئے جانے والے عملی کارنامے اور خطرات کے مقابلے کے لئے تجویزیں و منصوبے اس کا مقدمہ ہونا چاہیے۔
وَ لَا تَہِنُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَ اَنۡتُمُ الۡاَعۡلَوۡنَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ
(آل عمران:139 )
(دل شکستہ نہ ہواور غم نہ کرو تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔ )
0 Comments