مئی ۲۰۲۴

یہ ایک حقیقت ہے کہ اردو زبان میں قصہ ،کہانی اور حکایتوں کا چلن عام تھا،اور ان قصے کہانیوں میں کوئی نہ کوئی فکر اور سمجھانے والی بات ضرور پوشیدہ ہوتی تھی۔ داستان ،ناول اور افسانہ دراصل ایک ہی نثری صنف کے مختلف روپ ہیں، ان تینوں کو ملاکر افسانوی ادب یا فکشن کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔
افسانہ، یہ صنف اردو زبان میں مغربی ادب کی دین ہے۔ افسانہ، اردو ادب میں مغربی زبان وادب کے راستے آیا اور ہندوستانی رنگ روپ میں رچ بس کر مقامی مزاج سے اس قدر ہم آہنگ ہوا کہ اس کی وضع سے یہ امتیاز کرنا اب مشکل ہے کہ یہ غیر ملکی صنف ہے ۔جدیدیت کی تحریک کے زیر اثر اردو افسانہ گذشتہ چند دہائیوں کے دوران ہیئت کے تجربات سے گزرتا رہا ،جس کی وجہ سے کہانی سے گریز کے رحجان کو تقویت حاصل ہوئی، جب کہ افسانہ درحقیقت فنی اعتبار سے مختصر احاطہ کرتا ہے، جس میں پلاٹ، کردار، مناظر اپنا اثر دکھاتے ہیں۔
وقت سب سے زیادہ طاقت ور ہوتا ہے اور جب وقت بدلتا ہے تو اپنے ساتھ ہر شے کو بدل دیتا ہے۔ بہت سی اشیاء میں تغیر پیدا کر دیتا ہے۔ ایک وہ دور تھا جب حضرت انسان کےپاس وقت زیادہ تھا تو داستانوں، کہانیوں، قصوںمیں دل چسپی لیتا تھا، لیکن جب وقت بدلا ؤقت نے اپنی آبرو سمیٹے تو انسان نے بھی وقت کی قلت کو شدت سے محسوس کیا تو افسانہ اور افسانچہ جیسی صنف وجود میں آئی۔
زیر نظر کتاب’’ اردو افسانہ تحقیق و تجزیہ ‘‘ ان ہی موضوعات پر مضامین کے مجموعے کی صورت میں شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب کے مرتب’’ ڈاکٹر محمد خلیل الدین صدیقی‘‘ ہیں، جنھوں نے کتاب کی ترتیب و تزئین بھی کی ہے، انتساب میں ڈاکٹر محمد خلیل الدین صدیقی صاحب نے لکھا ہے:
’’ میری والدہ محترمہ مقبول النساء عرف ذاکرہ بیگم صاحبہ (مرحومہ ) کے نام، جن کی افسانوی زندگی نے مجھے حقیقی زندگی سے روشناس کروایا ..!! ‘‘
مقدمہ میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
’’ اس کتاب میں شامل تمام مضامین ملک کی معروف جامعات کے محنتی اور ایمان دار قلم کاروں کی عرق ریزی کا نتیجہ ہیں، جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ گذشتہ دو سالوں میں یہ ہماری چھٹی ایسی کتاب ہے ،جو مختلف جامعات یا تحقیقی اداروں کے ریسرچ اسکالرس کی تعلیمی ضروریات کی تکمیل کرتی ہے اور ہمیں اس بات کا فخر ہے کہ دن بدن نئے نئے قلم کاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ آئیے! ہمارے ان قلم کاروں سے آپ کی ملاقات کرواتے ہیں، جن کی قیمتی تحریروں سے کتاب کو سجایا گیا ہے ۔‘‘
اس کے بعد اس کتاب میں موجود مضامین کے 61 قلم کاروں کا مختصر و جامع تعارف کروایا گیا ہے۔ اردو افسانہ آزادی سے قبل( شاہ وید میر پٹیالہ)،حب الوطنی اور اردو افسانہ( عابد سلمیٰ چنگیری)،اردو فکشن میں حب الوطنی( ڈاکٹر صفیہ بانو اے شیخ، گجرات )،آزادی کے بعد افسانہ نگاروں کی پہچان( نثار احمد ڈار، کشمیر)، آزادی کے بعد افسانوی تحریک (عائشہ عبد العزیز پٹھان ،شولاپور )، آزادی کے بعد ابھرتی افسانہ نگار( جی راکعہ نازنین، تمل ناڈو)، آزادی کے بعد افسانے کی اہمیت ( کوثر شہناز، کریم نگر) اوران کے علاوہ متعدد عناوین پر مختلف قلم کاروں کے مضامین شامل کتاب ہیں۔
’’تمل ناڈو میں اردو افسانہ نگاری آزادی کے بعد‘‘ کے عنوان پرڈاکٹر کےایچ کلیم اللہ، تمل ناڈو نےاور’’ تمل ناڈو کی خواتین افسانہ نگار آزادی کے بعد‘‘سے معنون مضمون کو پی محمد جعفر ،آمبور ،تمل ناڈو نے بہت جامع انداز میں لکھا ہے۔
’’اردو افسانے کا آغاز و ارتقاء‘‘ کوقریشی سلطان صلاح الدین، پونہ،’’ اردو افسانہ نگاری اور حقیقت‘‘ کوڈاکٹر شاہ جہاں بیگم ،کرنول، ’’افسانہ اور حقیقت‘‘کو رفیعہ نوشین، حیدرآباد نے بڑے عمدہ انداز میں پیش کیا۔
جاوید علی، دہلی اور رضیہ سلطانہ ،حیدرآباد نے افسانچہ اور افسانہ میں فرق کے ٹاپک پر دو مضمون بڑے بہترین انداز میں وضاحت کے ساتھ لکھے ہیں۔ ’’ترقی پسند افسانے‘‘ شبنم آپی، عثمان آباد ،’’ترقی پسند تحریک اور اردو افسانہ‘‘ سیدہ فاطمہ النساء اسماء،کریم نگر ،’’ ترقی پسند افسانوں میں نفسیاتی عناصر ‘‘ محمد اشرف، جموں،’’ ترقی پسند افسانے ( کرشن چندر ، منٹو ، اور حیات اللہ انصاری کے حوالے سے ) نور جہاں بانو، ولبھ نگر، راجستھان،’’ اُردو افسانے کی ترقی میں غیر مسلم افسانہ نگاروں کی خدمات ‘‘ نازنین ہرے کنمبی،بنکاپور نے اپنے اپنے موضوعات پر تفصیلی بحث کی ہے۔
’’اردو افسانے اور ہندی کہانیوں کا تقابلی جائزہ ‘‘ ایم ریحانہ پروین، کڑپہ، آندھرا،’’ اردو افسانے کے عہد بعہد بدلتے موضوعات اور رحجانات ‘‘ عقیل احمد، لکھنؤ،’’ اردو افسانے کے موضوعات کا جائزہ ‘‘ محمد فہیم احمد، راجستھان،’’اردو افسانے میں عوامی بولیاں: پریم چند کے خصوصی حوالہ جات کے ساتھ‘‘ ڈاکٹر فخر النساء ،بیکانیر راج نے بہترین انداز میں لکھا ہے۔
’’دور جدید میں بچوں کا افسانوی ادب‘‘ ڈاکٹر عبد الرحیم ملاّ، وجے واڑہ ،’’ریاست آندھرا پردیش میں افسانہ کی موجودہ صورت حال‘‘ ڈاکٹر شیخ خواجہ پیر، کڑپہ،’’ ریاست راجستھان میں افسانے کی موجودہ صورت حال‘‘ غوثیہ کوثر،جےپور نے موضوع کو بڑے دل کش انداز میں سنوار کر لکھا ہے۔
’’اردو کی معروف خواتین افسانہ نگار‘‘ ووڈو تبسم بانو مرتضیٰ ،شولاپور،’’ اردو کے خواتین افسانہ نگار ‘‘ شیرین بانو، ہرے کنمبی،دھارواڑ،’’ افسانہ نگار خواتین :شہر حیدرآباد کے حوالے سے‘‘ ڈاکٹر نجمہ ،حیدرآباد نے ایک بہترین مطالعہ پیش کیا ہے اور’’ مالیگاؤں کے منتخب نوجوان افسانہ نگار ‘‘ڈاکٹر مبین نذیر،مالیگاؤں نے پیش کیا ہے۔
’’منٹو کے افسانوں میں کردار نگاری ‘‘ سید امتیاز احمد، کڑپہ،’’ بیدی کے افسانوں میں متوسط طبقہ کے مسائل‘‘ آصف پرویز ،کولکاتا،’’ انتظار حسین کا افسانہ زرد کتا کا اخلاقی پس منظر‘‘ فہمیدہ تبسم، حیدرآباد،’’افسانہ گڈریا کا تہذیبی مطالعہ‘‘ ڈاکٹر محمد آصف ،امراوتی، ’’ شاہدہ احمد کا افسانہ جگ بیتی: ایک مطالعہ ‘‘ ڈاکٹر شیخ عبد الکریم، حیدرآباد،’’ اردو فکشن کی بےباک افسانہ نگار عصمت چغتائی‘‘ ڈاکٹر شیبہ حیدر ،اودے پور، ’’ ترنم ریاض کے افسانوں کا تنقیدی جائزہ ‘‘ زہرہ بانو ،کولکاتا،’’خدیجہ مستور: ایک ترقی پسند افسانہ نگار ‘‘ ڈاکٹر شاہدہ مناف، بلڈانہ،’’ شائستہ فاخری کی افسانہ نگاری‘‘ بشریٰ چشتی ،حیدرآباد،’’ احمد ندیم قاسمی کا فن افسانہ نگاری کے آئینہ میں ‘‘حارث حمزہ لون، کشمیر،’’جیلانی بانو کی افسانہ نگاری‘‘ ڈاکٹر فریدہ بیگم، حیدرآباد،’’ ڈاکٹر نریش کے افسانوں میں سماجی مسائل کی عکاسی‘‘ عرفان امین گنائی، پنجاب،’’ غلام عباس کا افسانہ آنندی کا تنقیدی جائزہ ‘‘ ڈاکٹر سید تاج الہدیٰ، کرناٹک” نے کئی پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔
’’افسانوی مجموعہ سنگھاردان ایک تجزیاتی مطالعہ ‘‘ شاہ نواز عالم، بہار،’’ ناہید طاہر کے افسانوں میں حقیقت کی عکاسی ‘‘ڈاکٹر زہرہ جبین، رائچور نے ناہید طاہر صاحبہ کے پہلے افسانوی مجموعے’’ چاند تیسری شب کا‘‘پر مکمل تبصرہ کیا ہے،’’ قحطی کا تجزیاتی مطالعہ‘‘ ڈاکٹر آصفہ پروین ،گلبرگہ نے پیش کیا۔
’’ڈاکٹر اشفاق احمد کی نثر کے حوالے سے افسانے اور منی افسانے میں فرق ‘‘ ڈاکٹر اظہر ابرار احمد، ناگپور،’’ ذکیہ مشہدی بحیثیت افسانہ نگار ‘‘شاہینہ ناز،جھارکھنڈ ،’’ مصور غم علامہ راشد الخیری کی افسانہ نگاری ‘‘ محبوب احمد خواجہ، پنجاب،’’ دیپک بد کی بحیثیت افسانہ نگار‘‘ ڈاکٹر مسرت حمزہ لون، کشمیر،’’ڈاکٹر وحید انجم کی افسانہ نگاری ‘‘ شیخ محمد سراج الدین ،حیدر آباد، ’’ اُردو افسانوں میں جانور بحیثیت علامت‘‘ فرحت انجم، کریم نگر،’’ صادقہ نواب سحر کی افسانہ نگاری ‘‘ تبسم آرا، حیدرآباد، ’’ افسانہ خدا ایک مطالعہ‘‘ ڈاکٹر طاہرہ نورانی، بنگلور، ’’خواجہ احمد عباس کی افسانہ نگاری ‘‘ شیخ نفیسہ بیگم جیلانی ،اورنگ آباد اور’’ کرشن چندر کے افسانوں میں کشمیر کا منظر نامہ ‘‘ الطاف احمد، کشمیر ،سری نگر نے مختصر لیکن جامع انداز میں بیان کیا ہے۔
’’حیات اللہ انصاری کے افسانوں میں معاشی مسائل کی عکاسی‘‘ اس ایک عنوان پر دو مضامین سفیان احمد انصاری، لکھنؤاور ماریہ اعجاز شیدانہ شبیر، جموں و کشمیر سے دل فریب انداز میں لکھا ہے ،جب کہ ’’رشید جہاں کے افسانوں میں سیاسی اور ادبی موضوعات کا بدلتا منظرنامہ ‘‘ ڈاکٹر نصرت مینو ،ناگپور نے پیش کیا ہے۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مئی ۲۰۲۴