مئی ۲۰۲۴

ہر سال کی طرح اس سال بھی پوری دنیا میں آزادی صحافت کا عالمی دن3 مئی کو کافی جوش و خروش کے ساتھ منایا جائے گا ، آزادی رائے، خود مختار میڈیا، صحافیوں کی حفاظت کے سلسلے میں مختلف پروگرام منعقد ہوں گے، حکومتی اداروں کی جانب سے اپنے اپنے ملکوں میں آزاد میڈیا اور آزادی صحافت کے بڑے بڑے دعوے کیے جائیں گے ،جب کہ اندرون خانہ ہر حکومت اپنے اپنے طور پر آزادی صحافت کے دائرے کو کم سے کم کرنے کے لیے کوشاں ہے ،اس سلسلے میں مہذب دنیا کی منافقت اور حکمرانوں کی دہری پالیسی اب کھل کر سامنے آنے لگی ہے۔
آزادی صحافت کے عالمی دن کی تاریخ ہمیں سن 1991 ءمیں لے جاتی ہے، جب افریقی صحافیوں نے سب سے پہلے آزادی صحافت کی تحریک شروع کی۔ 3 مئی کو آزادی صحافت کے اصولوں سے متعلق انھوں نے ایک بیان جاری کیا ،جسے ڈیکلریشن آف ونڈ ہاک کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس ڈیکلریشن کے دو سال بعد 1993ءمیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے پہلی بار آزادی صحافت کے عالمی دن کا اہتمام کیا، اس کے بعد سے یہ دن ہر سال 3 مئی کو منایا جارہا ہے۔
اس دن کا مقصد صحافیوں اور صحافتی اداروں کو پیش آنے والے خطرات ، مشکلات اور مسائل سے دنیا کو آگاہ کرنا ہے،کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کے مطابق سنہ 1992 ءسے 2021 ءتک 1402 صحافی جاں بحق ہوچکے ہیں۔کمیٹی کے مطابق اس پیشے میں متاثر ہونے والے صحافیوں کی 75 فی صد تعداد وہ ہے جو جنگوں کے دوران اور جنگ زدہ علاقوں میں اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ صحافیوں کی 38 فی صد تعداد سیاسی مسائل کی کھوج (رپورٹنگ) کے دوران مختلف مسائل بشمول دھمکیوں، ہراسمنٹ اور حملوں کا سامنا کرتی ہے۔
جان ہتھیلی پر رکھ کر صحافتی ذمہ داری انجام دینے والوں کی فہرست میں فلسطینی نزاد شیریں ابو عاقلہ بھی شامل ہیں جو 2022 ءمیں فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیل کی چھاپہ کارروائی کے کوریج کے دوران اسرائیلی فوج کی گولیوں کا شکار بنیں۔کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی رپورٹ میں غزہ میں عام شہریوں کے ساتھ صحافیوں کو لاحق خطرات کے بارے میں بھی خبردار کیا گیا ہے، رپورٹ میں 17 اپریل 2024 ءتک کے حاصل ڈیٹا کے مطابق سات اکتوبر 2023 ءسے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں کم سے کم 95 صحافی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔جسے 1992 ءسے صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی کمیٹی سی جے پی نے مہلک ترین دور قرار دیا ہے۔

جمہوریت کا چوتھا ستون:صحافت

 جمہوریت میں چوتھے ستون کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے ،وہ کسی بھی جمہوری ملک کی اہم ترین بنیادوں میں شمار ہوتی ہے ،اسی لیے اس کی آزادی کی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے۔ جب کسی ملک کے صحافی آزادی کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو نبھائیں گے، تبھی وہاں جمہوری قدروں کو فروغ دیا جا سکے گا۔صحافت کسی بھی سماج کا آئینہ ہوتی ہے ،سماج میں کون سے رجحانات اور خیالات پروان چڑھ رہے ہیں ؟ ملک کی حکومت کس طرح اپنی ذمہ داریوں کو پورا کر رہی ہے؟ اس کی پالیسیاں عوام کو کتنا فائدہ یا نقصان پہنچا رہی ہیں؟ لہٰذا کسی بھی ملک کی معاشی، سماجی اور سیاسی صورت حال پرو ہاں کی صحافت کے گہرے اور دیر پا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔حقیقت یہی ہے کہ اگر کسی ملک کی میڈیا آزاد نہیں ہے تو اس ملک کا سماج بھی آزاد نہیں رہ پائے گا، کیوں کہ میڈیا ہی حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھتا ہے ،اور اس کی پالیسیوں سے عوام کو روشناس کرواتا ہے۔

ملک عزیز اور آزادی صحافت

صحافت کا بنیادی کام ملک کے عوام کو ملک اور دنیا کی صحیح صورت حال اور حقائق سے روشناس کروانا ہے۔ ہمارے ملک میں تو اس کی اہمیت یوں بھی زیادہ ہے کہ ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے علم بردار ہیں اور صحافت جمہوریت کاچوتھا ستون ہے،لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ملک عزیز کی موجودہ حکومت میڈیا کی آزادی پر ہر طرح کی روک لگانے کے درپے ہے،اس نے صحافت کے معنی ہی بدل کررکھ دئیے ہیں۔ آج کے دور میں حکومت سے سوال پوچھنا سب سے بڑا جرم ہے اور سوال کرنے والا صحافی سب سے بڑا ’دیش دروہی‘ ہے۔
حکومت کے قریبی بزنس مین تمام میڈیا ہاؤسز کے مالک بن چکے ہیں، جو آزاد ی صحافت پر سوالیہ نشان کی طرح ہیں، اور اس کے نتیجے میں ملک کے اندر ایک ایسا میڈیا وجود میں آچکا ہے، جو نہ صرف یہ کہ حکومت وقت سے خود کوئی سوال نہیں پوچھتا ،بلکہ سوال کرنے والوں کو بھی مجرم بنا دیتا ہے۔ مین اسٹریم میڈیا کے نیوزچینلوں کی زہریلی رپورٹنگ اس صورت حال کا واضح ثبوت ہے، جن کے رپوٹر مستقل طور پر جھوٹی خبروں کو پھیلانے کا کام کرتے ہیں اور فرقہ وارانہ منافرت کو پروان چڑھاتے ہیں، ان کا دن رات کا ایک ہی ایجنڈا ہے کہ کسی نہ کسی طرح ملک کے عوام کو مسلم مخالف ذہنیت کا حامل بنادیں، ان کے دل و دماغ سے ملکی ترقی اورعوامی فلاح و بہبود کے کاموں کی جگہ، مندر مسجد اور ہندو مسلم منافرت کا زہر بھر دیں۔
رویش کمار، جنھیں آج کے ہندوستان میں سب سے مقبول ،آزاد سوچ والے ، بے باک اور جرأت مند صحافی کے طور پر دیکھا جاتا ہے، انھوں نے وزیراعظم نریندرمودی کے قریبی سمجھے جانے والے بزنس مین گوتم اڈانی کے این ڈی ٹی وی خریدے جانے کے بعد اپنا استعفی پیش کر دیا، کیوں کہ’ گودی میڈیا‘ چینل میں کام کرنا کسی بھی سچے اور نڈر صحافی کے لیے ممکن نہیں ہے، وہ ہندوستانی صحافت کی موجودہ صورت حال کو واضح کرتے ہوئےاپنے یوٹیوب چینل پر کہتے ہیں:
’’آج ہر شخص یہ دعویٰ کر رہا ہے اور خاص طور پر وہ لوگ جو صحافت کو روندنے کی کوشش کرنے والوں کے ماتحت کام کر رہے ہیں، کہ وہ حقیقی صحافت کر رہے ہیں، لیکن سچائی یہ ہے کہ آج حقیقی صحافت مر رہی ہے، آج بھارت کا میڈیا بدل گیا ہے۔‘‘
ملک کی موجودہ حکومت آزادی صحافت کے راگ تو الاپتی ہے، مگر اندرون خانہ صحافیوں کی آزادانہ رپورٹنگ کو روکنے کے لیے سبھی طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اب چاہے وہ ان کے خلاف جھوٹی ایف آئی آر ہو، یو اے پی اے کے قانون کا استعمال ہو یا پھر ان کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچانا ہو ، ایسا نہیں ہے کہ مودی حکومت کے آنے سے پہلے ملک میں ’امرت کال‘ چل رہا تھا اور ملک کے صحافی اپنا کام پورے اطمینان سے کر رہے تھے ،حکومت کے خلاف جانے پر سرکاری اشتہارات اور سرکاری مراعات سے محرومی کی سزا پہلے بھی تھی، مگر حکومت کے خلاف لکھنا اس کے نظریات سے اختلاف رکھنا،ملک دشمنی یا دیش دروہی بننے کے برابر کبھی نہیں تھا۔ سچائی یہی ہے کہ مجموعی طور پر وہ موجودہ حکومت کے آنے سے پہلے جس طرح حکومت کی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کرتے تھے، اس کے گھوٹالوں کا پردہ فاش کرتے تھے ،آج وہ آزادی ان کے پاس موجود نہیں ہے، اور جو ہے اس کو حکومت بتدریج کم کرتی جا رہی ہے۔
ملک عزیز کے تکثیری سماج اور کثرت میں وحدت کے تصور کو آج میڈیا نے جس طرح سبو تاژ کیا ہے، وہ ملک کے سبھی انصاف پسند لوگوں کو دکھائی دے رہا ہے۔نیوز ویب سائٹ ’’دی وائر‘‘ کی سینیئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی، بی بی سی اردو سے اپنی2022 ءکی بات چیت میں کہتی ہیں کہ انڈیا میں آزادی صحافت کے حالات بد سے بد تر ہوتے جارہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ ابھی بھی اپنی صحافتی ذمہ داریوں کو ایمان داری سے نبھانے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کی آواز کو بند کرنے کے لیے ان پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔جب ہر جگہ معلومات کو دبایا جائے اور صرف تعریفوں کے پل باندھے جائیں تو آپ سوچیے کہ جو لوگ سرکار کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں ان کو قوم مخالف کہا جا رہا ہے کہ وہ ملک کے خلاف کام کر رہے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ تو یہ ایک بہت خطرناک ماحول بنتا ہے ،جہاں نہ صرف رپورٹر اور صحافیوں کے لیے بلکہ کم زور طبقے کے لیے بھی بہت خطرناک ہے، جن کی آواز دبائی جاتی ہے۔جب صحافیوں کی آواز دبائی جاتی ہے تو آپ یہ سوچیے کہ جو کم زور طبقے کے لوگوں کے حقوق ہیں، ان کی جو آزادی ہے، ان سب کا گلا گھونٹا جاتا ہے، کیوں کہ صحافی عام لوگوں کے ہی سوالوں کو آگے رکھتے ہیں، سرکار پر سوال اٹھاتے ہیں، تاکہ سرکار صحیح ڈھنگ سے کام کرے اور صرف ایک خاص طبقے کو فائدہ نہ پہنچائے۔
تو جب یہ ساری آوازیں درکنار کر دی جائیں، تمام آوازوں کو دبایا جائے، تو جو غریب لوگ ہیں، انڈیا کی آبادی کا جو 80 فی صد لوگ ہیں، ان پر اثر پڑ رہا ہے اور جو جمہوریت ہے اس میں مسلسل گراوٹ کو ظاہر کرتا ہے۔
یہ صرف عارفہ خانم کی آواز نہیں، بلکہ ملک کے سبھی انصاف پسند لوگوں کی آواز ہے ۔ آزاد بین الاقوامی اداروں کے مطابق بھی ہندوستان میں آزادی صحافت مستقل خطرے میں ہے ،یہی وجہ ہے کہ رپورٹرس وِد آؤٹ بارڈر (آر ایس ایف) نامی تنظیم کی 2023 ءکی جاری کردہ پریس فریڈم انڈیکس میں ہندوستان کل 180 ممالک میں 161 ویں مقام پر گر چکا ہے۔
ملک عزیز کے لیےسب سے زیادہ تشویش ناک صحافیوں کی حفاظت کا زمرہ ہے، جہاں ہندوستان کا درجہ 172 واں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس پیرامیٹر پر 180 میں سے صرف 8 ممالک ہم سے بدتر ہیں۔ چنانچہ چین، میکسیکو، ایران، پاکستان، شام، یمن، یوکرین اور میانمار اس فہرست میں سب سے نیچے ہیں۔
آزادی صحافت پر روک لگانے کے قانونی اور غیر قانونی طریقوں کو اپنانے کے باوجود حکومت وقت مکمل زباں بندی پر قادر نہیں ہے، کیوں کہ یہاں صدیق کپن، ابھیسار شرما ،راج دیپ سر دیسائی، مرنال پانڈے، ظفر آغا ، اننت ناتھ اور ونود جوز، عارفہ خانم وغیرہ جیسے بے باک اور نڈر صحافی موجود ہیں۔

٭ ٭ ٭


ہمارے ملک میں تو اس کی اہمیت یوں بھی زیادہ ہے کہ ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے علم بردار ہیں اور صحافت جمہوریت کاچوتھا ستون ہے،لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ملک عزیز کی موجودہ حکومت میڈیا کی آزادی پر ہر طرح کی روک لگانے کے درپے ہے،اس نے صحافت کے معنی ہی بدل کررکھ دئیے ہیں۔ آج کے دور میں حکومت سے سوال پوچھنا سب سے بڑا جرم ہے اور سوال کرنے والا صحافی سب سے بڑا ’دیش دروہی‘ ہے۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مئی ۲۰۲۴