مئی ۲۰۲۴

ادب تخلیق کیا جائے ،ادب کی تخلیق کائنات کےحسن کو الفاظ میں رقم کرنے کا نام ہے، جہاں بھی جس زبان میں ادب تخلیق ہو، وہاںخالق کو بھول جاناتخلیق میں بد دیانتی ہے، چاہے وہ باغ کا منظرہو ، چرند پرند اور بلبل کا زمزمہ ہو کہ کوئل کی کوک ، یا رگ گل سے بلبل کے پر باندھنے کی ادا ہو ، یا انسانی آنکھ میں جھانک کر اس کی سلیم الطبعی اور نفس امارہ کا ذکر ظاہری حسن سے لے کر باطنی حسن تک الفاظ میں مسخر کیا جائے ۔
الفاظ کی روانی ، احساس کی جولانی ،اچھوتے اور لطیف جذبوں کو چھولینے ، قاری کو عش عش کرنے پر مجبور کردینے اور تسکین جان کا سامان فراہم کرنے کا نام ادب ہے۔
کائنات کے مصور کی کاریگری کا ذکر ہو ، تصویر پر خامہ فرسائی خوب کی جائے اور خالق کو بھلا دیا جائے یہ بددیانتی ہے ۔پس ثابت ہوا کہ دنیا کی ہر تخلیق جس کی تسخیر الفاظ میں پیرایۂ اظہار میں کی گئی وہ ادب ہے۔
زیر نظر کتاب ’’ اسلامی افسانوی ادب ‘‘ منہج ، خصوصیات مقاصد و شرائط پر منتج ہے۔یہ ڈاکٹر مامون فریز جرارکی عربی تالیف ہے، جس کی تعلیق اور ترجمہ ڈاکٹر طارق ایوبی صاحب نے کیا ہے۔صفحات اس کتاب کے 216 ہیں قیمت 140 روپیے، پبلشر ندائے اعتدال علی گڑھ ہے۔
کتاب کے پہلے حصے میں مقاصد کا تنقیدی جائزہ ہے، منہج پر دلائل دئیے گئے اور خصوصیات اور شرائط پر مفصل گفتگو کی گئی ہے، آخر سے پہلے حصے میں افسانے کےاجزائے ترکیبی کےقرآنی قصص میں موجودگی پر دلائل موجود ہیں۔
ادب کیا ہے؟ جامع تعریف
اس کتاب میں ڈاکٹر عبدالرحمن رافت باشا کی تعریف نقل کی گئی ہے، وہ کچھ یوں ہے:
’’ ادب اسلامی و بامقصد فنی تعبیر ہے جو زندگی ، کائنات اور انسان کے متعلق ادیب کے اس وجدان کا نتیجہ ہو، جس کو اس نے خالق و مخلوق کے تئیں اسلام کے عطا کردہ تصورات سے اخذ کیا ہو ۔‘‘
اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد مجموعی طور پر مذکورہ بالاتمہیدی گفتگو میں یہ خیال بنتا ہے ۔اس کتاب کو کھولتے ہی علی میاں ندویؒ کےاس خوبصورت اقتباس پر پڑتی ہے، پڑھتے ہی حس جمالیات پھڑک اٹھتی ہے:
’’حسن پسندی تو یہ ہے کہ حسن جس شکل میں ہوا سے پسند کیا جائے، بلبل کو آپ پابند نہیں کر سکتے کہ اس پھول پر بیٹھے اس پھول پر نہ بیٹھے، یہ کہاں کا حسن مذاق اور کہاں کی حق پسندی ہے کہ اگر گلاب کا پھول کسی مےخانے کے صحن میں اس کے زیر سایہ کھلے تو وہ گلاب ہے، اور اس سے لطف اٹھایا جائے ، اور اگر کسی مسجد کے چمن میں کھل جائے تو پھر اس میں کوئی حسن نہیں؟ کیا یہ جرم ہے کہ اس نے اپنے نمو اور جلوہ نمائی کے لیے مسجد کا سہارا لیا؟ بقول اقبال:

حسن بے پروا کو اپنی بے نقا بی کے لیے
بن اگر شہروں سے پیارے ہوں تو شہر اچھے کہ بن؟‘‘

کتاب کیا ہے؟ سوچ کا نیا در وا کرتی ہے۔ اردو ادب میں اسلامی افسانہ نویسی کے تشنہ میدان کا احساس دلاتی ہے ۔دلائل سے اس صنف کا فطری طور پر اسلامی سانچے میں ڈھلنے پر توجہ مبذول کرواتی ہے۔
اس کتاب سے متعلق پروفیسر سید احتشام ندوی کا یہ جملہ ملاحظہ فرمائیے:
’’ موصوف نے اپنی اس کتاب سے ہم کو جھنجھوڑا ہے کہ ہم ان تخلیقات کا جائزہ لیں جواب تک ہم نے افسانوی ادب میں پیش کی ہیں، اس لیے کہ ایک یونانی فلسفی کہتا ہے کہ بغیر آزمائش زندگی جینے کے لائق نہیں۔ہم کو اپنی تخلیقات کو پرکھنا چاہیے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے پہلی بار افسانوی ادب کے موضوع پر ایک جامع تنقیدی کتاب پیش کی ہے، جس میں بہت سے لولو و مرجان ہیں جو ہم کو تدبر و تفکر پر مجبور کرتے ہیں ، اور ہماری توجہ ان بنیادی نقائص اور مسائل کی طرف مبذول کرواتے ہیں، جن کو کبھی ہم نے سوچا بھی نہیں ، خاص طور سے افسانوی ادب کے بارے میں ۔ ڈاکٹر صاحب کے تمام مباحث میں افسانوی ادب کے ساتھ اسلامی عنصر کی قید بھی لگی ہوئی ہے۔
ادب، انسانی فطرت ہے اور فطرت کو اپیل کرنے والی کسی چیز سے اسلام نہیں روکتا، بلکہ وہ اسے صحیح رخ دیتا ہے، عیش کوشی سے نکال کر اسے زندگی کی حرکت وعمل سے جوڑتا ہے۔
موصوف نے اپنی کتاب میںاس بات پر بحث کی ہے کہ مغربی تہذیب کی یلغار سے نئی نسل کومحفوظ رکھنے کے لیے اردو میں اسلامی ادب کی تحریک تو شروع کی گئی، لیکن ادب کے نام پر اس کو محض نعت، حمد اور نظم تک ہی محدود رکھا گیا ،جدید مغربی ادب سے افسانوی ادب پر بھی اردو ادیبوں نے طبع آزمائی کی، لیکن اس میں اسلامی ثقافت اور اسلامی تمدن کا پہلو معدوم رہا ہے۔
اس بات پر بھی کھل کر بحث کی کہ کیا ادب کو صرف فنی حسن و قبح تک محدود رہنا چاہیے؟ ادب کے ساتھ’’اسلامی ‘‘کا لاحقہ لگانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ادب کو ہر دور میں نظریات کی ترسیل کےلیے مختلف مفکرین نے تختۂ مشق بنایا، کپیٹلسٹوں نے جنسی بے راہ روی کو افسانوی ادب کے ذریعہ رواج دیا تو کمیونسٹس نے کمیونزم کے نظریات کے لیے افسانوی ادب کا سہارا لیا، اسی طرح سرمایہ دارانہ نظام کی ترویج ، مارکسی تحریک ہو یامسیحی نظریات ہوں ، کلاسیکیت ، رومانیت سے لے کر وجودیت اور رمزیت ، لادینیت نے بھی افسانوی ادب کا سہارا لیا ہے۔ جب افسانوی ادب کو دل تک پہنچنے کا ذریعہ مانا تو اسلامی نظریات کو بھی اردو افسانے میں جگہ ملنی چاہیے۔
پوری کتاب میںقرآنی قصص سے دلائل بھی ہیں، اس کہانی کے طرز فکر سے ثابت ہے، انداز بیان کو مؤثر بنانے کے لیے اس طریقے کو اپنایا جانا چاہیے،تاہم اردو ادب میںفن کاری اور فنی محاسن کے نظریے کو بھی صاحب کتاب نے قبول کرتے ہوکہا کہ فن میں درجۂ کمال کو پہنچ کر فطری اور وجدانی انداز میں تخلیق پانے والے ادب کی بھی اب گنجائش نکالی جانی چاہیے ۔
گزرے وقتوں کےبے شمار ادباء وشعراء کی ایک طویل فہرست کا ذکر کرتے ہوئے موصوف نے لکھا کہ حالی ، اقبال، ڈپٹی نذیر احمد اور بے شمارادباء وشعراء نے ادب میں اسلامی طرز فکر کو باقی رکھا ہے۔
موجودہ زمانہ شاعری سے زیادہ افسانوں،ناول اور کہانی کا دور ہے ،اس دور کو نریٹیو بلڈنگ کا دور کہا جاتا ہے، کیوں کہ اس زاویے سے ہمارے ادباء ، افسانہ نگار اور ناول نگاروں کو سوچ کر عملی جامع پہنانا چاہیے ۔
اسلامی افسانوی ادب کا صرف جائزہ ہی موصوف نے نہیں لیا بلکہ اس کتاب میں قرآن سے دلائل بھی پیش کیے ہیں۔مصنف ایک جگہ رقم طراز ہیں :
’’جب قرآن کریم نازل ہوا تو اس میں احسن القصص ( بہترین قصے ) وارد ہوئے ، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو گذشتہ قوموں کے قصے سنائے ، اور پھر مسلمانوں میں باقاعدہ ’’القصاص‘‘ (قصہ گو لوگ) پائے گئے ، عربی ادب کی تاریخ میں ایسے بہت سے قصے پائے جاتے ہیں، جو سینہ بہ سینہ اور نسل در نسل منتقل ہوتے رہے۔‘‘
اس کتاب کی تکمیل کے ساتھ ہی اسلامی افسانے میں تشنگی کا احساس ہوتا ہے، تاہم مکمل اس کا میدان بھی خالی نہیں ہے، ماضی میں عبدالحلیم شرر ، علامہ راشد الخیری ، مجتبی حسین نے اسلامی تہذیب و روایات کی بقا کو اردو افسانے موضوع بنایا وہیں ہم سایہ ملک کے بیش تر ادباء نے اسے آباد رکھا ہے اور مکمل فن کاری کے ساتھ رکھا۔ انتظار حسین ، اے حمید ، مستنصر حسین تارڑ ، منشایاد ، مسرور جہاں ، ممتاز مفتی ، اور بابا یحیی خان نے اسلامی اقدار وحدانیت ، فتنۂ قادیانیت ، تعلق بالقرآن اور رسالت ، آخرت جیسے موضوعات کو اپنایا ہے، وہیںموجودہ دور میں عمیرہ احمد، نمرہ احمد اور یحییٰ نشید ، ابو یحییٰ جیسے لوگوں نے اس روایت پر نہ صرف عمل درآمد کیا بلکہ اس تحریک کو تیز تر کیا۔ موجودہ دور میں نوجوان نسل اس کی طرف مائل ہے اور اس سے اچھی امید کی جاسکتی ہے ،تاہم فن کاری سے میں درجۂ کمال کے حصول کےلیے زانوئے تلمذ تہ کرنے یا تحقیق اور مشق و ریاض کی طرف نئی نسل کو مائل کرنا بھی ایک چیلنج ہے،ورنہ اس کتاب کی پشت پر لکھا علامہ سید سلیمان ندوی کا یہ جملہ صادق آ سکتا ہے :
’’ ہر وہ صاحب قلم جو دو انسانوں کی باتوں کو قید تحریر میں لانا جانتا ہو وہ ہمارے ملک کا بڑا افسانہ نویس ہے ۔‘‘
ہر اس شخص کو جو افسانہ نویسی میں طبع آزمائی کرنا چاہتا ہو اور اپنے فن کو مقصدیت سے جوڑنے کا خواہاں ہو، اسے یہ کتاب لازماً پڑھنی چاہیے۔خصوصاً قرآنی قصص اور افسانے کے اجزائے ترکیبی کا باب فنی باریکیوں کو برتنے کا سلیقہ سکھائے گا ۔ یہ کتاب ایک اچھوتے عنوان پر شاہ کار ہے ۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

1 Comment

  1. انوار سلیم

    جزاک اللہ، بہت خوبصورت تبصرہ، ڈاکٹر صاحب کے لئے خراج عقیدت ۔۔۔مجھے مکمل مضمون میں صرف ایک چیز کی کمی کا احساس رہا اور وہ ہے افسانے کا مختصر تعارف ۔۔۔۔ابتداء میں آپ نے موضوعِ ادب پر کھل کر بات کی ،کیا ہی بہتر ہوتا کچھ سطریں افسانے کے متعلق بھی لکھتیں تاکہ میرے جیسے کم علم طلباء افسانہ اور اسکی غرض و غایت سے بھی واقف ہو جاتے ،،،اس کا بڑا فائدہ یہ ہوتا کہ آئندہ کبھی کوئ طالبعلم ڈاکٹر صاحب کی کتاب کا مطالعہ کرتا تو وہ عام افسانوی ادب اور اسلامی افسانوی ادب کو ذہن میں رکھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کی کتاب کا تجزیہ کرتا۔۔۔۔
    اہم بات جب کبھی آپ کسی کتاب کا تعارف پیش کریں تو طریقہ وہ اپنائیں جو طریقہ اس کے لئے وضع کیا گیا ہے مثلا مصنف/مؤلف کا نام،کتاب کا نام،قیمت،پبلشر وغیرہ ،،ان سب کو ترتیب وار اوپر سے نیچے لکھیں اور سرورق پر لکھیں۔۔۔یہ سبھی باتیں آپ نے بھی لکھی ہیں مگر مضمون کے اندر ہی لکھ دی ہیں اور یہ طریقہ درست نہیں ہے،،آپ اسکو لکھتیں اور سر ورق پر لکھتیں تو زیادہ بہتر تھا۔۔۔۔
    ٹائپ کرنے کے بعد کسی سے ایک بار ضرور چیک کروا لیا کریں تاکہ املاء کی کوئ غلطی باقی نہ رہے۔۔۔۔

    ادنی طالبعلم

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مئی ۲۰۲۴