اگست ۲۰۲۴
زمرہ : النور

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ ﴿1﴾ الَّذِي جَمَعَ مَالًا وَعَدَّدَهُ ﴿2﴾ يَحْسَبُ أَنَّ مَالَهُ أَخْلَدَهُ ﴿3﴾ كَلَّا لَيُنبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ ﴿4﴾ وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْحُطَمَةُ ﴿5﴾ نَارُ اللَّهِ الْمُوقَدَةُ ﴿6﴾ الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَفْئِدَةِ ﴿7﴾ إِنَّهَا عَلَيْهِم مُّؤْصَدَةٌ ﴿8﴾ فِي عَمَدٍ مُّمَدَّدَةٍ ﴿9﴾

(تباہی ہے ہر اُس شخص کے لیے جو (مُنہ در مُنہ) لوگوں پر طعن اور (پیٹھ پیچھے) بُرائیاں کرنے کا خوگر ہے۔ جس نے مال جمع کیا اور اُسے گِن گِن کر رکھا۔ وہ سمجھتا ہے کہ اُس کا مال ہمیشہ اُس کے پاس رہے گا۔ ہرگز نہیں، وہ شخص تو چَکنا چُور کر دینے والی جگہ میں پھینک دیا جائے گا۔ اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ چکنا چور کر دینے والی جگہ؟ اللہ کی آگ، خُوب بھڑکائی ہوئی۔جو دلوں تک پہنچے گی۔ وہ اُن پر ڈھانک کر بند کر دی جائے گی ۔
(اِس حالت میں کہ وہ) اُونچے اُونچے ستونوں میں (گھِرے ہوئے )ہوں گے۔)

سورۂ ہُمَزَہ یا لُمَزہ قرآن کریم کی 104 ویں اور مکی سورتوں میں سے ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے 32 ویں سورت ہے جو قرآن کے آخری پارے میں ہے۔ اس میں 9 آیات ہیں ۔یہ 33 کلمات اور 134 حروف پر مشتمل ہے۔ اس کا شمار مفصلات (چھوٹی آیات والی سورت) میں ہوتا ہے اور حجم کے اعتبار سے قرآن کی چھوٹی سورتوں میں سے ہے۔اس کا نام ’’ہمزہ‘‘ اور’’ لمزہ‘‘ اس لیےرکھا گیا ہے کہ یہ دو لفظ اس کی پہلی آیت میں آئے ہیں، جن کے معنی عیب جوئی اور بدگوئی کرنے والے کے ہیں۔ اس سورت میں خداوند مال‌اندوزی کرنے والے افراد کو جہنم کی چکناچور کر دینے والی آگ سے ڈراتے ہیں ،جو عیب جوئی کے ذریعے لوگوں پر برتری کے خواہاں ہیں۔
اس کا نام ’’ہمزہ‘‘ اور لمزہ اس لیے رکھا گیا ہے کہ یہ دو لفظ اس کی پہلی آیت میں آئے ہیں۔ان دو الفاظ کے معنی عیب جوئی اور بدگوئی کرنے والے کے ہیں لیکن ان دو الفاظ کے دقیق معانی کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں کہ ہمزہ آمنے سامنے عیب جوئی کرنے اور لمزہ پیٹھ پیچھے عیب جوئی کرنے کو یاس کے برعکس کو کہا جاتا ہے۔
اس سورت میں ذخیرہ اندوزی کرنے والے افراد کو جہنم کی آگ کی بشارت دیتے ہیں ،جو مال و دولت کی کثرت کے بل بوتے پر لوگوں کو اپنا غلام بنانا چاہتے ہیں ،اور غرور اور تکبر کا اظہار کرتے ہیں، اسی بناء پر وہ لوگوں کی عیب جوئی کرتے ہیں۔یہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ ان کا مال و دولت انھیں ہمیشہ زندہ رکھیں گے، حالاں کہ ایسا نہیں ہے اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
بعض مفسرین کی رائے ہے کہ یہ سورت وَلید بن مُغِیرَہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی ،جو پیغمبر اکرم ﷺ کے پیٹھ پیچھے آپ پر تہمتیں لگایا کرتا تھا اور آپ کی شان میں بدگوئی کیا کرتا تھا، جب کہ مفسرین کی ایک اور جماعت ایک ایسے گروہ کے بارے میں نازل ہونے کے قائل ہے، جو پیغمبر اکرمﷺ کو بدنام کرنے کے درپے تھا۔

وَیۡلٌ لِّکُلِّ هُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِۣ ۙ﴿۱﴾‏‎ ‎ ‎

(بڑی خرابی ہے ہر ایسے شخص کے لیےجو پیٹھ پیچھے عیب نکالنے والا ہو اور آمنے سامنے طعنہ دینے والا ہو۔)
( و ی ل ) الویل
اصمعی نے کہا ہے کہ ویل برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور حسرت کے موقع پر ویل اور تحقیر کے لیے ویس اور ترحم کے ویل کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
البقرة : 79 ، إبراهيم: 2 ، الزخرف: 65 ، يٓس: 52 ، الأنبیاء: 46، القلم: 31 میںلفظ ویل مختلف معنوں میںاستعمال ہوا ہے ۔

مفردات القرآن

ویل کے معنی ہلاکت اور بربادی کے ہیں اور جہنم کے گڑھے کا نام بھی ہے، جس کی آگ اتنی تیز ہے کہ اگر اس میں پہاڑ ڈالے جائیں تو دھول ہو جائیں۔ ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جہنم کی ایک وادی کا نام ویل ہے، جس میں کافر ڈالے جائیں گے، چالیس سال کے بعد تلے میں پہنچیں گے۔
(سنن ترمذي: 3164، قال الشيخ الألباني:ضعیف)
ایک ہی کردار کے دو پہلو: ’’ہَمْزٌ‘‘ کے معنی اشارہ بازی کرنے اور’ ’لَمْز‘‘ کے معنی عیب لگانے کے ہیں۔ ’’ہُمَزَۃ‘‘ اور ’لُمَزَۃٌ‘‘ مبالغہ کے صیغے ہیں اور اسی سورہ میں آگے’ ’حُطَمَۃ‘‘ بھی اسی وزن پر آیا ہے۔’ ’ہُمَزَۃ‘‘ کے معنی اشارہ باز اور ’’لُمَزَۃ‘‘ کے معنی عیب جُو اور عیب چیں کے ہیں۔ اشارہ بازی کا تعلق زیادہ تر حرکتوں اور اداؤں سے ہے اور عیب جُوئی کا تعلق زبان سے۔ یہ دونوں ایک ہی کردار کے دو پہلو ہیں۔ جب کسی کا مذاق اڑانا، اس کا متہم کرنا اور اس کو دوسروں کی نگاہوں سے گرانا مقصود ہو تو اس میں اشارہ بازی سے بھی کام لیتے ہیں اور زبان سے بھی۔ اشارہ بازی سے کسی کی تضحیک و تحقیر کے جو پہلو پیدا کیے جا سکتے ہیں بسا اوقات وہ زبان کی فقرہ بازیوں سے زیادہ کارگر ہوتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے ’ہُمَزَۃٌ‘‘ کو مقدم رکھا ہے۔
ہمز و لمز کی عادت مہذب اور شائستہ سوسائٹی میں ہمیشہ عیب سمجھی گئی ہے۔ تمام آسمانی مذاہب میں اس کی ممانعت وارد ہے۔ قرآن مجید میں نہایت واضح الفاظ میں اس سے روکا گیا ہے:

وَلَا تَلْمِزُوْآ أَنفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْأَلْقَابِ (الحجرات: 11)

(اور اپنے آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور ایک دوسرے پر پھبتیاں چست نہ کرو۔)

دعوت حق کا مقابلہ اوچھے ہتھیاروں سے

جدید جاہلیت کی طرح قدیم جاہلیت میں بھی اس فن کو بڑا فروغ حاصل رہا ہے۔ اِس زمانے میں جس طرح اخباروں میں مزاحیہ کالم بھی ہوتے ہیں اور کارٹون بھی چھپتے ہیں ،جو اشاروں کی زبان میں حریفوں کی تضحیک کرتے ہیں اسی طرح قدیم زمانے میں نقال، بھانڈ اور فقرہ باز ہوتے تھے جو اجرت لے کر شریفوں کی پگڑیاں اچھالتے اور اپنے سرپرستوں کا جی خوش کرتے۔ سورۂ قلم میں قریش کے لیڈروں اور ان کے غنڈوں پر قرآن نے جو جامع تبصرہ کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے بھی مسلمانوں کی ’’تَوَاصِیْ بِالْحَقِّ وَالصَّبْرِ‘‘ کی دعوت کو اسی حربے سے شکست دینے کی کوشش کی جو حربے اس زمانے کے پیشہ ور لیڈر اپنے حریفوں کو شکست دینے کے لیے اختیار کیا کرتے تھے، چنانچہ نبی ﷺ کو ان کے ان ہتھکنڈوں سے ہوشیار رہنے کی ہدایت فرمائی گئی:

وَلَا تُطِعْ کُلَّ حَلَّافٍ مَّہِیْنٍ ﴿﴾ ہَمَّازٍ مَّشَّآءٍ بِنَمِیْمٍ﴿﴾ مَنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ مُعْتَدٍ اَثِیْمٍ ﴿﴾ عُتُلٍّ بَعْدَ ذٰلِکَ زَنِیْمٍ ﴿﴾ أَنۡ کَانَ ذَا مَالٍ وَبَنِیْنَ﴿﴾

(القلم: 10-14)
(اور تم ہر لپاٹیے ذلیل کی بات کا دھیان نہ کرو۔ اشارہ باز اور لگانے بجھانے والے کا۔ بھلائی سے روکنے والا، حدود سے تجاوز کرنے والا اور حق کو تلف کرنے والا۔ اجڈ مزید برآں چاپلوس۔ بوجہ اس کے کہ وہ مال و اولاد والا ہوا۔)

تدبر قرآن

ہُمَزَۃ اور لُمَزَۃ دونوں الفاظ معنی کے اعتبار سے باہم بہت قریب ہیں۔ بعض اہل لغت کے نزدیک روبرو طعنہ زنی کرنے والے کوہمزہ اور پس پشت عیب جوئی کرنے والے کو لُمَزَۃ کہتے ہیں ،جب کہ بعض اہل لغت نے ان کا معنی برعکس بیان کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا قول ہے کہ ہر چغلی کھانے والے ،دوستوں میں جدائی اور تفرقہ ڈالنے والے ،بےقصور اور بے عیب انسانوں میں نقص نکالنے والے کو ہُمَزَۃ اور لُمَزَۃ کہتے ہیں۔

بیان القرآن

یہ دونوں گناہ سماجی اور اخلاقی اعتبار سے نہایت بُرے اور خطرناک ہیں۔ قرآن وحدیث میں ان دونوں گناہوں کے متعلق شدید وعیدیں وارد ہوئی ہیں؛ لیکن یہاں ایک قابل غور بات یہ ہے کہ اگر ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو ’’غیبت‘‘ استہزاء سے زیادہ بڑا گناہ ہے، کیوں کہ غیبت کرنے والا کسی ایسے شخص کی غیبت کرتا ہے، جو حاضر نہیں ہے اور جو اپنا دفاع نہیں کر سکتا ہے، اسی وجہ سے یہ گناہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔
البتہ اگر دوسرے اعتبار سے دیکھا جائےتو ’’استہزاء‘‘غیبت سے زیادہ شدید ہے؛ کیوں کہ کسی کے روبرو اس کو بُرا بھلا کہنے میں اس کی توہین اور تذلیل بھی ہوتی ہے اور اس کے دل آزاری کا باعث ہوتی ہے، اس اعتبار سے استہزاء کی ایذاء غیبت کی ایذاء سے بھی اشدہے ،کیوں کہ غیبت آدمی کے پشت کے پیچھے ہوتی ہے اور آدمی کو اس کا علم نہیں ہوتا ہے۔
اس آیت کریمہ میں غیبت کا ذکر آیا ہے۔ غیبت ایک نہایت بُرا گناہ ہے اور اس سے معاشرہ میں بے شمار خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔

غیبت

قرآن وحدیث میں غیبت کے متعلق ‏شدید وعیدیں آئی ہیں۔ چنانچہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی الله عنہم سے ‏پوچھا کہ تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے؟
صحابۂ کرام رضی الله عنہم نے عرض کیا:
’’الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم ‏ہی خوب جانتے ہیں۔ ‘‘
حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
’’غیبت یہ ہے کہ اپنے بھائی کی ایسی بات ذکر کرے، جو اس کو بُری ‏لگے۔‘‘ کسی نے عرض کیا کہ اگر دراصل اس میں وہ عیب ہو تو بھی غیبت ہے؟ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اگر عیب ‏ہے اور تو نے بیان کیا تب ہی تو غیبت ہے ورنہ وہ تو بہتان ہے۔‘‘(مسلم)‏
ایک دوسری حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عبد اللہ بن عبّاس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے، تو فرمایا کہ بے شک ان دونوں (قبروالوں) کو عذاب دیا جارہا ہے اور ان کو کسی بڑی چیز کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا ہے (کسی ایسی چیز کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا ہے، جس سے بچنا دشوار ہو) بہر حال ان دونوں میں سے ایک، تو وہ پیشاب (کے چھینٹوں) سے نہیں بچتا تھا (جس کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہے) اور دوسرا چغل خوری کرتا تھا (لوگوں کی باتیں اِدھر سے اُدھر نقل کرتا تھا؛ تاکہ ان کے درمیان فتنہ پھیلائیں۔ جس کی وجہ سے وہ عذاب میں گرفتار ہے۔)(صحیح مسلم)
ان دونوں احادیث سے واضح ہو رہا ہے کہ بدترین لوگ وہ ہیں جو چغل خوری کرتے ہیں اور لوگوں میں فتنہ پیدا کرتے ہیں۔

الَّذِیۡ جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَہٗ ۙ﴿۲﴾

(جو مال جمع کرتا ہو اور اس کو بار بار گنتا ہو۔)
’’( ج م ع ) الجمع‘‘کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ قرآن میں ہے :

 وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ (القیامة)

(اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ )

 جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ ( الهمزة)

(مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے۔)
’’( م ی ل ) المیل‘‘کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں
اور المال کو مال اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔
’’(ع د د ) العدد‘‘( گنتی ) آحا د مرکبہ کو کہتے ہیں اور بعض نے اس کے معنی ترکیب آحاد یعنی آحا د کو ترکیب دینا بھی ہے، مگر ان دونوں معانی کا مرجع ایک ہی ہے ۔

مفردات القرآن

اس آیت کریمہ میں تیسرے بڑے گناہ کا ذکر آیا ہے۔ وہ گناہ یہ ہے کہ انسان خوب مال جمع کرنے کی فکر میں رہتا ہے اور ہر وقت مال گن گن کر رکھتا ہے۔ جس انسان کے دل میں مال کی بےحد محبّت، لالچ اور طمع ہوتی ہے، تو یہ مال کی لالچ اس کو اچھے کاموں میں مال خرچ کرنے سے روکتی ہے۔
جس نے اپنی زندگی اور زندگی کی ساری جدوجہد مال کمانے اور اس کا حساب رکھنے میں برباد کردی۔ وہ یہی سوچ سوچ کر خوش ہوتا رہا کہ اس ماہ میرے اکائونٹس میں اتنے فی صدکا اضافہ ہوگیا ہے اور پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال میرے اثاثہ جات اس قدر بڑھ گئے ہیں۔

بیان القرآن

اس آیت کریمہ میں جو وعید ذکر کی گئی ہے وہ تمام مال داروں اور اہل ثروت کے لیے نہیں ہے؛ بلکہ وہ ان مال داروں کے لیے ہے جو مال اکٹھا کر کے رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا نہیں کرتے ہیں، نیز بندوں کے حقوق اور غرباءو مساکین کے حقوق ادا نہیں کرتے ہیں ۔

یَحۡسَبُ اَنَّ مَالَہٗۤ اَخۡلَدَہٗ ۚ﴿﴾

(وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اسے ہمیشہ باقی رکھے گا۔)
’’( ح س ب ) الحساب‘‘اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا، آیت ہے:

 الٓمّٓ أَحَسِبَ النَّاسُ (العنکبوت)

( کیا لوگ یہ خیال کیےہوئے ہیں ؟)
’’( خ ل د ) الخلودُ ( ن )‘‘کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہوتب اس پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔’’خلود‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا۔

مفردات القرآن

ویا اس کے مال نے اسے زندہ جاوید کردیا ہے۔ ایک دولت مند آدمی اپنی دولت کے ذریعہ دنیا میں ایسے آثار و نقوش چھوڑ کر جانا چاہتا ہے ،جن کی وجہ سے اس کا نام دنیا میں ہمیشہ رہے۔ انسان کی اسی خواہش نے اسے اہرام مصر جیسے عجائبات کی تخلیق پر مجبور کیا۔ مشہور انگریزی نظم The Pyramids کے ان الفاظ میں انسان کی اسی نفسیات کی عکاسی کی گئی ہے :

Calm and self possessed
and resolute, ؔPyramids echo into Still eternity
They defined cry of mans will
To strive conquer the storms of tim

بیان القرآن

كَلَّا لَیُنْۢبَذَنَّ فِی الْحُطَمَةِۖ

(ہر گز نہیں! وہ ضرور حطمہ میں ڈالا جائے گا ۔)
’’کلا ‘‘یہ حرف روع اور زجر ہے اور ماقبل کلام کی نفی کے لیے آتا ہے اور یہ ای حرف ایجاب کی ضد ہے ۔
’’لام ‘‘ یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔اول حروف جارہ اور اس کی چند قسمیں ہیں ۔
’’( ن ب ذ) النبذ‘‘کے معنی کسی چیز کو در خود اعتنا ءنہ سمجھ کر پھینک دینے کے ہیں ،اسی سے محاورہ مشہور ہے :

 نبذ تہ نبذلنعل الخلق

(میں نے اسے پرانے جو تا کی طرح پھینک دیا ۔)
’’( ح ط م )الحطم‘‘ کے اصل معنی کسی چیز کو توڑنے کے ہیں ۔جیسا کہ الھشیم وغیرہ الفاظ اسی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ پھر کسی چیز کو ریزہ زیزہ کردینے اور روندنے پر حطم کا لفظ بولا جاتا ہے ۔

مفردات القرآن

حُطَمَۃ ،حَطَم َسے ہے یعنی توڑ ڈالنے والی ، پیس ڈالنے والی ،چور چور اور ریزہ ریزہ کردینے والی۔ یہ دوزخ کے ایک خاص طبقے کا نام ہے جس کی آگ اتنی تیز ہوگی کہ اس میں جو شے بھی ڈالی جائے گی اس کو آنِ واحد میں پیس کر رکھ دے گی۔

بیان القرآن

اصل میں لَيُنْۢبَذَنَّ فرمایا گیا ہے۔ نبذ عربی زبان میں کسی چیز کو بےوقعت اور حقیر سمجھ کر پھینک دینے کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس سے خودبخود یہ اشارہ نکلتا ہے کہ اپنی مال داری کی وجہ سے وہ دنیا میں اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتا ہے، لیکن قیامت کے روز اسے حقارت کے ساتھ جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔

تفہیم القرآن

 وَمَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا الۡحُطَمَۃُ

(اور تم کیا جانو کہ چور چور کردینے والی کیا ہے ؟)
یہ استفہام اس کی ہول ناکی کے بیان کے لیے ہے، یعنی وہ ایسی آگ ہوگی کہ تمھاری عقلیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور تمھارا فہم و شعور اس کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتا۔
اس چور چور کردینے والی آگ کی ہولناکی کو نمایاں کرنے کے لیے فرمایا کہ تم کیا جانو وہ چور چور کردینے والی کیا ہے اور کیسی ہے؟ ظاہر ہے کہ خالق کے سوا اس کا جواب اور کون دے سکتا ہے ؟

روح القرآن

نَارُ اللّٰہِ الۡمُوۡقَدَۃُ ۙ﴿﴾

(وہ خدا کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے ۔)
’’( ن و ر ) نار‘‘اس شعلےکو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔
’’( ا ل ہ ) اللہ‘‘
(1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفاً) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لیے مخصوص کردیا گیا ہے، اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :

 هَلْ تَعْلَمُ لَه سَمِيًّا ( سورة مریم : 65)

(کیا تمھیں اس کے کسی ہم نام کا علم ہے ؟)
الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے ،کیوں کہ انھوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنے کے ہیں، اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ (س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چوں کہ عقول متحیر اور در ماندہ ہیں، اس لیے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی ؓ نے فرمایا ہے:
’’ اس لیےکہ انسان جس قدر صفات الٰہیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے۔‘‘
اس بناء پر آں حضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔
’’( و ق د )وقدت النار ( ض ) وقودا ووقدا‘‘ آگ روشن ہونا ۔ الوقود : ایندھن کی لکڑیاں جن سے آگ جلائی جاتی ہے اور آگ کے شعلہ کو بھی وقود کہتے ہیں ۔

مفردات القرآن

یعنی اس آگ کی حدت اور تپش انسان کی جلد سے زیادہ اس کے دل پر اثر انداز ہوگی۔ بہرحال آج جب انسان خود Infra red Rays اور Ultra violet Rays سمیت آگ اور حرارت کی رنگا رنگ اقسام ایجاد کرچکا ہے، اس کے لیے ’’حُطَمَہ‘‘ کی مذکورہ خصوصیت کو سمجھنا بہت آسان ہوگیا ہے۔ ایک صاحب نے خیال پیش کیا ہے کہ’’ حُطَمَۃ‘‘ ایٹمی حرارت کی کوئی شکل ہوگی۔ ان کا کہنا ہے کہ ایٹم سے جو حرارت پھیلتی ہے وہ براہ راست آگ نہیں ہوتی لیکن انسان کے وجود کو چیرتی چلی جاتی ہے ۔

بیان القرآن

اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ کی ایک خاص صفت۔یہ اس’ ’حُطمۃ‘‘ کی وضاحت ہے کہ یہ اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے جو دلوں پر جا چڑھے گی۔ یعنی اس کا خاص مزاج یہ ہو گا کہ وہ سب سے پہلے ان دلوں کو پکڑے گی جن میں مال کی محبت اس طرح رچی بسی رہی ہے کہ اس نے خدا اور آخرت کی یاد کے لیے کوئی جگہ ان کے اندر باقی نہیں چھوڑی۔ اس آگ کی مطلوب غذا چوں کہ ان ہی دلوں کے اندر ہو گی، اس وجہ سے اس کا سب سے پہلا حملہ ان ہی پر ہو گا۔ اس زمانے میں خاص خاص چیزوں کے تعاقب کے لیے ایسے آلات ایجاد ہو گئے ہیں جو دور ہی سے اپنے شکار کو بھانپ لیتے اور ازخود ان کا پیچھا شروع کر دیتے ہیں یہاں تک کہ ان کو مار گراتے ہیں۔ یہی حال اللہ تعالیٰ کی بھڑکائی ہوئی اس آگ کا ہو گا۔ یہ ان دلوں پر خود بخود جا چڑھے گی۔ جو مال کے عشق میں گرفتار اور اللہ کے حاجت مند بندوں کے حقوق سے بے پروا رہے۔

تدبر قرآن

الَّتِیْ تَطَّلِعُ عَلَى الْاَفْئِدَةِؕ

(جو دلوں پر جا چڑھے گی۔)
’’( ط ل ع ) طلع( ن ) الشمس طلوعا ومطلعا ‘‘کے معنی آفتاب طلوع ہونے کے ہیں ۔
’’(فء د ) الفواد‘‘کے معنی قلب یعنی دل کے ہیں مگر قلب کو فواد کہنا معنی تفود یعنی روشن ہونے کے لحاظ سے ہے، محاورہ ہے:
فادت اللحم( گوشت گو آگ پر بھون لینا)، لحم فئید
( آگ میں بھنا ہوا گوشت ) قرآن میں ہے :

ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى (النجم: 11)

(جو کچھ انھوں نے دیکھا ،ان کے دل نے اس کو جھوٹ نہ جانا ۔)
اصل الفاظ ہیں:

تـطَّلِــعُ عَلَي الْاَفْـئدَةِ

 تطلع ،اطلاع سے ہے، جس کے ایک معنی چڑھنے اور اوپر پہنچ جانے کے ہیں، اور دوسرے معنی باخبر ہونے اور اطلاع پانے کے۔ افئدۃ، فواد کی جمع ہے، جس کے معنی دل کے ہیں، لیکن یہ لفظ اس عضو کے لیے استعمال نہیں ہوتا جو سینے کے اندر دھڑکتا ہے، بلکہ اس مقام کے لیے استعمال ہوتا ہے جو انسان کے شعور و ادراک اور جذبات و خواہشات عقائد و افکار، نیتوں اور ارادوں کا مقام ہے۔ دلوں تک اس آگ کے پہنچنے کا ایک مطلب یہ ہے کہ یہ آگ اس جگہ تک پہنچے گی جو انسان کے برے خیالات، فاسد عقائد، ناپاک خواہشات و جذبات، خبیث نیتوں اور ارادوں کا مرکز ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی وہ آگ دنیا کی آگ کی طرح اندھی نہیں ہوگی کہ مستحق اور غیر مستحق سب کو جلا دے ،بلکہ وہ ایک ایک مجرم کے دل تک پہنچ کر اس کے جرم کی نوعیت معلوم کرے گی اور ہر ایک کو اس کے استحقاق کے مطابق عذاب دے گی۔

تفہیم القرآن

تطلع علی الافئدۃ یعنی جہنم کی یہ آگ دلوں تک پہنچ جائے گی، یوں تو ہر آگ کا یہ خاصہ ہے کہ جو بھی اس پر پڑے، اس کے سب ہی اجزاء کو جلا دیتی ہے، مگر دنیوی آگ جیتے جی دل تک نہیں پہنچتی ،بلکہ دل تک پہنچنے سے پہلے ہی انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے، بخلاف جہنم کی آگ کے کہ وہ جلاتی جلاتی دل تک پہنچ جائے گی، اس لیے کہ جہنم میں موت نہیں ہے ۔

اِنَّهَا عَلَیْهِمْ مُّؤْصَدَةٌۙ

یعنی جہنم میں مجرموں کو ڈال کر اوپر سے اس کو بند کردیا جائے گا۔ کوئی دروازہ تو درکنار کوئی جھری تک کھلی ہوئی نہ ہوگی۔
’’( و ص د ) الوصید‘‘ اصل میں اس احاطہ کو کہتے ہیں جو مویشی کے لیے پہاڑ میں بنالیا جائے اور آیت میں اس کے معنی غار کا صحن یا دروازے کی چوکھٹ کے ہیں ،اسی سے او صدقت الباب واصدتہ کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں میں نے در وازے کو بند کردیا، چنانچہ قرآن میں ہے:

 عَلَيْهِمْ نارٌ مُؤْصَدَة (البلد: 20)

(یہ لوگ آگ میں بند کردیےجائیں گے ۔)
ایک قرأت ’’مؤصد ۃ‘‘ ہمزہ کے ساتھ ہے اور آیت کے معنی ہیں: اس آگ کو ان پر بند کردیا جائے گا ۔
’’ الوصید ( ایضا ً)‘‘ پودا جس کی جڑیں زیادہ گہری نہ ہوں ۔

مفردات القرآن

مؤصدۃ جہنم کے دروازے اور راستے بند کر دیے جائیں گے، تاکہ کوئی باہر نہ نکل سکے اور انھیں لوہے کی میخوں کے ساتھ باندھ دیا جائے گا، جو لمبے لمبے ستونوں کی طرح ہوں گی، بعض کے نزدیک عمد سے مراد بیڑیاں یا طوق ہیں اور بعض کے نزدیک ستون ہیں، جن میں انھیںعذاب دیا جائے گا۔ (فتح القدیر)
یہ آگ ان پر اس طرح بھڑکے گی اور اوپر سے وہ ڈھانک بھی دی جائے گی کہ تپش کا کوئی حصہ ضائع نہ ہو ،بلکہ سب کا سب ان کے جلانے ہی میں صرف ہو۔’ ’اَوْ صَد الباب‘‘ کے معنی ہوں گے، دروازے کو بند کر دیا۔ یہ آگ بھی بھٹہ اور پزاوہ کی آگ کی طرح اوپر سے ڈھانک دی جائے گی،تاکہ وہ پوری قوت کے ساتھ اپنا عمل کرے۔

فِیْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَةٍ۠ ۧ

(اِس حالت میں کہ وہ) اُونچے اُونچے ستونوں میں (گھِرے ہوئے ہوں گے۔)
فِيْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَةٍ کے کئی معنی ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ جہنم کے دروازوں کو بند کر کے ان پر اونچے اونچے ستون گاڑ دیے جائیں گے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہ مجرم اونچے اونچے ستونوں سے بندھے ہوئے ہوں گے۔ تیسرا مطلب ابن عباس نے یہ بیان کیا ہے کہ اس آگ کے شعلے لمبے ستونوں کی شکل میں اٹھ رہے ہوں گے۔

مختلف تفاسیر

اس سورۃ کے مطالعے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انسان کو جس چیز نے سب سے زیادہ تباہ کیا ہے، وہ اس کی زبان کا بگاڑ اور اس کے اخلاق کی پستی ہے، اور جس چیز نے انسانیت کو نہ صرف خطرات کی نذر کیا ،بلکہ حیوانوں سے بھی نیچے گرایا، وہ اس کی مال و دولت سے حد سے بڑھی ہوئی محبت ہے،اور انسان عجیب واقع ہوا ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ نے اسے علم و دانش کا سرمایہ بخشا ہے اور اس کے دل کو عشق کے گداز سے معمور فرمایا ہے اور دوسری طرف اس کی پستی کا عالم یہ ہے کہ مال و دولت کی محبت کا اسیر ہو کر وہ انسانی اقدار تک کو بھول جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ دنیا میں رشتوں ناتوں کی شکست و ریخت، رحم و مروت کے جذبات کی تباہی، اخوت و محبت کا فقدان،اور آخرت میں وہ ہول ناک انجام ہے جس کا نقشہ اوپر کی آیات میں کھینچا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس تباہی سے محفوظ رکھے۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

Comments From Facebook

1 Comment

  1. shabeena ansari

    mashaallah bahut behtareen

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے