اگست ۲۰۲۴

گذشتہ ماہ ملکِ عزیز میں ہوئی شاہی اور اپنے طرز کی پہلی انوکھی شادی کافی سرخیوں میں رہی۔ ہندوستان اور دنیا کے اہم صنعت کاروں میں شمار ہونے والے مکیش امبانی کے فرزندِ عزیز اننت امبانی کی شادی کو میڈیا نے ایسے بتایا کہ ہر عام و خاص کے ’’چرچا کا وِشے‘‘یہی رہا۔ گذشتہ پانچ ماہ سے جاری اس شادی کو دنیا بھر کی ان شخصیات نے زینت بخشی جو اپنے اپنے شعبے میں ممتاز تسلیم کی جاتی ہیں۔ میڈیا نے ان تقاریب اور ان میں شرکت کرنے والی شخصیات کے لباس و طعام اور قیام و خرام کی تفصیلات جس انداز میں بتائیں اس سے اندازہ ہوگیا کہ میڈیا کا یہ طبقہ جزئیات کی پیش کش میں کس قدر مہارت رکھتا ہے۔ مگر بجا طور پر یہ سوال بھی پنپتا ہے کہ قومی و سماجی مسائل کی پیش کش میں ہمیں میڈیا کی طرف سے ’’صُمٌّ بُكْمٌ عُمْیٌ‘‘ کا نظارہ کیوں کر دیکھنے ملتا ہے؟ہندوستانی میڈیا کے چہرے پر یہ زناٹے دار طمانچہ راہل گاندھی سمیت دوسرے لیڈروں نے بھی مارا ہے۔
فراوانی دولت کی ایسی نمائش کہ دیگر ممالک سے آئے ہوئے مہمانان اپنی انگلیاں چبالیں۔ ایک اندازے کے مطابق امبانی خاندان کے اس شہزادے کی شادی پر تقریباً 5000 کروڑ روپے لٹائے گئے ہیں۔ اس رقم کو سن‌کر شاید ایک عام انسان کی قوت سماعت متاثر ہوسکتی ہے ،مگر امبانی خاندان کے لیے یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ اس شادی کے تعلق سے لیڈروں کی جانب سے داغا گیا ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ جس ملک میں عوامی مسائل دن بہ دن پیچیدہ صورت حال اختیار کررہے ہوں، نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ بے روزگاری کے سبب مایوسی اور نفسیاتی مسائل سے جوجھ رہا ہوں، جہاں دیہاتوں میں بنیادی ضرورتوں کے لیے غریب عوام کےبہتے آنسو بے بسی سے چیخ رہے ہوں، جہاں وسائل کی قلت کے سبب ترقی اپنا سا منہ لے کر رہ جائے، جہاں مہنگائی ساتویں آسمان کو چیر کر پار نکل  چکی ہو، جہاں غریب کی چیخیں اور سوالات بے معنی اور بے مول ہو جائیں، جہاں کسانوں کو دولت کی ہوس میں نچوڑ دیا جائے اور جہاں تعلیمی نظام زوال پذیری کا شکار ہو، وہاں دولت کی ایسی بھونڈی نمائش جاہل اور مفاد پرست ہونے کی صریح دلیل ہے۔ ایک طرف عالمی سطح پر ہمار امہان بھارت مہنگر انڈیکس میں مسلسل نیچے کی جانب دھنسا جا رہا ہے ، وہیں دوسری جانب ملک کے ایک دولت مند طبقے کی طرف سے صاحب دولت ہونے کا ایسااظہار انتہائی شرم ناک بات ہے۔

(1) گذشتہ ماہ ہوا اترپردیش کا ٹرین حادثہ بھی خاصا تشویش ناک ہے ،جہاں چندی گڑھ سے ڈبرو گڑھ جارہی ایکسپریس ایمرجنسی بریک لگانے کے سبب حادثے کا شکار ہوگئی۔ جس میں کم و بیش 20 سے زائد افراد زخمی ہوئے اور لگ بھگ 4 افراد لقمہ اجل ہوئے۔ حکومت کی جانب سے امداد کا بھی اعلان کردیا گیا ہے، مگر اس حادثے کے بعد حکومت کو کئی اہم سوالوں کا سامنا ہے۔ واضح رہے کہ سال 2023 ءمیں بھی کئی ٹرین حادثات ہوچکے ہیں، جن میں بالاسور ٹرین حادثہ سب سے خطرناک اور دل دہلا دینے والا تھا۔ اس حادثے میں کم و بیش 300 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یہاں اہم سوال یہ ہے کہ فقط امداد دے دینے سے حادثے کی تلافی ہوجاتی ہے؟ یہ کیسا انصاف ہے کہ جانی نقصان کی قیمت لگائی جائے اور چند لاکھ روپیوں میں حکومت پر اٹھ رہی انگلیاں موڑ دی جائیں؟
 (2) ریاست اتر پردیش میں اٹھایا گیا ایک اور مسئلہ توجہ طلب ہے۔ اتر پردیش میں دینی مدارس کے طلبہ کو جبرا اسکولوں میں منتقل کرنے کا فیصلہ واضح طور پر انسانی حقوق اور دستور ہند کے منافی ہے۔ شخصی آزادی کو بے جا تعصب کی زنجیر میں جکڑنے کی نفرت آمیز کوشش ہے۔ اس غیر اخلاقی عمل کے خلاف ملک عزیز میں کئی علماء نے آوازیں بلند کیں اور حکومت کو آئینہ دکھایا کہ جہاں پس ماندہ طبقات اور غریب علاقوں میں لوگ بنیادی ضرورتوں کے لیے ترس رہے ہیں، وہیں دینی مدارس میں ان طلبہ کو مفت کھانے اور رہنے کے ساتھ ساتھ معیاری تعلیم بھی میسر ہے۔ اور مدارس کے طلبہ میں سے ہی کئی نگینے ایسے نکلے ہیں جنھوں نے آزادی ہند کی جدوجہد میں اپنے آپ کو جھونک دیا تھا۔ لہذا حکومت کو کوئی اخلاقی و دستوری اختیار حاصل نہیں کہ وہ اس قسم کے بے تکے فیصلے سنائے۔

جولائی میں ایک صبر و استقامت کی تصویر بھی سامنے آئی جس نے دھندلائی آنکھوں کے ساتھ مسکرانے پر مجبور کردیا۔ عمر خالد، ایک جگمگاتا نام ،جس کو ہر ہوش مند اور باشعور انسان سلام پیش کرتا ہے۔ عمر خالد چار سال سے زائد عرصے سے سلاخوں کے پیچھے اس جرم کی پاداش میں زندگی کاٹ رہے ہیں جو ان پر آج تک ثابت نہیں ہوسکا۔ یہ اندھا قانون واقعی اس قدر اندھا ہے جو اس وطن عزیز کے لیے جان کی بازی لگانے کے لیے تیار عمر خالد، شرجیل امام، خالد سیفی جیسے ان گنت جیلوں میں بند اولو العزم افراد کو نہ پہچان سکا۔ مگر عمر نے اپنی اس مسکراہٹ سے ان تمام تعصب پرست لوگوں کو کرارا جواب دیا ہے جو نفرت کی دکان لگائے بیٹھے ہیں۔ حق و انصاف کی سپر اپنے سینے پر سجا کر سیاہ شرٹ میں بابا صاحب امبیڈکر کی تصویر کے ساتھ ایک جاندار مسکراہٹ سمیت یہ تصویر میڈیا نے کیمرے میں قید کی جو جواں عزائم کی بولتی تصویر ہے۔

(1) دنیا کے سپرپاور ملک یعنی امریکہ میں صدارتی انتخابات کے امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ پر ہوا قاتلانہ حملہ افسوس ناک ہے۔ اس حملے میں ٹرمپ بال بال بچ گئے، کیوں کہ گولی صرف ان کے کان‌کو چھو کر گزری۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ حملہ آور اسی پارٹی سے تعلق رکھتا تھا ،جس کی نمائندگی ڈونالڈ ٹرمپ کررہے ہیں۔ امریکہ جیسے ملک میں جس کا سیکیوریٹی نظام دنیا کے بہترین نظاموں میں سے ایک ہے،ایسے واقعے کا رونما ہونا حیرت انگیز ہے ۔ امریکی انٹیلیجنس نہ صرف یہ کہ اعلیٰ تربیت یافتہ ہوتی ہے، بلکہ جدید تر ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے خود کو منظم اور متحرک رکھتی ہے۔ ایسے میں جلسے کے دوران ہوئی یہ واردات کئی سوال کھڑے کرتی ہے ۔ مگر اس پورے واقعہ کا ایک عالمی پس منظر یہ بھی ہے کہ جہاں لگ بھگ 10 مہینے سے فلسطین میں ہورہی بم باری اور ظلم و تشدد پر صاحب اقتدار لوگوں نے اپنے لب سی لیے تھے، وہ ٹرمپ پر ہونے والے حملے پر چیخ اٹھے۔ کیا اس کا یہ معنی اخذ کیا جائے کہ عام عوام کی جان چاہے جس نہج پر ضائع ہو، فرق نہیں پڑتا مگر جہاں حکمرانوں پر حملہ ہو، کھلبلی سی مچ جاتی ہے۔
(2) گذشتہ ماہ سے جاری بنگلہ دیش میں ہورہا احتجاج اب سنگین صورت حال اختیار کرچکا ہے۔ واضح رہے کہ یہ احتجاج کوٹہ نظام کے خلاف ہورہا ہے۔ ان مظاہروں میں اب تک کل 500 کے قریب افراد زخمی ہوئے ہیں اور متعدد ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کے ذریعے امن قائم کرنے کی اپیل کے باوجود اور ہلاک ہونے والے مظاہرین کے ساتھ مکمل انصاف کرنے کے وعدے کے بعد بھی ملک میں جاری کوٹہ نظام کے خلاف احتجاج کررہے طلبہ نے اپنا احتجاج جاری رکھنے کا عزم کیا ہے۔حکومت نے تمام اسکول اور یونیورسٹی کو غیر معینہ مدت تک بند رکھنے کا حکم دیا ہے۔ یہ نہایت ہی تشویش ناک صورت حال ہے، جس سے پورے ملک میں ایک خوف ناک فضا پھیلی ہوئی ہے۔

فلسطین میں جاری جنگ کو 9 ماہ سے زائد ہوچکے ہیں، جو اپنے آپ میں ایک غیر معمولی عرصہ ہے۔ اتنی لمبی مدت گزر جانے کے بعد بھی غاصب یہودیوں کی سفاکیت ٹس سے مس نہ ہوئی۔ اسرائیل کے ذریعے سرحدوں کو بند کرنے کی وجہ سے فلسطینی بڑے پیمانے پر غذا اور بنیادی اشیاء کی قلت کا سامنا کررہے ہیں۔ عالمی عدالت نے اسرائیل کو غزہ اور رفح میں اپنے فوجی آپریشن روکنے کا حکم جاری کیا تھا، جسے اسرائیل نے ٹھکرایا تھا، یہ اسرائیل کو انسانیت سے خارج کردینے کے لیے کافی ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی مسلسل خطرناک ٹارچر اورعصمت دری کا سامنا کر رہے ہیں، مگر اس صورت حال میں بھی ہمارے وہ مظلوم مجاہد علم حق تھامے ہوئے ہیں اور کسی صورت پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے