سوال:
میری شادی کو بیس (20) برس ہو چکے ہیں۔ کوئی اولاد نہیں ہے۔ بہت ڈپریشن میں رہنے لگی ہوں۔ سب لوگ طنز کرتے ہیں۔ میری بہن چپکے سے اپنی بیٹی مجھے دینے پر تیار ہے۔ میرے شوہر بھی اس کے لیے راضی ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ بیٹی کو اپنا بچہ سمجھ کر پالوں اور بچی کو پتہ بھی نہ چلے۔ کیا شریعت مجھے اس بات کی اجازت دیتی ہے؟ لڑکی کے والدین راضی ہیں اور ہم دونوں میاں بیوی بھی ۔چار کے علاوہ دوسروں کو خبر نہیں کریں گے، تاکہ بچی کو نفسیاتی مسئلہ نہ ہو۔ کیا شریعت کی روشنی میں اس کی گنجائش نکلتی ہے؟
جواب:
اولاد اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ ان سے دنیوی زندگی کی رونق قائم رہتی ہے۔(سورۃ الکہف: 46)
ہر انسان کی فطری خواہش ہوتی ہے کہ اس کے بچے ہوں، جن کی کلکاریاں گھر میں گونجیں، پھر ان کی اولادیں :پوتے، پوتیاں، نواسے، نواسیاں ہوں، تاکہ ایک بھَرا پُرا خاندان وجود میں آئے۔ اس دنیا میں ہر شخص آزمائش کی حالت میں ہے۔ جو صاحبِ اولاد ہے وہ بھی اور جو اولاد سے محروم ہے وہ بھی۔ کسی کو اولاد سے نواز کر اللہ تعالیٰ آزماتا ہے کہ وہ اس پر شکر ادا کرتا ہے یا نہیں اور اس کی صحیح تربیت کرتا ہے یا نہیں اور اولاد سے محروم شخص کی آزمائش اس میں ہوتی ہے کہ وہ صبر کرتا ہے یا نہیں اور تقدیر الٰہی پر راضی رہتا ہے یا نہیں۔ اس قانونِ الٰہی کا ذکر قرآن مجید میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے:
لِلّٰـهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ ۚ يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ اِنَاثًا وَّيَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ الـذُّكُـوْرَ اَوْ يُزَوِّجُهُـمْ ذُكْـرَانًا وَّاِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَّشَآءُ عَقِيْمًا ۚ اِنَّه عَلِيْـمٌ قَدِيْر(سورۃالشوری: 49,50)
(اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا مالک ہے۔ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملا جلا کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے۔ وہ سب کچھ جانتا اور ہر چیز پر قادر ہے۔)
اس لیے اگر شادی کے کئی سال بعد تک اولاد نہ ہو تو شوہر اور بیوی دونوں کو ضروری ٹیسٹ کروا لینے چاہئیں۔ کبھی استقرارِ حمل میں بہت معمولی رکاوٹیں ہوتی ہیں، جو مختصر علاج سے دوٗر ہو جاتی ہیں۔ اگر تمام تر علاجی تدابیر اختیار کر لینے کے باوجود اولاد نہ ہو تو مایوسی اور بے صبری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔
اگر کوئی عورت اولاد سے محروم ہو تو وہ کسی دوسرے کے بچے یا بچی کو لے کر پال سکتی ہے،لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کی ولدیت تبدیل نہ کی جائے اور نہ اسے چھپایا جائے۔ اس کے کاغذات اور اسکول کی دستاویزات میں اس کے حقیقی ماں باپ کا نام ہی لکھوایا جائے اور پالنے والے اپنا نام سرپرست (Gaurdian) کی حیثیت سے لکھوائیں۔ قرآن مجید میں صراحت سے یہ حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَا جَعَلَ اَدْعِيَآءَكُمْ اَبْنَآءَكُمْ ۚ ذٰلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِاَفْوَاهِكُمْ ۖ وَاللٰهُ يَقُوْلُ الْحَقَّ وَهُوَ يَـهْدِى السَّبِيْلَ اُدْعُوْهُـمْ لِآ بَآئِهِـمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللٰهِ(سورۃالاحزاب : 4,5)
(اور نہ اس نے تمھارے منھ بولے بیٹوں کو تمھارا حقیقی بیٹا بنایا ہے۔ یہ تو وہ باتیں ہیں جو تم لوگ اپنے منھ سے نکال دیتے ہو۔ مگر اللہ وہ بات کہتا ہے جو مبنی بر حقیقت ہے اور وہی صحیح طریقے کی طرف رہ نمائی کرتا ہے۔ منھ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو۔ یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے۔)
حضرت زیدؓ کو اللہ کے رسول ﷺ نے بچپن میں پالا تھا، اس لیے وہ’ ’زید بن محمد‘‘ کہلانے لگے تھے،لیکن بعد میں اس کی ممانعت کا حکم آیا تو انھیں ان کے باپ کی طرف نسبت دے کر’’زید بن حارثہؓ‘‘ کہا جانے لگا۔
اسلامی شریعت کا یہ حکم بہت حکمت پر مبنی ہے۔ اس کا اثر دوسرے احکام، مثلاً نکاح اور وراثت پر پڑتا ہے، اس لیے اس پر شرحِ صدر اور صدقِ دل کے ساتھ عمل کرنا چاہیے۔
نفسیاتی مسئلے کا اندیشہ بہ ہر صورت باقی رہے گا۔ بچی کس کی ہے؟ اور اسے کس نے گود لیا ہے؟ یہ باتیں خاندان اور سماج میں دوسرے لوگوں کو معلوم رہتی ہیں۔ اس معاملے میں رازداری آخر تک باقی رہے، یہ ضروری نہیں۔ اس کا اندیشہ ہر وقت رہے گا کہ بعد میں کبھی لڑکی کو حقیقت کا پتہ چل جائے تو وہ اپنے حقیقی ماں باپ اور اپنے سرپرستوں دونوں سے بہت زیادہ بدظن ہو جائے گی۔
اس لیے دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ گود لینے کے معاملے میں شریعت کے احکام کی پابندی کی جائے۔ کسی کو اولاد نہ ہو تو اسے اجازت ہے کہ کسی دوسرے کے بچے یا بچی کو لے کر اس کی پرورش کرے، لیکن اسے اس کے حقیقی والدین کی طرف منسوب کرے اور خود کو سرپرست ظاہر کرے۔
٭ ٭ ٭
0 Comments