اگست ۲۰۲۴

میری خاطر جو جلتا رہا دھوپ میں
اپنی خواہش کچلتا رہا دھوپ میں
ضوفشاں بن کے جس نے بکھیری کرن
جس نے کانٹوں کو بھی کردیا گلبدن
ہاں یہی میرے بابا کی پہچان ہے
اس کے بن زندگی کتنی ویران ہے

عمر بھر طعن و تشنیع سہتا رہا
اپنی خوشیوں کو قربان کرتا رہا
بن کے برسا چمن میں وہ ابر کرم
جس کے ہوتے ہوئے مٹ گئے سارے غم
ہاں یہی میرے بابا کی پہچان ہے
اس کے بن زندگی کتنی ویران ہے

بوجھ ڈھوتا رہا دکھ وہ سہتا رہا
اپنے بچوں پہ خوشیاں لٹاتا رہا
فرض اپنے نبھائے بحکم خدا
کردیا اس چمن کو بہار آشنا
ہاں یہی میرے بابا کی پہچان ہے
اس کے بن زندگی کتنی ویران ہے

آرزو اس کی تھی کہکشاں ہم بنیں
علم کے نور سے دہر روشن کریں
دل میں امیدیں لے کر جہاں سے چلا
گنگناتا ہوا مژدۂ جاں فزا
ہاں یہی میرے بابا کی پہچان ہے
اس کے بن زندگی کتنی ویران ہے

اس کی جود و سخا ہے سبھی پر عیاں
اہل خانہ ہوں یا محفل دوستاں
لب پہ عنبر ؔکے ہے مالک دو جہاں
کردے گل زار جنت میں اس کا مکاں
ہاں یہی میرے بابا کی پہچان ہے
اس کے بن زندگی کتنی ویران ہے

Comments From Facebook

1 Comment

  1. malik akbar

    bahot umda takhleeq hai
    Allah kare zor e qalam aur zyada
    jinke walidain hayat hai Allah unko sehat o aafiyat se rakhe neez jinke waladain ya dono m se koi ek iss duniya se rukhsat hogaye Allah unko Jannatul Firdaus m aala maqam ata kare aamin

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے