کفر کی منزلیں طے کرنا بہت آسان ہے۔ یہ پہلے دل میں خلش سے شروع ہوتی ہے۔ آدمی اپنے آس پاس موجودشخص کو جانچتا ہے،اور وہ جس جذبے کا مظاہرہ کریں اسےہی سچ مان لیتا ہے کہ فلاں شخص بہت ہنستا ہے، یعنی اسے
کوئی غم نہیں۔ فلاں بڑا خوش لباس ہے یعنی اسے کوئی تنگی نہیں ،لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ اس کا باطن کیسا ہے؟ جب وہ خوش اخلاق و لباس شخص اکیلا ہوتا ہے،تو کیا محسوسکرتا ہےیا اس تک کتنی کثرت سے تنگیاں اور پریشانیاں پہنچ رہی ہے۔ یہ خلش کانٹا بن کر دل میں چبھتی ہےاور دھیرے دھیرے اس کا زہر زبان تک پہنچ جاتا ہے۔’’الانسان باللسان.‘‘ زہر دانتوں میں اترتا ہے،یہ زبان و دندان اور گلے سے آنے والی آواز کو بدل دیتا ہے۔ الفاظ کو زہر آلود کر دیتا ہے۔ شکر کے کلمہ کو کفر میں بدل دیتاہے، بھلا کیسے ؟ شکایت سے ۔
آدمی اس شکایت کو وقتاً فوقتاً زبان پر لاتا ہے اور یہ اس کا معمول بن جاتا ہے،شکایت در شکایت۔کم سے ذرا زیادہ ملے تو بہت زیادہ نہ ملنے کی شکایت،بہتر ملے تو اس سےبہترین نہ ملنے کی شکایت، پہلے اپنے نفس سے
شکایت پھر رب سے شکایت ۔ یہ شکایت اس کا معمول بن کر ذہن کو گرد آلود کر دیتی ہے۔ آدمی اپنے اس پاس موجود لوگوں سے شکایت کرنے لگتا ہے ۔ پہلے تو دھیرے دھیرے ، ٹھہر ٹھر کر اور پھر کثرت سے بار بار، اس کی شکایت کا پٹارا ختم ہی نہیں ہوتا ،پھیلتاہے اور پھیلتےپھیلتے سمندرکی شکل اختیار کر لیتا ہے، اور آدمی جہنم کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے۔محض ایک شکر کا کلمہ کتنی بڑی نعمت ہے۔ احساس شکراوراحسان شناسی رب کی ذات سے واقفیت پیدا کرتی ہے۔
رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ ﴿النمل:19﴾
٭ ٭ ٭
بیشک،جب انسان کے اندر ناشکری کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے تو وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں پرشکایتیں کرنے لگتا _
شکرگزار ہمیشہ روشن ضمیر اور روشن دماغ ہوتا ہے ناشکری گزار بےضمیر اور بد دماغ ہو جاتا ہے ۔
مختار مسعود
آواز دوست
شکر ایک نعمت ہے جو اس کو اپنی زندگی میں شامل کر لے تو زندگی پر سکون ہو جائے
Masha Allah