’’امی! میں آپ سے کہہ رہی ہوں مجھے وجیہہ آنٹی سے ملنے نہیں جانا، آج میری اپنے دوستوں کے ساتھ آن لائن کمٹمنٹ ہے، میرا ان سے ملنےاور گوسپ کا وقت ہے، میں اس کو اس طرح کسی کے لیے بھی برباد نہیں کرسکتی۔‘‘سمیرا کے الفاظ اس کی ترجیحات کے ساتھ ساتھ اس کے جذبات کی جس طرح ترجمانی کر رہے تھے، وہ اس کی والدہ کو اپنی جگہ سن کر گئے تھے۔ یہی سمیرا، جو دو سال پہلے تک ضد کرکے آنٹی وجیہہ کے گھر جایا کرتی تھی ۔ان کے گھر جا کر بقول اس کے اسے دلی سکون ملتا تھا ،مگرآج آنٹی کی امی کے انتقال کی خبر بھی اس پر کوئی اثر نہیں ڈال رہی تھی۔ ان کی بیٹی اتنی بے حس کیسے ہو سکتی ہے؟ یہ سوچ ان کو اندر سے بے چین کر رہی تھی،۔انھیں سمیرا سے یہ بالکل بھی امید نہیں تھی کہ وہ اپنے سب سے قریبی پڑوسیوں کے ساتھ اس طرح لا تعلقی کا مظاہرہ کرے گی۔ بیٹی کے بدلتے مزاج کو وہ خود کافی عرصے سے دیکھ رہی تھیں، لیکن اس کو اس کی تعلیم کے دباؤ اورنوجوانی کی عمر کے کھاتے میں ڈالتی آرہی تھیں۔
یہ صرف ایک سمیرا کی نہیں، بلکہ آج کے سماج کی ایک ایسی تصویر ہے جو ہمیں ہر جگہ دکھائی دے رہی ہے۔ بڑھتی ہوئی بے حسی، مٹتی ہوئی انسانی قدریں اور سوشل میڈیا کا غیر ضروری استعمال؛آج کی ہماری نوجوان نسل صرف ان ہی رجحانات سے متاثر نہیں ہے، بلکہ تنہائی، مایوسی اور دباؤ کے ساتھ ساتھ منشیات کے خطروں سے بھی جوجھ رہی ہے۔
جنریشن گیپ کی باتیں اب پرانی ہو چکی ہیں ۔ہماری وہ نوجوان نسل جس کو جنریشن زی کانام دیا گیا ہے، جس میں 2014-1999 تک پیدا ہونے والے شامل ہیں۔ 2030-2014 والی جنریشن الفا کہلاتی ہے۔
اس نسل نے جس دور میں آنکھیں کھولی ہیں،اس میں انٹرنیٹ کی بدو لت سماجی رابطوں کے ذرائع کی بھرمار ہے، سوشل میڈیا کا استعمال جس تیزی سے نوجوانوں میں بڑھا ہے اور صرف ایک کلک پر ہر ضروری اور غیر ضروری معلومات ان کو حاصل ہیں ،اس سے پہلے انسانی نسل اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی۔ اس بے لگام آزادی اور مقصد یت سے دور نظریۂ زندگی نے ہماری نو جوان نسل کو جن خطروں سے دوچار کر دیا ہے، اس کو اب مختلف اسٹڈیز او رریسرچز واضح انداز میں بیان کر رہی ہیں۔
ICICI Lombard کی ایک ریسرچ کے مطابق اس وقت ہر تین میں سے ایک نوجوان ذہنی تناؤ Stress and Anxiety سے جوجھ رہا ہے
اور اس بڑھتے ہوئے ذہنی تناؤ کی سب سے اہم وجہ بڑھتا ہوا سوشل میڈیا کا بے مقصد استعمال ہے ۔ہمارے ملک میں اس وقت جنریشن زی تقریباً تین گھنٹے سوشل میڈیا کا استعمال کر رہی ہے،اور اس وقت حالات یہ ہیں کہ بہت سے سماجی رابطوں کے آن لائن پلیٹ فارم پر موجود ہوتے ہوئے بھی انسان سب سے کم سماجی تعلقات نبھا پا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ گلوبل پبلک ہیلتھ کے سروے بتا رہے ہیں کہ %43شہر میں رہنے والے ہندوستانی زیادہ تر خود کو تنہا اور اکیلا محسوس کرتے ہیں۔
اس وقت ہمارے نوجوان بےروزگاری، ہائپر رئیلٹی، پورن کے ساتھ ساتھ منشیات کے چنگل میں جس طرح پھنس رہے ہیں ،وہ ہمیں شاعر مشرق علامہ اقبال کے الفاظ یاد دلا رہے ہیں:
حیاء نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے جوانی رہے تری بے داغ
یہ ہمارے دور کی ایک تصویر ہے اور ہمیں اس وقت اپنی انسانی نسل کو اگر بچانا ہے تو اسی طرح کمربستہ ہونا ہوگا جس طرح بھیڑوں کے کسی ریوڑ میں بھیڑے کے گھس آنے پر ان کے مالک کی حالت ہوتی ہے ۔اپنی پوری توانائی کے ساتھ، اللہ رب العزت سے دعاؤں کے ساتھ جڑ کر اپنے بچوں کی تربیت کی کوشش کرنی ہے،کیوں کہ یہ نوجوان نسل ہمارے ملک اور ملت کا بیش قیمت سرمایہ ہیں، یہی مستقبل کے معمار اور رہ نما ہیں،ان کی امید یں ، ان کے مقاصد اور ان کی کوششیں ملک و قوم کی ترقی اور عروج سے براہ راست وابستہ ہیں۔
اسی لیے جبDeroid Indiaکی رپورٹ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اس وقت کی 42%نوجوان نسل مایوسی کی شکار ہے53% اینگزائٹی ڈس آرڈراور57% اسٹریس اور تناؤ جھیل رہی ہے، تو ہمیں اپنے نوجوانوں کی زیادہ فکر کرنی چاہیے،کیوں کہ یہ ان کی
عمر کا وہ سنہرا دور ہے، جس میں صلاحیتیں اپنے عروج پر ہوتی ہیں، جسمانی طاقت اور توانائی بھی انسان کو میسر ہوتی ہے اور ان سب کے ساتھ اس کے جذبات بھی اس کو کچھ بڑا اور اہم کر گزرنے پر ابھارتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت کے نوجوانوں کے سامنے شیطان نے اپنے کارندوں کے ساتھ مل کر جو جال بچھائے ہیں وہ بظاہر بہت خوش نما ، مضبوط اور دل کش ہیں، مگر حق کی صداقت کے سامنے ان کی حیثیت خس و خاشاک سے زیادہ نہیں ہے، اس صداقت کو جب ہم اپنے نوجوانوں کے سینے میں اتارنے کی شعوری کوشش کریں گے، ان میں اللہ تعالیٰ خود وہ عقابی روح بیدار کر دے گا، جو اپنے راستے میں آنے والے تمام شیطانی منصوبوں اور چالوں کو مومنانہ بصیرت اور عزم و حوصلےکے ساتھ دور کر دیتی ہے اور جس کا مقصد زندگی اس کو اصحاب کہف کی طرح عزیز اور محبوب ہوجاتا ہے،اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں جن کے متعلق فرماتا ہے:
’’چند نوجوان تھے ،جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے، اور ہم نے ان کو ہدایت میں ترقی بخشی۔‘‘
اس کے بعد اللہ تعالیٰ مزید فرماتا ہے:
’’یہ وہ نوجوان تھے جنھوں نے وقت کے ظالم حکمراں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر رب العالمین پر ایمان لا کر حق پرستی کا اعلان کیا۔‘‘ (سورۃ الکہف: 13 )
اللہ تعالیٰ نے ان کےایمان و یقین اور عزم و حوصلےکو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’ہم نے ان کے دل اس وقت مضبوط کر دیے جب وہ اٹھے اور انھوں نے یہ اعلان کر دیا کہ ہمارا رب بس وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے، ہم اسے چھوڑ کر کسی دوسرے معبود کو نہ پکاریںگے ،اگر ہم ایسا کریں تو بالکل بے جا بات کریں گے۔‘‘ (سورۃ الکہف : 14)
ان چند نوجوانوں نے اپنے زمانے میں جو کردارادا کیا اور جس عزیمت کا ثبوت دیا وہ ہم سب کے لیے اور بالخصوص ہمارے نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔
احادیث رسول میں بھی نوجوانی کے دور کی اہمیت اوراس دور کی صحیح تربیت کے لیے بہت سے رہ نما اصول ملتے ہیں۔ہمیں ان تمام اصولوں اور تدابیر کو اپنانے کی کوشش کرنی چاہیے اور اپنے نوجوانوں کو اسوۂ رسولﷺ کے ساتھ نوجوان صحابہؓ سے بھی واقف کروانا چاہیے، کیوں کہ
عمر کے اسی مرحلے میں نوجوان صحابہؓ نے بڑے بڑے کارنامے انجام دیے۔ حضرت مصعب بن عمیرؓنے مدینہ میں اسلام کی تبلیغ کی ذمہ داری سنبھالی توحضرت اسامہ بن زیدؓ نے اسلامی لشکر کی قیادت کی ۔ یہی عمر کا وہ دورہے جس میں حضرت خالد بن ولیدؓ دربار رسالت سے سیف اللہ کا لقب حاصل کرتے ہیں اور اسی دور شباب میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ فاتح خیبر اور باب العلم بن کر ابھرتے ہیں، اسی مرحلے میں حضرت عمار بن یاسرؓ ،حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ ، حضرت عبداللہ ابن زبیرؓ اور حضرت عبداللہ ابن عمرو بن العاصؓ نےاسلامی تاریخ کو اپنے کارہائے نمایاں سے روشن اور درخشاں بنایا ۔
درحقیقت جوانی کی عمر اللہ تعالیٰ کی طر ف سے ہر انسان کے لیے ایک بڑی نعمت ہے۔ اسی لیے اس کے بارے میں قیامت کے دن خصوصی طور سے پوچھا جائے گا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا:
’’قیامت کے دن انسان کے قدم اپنی جگہ سے ہٹ نہیں سکیں گے، یہاں تک کہ اس سے پا نچ باتوں کے بارے میں سوال نہ کرلیا جائے۔
-1اپنی عمر کن کاموں میں گزاری؟
-2جوانی کی طاقت و توانائی کہاں صرف کی؟
-3مال کہاں سے کمایا؟
-4اوراس مال کو کہاں خرچ کیا؟
-5جو علم حاصل کیا اس پر کہاں تک عمل کیا؟ (ترمذی)
حضرت عمر بن میمونؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ اللہ کے رسول ﷺ ن ے ایک شخص کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو۔ جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، صحت کو بیماری سے پہلے، خوش حالی کو ناداری سے پہلے ،فراغت کو مشغولیت سے پہلے ، زندگی کو موت سے پہلے۔‘‘ (ترمذی )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوانی کے دور کی عبادت اور ریاضت کو بھی خصوصی اہمیت دی ہے۔ عرش الٰہی کے سائے میں آنے والے سات خوش نصیب طبقات میں سے ایک وہ نوجوان بھی ہوگا، جس نے اپنی جوانی کو اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت میں لگا دیا ہوگا۔
اس لیے اپنے نوجوانوں کی صحیح تعلیم و تربیت اور ان کی اسلامی خطوط پر شخصیت سازی ہم سب کی ذمہ داری ہے، جس کو انجام دینے کے لیے نہ تو کسی سے مدد لینےمیں شرمانا چاہیے اور نہ ہی کسی کی مدد کرنے سے پیچھے ہٹنا چاہیے ،کیوں کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے نوجوان ہمارا ملی سرمایہ ہیں اور ان کی شخصیت سازی اس وقت نہ صرف ہماری ،بلکہ پوری انسانیت کی بقا ءاور ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ اگر ہمیں اپنے نو جوانوں کو ستاروں پر کمند یں ڈالنے والا بنانا ہے تو اس کے لیے ان کو مقصد زندگی اور زندگی عطاء کرنے والے خالق حقیقی سے جوڑنا ہوگا، اپنے سرمائے کے ساتھ اپنے وقت کو بھی ان پر لگانا ہوگا، پوری ہم دردی اور دل سوزی کے ساتھ ان کے مسائل کو سننا اور پھر ان کی رہ نمائی کرنا ہمارا کام ہے،تبھی عمر عزیز کے اس سنہرے دور میں عزم و حوصلے کے ساتھ وہ اپنے مستقبل کو روشن اور درخشاں بنانے کی سمت گامزن ہو سکیں گے۔
حضرت عمر بن میمون سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ اللہ کے رسولﷺ سے ایک شخص کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو۔ جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، صحت کو بیماری سے پہلے، خوش حالی کو ناداری سے پہلے ، فراغت کو مشغولیت سے پہلے ، زندگی کو موت سے پہلے۔“ (ترمذی)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوانی کے دور کی عبادت اور ریاضت کو بھی خصوصی اہمیت دی ہے۔ عرش الہی کے سائے میں آنے والے سات خوش نصیب طبقات میں سے ایک وہ نوجوان بھی ہوگا، جس نے اپنی جوانی کو اللہ
تعالیٰ کی عبادت و اطاعت میں لگا دیا ہو گا۔
اس لیے اپنے نوجوانوں کی صحیح تعلیم و تربیت اور ان کی اسلامی خطوط پر شخصیت سازی ہم سب کی ذمہ داری ہے، جس کو انجام دینے کے لیے نہ تو کسی سے مدد لینے میں شرمانا چاہیے اور نہ ہی کسی کی مدد کرنے سے پیچھے ہٹناچاہیے ، کیوں کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے نوجوان ہمارا ملی سرمایہ ہیں اور ان کی شخصیت سازی اس وقت نہ صرف ہماری، بلکہ پوری انسانیت کی بقا ء اور ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ اگر ہمیں اپنے نوجوانوں کو ستاروں پر کمندیں ڈالنے والا بنانا ہے تو اس کے لیے ان کو مقصد زندگی اور زندگی عطاء کرنے والے خالق حقیقی سے جوڑنا ہو گا، اپنے سرمائے کے ساتھ اپنے وقت کو بھی ان پر لگانا ہو گا، پوری ہم دردی اور دل سوزی کے ساتھ ان کے مسائل کو سننا اور پھر ان کی رہ نمائی کرنا ہمارا کام ہے، تبھی عمر عزیز کے اس سنہرے دور میں عزم و حوصلے کے ساتھ وہ اپنے مستقبل کو روشن اور درخشاں بنانےکی سمت گامزن ہو سکیں گے۔
٭ ٭ ٭
ICICI Lombard کی ایک ریسرچ کے مطابق اس وقت ہر تین میں سے ایک نوجوان ذہنی تناؤ Stress and Anxiety سے جوجھ رہا ہے
اور اس بڑھتے ہوئے ذہنی تناؤ کی سب سے اہم وجہ بڑھتا ہوا سوشل میڈیا کا بے مقصد استعمال ہے ۔ہمارے ملک میں اس وقت جنریشن زی تقریباً تین گھنٹے سوشل میڈیا کا استعمال کر رہی ہے،اور اس وقت حالات یہ ہیں کہ بہت سے سماجی رابطوں کے آن لائن پلیٹ فارم پر موجود ہوتے ہوئے بھی انسان سب سے کم سماجی تعلقات نبھا پا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ گلوبل پبلک ہیلتھ کے سروے بتا رہے ہیں کہ 43%شہر میں رہنے والے ہندوستانی زیادہ تر خود کو تنہا اور اکیلا محسوس کرتے ہیں۔
0 Comments