اگست ۲۰۲۴
زمرہ : ادراك

’’جب بھی NEET کا رزلٹ آتا ہے، میرا دل کٹے پرندے کی طرح پھڑپھڑاتا ہے، میں نڈھال ہوجاتی ہوں، اس کرب ناک شام کا منظر نہیں بھول پاتی ،جب میں نےاسی رزلٹ کی شام اپنے جگر کا ٹکڑا کھودیا تھا۔‘‘ وہ یہ کہتے ہوئے زارو قطار رونے لگی، کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ اتنی دور سے فون پر کیسے تسلی دی جاسکتی ہے ؟
ہم نے کہا:’’ آپ رو لیں، تاکہ دل ہلکا ہوجائے ۔‘‘پھر پوچھاکہ کتنا عرصہ ہوا بیٹا کھوئے ہوئے ؟
’’آٹھ سال۔‘‘ سسکیوں کے درمیان بتایاگیا ۔
’’آپ آٹھ نوسال سے اسی طرح ہیں؟‘‘
کہنے لگی:’’ ایک رات نہیں گزری جب اسے یاد نہ کیا ہو، میرا دل جانتا ہے کیسے جگر جلتا ہے؟ ہم دونوں میاں بیوی ایک لاش کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔‘‘
ہم نے کہا:’’ کاش یہ بات آپ کا بیٹا جانتا کہ آپ لوگ اس سے کتنی محبت کرتے ہیں! لیکن وہ تو یہ سمجھا کہ تین مرتبہ رپیٹ کرنے کے بعد بھی آپ کو حقیقی خوشی نہ دے سکا اور معصوم نے انتہائی قدم اٹھالیا ۔‘‘
ہوتا یہی ہے، والدین بچوں کے نتائج کو ایسا انا کا مسئلہ بنالیتے ہیں کہ بچے Unconditional love (غیر مشروط محبت)کا تصور بھول جاتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ نیٹ رزلٹ ان کی اپنی خوشی سے زیادہ ان کے والدین کی خوشی بن چکا ہے ۔بچے بہت معصوم ہوتے ہیں، انھیں خواب دکھا دکھا کر منزل پر پہنچانے کی کوشش ان سے تمام خوشیاں چھین لیتی ہے ۔
ہوتا کیا ہے؟ بچہ جب اسکول میں نمایاں کامیابی حاصل کرتا ہے، چاہے لڑکا ہو یا لڑکی ،سارا سماج مل کر دسویں جماعت کے رزلٹ کی نمایاں کامیابی دیکھ کر ایک ہی مشورہ دیتاہے:’’ بچے کو ڈاکٹر بنائیے!‘‘
سماج میں ڈاکٹر بننے کی خواہش بھی اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب خطیر رقم خرچ کرکے علاج کروایا جاتا ہے تو سوچ بننے لگتی ہے کہ کاش اسی طرح لوگوں کی جیب سے پیسے نکلوانے والا کوئی ہمارا اپنا ہی کیوں نہ ہو ؟ یا یہ خیال کہ ڈاکٹر جیسا پیشہ بچوں کو معاشی مسائل سے بے نیاز کردے گا ،مستقبل سنور جائے گا؛ یہی خیال ہر فرد کو مجبور کرتا ہے کہ وہ بس اسی کے پیچھے بھاگے ۔والدین یہ نہیں جانتے کہ اس معصوم ذہن پر کتنا بوجھ بن رہا ہے؟
دسویں جماعت کے نتیجے اور میڈیکل کی تیاری میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہوسکتا ہے بچہ آرٹس میں اچھا ہو ، ہوسکتا ہے کہ خالص فزکس یا میتھ میں اس کی دل چسپی ہو ،یہ بھی ممکن ہے کہ سارے سبجیکٹس میں ایوریج ہو اور لکھنے کا طریقہ اتنا خوب صورت ہوکہ مارکس زیادہ حاصل کرلیا ہو ،یہ بھی ممکن ہے کہ اس بچے کی رائٹنگ کی وجہ سے اسے اچھے نمبرات ملے ہوں ۔بہرکیف، اچھے نتائج کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ بچہ میڈیکل میں جاسکتا ہے ۔
والدین کو چاہیے کہ اپنے بچے کے مستقبل سے زیادہ بچے کے حال پر نظر رکھیں، وہ کھیلنا چاہتا ہے، وہ بغیر دباؤ کے جینا چاہتا ہے، وہ ہلکا پھلکا رہنا چاہتا ہے، لیکن اس معصوم پر 14 سال کی عمر میں بچپن چھین کر مستقبل کا بوجھ لاد دینا انصاف نہیں ہے ۔
والدین کی توقعات بھی یقیناً اپنے بچے کے حق میں بہتر سوچ کی وجہ سے ہی ہوں گی، لیکن میڈیکل اور انجینیئرنگ کو ہی آخری منزل سمجھنا اور ساری عمر ایک گلٹ محسوس کروانا کہ ہم بھی میڈیکل کرسکتے تھے، اس احساس جرم کے سائے میں جینا بھی اپنے اوپرزیادتی ہے۔
بچے بڑی تعداد میں میڈیکل اور نیٹ کی کوچنگ کے لیے دوسرے شہروں کا سفر کرتے ہیں،وہاں میس کاکھانے کھاتے ہیں، تکالیف اٹھاتے ہیں،ٹیسٹ سیریز میں حاصل شدہ نمبرات لاکھ کوشش کے باوجودبڑھ نہیں پاتے ہیں، وہ اندر ہی اندر اس ناکامی پر گھلتے رہتے ہیں،ناقابل بیان درد ہشاش بچوں کے چہروں کو جکڑ لیتا ہے، بچے اپنے اوپرہنسنا بولنا بھی حرام کرلیتے ہیں ۔
کسی بھی مسابقے میں بچوں کو جھونکنے سے پہلے والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں میں بچپن سے کچھ عادتیں ڈالیں،جو ان ہی کے لیے تنہائی میں سہارا بنیں ۔جب بچہ ان سب کا عادی ہوتو اسے مسابقت میں ڈالیے،عادی نہ ہوتو اس کوکسی صورت نہ اس الجھن میں ڈالیے، نہ ہی ان کے ٹیوشن پر خطیر رقم خرچ کیجیے ۔
بچے مسابقتی امتحان      میں اچھی پوزیشن لے سکتے ہیں، بچے پر بوجھ ڈالنے کے بجائے خودآپ کو کچھ کرنا ہوگا، آپ جب نہیں کرسکتے تو بچہ کچھ نہیں کرپائے گا ۔
پہلی بات یہ کہ آپ کی معاشی حالت اچھی نہ ہوتو قرض لے کر بچے کی تعلیم پر خرچ نہ کیجیے، اور بچے کے معصوم ذہن پرگھر کی معاشی حالت کا بوجھ نہ ڈالیے، انتہائی قدم اٹھانے والے بچے وہی ہوتے ہیں ،جو بہت کم عمری میں گھر کے حالات کا درد لگالیتے ہیں، اور گھر کے حالات بدلنے کے تانے بانے بننے لگتے ہیں ۔
کوٹہ( راجستھان) کے کئی ایک واقعات میں طالب علم کے حتمی قدم اٹھانے کے واقعات میں والدین نے ایجوکیشنل لون یا گھر یا کھیت رہن پر رکھ کر بچوں کو تعلیم کے لیے بھیجا تھا ،بچوں کو محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے نتائج کی کمی ہماری پوری فیملی کو تباہ حال کردے گی ۔
بچے کو پانچویں جماعت ہی سے فجر میں اٹھنے کی عادت ہونی چاہیے، اور نماز کے بعد والد کے ساتھ واک کرنے کی عادت رہے ۔ کسی بھی قسم کا ہنگامہ ہو، یا کوئی مصیبت ہو،فجر میں جاگنےاور نماز کے بعد واکنگ کی عادت ختم نہ ہو ،یہ لڑکیوں کے لیے بھی اور لڑکوں کے لیے بھی ہے، کامیاب نوجوانوں کے گھروں کی اور ان کے والدین کی یہی کہانیاں ہیں ۔بچوں کے سامنے کبھی معاشی حالت کا ذکر نہیں کرنا چاہیے ،بلکہ چھپانا چاہیے ،اس کے لیے والدین کی انڈر اسٹینڈنگ زبردست ہونی چاہیے ۔
واکنگ کے دوران اپنے بچے سے کہیے کہ بیٹا ہم اس کائنات میں صرف کوشش کے مکلف ہیں، نتائج کے نہیں، ہزار کوشش کے باوجود اللہ رب العالمین کا فیصلہ ہی نافذ ہوتا ہے ،اس پر ہمارا ایمان ہونا چاہیے ۔
دماغی کام کرنے والے بچوں کو مراقبہ یا Breathing control exercise لازماً    کرنی چاہیے،اور نہ صرف کرنی چاہیے بلکہ مائنڈفل ورزش کا عادی بنانا چاہیے ۔ بچوں سے کہیے کہ بیٹا روزانہ صبح آنکھ بند کرکے اپنے رب کے سامنے اپنی گزارش رکھو، ان سے کہو:
’’ اے رب! میرے ذہن کی گرہیں کھول دے، علم کا حصول مجھ پر آسان کردے ، اے رب جو مجھے میرے حصےکا دے، اس پر قناعت کرنے والا بنادے ۔‘‘
بچے میں جس قدر مضبوط روحانیت ہوگی،اتنا ہی وہ جذباتی طور پر مضبوط بنے گا ،بچے سے کہیے کہ جوامع الکلم میں یہ بات کہی جاتی ہے:
’’ مضبوط ارادے بہترین وسائل کے باوجود بھی نتائج کا حاصل نہ ہونا دلیل ہے کہ ایک ہستی ہے اس کائنات میں، جو وہ چاہتی ہے وہی پیش آتا ہے ،اور پھر اللہ کا فیصلہ ہے کہ تم اسے مانو، خوشی خوشی تسلیم کرو۔‘‘
قرآن کہتا ہے:
عَسَی أنْ تَکْرَهُوا شَیئاً وَ هُوَ خَیْرٌ لَکُم وَ عَسی أنْ تُحِبُّوا شیئاً و هُوَ شَرٌّ لَکُم(البقرہ: 216)
(ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں ناگوار ہواور وہی تمھارےلیے بہتر ہو۔اور ہو سکتا ہے کہ ایک تمھیں پسند ہو اور وہی تمھارے لیے بُری ہو۔)
بچوں میں غذا اور تغذیہ کا شعور پیدا کیجیے، اور صحت سے متعلق ہمیشہ اسے کاؤنشیس رکھیے کہ ایک لقمہ بھی کھائیے تو یاد رکھیے! آپ کو بہت Calculated زندگی گزارنی ہے، پروٹین کتنا ہو ؟ایچ بی(Hemoglobin) کتنا رہے؟ چاق و چوبند دماغ کا انحصار آپ کے کھانے اور ورزش پر ہے ۔
بچے کی دماغی صحت کو بہتر بنانے کے لیے اسے چھوٹی چھوٹی باتوں میں الجھنے سے بچپن ہی سے رک جانے کی عادت ڈالیں ۔چھوٹی چھوٹی باتوں اورشکایتوں کو غیر ضروری اہمیت دینا ، یاوہ گوئی کرنا یا موبائل پکڑواکر گھنٹوں وقت کے ضائع کرنے کی عادت بننے سے پہلے اسے آگاہ رکھنا کہ جس طرح جسمانی صحت کا خیال ضروری ہے،ایسے ہی دماغی صحت کی دیکھ بھال بھی اہم ہے اور دماغی صحت کو موبائل خراب کردیتا ہے ۔وقت کو لمحہ بہ لمحہ گن کر گزارنے کی عادت ڈالیں ۔
اسٹڈی کی عادت ڈالنے کے لیے گھر کے ماحول میں علم کی اہمیت کا مالک ہر فرد کوہونا چاہیے ، شادی بیاہ، تقریب اور کھانے گفتگو کا موضوع رہیں گے تو بچہ کیوں کر علم کا رسیا ہوگا ، علم سے لطف اندوزی کی عادت ڈالنا بھی تعلیمی عمل ہے، اس کے لیے میدان والدین کو تیار کرنا ہوگا ۔
اینگر مینجمنٹ کی عادت بھی لازماً ڈالنی چاہیے، غصے کی عادت بچوں کو یا تو انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کرتی ہے یا Self harm (خود اذیتی)کی طرف لے جاتی ہے، یا کبھی کبھی وہ جرائم کا راستہ منتخب کرلیتے ہیں ۔اینگر مینجمنٹ کے لیے بچوں کو غصے کے قابو کرنے کی تکنیک کااستعمال سکھائیے ۔انھیں سمجھائیے کہ غصہ آجائے تو لمبی سانس لیں ، آنکھیں بند کریں، غصےکی وجوہات پر غور کریں اور جواب دینے یا بات کرنے کواس وقت اگنور کریں کہ بعد میں سمجھائیں گے ، پانی پی لیں اور ریسٹ موڈ میں آجائیں ۔
مسابقتی امتحان کے لیے تیار ی کرنے والے والدین بچوں سے جب بھی گفتگو کریں ،انھیں یہ لازماً سمجھائیں کہ آپ کی ذات ہمارے لیے بہت قیمتی ہے، ہر قسم کا مالی نقصان قابل برداشت ہے ،لیکن آپ کی جان سے زیادہ عزیز ہمیں کچھ بھی نہیں، بلکہ آپ کی آخرت ہمیں بے حد عزیز ہے ۔یہ بھی تاکید کریں کہ والدین کے سامنے اپنی اصل پوزیشن رکھنے میں کبھی جھجھکنا نہیں چاہیے،صاف گوئی ہزار بوجھ سے آزادی کا نام ہے ۔
والدین دوران گفتگو بچوں کو بتائیں کہ علم سکون دل اور سکون دماغ کے لیے لازم ہے، نہ کہ پیسہ کمانے کے لیے ، کمائی کا حصول اللہ کے اختیار کی چیز ہے ،اس لیے جو بھی ذریعۂ معاش ہو ،اس کا انتخاب اپنی دل چسپی کے ساتھ ہو ۔
کوچنگ سینٹر کے موٹیویشنل اسپیکر کے حوالے بچوں کو نہ کریں، وہ معصوم ذہنوں کو انتہائی مادہ پرستی کے خواب دکھاتے ہیں ۔بڑی سفاک قربان گاہیں ہیں یہ ،اللہ کے لیے اس سے بچوں کو محفوظ رکھیں ۔
ایک سراب کی طرح ہے یہ، اس سال کا نتیجہ دیکھیے!680 کٹ آف رہے گا، لیکن ان کے کوچنگ کااشتہار آپ کوبےوقوف بنانے کے لیے 500 پر بھی نیٹ کوالیفائی بتارہے ہوں گے۔ خدارا آگاہ رہیے !یہ جگر پارے درد کے اس اسٹیج پر پہنچانے کے لیے نہیں ہیں ،یہ بچےہمارے ملک وملت کی امانت ہیں ۔
کوچنگ انسٹی ٹیوشنز کو صرف اپنے بزنس کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے، انھیں نہ آپ کے درد سے علاقہ ہے نہ معصوم ذہن پر گزرنے والی افتاد سے واسطہ ۔
ترجیحات
بچوں کے سامنے والدین اہم ترین تقریب پر بھی مشاورت کریں کہ بیٹا آپ کے امتحان ہیں کیا؟ ہم رشتہ داروں کی شادی کی تقریب کو اگنور کردیں؟ اور خود بھی ترجیح ہمیشہ تعلیم کو دیں، یاد رہے! ہمیشہ ایسا کریں ۔بچوں کے دسویں اور بارہویں یا نیٹ وقت تو ایسا کرتے ہیں لیکن عام تعلیمی ایام کو اہمیت نہیں دیتے،یہی وجہ ہے کہ بچہ نہ ترجیح کا طریقہ سیکھ پاتا ہے نہ ہی ترجیحات متعین کرپاتا ہے۔ یاد رہے! جب ترجیح اور مشاورت عادت نہ ہو اور کچھ وقت میں ہوتو وہ بچے پر احسان اور احسان کا بوجھ بن جاتا ہے کہ یہ قربانی میری وجہ سے دی گئی ۔
والدین بچوں کے سامنے کبھی نہ جتائیں کہ یہ آپ کی وجہ سے یہ کیا ، یا قرض لیا یا مہنگے کوچنگ میں تعلیم دلوارہے ہیں۔ جتانے کا عمل بچے کو مقروض بناتا ہے، اگر والدین ہی قرض کے بوجھ تلے دبادیں، تو دنیا میں کیا اس معصوم کی کوئی جائے پناہ ہوگی ؟

بچوں کو ٹیبل چیئر پر بیٹھ کر دیر تک اسٹڈی کی عادت ہوتو تب آپ اسے مسابقتی امتحان کا حصہ بنائیے ۔والد یا والدہ کو بچے کو گاہے بہ گاہے ریلیکس کرنے اور ٹیسٹ کے نتائج سے مایوس نہ ہونے دینے کا فن بھی آنا چاہیے ۔
بچوں سے بات بھی گفتگو کا حصہ ہوکہ بیٹا پرائیویٹ تعلیم کے بجائے ہمیں گورنمنٹ سیٹ کے لحاظ سے تیاری کرنی ہے، کبھی بھی کسی پرائیویٹ میں تعلیم لینے والے کو نہ رشک سے دیکھنا چاہیے ،نہ آہیں بھرنی چاہئیں، کیوں کہ پرائیویٹ کلچر انسانوں کو دھوکہ دینے کا بڑا ذریعہ ہے ۔شارٹ کٹ راستے پر جائز و ناجائز طریقے سے بچنے کی تلقین بھی اہم ہے، جو بچے کو کرنی چاہیے ۔
نام ونمود اور’’ لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ کے خوف سے بھی انھیں آزاد رکھنا چاہیے، ورنہ عزت سنبھالنے کے لیے پرائیوٹ میں ایڈمیشن لے کر عزت بچانے کے لیے حق مارا جاتا ہے، کیوں کہ میڈیکل فیلڈ میں داخلے کے بعد بھی پرائیویٹ سیٹ والوں کو سیکنڈ شہری ہونے کا بھرپور احساس دلایا جاتا ہے۔ ایک Undeclared مکالمہ (ان کہا مکالمہ )اس فیلڈ کے بچوں میں جاری رہتا ہے جو ساری زندگی ایک گلٹ کے ساتھ گزارہ کرنےپر مجبور رکھتا ہے ۔
عزیز والدین! ہر فیلڈ کے اپنے تقاضے ہیں ،حصول کے پیچھے کڑی محنت اور بڑی قربانی ہے۔ ساحل کا نظارہ کرتے ہوئے آپ تالی بجا سکتے ہیں، بچوں کے اس کرب کو نہیں پہنچ سکتے، جس سے یہ حقیقتاً گزرتے ہیں ۔
خدارا انھیں سمجھیے! یہ بچے بہت معصوم ہوتے ہیں ،وہ ہر لمحہ اپنے والدین کی خوشی کو مقدم رکھتے ہیں ،وہ والدین کو وہ خوشیاں دینا چاہتے ہیں جو انھوں نے بچوں کے لیے تج دی ہیں ۔ہم بچوں پر احسان جتانے کے لیے قربانیاں نہیں دے رہے، اس سوچ سے ہی والدین کو اپنا دماغ آزاد کرنا چاہیے ۔
ہم تو اللہ رب العالمین کی اس امانت کو پوری دیانت داری کے ساتھ پروان چڑھا کر زمین پر منصب قیادت کے لیے چھوڑ کر چلے جانے والے ہیں ۔یہ بھی تو مفاد پرستی ہے کہ ہم 14 سے 20 سال کے معصوم دماغ کو تختۂ مشق بناکر اس پر اپنے احسانات کا بوجھ ڈال دیں ۔
بچہ ساتویں جماعت سے مذکورہ بالا چیزوں کا عادی ہوتو مسابقتی امتحان میں ڈالیے اور کہیے کہ اتناپرسکون ہوکر پڑھ سکتے ہوتو پڑھیں،روٹین میں کچھ بھی فرق نہیں آنا چاہیے ،سیکھنے کی رفتار یہی رہے، لیکن ذہنی سکون غارت نہ کریں ۔
جن بچوں کو رپیٹ کروالیا اور تب بھی وہ میڈیکل میں نہ جا سکے ،تو کوئی بات نہیں،ان بچوںنےجتنا رپیٹ کیا اتناہی سیکھتےرہے، ان کی وہ لرننگ ضائع نہیں ہوئی ہے، جس فیلڈ میں جائیں گے،یہ نالج ان کے لیے بہترین ہوگا ۔
علم سے عشق ہی حقیقی عشق ہے ،اس لطف کو عذاب مسلسل نہ بنادیں !

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

1 Comment

  1. محمد فاروق شیخ دولومیاں

    ما شاء اللہ ، بہترین طریقے سے تمام چیزوں کاتجزیہ کررہنمائی کی گئی ۔ امید کرتا ہوں والدین اپنی خواہشات کے بوجھ کو زبردستی اپنی اولاد پر نہیں ڈالیں گے۔
    اس بہترین تحریر پر اگر والدین ، اور بچے عمل کریں تو کامیابی کا اصل مقصد حاصل کرپائیں گے ۔

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے