اگست ۲۰۲۴

مادی کشمکش انسان کو ذہنی کشیدگی اور جسمانی و نفسیاتی مصائب میں مبتلا کردیتی ہے ۔دولت کے حصول کے لیے سرگرداں زندگی، جس تیزی سے دوڑتی ہے، اسی تیزی سے پستی کی جانب گام زن ہوتی ہے ۔ مال و زر کی ہوس ان زندگیوں کو اندر سے اتنا کھوکھلا کردیتی ہے کہ بلندی سے نیچے اتر کر وہ ہر شے کو پھاڑ کھانے ،ہر کم زور سے فائدہ اٹھانے، اور اپنے سے پست افراد کو نوچ نوچ کر ان کے خون و پسینہ سے توانائی لینے کے ایسے عادی ہوجاتے ہیں کہ اس کے بغیر وہ ایک معمولی سی اڑان بھی نہیں بھر پاتے ،ایسے انسان دراصل کم زور انسانوں کے بل پر ہی کھڑے ہوتے ہیں، اس لیے ان کی زہر آلود نگاہیں ہمیشہ تاک میں رہتی ہیں، کہ کوئی کم زور نظر آجائے، جس کے سامنے ان کی طاقت نمایاں ہوسکے ۔ممتاز نظر آنے کی یہ مجنونانہ دوڑ، تکریم انسانیت اور رحم دلی کے انسانی جذبوں سے عاری مہذب انسانوں کو تیز ناخن اور دانتوں والادرندہ بنا کر پوری دنیا کو چیر پھاڑ کی آماج گاہ بنا چکی ہے ۔ ظلم و ستم کی یہ صبح و شام، فلک شگاف آہوں سے روز بھر جاتی ہے۔
دولت کے نشے میں چور اعصابی و ذہنی مریضوں سے متعلق رسول خدا صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ اس ضمن میں خوب ر ہ نمائی کرتی ہیں ۔
’’جس کی فکر کا محور آخرت ہوجائے، اللہ تعالیٰ اس کودل کی تونگری عنایت فرماتا ہے،اس کو اطمینان کی دولت سے سرفراز کردیتا ہے ۔‘‘(ترمذی )
’’یہ دولت شیریں و خوش گوار چیز ہے ۔جس نے دل کی سخاوت کے ساتھ اسے لیا اسے برکت نصیب ہوتی ہے ،اور جس نے خود غرضی اور بخل کے ساتھ اسے لیا وہ برکت سے محروم رہ جاتا ہے ،چناں چہ وہ اس شخص کی طرح ہوجاتا ہے جو کھاتا تو ہے لیکن سیر نہیں ہوپاتا ۔‘‘(ابو داو‘د)
اسی لیے سیرابی سے محروم ان انسانوں کو حرص ہوس کے جراثیم ظلم و زیادتی اور نوچ پھاڑ کر کھانے پر آمادہ کرتے ہیں ۔نبوی رہ نمائی میں ایسی بےشمار احادیث ملتی ہیں جن کا مقصد روزی روٹی کی مجنونانہ دوڑ پر روک لگانا اور انسانوں کو حرص و ہوس کی دنیا سے بچانا ہے ۔
جس معاشرے میں حکومتیں ہی مادی کشمکش کی خوف ناک دوڑ میں ملوث ہوں، اس معاشرےکا ہر فرد انسانی جذبوں کی روانی سے محروم ہوکر درندہ بن جاتا ہے ۔اس معاشرےمیں ہر ایک کی پرواز کم زوروں کا خون چوس کر ان کے جسم کے چیتھڑوں سے پیٹ بھر کر ہی ممکن ہوتی ہے،کیوں کہ حکومتی پالیسیاں ہی اسے اس گھٹیا زندگی پر مجبور کردیتی ہیںکہ پیٹ کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک انسانی مشین بن جاؤ ،ایک ایسی مشین جس کی آئلنگ و پٹرولنگ تمھارے ہی درمیان کے انسانوں کا خون پسینہ ہو ،ایسے معاشرے میں بے حس افراد پروان چڑھتے ہیں جو مادیت کے نشے میں مست ہوکر، انسانیت کے رول کے بجائے ایک مشینری کا رول ادا کرتے ہیں ۔ اس انسانی مشینری کو ریس ازم نے جس جگہ کھڑا کردیا ،وہاں صرف اور صرف کم زور پر ناروا ظلم ہی طاقت ور کے اندر طاقت کا احساس پیدا کرتا ہے ۔
آئیڈیل ازم نے شو آف کو اتنا اہم باور کروایاکہ بنا دکھاوے کے زندگیاں سست اور بے رونق نظر آتی ہیں ،چکا چوند نے ذہنوں کو کچھ ایسا مسخر کیا کہ ہر چمکتی ہوئی شے سونا نظر آتی ہے،حسد زدہ معاشرے سے عناد و بغض و عداوت کے ایسے بادل دھواں بن کر اٹھے کہ ان کثیف فضاؤں میں اڑان بھرنے والا ہر پرند وچرند خونی بن گیا ۔

لہو لہو ہے زندگی ،بے آبرو ہے زندگی
وحشتوں کا راج ہے ،درندگی درندگی

دل چسپ امر یہ ہے کہ دنیا پر وہ نظریات تیزی کے ساتھ تھوپےجارہے ہیں،جن کی بنیاد مادی کشیدگی کے سوا کچھ نہیں ۔ اس وحشت زدہ ماحول کا ایک خوب صورت پہلو یہ ہے کہ ایسے ہی تلخ اور خوف ناک مناظر بھلائیوں کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ یہ تلخ شکایات مواقع فراہم کرتی ہیں کہ اسلام کے سنہرے اصولوں سے واقف کرواکر دم توڑتی ،چیختی بلکتی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھا جائے ۔اسلام کے سنہرے اصولوں پر چل کر ایک خوب صورت رہ نمامعاشرے کا ماڈل پیش کیا جائے۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے