اگست ۲۰۲۴
زمرہ : اکادمیا

گذشتہ مضمون میں ہم نے طلبہ کے لیے مطلوب اکیسویں صدی کی صلاحیتوں میں سے چار کا تذکرہ کیا تھا۔ مذکورہ چار صلاحیتیں لرننگ اسکلز کے تحت آتی ہیں، یعنی یہ وہ صلاحیتیں ہیں جنھیں سیکھا جانا چاہیے اور جنھیں سیکھنے کا انتظام تعلیمی ادارے کر سکتے ہیں۔ اس مضمون میں ہم دوسرے یعنی لٹریسی اسکلز کے زمرے میں شامل تین صلاحیتوں کا تذکرہ کریں گے۔ ان تینوں صلاحیتوں کو سیکھنا خواندگی کا حصہ ہے۔ خواندہ ہونے کے لیے ان کو حاصل کرنا ضروری مان لیا گیا ہے۔ یہ تین صلاحیتیں حسب ذیل ہیں:
٭انفارمیشن (معلومات)
٭میڈیا
٭ٹیکنالوجی
یہ تینوں صلاحیتیں آج کسی بھی فرد کے لیے اپنی زندگی کو بہتر بنانے اور جس پروفیشن سے وہ منسلک ہیں، اس میں بہتر کارکردگی پیش کرنے اور موجودہ دنیا میں اپنے آپ کو ایک کارآمد فرد بنانے کے لیے ضروری تصور کی جا رہی ہیں۔ اس مضمون میں ان تینوں صلاحیتوں کے بارے میں ضروری باتیں پیش کی جائیں گی۔

انفارمیشن (معلومات)

انفارمیشن آج انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک اہم ضرورت بن گئی ہے، چاہے اسے اپنے باورچی خانے میں پکوان بنانا ہو یا بڑے کارپوریٹ ہاؤس میں کسی اہم بزنس میٹنگ کی صدارت کرنی ہو۔ گویا ہر نوعیت کے کاموں کے لیے معلومات کا ہونا بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے۔ آج کے دور کو انفارمیشن کا دور کہا جاتا ہے۔ اس دور میں معلومات کا بڑا ذخیرہ انسانیت کے سامنے موجود ہے۔ صدیوں پہلے معلومات یا انفارمیشن کی کمی تھی، اس لیے فرد پریشان رہتا تھا۔ اُس دور میں انسانوں کی پریشانی کو دور کرنے کے لیے فلسفی پیدا ہوتے تھے جو ان معلومات تک پہنچنے کی کوشش کرتے، جن کی انسان کو ضرورت پیش آتی۔
مثلاً: اس دور میں اگر تیز رفتار بارش ہوتی تو انسان یہ جاننے کے لیے بے چین ہوجاتا کہ اتنی تیز بارش کیسے ہوئی؟ کیوں ہوئی؟کس وجہ سے ہوئی اور کس کے ایما پر ہوئی؟اسی طرح دریاؤں میں سیلاب آ جاتا تو انسان سوچ میں پڑجاتا کہ یہ سیلاب کیوں آیا؟کیسے آیا اور کون اسے لایا؟سورج گرہن ہوتا یا قحط سالی ہوتی تب بھی اس طرح کے سوالات پیدا ہوتے۔ قدیم زمانے میں ان سوالوں کا جواب انفارمیشن کی بنیاد پر نہیں دیا جاتا تھا بلکہ فلسفی قیاس وتخمین کے ذریعے ان تمام حادثات اور واقعات کی توجیہ کرنے کی کوشش کرتے۔
آج بھی انسان کو ایسے سوالات درپیش ہیں لیکن سوالات کی نوعیت بدل گئی ہے اور بیش تر سوالوں کے جوابات فلسفیوں کے بجائے سائنس دانوں سے حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یا پھر انسان دست یاب معلومات کے ذخیرے سے اپنے جوابات خود حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی سرگرمی کے نتیجے میں آج دنیا میں سرچ انجن (Search engine)وجود میں آئے جو انٹرنیٹ کی دنیا میں موجود ہیں۔
سرچ انجن انٹرنیٹ پر موجود مخزن معلومات میں سے درکار معلومات کھوج کر پیش کرتے ہیں، آج انسانوں کو معلومات کی ضرورت پچھلے برسوں سے کہیں زیادہ ہو گئی ہے۔ انسانی زندگی میں لیے جانے والے مختلف فیصلوں کے لیے معلومات کی ضرورت ہوتی ہے۔ فرد کی چھوٹی ضرورتوں سے لے کر اداروں کی بڑی ضرورتوں تک، آج دنیا کے ہر چھوٹے بڑے کام میں انفارمیشن کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس لیے چند برسوں پہلے یہ جملہ بڑا عام تھا کہ:
Information is Power
(معلومات ہی قوت ہے۔)
حالاں کہ یہ جملہ اب تبدیل ہو گیا ہے اور اس کی جگہ دوسرے جملے نے لے لی ہے، جس کا تذکرہ ہم آگے کی سطروں میں کریں گے،تاہم مختلف موقعوں پر اور مختلف افراد کے لیے یہ جملہ آج بھی اہمیت رکھتا ہے۔ انفارمیشن ہر طرح کی ہوتی ہے جہاں سائنسی، معاشی اورجغرافیائی معلومات کی اپنی اہمیت ہے، وہیں ان سے ہٹ کر انسانوں کی سرگرمیوں کی انفارمیشن بھی مختلف پہلوؤں سے اہمیت رکھتی ہے۔
انفارمیشن کو جمع کرنا، اس کا تجزیہ کرنا اور پھر اسے انسانوں کی بہبود یا کسی اور کام میں استعمال کرنا علم کا بڑا شعبہ بن گیا ہے۔ آج ہم مصنوعی ذہانت (Artificial intelligence) کا جو شور و غوغا سن رہے ہیں، اس کی بنیاد ہی انفارمیشن اور ڈیٹا ہے۔

ڈیٹا یعنی انفارمیشن کی اکائیاں

ان اکائیوں کی مدد سے بڑے ڈیٹا کو جنم دیا جاتا ہے، انفارمیشن کا ذخیرہ کر لیا جاتا ہے اور پھر اس انفارمیشن کو ترتیب دے کر کئی پروگرام وضع کیے جا رہے ہیں، آج اگر آپ اپنا اسمارٹ فون کھولیں اور اس میں آپ انٹرنیٹ کو فعال کریں تو آپ کے اسکرین کے یوٹیوب، یا فیس بک یا کسی اور پلیٹ فارم پر اشتہارات یا ویڈیو آنے لگیں گے، یہ اشتہارات اور ویڈیو آپ کی خاص دل چسپی سے میل کھانے والے ہوتے ہیں یا آپ کی ضرورت کے مطابق ہوتے ہیں۔ ایک فرد کی دل چسپی اور اس کی ضرورت کو اسمارٹ فون نہیں بلکہ اس کے اندر کام کرنے والا سافٹ ویئر بھانپ لیتا ہے۔ اس کی بنیاد اس شخص کا ذاتی ڈیٹا ہے۔ یعنی فون استعمال کرنے والے کی ذاتی دل چسپیوں اور اس کی ضرورتوں کو ڈیٹا کی شکل میں کہیں نہ کہیں جمع کیا جا رہا ہے اور اس جمع شدہ ڈیٹا کا تجزیہ کر تے ہوئے اسمارٹ فون اسے اس کے مطلب کی معلومات فراہم کرتا ہے۔ آج اس کام کے لیے جو سائنس وجود میں آئی ہے اسے انفارمیشن ٹیکنالوجی، مشین لرننگ، Data Analysis اور Data Processing وغیرہ نام دیے گئے ہیں، اس طرح آج انفارمیشن کا حصول، اس کا تجزیہ اور اسے کارآمد بنانے کا کام وسیع پیمانے پر اور ہر سطح پر ہو رہا ہے۔ جو کمپنی یا جو ملک اس طرح کے کاموں میں مصروف ہے وہ گویا اپنے پاس ایک زبردست طاقت رکھتا ہے۔ آج ڈیٹا کو جمع کرنا، ڈیٹا کو حاصل کرنا، ڈیٹا کی پروسیسنگ کرنا اور ڈیٹا مائننگ (معلومات کا حصول و استخراج)کرنا بہت بڑا کاروبار بن گیا ہے۔ آنے والے برسوں میں اس ٹیکنالوجی میں اتنا اضافہ ہوگا کہ کسی فرد کے بارے میں جانکاری حاصل کرنا اتنا آسان ہو جائے گا کہ بس اس کا ٹیلی فون نمبر کسی ایسی کمپنی کو دیا جائے جو ڈیٹا کو پروسیس کرتی ہے اور وہ بتا دے گی کہ اس ٹیلی فون نمبر والے فرد کی کیا دل چسپیاں رہی ہیں، کب اس نے کس کھانے کو آرڈر کیا تھا، یوٹیوب پر کس ویڈیو کو اس نے دیکھا تھا، کس سے کیا بات کی تھی، اس کے رجحانات کیا ہیں، اس کی دل چسپیاں کیا ہیں، اس نے نیکیوں کے کیا کام انجام دیے ہیں اور وہ برائیوں میں کتنا ملوث ہے۔ یہ سارا ڈیٹا اور یہ ساری معلومات آپ کو آسانی سے فراہم ہو جائیں گی۔ اس طرح آج دنیا میں انفارمیشن اور انفارمیشن کی ٹیکنالوجی اہم کردار انجام دے رہی ہے۔
مصنوعی ذہانت (AI)کا شعبہ اسی انفارمیشن کے تجزیے، تحلیل اور اس کے استعمال پر مبنی ہے۔ مصنوعی ذہانت اپنے طور پر کسی نئی معلومات کو جنم نہیں دیتی بلکہ جمع شدہ محفوظ معلومات کو سلیقے سے پیش کرتی ہے یا ان معلومات کے استعمال کے ذریعے فیصلے اور تدابیر کے مختلف پہلوؤں اور مختلف آپشن کو پیش کرتی ہے۔ مصنوعی ذہانت آج ایک وسیع موضوع ہے اور اس کی مدد سے آج زندگی کے بے شمار کام انجام دیے جا رہے ہیں۔ انفارمیشن آج معمولی انسان کے لیے بھی ضروری ہے اور بڑے سائنس دانوں اور حکم رانوں کے لیے بھی۔ انفارمیشن کا کس طرح قدم قدم پر ساتھ ہے، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اگر آپ ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانا چاہتے ہیں، تو آپ کو یہ انفارمیشن مل جائے گی کہ آپ کی منزل کہاں واقع ہے، کون سا راستہ آپ کے لیے زیادہ مناسب ہے، کس راستے پر ٹریفک کم ہے، کون سا راستہ جلدی پہنچاسکتا ہے؟ اس طرح کی معلومات حاصل ہونے کے بعد آپ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ آپ کو منزل مقصود تک جانے کے لیے کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ غرض یہ کہ انفارمیشن آج ہر فرد کی ضرورت ہے اور ہر فرد کو جس قدر انفارمیشن استعمال کرنا آتا ہے، وہ اتنا ہی اچھا فیصلہ کر سکتا ہے۔ مینجمنٹ کی دنیا میں ایک اصطلاح ہے جسے کہا جاتا ہے Informed decision یعنی ایسے فیصلے جو معلومات کی بنیاد پر ہوں، عملی زندگی میں ہم چند فیصلے گمان اور القا کی بنیاد پر کرلیتے ہیں لیکن مینجمنٹ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی فیصلے پر پہنچنے سے پہلے اس فیصلے پر اثر ڈالنے والی تمام معلومات کو اکٹھا کیا جائے، ان معلومات کا تجزیہ کیا جائے اور پھر ان معلومات کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے۔
چاہے اداروں کے منتظمین ہوں، طلبہ ہوں یا گھریلو خواتین؛ سب کے لیے یہ مشورہ کار آمد ہے کہ فیصلہ کرنے سے پہلے ممکنہ حد تک تمام معلومات حاصل کر لی جائیں۔ اس کی ایک مثال ہم طلبہ کے حوالے سے پیش کر سکتے ہیں کہ ہمارے طلبہ کیریئر کا انتخاب کرنے میں بہت محدود نقطہ ٔنظر رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک صرف دو میدان اہمیت رکھتے ہیں، ایک میڈیکل کا اور دوسرا انجینئرنگ کا۔ اس رجحان کی وجوہات تلاش کریں تو اس کی بنیاد میں معلومات کی کمی نظر آتی ہے۔ ہمارے طلبہ اور اساتذہ کے پاس دسویں اور بارہویں کے بعد کے مواقع کے بارے میں معلومات کی کمی پائی جاتی ہے۔
دسویں اور بارہویں کے بعد کیا کیا کورس کیے جاسکتے ہیں اور کس کورس کی کتنی اہمیت ہے، اس سے ناواقفیت کی وجہ سے کیرئیر کا دائرہ اس قدر تنگ نظر آتا ہے۔

انفارمیشن کے میدان میں بنیادی علم

آج کے دور میں ایک عام طالب علم اور عام انسان کے لیے انفارمیشن کے میدان میں مندرجہ ذیل بنیادی معلومات رکھنا ضروری ہو گیا ہے:
٭انفارمیشن کی کتنی قسمیں ہیں اور وہ کس طرح کی کیٹیگریز میں آتی ہیں؟
٭کس قسم کی انفارمیشن ہمیں کس شعبے میں مل سکتی ہے؟

انٹرنیٹ پر انفارمیشن حاصل کرنا

٭صحیح کی ورڈ کا استعمال کرکے ہم مطلوبہ معلومات جلدی اور آسانی سے حاصل کر سکتے ہیں۔
٭گوگل سرچ کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کے لیے ہمیں اس کے الگورتھم کا بنیادی علم ہونا چاہیے۔
٭ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ کون کون سے AI ٹول موجود ہیں اور ان کا استعمال کیسے کیا جا سکتا ہے۔
کسی زمانے میں یہ جملہ بڑا مشہور ہوا تھا کہ ’’انفارمیشن از پاور‘‘ یعنی ’’معلومات طاقت ہے۔‘‘ لیکن حالیہ برسوں میں اہل دانش نے کہا کہ معلومات اپنے پاس رکھنا اب طاقت کی علامت نہیں ہے کیوں کہ اب معلومات انسان کے دماغ میں کم اور اس کے ہاتھ میں موجود ہینڈ سیٹ میں زیادہ ہوتی ہیں۔ سوال یہ نہیں ہے کہ آپ کے ہاتھ میں یا آپ کے موبائل فون میں کتنی معلومات موجود ہیں، اس سے ایک فرد طاقت ور نہیں ہوگا بلکہ ایک فرد کی صلاحیت اور طاقت یہ جاننے پر منحصر ہوگی کہ کون سی معلومات کہاں دست یاب ہیں۔ اس لیے اب مذکورہ جملہ بدل کر یوں ہو گیا ہے:
’’اصل طاقت معلومات کا علم ہے۔‘‘
(Information about information is power.)یعنی کون سی معلومات کہاں آپ کو دست یاب ہوں گی، اس کا علم ہی آج طاقت کا سرچشمہ ہے۔
مثال کے طور پر اگر آپ کسی نئے شہر میں گئے ہیں اور اس شہر میں کسی مقام کو تلاش کرنا چاہتے ہیں، تو اس مقام کو تلاش کرنے کے لیے کس ٹول کو استعمال کرنا ہے، اگر آپ یہ جانتے ہیں تو پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ اس مقام پر اس سے پہلے جاچکے ہیں یا پہلی بار جارہے ہیں۔
تعلیم کے میدان میں اگر طلبہ کو مختلف مضامین کے متعلق معلوم ہو جائے کہ انھیں سمجھنے اور پڑھنے کے لیے کیا بہترین ذرائع ہیں، کون سی ویب سائٹ یا یوٹیوب چینل مفیدتر ہے، تو وہ ان سے استفادہ کریں گے۔ جب بھارت میں ہائی اسکول کے طلبہ سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ سائنس کے مضمون کی تیاری کے لیے کس یوٹیوب چینل کو دیکھتے ہیں، تو 90 فی صدطلبہ اس کا جواب دینے سے قاصر رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معلومات کے ذرائع کا علم انھیں فراہم نہیں کیا جا رہا ہے۔
عام طور پر انٹرنیٹ کو تفریح یا لا یعنی پروگرام دیکھنے کے لیے ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر طلبہ کو مفید ترین یوٹیوب چینلزاور ویب سائٹس کا علم مہیا کیا جائے تو ان کی تعلیمی ضروریات بڑی حد تک پوری ہو سکتی ہیں اور وہ کوچنگ اورٹیوشن کےبڑے بوجھ سے آزادہوسکتے ہیں۔ یہ انتظام بعض ترقی یافتہ اسکولوں میں ہو رہا ہے، تاہم جس پیمانے پر ہونا چاہیے، اس کی بڑی کمی ہے۔

اساتذہ کے لیے معلومات اور ذرائع کی اہمیت

اساتذہ کے لیے بھی معلومات اور ان کے ذرائع سے واقفیت ضروری ہے۔ مثلاً:

سبق کی منصوبہ بندی : اساتذہ کا ایک اہم کام سبق کی منصوبہ بندی ہوتا ہے۔ یہ کام آج بڑی آسانی کے ساتھ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ٹول کو استعمال کرتے ہوئے کیا جا سکتا ہے۔

معلومات کی تصدیق: آج کے دور میں، جسے انفارمیشن کا دور کہا جاتا ہے، انٹرنیٹ پر معلومات کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ اس ذخیرہ میں اچھی بری، مصدقہ اور غیر مصدقہ تمام معلومات شامل ہیں۔ اس ذخیرہ سے تصدیق شدہ معلومات کو نکالنا ایک اہم کام بن گیا ہے۔

فیک نیوز کا مسئلہ

فیک نیوز کے دور میں، غیر تصدیق شدہ اور مصنوعی خبروں کا سیلاب بہتا رہتا ہے۔ ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے فیک ویڈیو بھی بڑی تعداد میں انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔ آج صرف فیک ہی نہیں بلکہ ڈیپ فیک ویڈیو بھی عام ہیں، جو انتہائی مصنوعی اور بالکل بےبنیاد ہوتے ہیں۔
یہ ایک بڑا چیلنج ہے، خاص طور پر طلبہ اور ان تمام افراد کے لیے جو معلومات کا استعمال کر کے فیصلے کرتے ہیں۔ اگر وہ فیک نیوز اور غلط معلومات کی بنیاد پر کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو اس کے نتائج بھی غلط ہوں گے اور فائدے کے بجائے نقصان ہوگا۔
انھیں اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ جس انفارمیشن کو وہ استعمال کر رہے ہیں یا جس انفارمیشن کی بنیاد پر وہ فیصلے کر رہے ہیں، وہ انفارمیشن صحیح اور تصدیق شدہ ہو۔ یہاں قرآن مجید کا وہ اصول اہمیت اختیار کر جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے سورہ ٔحجرات میں بیان کیا ہے:
’’اے ایمان والو! اگر تمھیں کوئی فاسق خبر دے تو تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ نادانی سے کچھ لوگوں کو نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ۔‘‘ ( آیت : 6)
یہ اصول خاص طور پر طلبہ اور ان تمام افراد کے لیے اہم ہے جو معلومات کو استعمال کر کے فیصلے کرتے ہیں۔ فیک نیوز اور غلط معلومات کی بنیاد پر کیے گئے فیصلے نقصان دہ ہوتے ہیں، چاہے وہ ذاتی سطح پر ہوں یا سماجی اور سیاسی سطح پر۔

انفارمیشن کا صحیح استعمال

انفارمیشن کی تصدیق کے بعد اس کے صحیح استعمال کا طریقہ بھی سیکھنا ضروری ہے۔ انفارمیشن موجود ہو لیکن اس کے استعمال کا طریقہ نہ آتا ہو تو انفارمیشن بے معنی ہوگی اور اس پر وہ پرانی بات صادق آئے گی کہ گدھے پر کتابوں کو لادنے سے گدھا عالم نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح اگر کسی فرد کے پاس انفارمیشن موجود ہے یا اس کے ہینڈ سیٹ میں معلومات کا مخزن موجود ہے تو وہ شخص با علم اور دانش ور نہیں کہلائے گا۔ با علم اور دانش ور وہ ہوگا جو بروقت معلومات کا تجزیہ کرنے کے بعد اس کا درست، برمحل اور بروقت استعمال جانتا ہو۔
انفارمیشن کے میدان میں ہماری زبوں حالی کی ایک مثال یہاں پیش کی جارہی ہے۔ این ای پی 2020 ءمیں یہ درج ہے کہ حکومت ہند کوشش کرے گی کہ وہ ملک کے تعلیمی نظام کو قدیم ویدک نظام سے جوڑے۔ اس کام کے لیے این ای پی 2020 ءکے تحت کئی سرکاری و غیر سرکاری ادارے (انڈین نالج سسٹم ) IKS پر کام کر رہے ہیں۔ انفارمیشن کو جمع کر کے انٹرنیٹ پر یوٹیوب اور دیگر پلیٹ فارموں پر اسے ڈالا جا رہا ہے اب یہ انفارمیشن ایک بہت بڑے ذخیرے میں بدل چکی ہے۔ اس کے برخلاف ملت کے افراد یہ بیانات جاری کرتے رہے کہ ہم بھارتی نظام تعلیم کو ویدک زمانے سے جوڑنے کی مخالفت کرتے ہیں، لیکن جب ہم نے انٹرنیٹ یوٹیوب اور دیگر انفارمیشن کے پلیٹ فارم پر تلاش کرنے کی کوشش کی کہ انڈین نالج سسٹم IKS میں مسلمانوں کا کیا حصہ رہا ہے تو افسوس کی بات یہ ہے کہ انتہائی کم اور غیر مصدقہ انفارمیشن ہمیں انٹرنیٹ پر دست یاب ہوسکیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو نظام تعلیم کو ویدک دور سے جوڑنا چاہتے ہیں وہ کتنا سرگرم ہیں اور جو لوگ نظام تعلیم کو آفاقی اصولوں پر استوار کرنا چاہتے ہیں ان کی سرد مہری کا کیا حال ہے۔

انفارمیشن اور قانون

انفارمیشن کےحصول کے مختلف ذرائع ہیں۔ ان ذرائع کا استعمال اور ان ذرائع کی تصدیق اور ان ذرائع میں موجود انفارمیشن کے سچ ہونے کی تصدیق بھی ضروری ہے، ورنہ غیر مصدقہ انفارمیشن کو پڑھ کر اور اس پر اعتبار کر کے لوگ غلط فیصلے کر لیتے ہیں اور کسی طرح کے نقصان کا شکار ہو جاتے ہیں۔ غلط ویب سائٹس کےجال میں پھنسنے کے حادثات آئے دن سنے جاتے ہیں۔ یہ نقصان اس وقت زیادہ ہوتا ہے جب خاص طور سے مسلم نوجوان ایسی ویب سائٹ اور یوٹیوب ویڈیو سے اپنی رہ نمائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور انٹرنیٹ پر موجود غلط مواد کے شکنجے میں پھنس جاتے ہیں۔ بعض وقت ایسا مواد یا ویب سائٹ ٹریپ (شکاری کا جال) ہوتے ہیں۔ گذشتہ برسوں ملک میں جو نوجوان پولیس کی مختلف کارروائیوں میں گرفتار ہوئے ہیں ان کا ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ ان میں سے بیشتر انٹرنیٹ پر غلط ویب سائٹس کو دیکھا کرتے تھے یا ان ویب سائٹس سے انگیج ہوتے تھے۔ ایسی ویب سائٹس سے ہماری نوجوان نسل اب دین کو بھی سمجھنا چاہتی ہے بلکہ سمجھ رہی ہے۔ چناں چہ انٹرنیٹ پر موجود انفارمیشن کو کس طرح حاصل کیا جائے اور کن ویب سائٹس پر اعتبار کیا جائے اس کی صحیح جانکاری اوررہ نمائی جمعہ کے خطبات وغیرہ کے ذریعے نوجوانوں تک پہنچانا ضروری ہوگیا ہے۔
انٹرنیٹ سے معلومات کو حاصل کرنے اور ان معلومات کو استعمال کرنے کے قانونی ضوابط کیا ہیں، یہ جاننا بہت ضروری ہے۔ بعض افراد محض کسی خاص واٹس ایپ میسیج کو شیئر کرنے کی وجہ سے قانون کی نظر میں مجرم قرار پاتے ہیں۔ اسی طرح علم وتحقیق کے میدان میں اگر کوئی رپورٹ یا تحقیقی مقالہ تیار کرنا ہو تو کتنا مواد کس ویب سائٹ سے حاصل کیا جائے اور اسے کس طرح استعمال کیا جائے اس کا بھی علم ضروری ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ایسا کرنے والے اکثر طلبہ کو اس کی جانکاری اور اس کی پیچیدگیوں کا علم نہیں ہوتا ہے۔
قانونی پہلو کے علاوہ ہمارے طلبہ اور نوجوان بعض غلط ویب سائٹس سے وابستہ ہوکر فکری پرا گندگی کا شکار ہو رہے ہیں۔ اگر ہمیں اپنی نئی نسل کو اس کیفیت سے بچانا ہے تو ان کےاندر صحیح و غلط میں تمیز کا ملکہ پیدا کرنا ہوگا۔
انٹرنیٹ کی معلومات پر بھروسہ کرنے والے طلبہ سازشی نظریات (Conspiracy theories)کا کافی شکار ہو رہے ہیں وہ ان سے متاثر ہوکر پھر ان کی تبلیغ میں بھی مصروف ہوجاتے ہیں۔
ان پہلوؤں کی روشنی میں ہمیں ایک جانب انفارمیشن کے متعلق تمام بنیادی معلومات اور انفارمیشن کو استعمال کرنے کے بنیادی طریقے سیکھنا اور سکھانا ہوں گے، وہیں ہمیں انفارمیشن کی افزائش کا کام بھی انجام دینا ہے۔ آج مسلمانوں کے درمیان انفارمیشن کو حاصل کرنے، جمع کرنے اور ترتیب دینے والے ادارے بہت کم ہیں۔ ہمارے ملک میں ابھی تک ایسا کوئی قابل ذکر ادارہ موجود نہیں ہے۔ جس طرح انفارمیشن کو جمع کر کے انٹرنیٹ پر ڈالنے کی ضرورت ہے وہ کام بہت کم ہو رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف بڑے ادارے ہی انفارمیشن کو معلومات کو اکٹھا کرسکتے ہیں، افراد کی سطح پر بھی اس کام کو انجام دیا جاسکتا ہے۔ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو اس جانب توجہ کرنا چاہیے ہے کہ وہ جہاں دوسرے کاموں میں مصروف رہتے ہیں وہیں انٹرنیٹ پر ایسی معلومات کا اضافہ کرنے کا کام بھی کریں جو یا تو موجود نہیں ہیں اور اگر ہیں تو مسخ شدہ صورت میں ہیں۔ مثال کے طور پر آج وِکی پیڈیا پر اسلامی تاریخ اور بھارت میں مسلمانوں کی تاریخ پر جتنا کچھ مواد ہونا چاہیے اتنا مواد موجود نہیں ہے۔ وِکی پیڈیا یا پر یہ کام انفرادی سطح سے بھی کیا جا سکتا ہے۔
معلوم ہونا چاہیے کہ وِکی پیڈیا کو ایک یہودی ٹرسٹ کنٹرول کرتا ہے لیکن وہ جس طرح یہ خدمت انجام دے رہا ہے اس کی نظیر بہت کم ملتی ہے۔ وِکی پیڈیا پر اردو میں موادبھی موجود ہے۔ گویا اردو کی یک گونہ خدمت ایک یہودی ٹرسٹ کر رہا ہے۔ دوسری طرف اس پلیٹ فارم کو اپنے حق میں کارگر بنانے کے لیے مسلمان جس طرح حصہ لے سکتے ہیں اور اس میں درست اور مستند معلومات بھر سکتے ہیں، وہ نہیں کرپا رہے ہیں۔
اس وقت ہماری صورت حال یہ ہے کہ معلومات نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں اپنی صورت حال بھی صحیح سے معلوم نہیں ہے۔ مختلف میدانوں سے متعلق مسلمانوں کا ڈیٹا نہیں ہونے کی وجہ سے ان کی صحیح تصویر سامنے نہیں آتی ہے۔ غرض درست اور مستند ڈیٹا کو پیدا کرنے کا کام آج کا ایک اہم کام ہے۔ جتنا مستند ڈیٹا ہم انٹرنیٹ پر ڈالیں گے اتنا ہی دنیا کے اور خود ہمارے حق میں بہتر ہوگا۔ انفارمیشن کو پیدا کرنے میں ہمارا کس طرح کا کردار ہونا چاہیے؟ اس کے لیے ہم طلبہ کی سطح پر کیا کام کریں؟ منظم ادارے کس طرح قائم کریں؟ اس پر خاص طور سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں بس یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ انفارمیشن کی صلاحیت اکیسویں صدی میں ایک بنیادی صلاحیت بن گئی ہے اور اس دور میں اگر ہم طاقت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انفارمیشن کے میدان میں آگے بڑھ کر منصوبہ بند اور فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگر انفارمیشن کے میدان میں ہم مطلوبہ درجے کی پیش قدمی کرلیتے ہیں تو مسلم ملت کو کئی پہلوؤں سے تقویت ملے گی۔

(جاری…)

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے