اگست ۲۰۲۴
زمرہ : ٹی ٹائم

ڈکٹیٹر شِپ بس اللہ کی

میں تو اللہ کی ڈکٹیٹر شپ کا قائل ہوں ۔قریب قریب سارے ہی موڈرن ’’ازم‘‘ میرے مطالعہ میں آ چکے ہیں لیکن میں قائل کسی کا بھی نہیں۔ آپ بھی کسی ازم وزم میں پڑنے کی بجائے اسلام کو سمجھنے کی کوشش کیجیے ۔ سارے ازم محض وقتی حالات کی پیداوار ہیں اور کسی ایک ازم کی دشواری کسی زمانے میں دوسرے ازم کی پیدائش کا سبب بنتی رہی ہے۔
اسلام کے علاوہ کوئی بھی ازم حرف آخر ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ اسلامی نظام حیات آج بھی قابل عمل ہے، لیکن اس کے لیے انفرادی طور پر ایمان دار بنا پڑے گا اور یہ بے حد مشکل کام ہے۔ پس میرا سیاسی رجحان اللہ کی ڈکٹیٹر شپ کا قیام ! اورمیرا فن سکھاتا ہے قانون کا احترام!

– کتاب:دھواں ہوئی دیوار،از:ابن صفی

تربیت یا صحبت؟

یہ بہت عام ہے کہ ذرا سا اختلاف ہوا، بات بڑھتی گئی، بالآخر یہ طعنہ دیا گیا کہ آپ کو ماں باپ سے تربیت ہی ایسی ملی ہوگی۔
حقیقت یہ ہے کہ ماں باپ کی تربیت بالعموم اچھی ہی ہوتی ہے. لوگ جو کچھ بنتے ہیں اس میں زیادہ حصہ گھر کے باہر ملنے والے ماحول اور صحبت کا ہوتا ہے۔
چند سال پہلے میں کچہری کی طرف سے انار کلی کی طرف گورنمنٹ کالج کی دیوار کے ساتھ حسب معمول پیدل جارہا تھا۔اسی سمت ایک کار گزری،پھر ریورس ہوئی اور میرے قریب آکر رکی۔جماعت اسلامی والے لیاقت بلوچ برآمد ہوئے،گلے ملے، خیر خیریت دریافت کی اور کہا کہ جہاں چاہوں وہ چھوڑ دیں گے۔
لیاقت بلوچ اور میں یونیورسٹی میں ایک ہی شعبے میں تھے اور سیاست میں ایک دوسرے کے سخت مخالف۔انھوں نے پیچھے سے آتے ہوئے میری ایک جھلک ہی دیکھی ہوگی، میں نے تو دیکھا بھی نہیں لیکن انھوں نے ملنا ضروری سمجھا۔اس وضع داری کے علاوہ بھی ان میں بے شمار خوبیاں ہیں۔جماعت کی شوریٰ والے انھیں ایسے ہی تو نہیں بڑے عہدوں کےلیے قبول کرتے۔
ان کی تربیت ان کی بیوہ ٹیچر ماں نے کی۔اسی نیک خاتون نے لیاقت بلوچ کے بھائی سعادت بلوچ کی بھی تو ویسی ہی تربیت کی ہوگی،لیکن پھر یہ کیوں ہوا کہ وہ بھائی ڈاکو اور قاتل بنا اور سزائے موت انجام ہوئی؟
فرق یہ تھا کہ انھیں دوستوں کا حلقہ مختلف ملا۔

– اسلم ملک

ابوالکلام کی اردو

مولانا ابو الکلام آزاد جیسا کہ نام سے ظاہر ہے قادر الکلام شخص تھے۔ اردو بولتے یا لکھتے تو عربی اور فارسی اشعار اور محاورے اتنے تسلسل سے وارد ہوتے کہ یہ طے کرنا مشکل ہو جاتا کہ مولانا کس زبان میں کلام فرما رہے ہیں۔ عربی، جس میں اردو بقدر اشک بلبل استعمال ہو رہی ہے یا فارسی جسے عربی محاوروں کی مدد سے’’ معرب ‘‘ کیا جا رہا ہے۔
ایک مرتبہ پنجاب کے سکھ دہقانوں کا ایک وفد اپنے مسائل کی ایک فہرست لے کر مولانا ابو الکلام آزاد کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مولانا نے شرف باریابی بخشا۔ پہلے تو خاموشی کا طویل وقفہ رہا۔ دہقان شاید پاس ادب سے چپ رہے اور مولانا منتظر کہ یہ خود ہی کچھ ارشاد فرمائیں۔ پھر مولانا نے پہل کی۔
’’سنائیے!امسال تمھاری کشت ہائے زرعی میں نزول باراں ہوا یا نہیں ؟‘‘
کسانوں نے سوالیہ نظروں سے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔
’’ کیوں بھائی ! کسی کی سمجھ میں کچھ آیا ؟‘‘
سب کے چہرے سپاٹ تھے۔ مودب اور سرنگوں بیٹھے رہے۔
مولانا پھر گویا ہوئے۔
’’نزول باراں عطیہ ہے رحمت باری تعالیٰ کا کہ اثمار و اناج نشو و نما پاتے ہیں ، فضائے بسیط کی کثافت دور ہوتی ہے۔‘‘
وفد میں جو قدرے سمجھدار تھا، اٹھا، باقی افراد کو بھی اٹھنے کا اشارہ کیا۔ سب لوگ مولانا کی طرف پیٹھ کیے بغیر الٹے پیروں واپس آگئے۔ دانا شخص نے بتایا۔
’’ اس وقت مولانا عبادت میں مصروف ہیں۔ اپنی مذہبی زبان میں وظیفے پڑھ رہے ہیں۔‘‘

– کتاب:جنٹل مین اللہ اللہ،از:کرنل اشفاق حسین

انوکھی تشخیص

پرتگال میں پادریوں کی تعلیمی و تدریسی قدیم عبادت گاہ’’ سانتا ماریہ الکوبا‘‘ہے۔ جسے بارہویں صدی عیسوی کے وسط میں بادشاہ فانسو نے تعمیر کروایا تھا۔
اس میں ایک کمرہ ہے جو طعام کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اس کمرے کا دروازہ چوڑائی میں کم رکھا گیا تھا۔ اس دروازے کو اتنا تنگ اس لیے بنایا گیا تھا تاکہ جو پادری موٹا ہو جائے وہ اس میں سے گزر نہ سکے۔
جو بھی راہب/پادری اس دروازے سے نہیں گزر سکتا تھا اُس کو چالیس دن کے لیے روزہ رکھوایا جاتا تھا، تاکہ اُس کا موٹاپا کم ہو اور وہ دوبارہ صحت مند ، چاق و چوبند ہو جائے۔تزکیۂ جسم و نفس کے لیے یہ ایک بہترین مشق تھی۔

اردو رسم الخط

اکیسویں صدی میں اردو اور انگریزی رسم الخط کا ملغوبہ تحریر میں بنانے کا رواج ہو گیا ہے۔ انگریزی سے الفاظ اردو میں درآمد کر کے برتنا تو نارمل بات ہے، ایسا انیسویں صدی میں بھی ہوتا تھا اور یہ زندہ زبان کی نشانی ہے کہ وہ اپنے در نئے الفاظ کے لیے کھلے رکھتی ہے اور انھیں اپنا لیتی ہے۔
لیکن اب بڑے بڑے ادیب اور نام ور استاد بھی اردو رسم الخط میں انگریزی رسم الخط کا تڑکا لگاتے پائے جاتے ہیں۔ اور وہ بھی ایسے الفاظ کی جگہ جن کے عام اردو متبادل موجود ہیں۔
بچے ایسا کریں تو بات پھر بھی سمجھ آتی ہے کہ ان کی اردو اتنی اچھی نہیں اور انگریزی میڈیم ا سکولنگ نے ان سے اردو الفاظ چھین کر انگریزی الفاظ تھما دیے ہیں۔ انھیں یہ سمجھ بھی نہیں کہ کون سا انگریزی لفظ اب اردو زبان کا حصہ بن چکا ہے اور وہ اپنی کم مائگی کے باعث مجبور ہیں۔ لیکن اگر کہنہ مشق ادیب اور استاد بھی ایسا کرتے دکھائی دیں تو اس کا یہی مطلب سمجھ میں آتا ہے کہ انھوں نے اردو مضمون میں انگریزی الفاظ کو انگریزی اسکرپٹ میں لکھنے کو وسیع المطالعہ ہونے کی نشانی قرار دے دیا ہے۔
اردو ایک علمی زبان نہیں رہی۔ اس وجہ سے بہت سی اصطلاحات انگریزی زبان سے درآمد کرنا مجبوری رہی ہے۔ لیکن یہ تو دیکھنا چاہیے کہ بیسویں صدی میں پرانے ادیب اور استاد ان اصطلاحات کو کس انداز سے اردو میں درآمد کر کے استعمال کرتے تھے۔
میری رائے میں تو اگر ایک اردو دان ایسا ملغوبہ بنائے تو یہ اس کے وسیع المطالعہ ہونے کی نشانی نہیں، بلکہ اردو پر کم زور گرفت یا پھر احساس کمتری کی دلیل ہے۔

– عدنان خان (ایڈیٹر : ”ہم سب“)

مذہبی یا فرقہ پرست؟

اوشو کے ایک دوست نے اوشو سے کہا کہ میں آپ کو اپنی والدہ سے ملوانا چاہتا ہوں، کیوں کہ میری والدہ بہت مذہبی ہیں۔
اوشو نے کہا :’’ٹھیک ہے، میں آپ کی والدہ سے ملوں گا، کیوں کہ مجھے مذہبی لوگوں سے ملنا پسند ہے۔‘‘
جب اوشو اپنے دوست کی والدہ سے ملا تو اس کے دوست کی والدہ نے اوشو سے پوچھا کہ تم بہت کتابیں پڑھتے ہو، ان دنوں کیا پڑھ رہے ہو؟
اوشو نے کہا:’’ آج کل میں قرآن پڑھ رہا ہوں۔‘‘
یہ سن کر میرے دوست کی والدہ غصے میں آگئیں اور کہنے لگیں کہ تم کس قسم کے ہندو ہو جو قرآن پڑھتے ہو؟ تم اپنے مذہب کی کتابیں پڑھو۔
بعد میں اوشو نے اپنے دوست سے کہا کہ تم کہتے تھے کہ تمھاری ماں مذہبی ہے، لیکن وہ مذہبی نہیں بلکہ فرقہ پرست ہے۔
آج کل آپ کو بہت سے لوگ ملیں گے جو خود کو مذہبی کہتے ہیں، لیکن وہ فرقہ پرست ہیں، ’’مذہبی‘‘ ہونے اور ’’فرقہ پرست‘‘ ہونے کے درمیان بہت باریک لکیر ہے۔

– جگدیش شرما

خاصیت

عربی زبان ان تکلّفات سے پاک ہے جو ایرانی زبان کا حصہ ہیں اور جن سے اردوئے معلّی تیار ہوتی ہے۔
عرب ’’آداب عرض کرتا ہوں، کورنش بجا لاتا ہوں، تسلیمات عرض ہیں!‘‘قسم کے الفاظ استعمال نہیں کرتے اور نہ ہی اپنے حکمرانوں کو ’’جہاں پناہ، گیتی پناہ، خسروِ دوراں‘‘ کہنے کی انھیں عادت ہے؛وہ ایک اور ایک دو کی طرح ہم کلام ہوتے ہیں۔
فارسی آنکھیں جھکا کر بات کرتی ہے،اردو کمر تک جھک کے،اور عربی سروقد ہو کر۔

– کتاب : شب جائے کہ من بودم، از شورش کا شمیری

پچاس کا نوٹ

ایک بجلی کے کھمبے پر ایک کاغذ چپکا دیکھ کر میں قریب چلا گیا، اور اس پر لکھی تحریر پڑھنے لگا، لکھا تھا:
’’ براہ کرم ضرور پڑھیں !
اس راستے پر کل میرا 50 روپے کا نوٹ کھو گیا ہے، مجھے ٹھیک سے دکھائی نہیں دیتا، جسے بھی ملے براہ کرم مندرجہ ذیل پتے پر پہنچادیں تو نوازش ہوگی۔‘‘
یہ پڑھنے کے بعد مجھے بہت حیرت ہوئی کہ پچاس کا نوٹ کسی کے لیے اتنا ضروری ہے تو اس پتہ پر جانے کا ارادہ کیا، اور اس گلی میں اس مکان کے دروازے پر آواز لگائی ، ایک ضعیفہ لاٹھی ٹیکتی ہوئی باہر آئی، پوچھنے پر معلوم ہوا، بڑی بی اکیلی رہتی ہیں اور کم دکھائی دیتا ہے۔
میں نے کہا :’’ماں جی !آپ کا پچاس کا نوٹ مجھے ملا ہے ، اسے دینے آیا ہوں۔‘‘ یہ سن کر بڑھیا رونے لگی اور کہا کہ بیٹا! ابھی تک قریب قریب 50 لوگ مجھے پچاس کا نوٹ دے گئے ہیں ۔میں ان پڑھ ہوں، ٹھیک سے دکھائی بھی نہیں دیتا، پتہ نہیں کون میری اس حالت کو دیکھ کر میری مدد کرنے کے لیے لکھ کر چلا گیا۔
بہت اصرار کرنے پر مائی نے پیسے تو رکھ لیے لیکن ایک درخواست کی کہ بیٹا وہ میں نے نہیں لکھا، کسی نے میری مدد کی خاطر لکھ دیا ہے، جاتے ہوئے اسے پھاڑ کر پھنک دینا بیٹا !
میں نے ہاں کہہ کر ٹال تو دیا، لیکن میرے ضمیر نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ان سبھی لوگوں سے بڑھیا نے وہ کاغذ پھاڑنے کے لیے کہا ہوگا، مگر کسی نے نہیں پھاڑا۔ میرا دل اس شخص کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ وہ شخص کتنا مخلص ہوگا جس نے بڑھیا کی مدد کا یہ طریقہ تلاش کیا۔ ضرورت مندوں کی امداد کے کئی طریقے ہیں۔ میں نے اس شخص کو دل سے دعائیں دیں کہ کسی کی مدد کرنے کے کتنے طریقے ہیں، صرف مدد کرنے کی نیت ہونی چاہیے۔ رہ نمائی اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ کی طرف سے ہو جاتی ہے ۔

دکان دار

‏ٹُورسٹوں کے ساتھ دُوسرے ملکوں میں جو کچھ ہوتا ہے اُس کے بارے میں مشہور ہے کہ دِلی میں کسی دکان دار نے ایک امریکن کے ہاتھ ایک کھوپڑی یہ کہہ کے بیچ دی کہ یہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی ہے، اور اس امریکی نے پچاس ڈالر میں خوشی خوشی لے لی۔
چند دنوں بعد وہ امریکن پھر اُس دکان پر گیا تو دُکان دار نے پھر ایک اور نسبتاً چھوٹی کھوپڑی اُسے تھما دی اور اُسے بھی مہاراجہ رنجیت سنگھ سے منسُوب کیا۔
امریکن بہت جھلایا کہ رنجیت سنگھ کی کھوپڑی تو میں ابھی پرسوں لے کر گیا ہوں۔ دکاندار نے مُسکرا کر کہا :’’ جناب !یہ اُن کے بچپن کی ہے ۔‘‘

– کتاب:آپ سے کیا پردہ؟،از:اِبن انشاء

شکاری کی چال

وفد کے ہم راہ جب گاندھی جی مولانا (محمد علی مونگیری،بانی:دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ)کی خدمت میں حاضر ہوئے تو گاندھی جی نےمولاناسے بہت ادب کے ساتھ کہا کہ مولانا میں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ سلم کی سیرت کامطالعہ کیاہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت سے بےحد متاثر ہوا ہوں۔آپ دنیا کے عظیم ترین انسان تھے۔ اس کے علاوہ میں نے قرآن کی کا مطالعہ کیا ہے، عظیم کتاب ہے اور اس نے میرے دل و دماغ پر گہرا اثر کیا ہے ۔
مولانا مونگیری گاندھی جی کی ان باتوں کو خاموشی سے سنتے رہے اور جب گاندھی جی اپنی بات کہہ چکے تومولانا نے پوچھا:’’ مجھے تو آپ اسلام کی وہ بات بتائیے جو آپ کو پسند نہیں آئی۔ اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے اُس کم زور پہلو سے آگاہ کیجیے جسے آپ نے اچھا نہیں سمجھا۔‘‘
گاندھی جی اس سوال کے لیے تیار نہ تھے،کچھ چونکے اور فوراً بولے:’’ایسا کوئی پہلو میری نظر میں نہیں آیا۔‘‘
اس پرمولانامونگیری نے سوال کیا :’’ تو پھر آپ نے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا ؟ ‘‘گاندھی جی کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔مولانا خفا ہو گئے اور فرمایا کہ آپ نے جو کچھ کہا، غلط ہے۔ آپ ہمیں صرف پھانسنا چاہتے ہیں۔ صیاد بھی پرندوں کو پکڑنے کے لیے ان ہی کی بولیاں بولا کرتا ہے۔

– کتاب:مہر منیر،از:علامہ فیض احمد فیضؔ

دس لفظوں کی کہانی منحوس

’’پھر بیٹی؟منحوس!‘‘
ساس چیخی۔
وہ پانچوں نندوں کو دیکھنے لگی۔

– احمد بن نذر

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے