اگست ۲۰۲۴

گذشتہ دنوں یوپی حکومت نے کانوڑ یاترا کے راستوں پر موجود دکان داروں کو اپنا نام لکھا بورڈ لگانے کا حکم صادر کیا تھا۔ یہ حکم اتر پردیش ، اتراکھنڈ اور مدھیہ پردیش کے حکام کی طرف سے آیا ،جس نے ملک بھر میں تنازعہ کھڑا کر دیا۔

کانوڑ یاترا ہے کیا؟

کانوڑ یاترا ہندوؤں کا ایک مقدس سفر ہے ،جسے شیو کے عقیدت مند (جن کو کانوڑیا یا بھولے کہا جاتا ہے) گنگا کا مقدس پانی لانے کے لیے ہریدوار، گومکھ اور صوبہ اتراکھنڈ کے گنگوتری اور صوبہ بہار کے سلطان گنج کا رخ کرتے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں کانوڑیے گنگا جل بھر کر لاتے ہیں اور ہزاروں میل کا سفر طے کر کے اپنے علاقائی شیو مندروں پر چڑھاتے ہیں۔
یاترا ہر سال ہندی کیلنڈر کے حساب سے ساون کے مہینے میں ہوتی ہے۔اس سال یہ یاترا 22 جولائی سے شروع ہو کر 6 اگست تک چلے گی۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ہریدوار سے آنے والی مرکزی سڑک مدینہ چوک سے ہوتی ہوئی مظفر نگر میں داخل ہوتی ہے۔ اب یہاں کی تقریباً ہر دکان کے باہر سفید تختوں پر مسلمان دکانداروں کے نام بڑے سرخ حروف میں لکھے ہوئے ہیں۔
مظفر نگر کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ابھیشیک سنگھ نے کہا ہے کہ دکان داروں سے کہا گیا ہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر اپنے نام ظاہر کریں،لیکن زمینی حقیقت کچھ اور نظر آتی ہے۔
کھتولی میں گذشتہ دس سالوں سے ’’لورز ٹی پوائنٹ‘‘کے نام سے چلنے والی چائے کی دکان کا نام اب’’وکیل صاب چائے‘‘ کر دیا گيا ہے۔ دکان کے مالک ایڈوکیٹ احمد کا دعویٰ ہے کہ اس کے باوجود پولیس کو اعتراض تھا۔
وہ کہتے ہیں: ’’جب میں نے پولیس کی درخواست پر اپنی دکان کا نام بدل کر ’وکیل صاب‘ رکھا تو پولیس والے دوبارہ میرے پاس آئے اور کہا کہ اس نام سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ آپ مسلمان ہیں، انھوں نے مجھ سے نام تبدیل کرنے کو کہا۔‘‘
وکیل احمد اب ایک اور بڑا سائن بورڈ لگانے پر مجبور ہیں۔
وکیل صاحب کی طرح اور بھی بہت سے ایسے مسلمان ہیں جو محض مذہب کی بنا پر ڈھابوں اور ہوٹلوں سے نکال دیے گئے ہیں، چند ایسے بھی ہیں جنھیں اپنا ڈھابہ بند کرنا پڑا اور اب ان کی جگہ ہندو مالک دکان چلا رہے ہیں۔
پیر کو اس مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس رشی کیش روئے اور جسٹس ایس وی این بھٹی پر مشتمل دو رُکنی بنچ نے حکم امتناع جاری کیا۔سپریم کورٹ نے ان احکام پر عمل درآمد کو روکتے ہوئے ریاستی حکومتوں کو نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔

ملک کے اعلیٰ عہدیداروں کا رد عمل

کانگریس لیڈر پرینکا گاندھی نے جاری کردہ ہدایات واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اتر پردیش میں ٹھیلوں، گاڑیوں، ریڑھیوں اور دکانوں پر ان کے مالکان کے نام کے بورڈ لگانے کا تفرقہ انگیز حکم ہمارے آئین، ہماری جمہوریت اور ہمارے مشترکہ ورثے پر حملہ ہے۔ سماج میں ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر تقسیم پیدا کرنا آئین کے خلاف جرم ہے۔
معروف بالی وڈ اداکار سونو سود نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہر دکان پر صرف’’انسانیت‘‘ لکھا ہونا چاہیے۔
آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے سربراہ اور رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے ایکس پر لکھا کہ ایسے اقدام کو ماضی میں جنوبی افریقہ میں نسل پرستی اور ہٹلر کے جرمنی میں بائیکاٹ کہا جاتا تھا۔
کانگریس رہنما پون کھیڑا کا بیان بھی قابلِ ذکر ہے کہ انڈیا میں بڑے گوشت کے ایکسپورٹر ہندو ہیں۔ کیا ان کے ذریعے فروخت کیا جانے والا گوشت دال چاول بن جاتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح کسی الطاف کے ہاتھوں فروخت کیے جانے والے آم امرود گوشت نہیں بن جاتے۔
کانوڑ یاترا اس ملک میں کوئی نئی چیز نہیں ہے۔یاترا کے موقع پر اس طرح جاری کردہ احکام فتنوں کا سبب بنتے ہیں۔ کئی دہائیوں سے جاری اس یاترا پر جانے والے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ انھیں کس دکان پر رک کے کھانا ہے اور کہاں نہیں۔ ایسے موقع پر یہ ہدایت کھلے طور پر نفرت اور چھواچھوت جیسی بیماریوں کو فروغ دیتا نظر آتا ہے۔ 1933 ءمیں نازی جرمنی میں یہودیوں کے کاروباری بھی اس بھید بھاؤ کا شکار ہوئے تھے۔ افسوس کہ ہمارے حکمراں ان سے سبق لینے کے بجائے خود اپنے ملک کے امن و اتحاد کو چیلنج کر رہے ہیں۔
اس طرح کے فیصلے صرف ایک کمیونٹی کے لیے چیلنج نہیں ہیں، بلکہ اس سے سماج میں موجود دوسرے نچلے طبقے مثلاً دلت بھی متاثر ہوں گے۔ مولاناارشد مدنی نے اس فیصلے کو غیر منصفانہ، تعصب پر مبنی اور امتیازی سلوک کا مظہر قرار دیا ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ جس طرح صدیوں سے دلت قوم کو چھوا چھوت کا شکار بنایا گیا، ان کے وجود کو ناپاک بنا کر پیش کیا گیا، اب مسلمانوں کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کرنے اور ان کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی گھناؤنی سازش کی جارہی ہے۔ اس عمل سے اس ملک کی تہذیبی شناخت، اس کے نقشے، اس کی بناوٹ اور اس کی عظمت کو ناپا ک کیا جا رہا ہے جو مہاتمابدھ، چشتی، نانک اور گاندھی کے ملک میں کبھی بھی قبول نہیں کیا جا سکتا۔
اس معاملے کا دوسرا رخ یہ دکھتا ہے کہ اس طرح کے سوال چھیڑ کر حکومت اصل مدعوں سے عوام کا دھیان بھٹکا رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اتر پردیش میں حال ہی میں نوکریوں کے آغاز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے راجیہ سبھا کے رکن کپل سبل نے کہا کہ اتر پردیش میں صرف 60,000 عہدوں کے لیے 47 لاکھ درخواستیں آئی ہیں۔ اس سے ریاست میں بڑھتی بے روزگاری اور بے چینی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ حالیہ دنوں میں نیٹ اور نییٹ جیسے بڑے اور اہم امتحانوں میں ہوئے گھپلے کو بھی نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ امید ہے جلد ہماری عوام ہوش کے ناخن لے گی اورآئندہ ان سیاست دانوں کی چال بازیوں سے دھوکہ نہیں کھائے گی ۔
ساحر کا ایک شعر ہے کہ:

کہو کہ آج بھی ہم سب اگر خموش رہے
تو اس دمکتے ہوئے خاک داں کی خیر نہیں

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے