60 سال کے سدھیشور مستری بہار کی راج دھانی پٹنہ کے نیورا گاؤں میں رہتے ہیں۔ وہ پچھلے قریب پانچ سالوں سے وہیں پر کرانے کی ایک دکان چلاتے ہیں۔ اس سے پہلے سدھیشور کھیتی باڑی کرکے اپنے اخراجات پورے کرتے تھے، اب یہ دکان ہی ان کی روزی روٹی کا ذریعہ ہے۔ سدھیشور اور ان کی بیوی کانتی دیوی مل کر دکان چلاتے ہیں۔ سدھیشورکے گھر میں بیوی، بچے، بہو، اور پوتے؛ سب ایک ساتھ رہتے ہیں۔
سدھیشور قریب پانچ سال پہلے ’’الخیر کوآپریٹو کریڈٹ سوسائٹی لمٹیڈ ‘‘کے ممبر بنے۔ سدھیشور کا گاؤں ’’الخیر‘‘ کے ڈیلی کلکٹر سیارام ٹھاکر کے دائرہ ٔکار میں آتا ہے۔ ’’الخیر‘‘ کے کاموں سے وہ سیارام کے ذریعہ ہی واقف ہوئے،اور رفتہ رفتہ ’’الخیر‘‘ کے سلسلے میں ان کا اعتماد بحال ہوتا چلا گیا۔ سدھیشور بتاتے ہیں: ’’سیارام گاؤں آتے تھے، میں نے کئی دفعہ ان کی باتیں سنیں۔ اپنی بات بھی رکھی۔ اپنی ضرورتوں کے بارے میں بتایا۔ جس پر سیارام نے کہا کہ آپ کی ضرورتیں پوری ہوں گی۔ ‘‘
ایک وقت آیا جب سیارام کے ذریعہ سدھیشور ’’الخیر‘‘ کے ممبر بنے اور روزانہ بچت کرنے لگے۔ سدھیشور نے اپنی بیوی کانتی دیوی کے ساتھ مشترکہ بچت کھاتہ کھلوایا، اس کھاتے کو کھلوانے کے پیچھے ان کا مقصد کاروبار کے سلسلے میں بچت کرنا تھا۔ کچھ مہینوں تک جب سدھیشور نے تسلسل کے ساتھ اپنے کھاتے کو چلایا اور لین دین کیا تو ڈیلی کلکٹر نے ان کو کاروبار کے لیے قرض لینے کی صلاح دی۔ اس کے بعد سدھیشور نے قرض بھی لیا۔ اس قرض سے وہ بہتر طریقے سے کاروبار کرنے لگے اور انھیں فائدہ بھی ہوا۔ پھر یہ سلسلہ چل نکلا، اب تک انھوں نے پانچ بار قرض لیا ہے اور قرض لے کر وہ پہلے کے مقابلے میں بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔
سرمایہ کی فراہمی آسان ہوئی تو شروع کیا نیا کاروبار
کھاتہ کھلوانے کے تین مہینے بعد سدھیشور نے پہلا قرض لیا تھا۔ یہ قرض پانچ ہزار کا تھا، قرض کی لمٹ بڑھتے بڑھتے آج تیس ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ پچھلا تیس ہزار کا بلا سودی قرض انھوں نے دو ماہ پہلے لیا تھا۔ قرض کی بڑھتی رقم ان کے بڑھتے کاروبار کی علامت ہے۔
سرمایہ رہنے سے سدھیشور اب کرانہ دکان کے لیے آٹا، دال، تیل، چینی زیادہ مقدار میں اور تھوک بھاؤ پر نقد خریدتے ہیں، زیادہ مقدار میں اور نقد خریدنے سے سدھیشور کو مال کم قیمت پر مل جاتا ہے جو بالواسطہ طور پر ان کی آمدنی میں اضافہ کرتا ہے، اور ایسا ’’الخیر‘‘ کے قرضوں کی بدولت ہی ممکن ہو پارہا ہے۔
سدھیشورکہتے ہیں:
’’کاروبار کے لیے سرمایہ کی فراہمی سے دکان میں زیادہ سامان رہتا ہے، فروخت بھی زیادہ ہونے لگی ہے اور آمدنی بھی زیادہ ہوتی ہے۔ خریدار کو میری دکان سے سارا سامان مل جاتا ہے تو اسے اور کہیں نہیں جانا پڑتا۔‘‘
کرانہ دکان چلانے کے ساتھ ساتھ سدھیشور چھوٹے پیمانے پر اناج کا تھوک کاروبار کرتے ہیں۔ وہ اپنے گاؤں اور آس پاس سے دھان، گیہوں، مسور اور چنا جیسی فصلیں خرید کر اسے شہر کی منڈی میں بیچتے ہیں۔ اس کاروبار میں بھی وہ ’’الخیر‘‘ سے لیے گئے قرض کا استعمال کرتے ہیں۔
بیٹے کو زمین خریدنے کے لیے دیے پیسے
سدھیشورکے مطابق انھیں ’’الخیر‘‘ سے قرض ملنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی،اور نہ ہی اس سے جڑی کارروائی میں زیادہ وقت لگتا ہے۔ سدھیشور نے بتایا کہ قرض کے لیے درخواست دینے کے دو ہفتوں کے اندر انھیں قرض مل جاتا ہے۔ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے وہ کہتے ہیں:
’’اگر میں قرض لے کر وقت پر اسے واپس نہ کروں تب دقت ہوگی۔ اگر میں وقت پر قرض چکاتا رہوں گا تو مجھے ضرورت پڑنے پر قرض مل جائے گا۔ میں جتنا قرض مانگتا ہوں اتنا مل جاتا ہے، اور پھر میں اسے وقت پر ہی لوٹا بھی دیتا ہوں۔‘‘
بچت کھاتے میں سدھیشور سو روپے روز جمع کرتے ہیں۔ اس کھاتے سے لین دین میں بھی انھیں کوئی پریشانی نہیں ہوتی ہے۔ سدھیشور بتاتے ہیں: ’’کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں پیسے نکالنے گیا تو ’’الخیر‘‘کی طرف سے کہا گیا ہو کہ آج نقدی نہیں ہے، ’’الخیر‘‘ میں جمع پیسہ میرے لیے پونجی کی طرح ہے۔ دکان کے لیے مال خریدنے میں بھی اس کا استعمال کرتا ہوں۔‘‘
سدھیشور کی آمدنی بڑھی تو وہ اپنے بچوں کی زندگی میں خوش حالی کا سبب بنے۔ ان کاایک بیٹادہلی میں رہتاہے۔ اس نے جب وہاں زمین خریدی تو اس میں سدھیشور نے بھی مالی مدد کی۔
روزانہ قرض کی قسط جمع کرنے کا آپشن بے حد مددگار ہے
سدھیشور کا ایک بینک میں پندرہ سال پرانا کھاتہ ہے، لیکن انھوں نے بینک سے کبھی قرض نہیں لیا۔ وہ بینک سے قرض لینے کی خواہش ہی نہیں رکھتے، کیوں کہ انھوں نے سن رکھا ہے کہ بینک سے لین دین کرنے میں بہت سی مشکلیں آتی ہیں۔ ساتھ ہی سدھیشور کو یہ یقین نہیں ہے کہ اگر وہ بینک کے پاس جائیں گے تو انھیںقرض مل ہی جائے گا۔ ان کے دل میں ہمیشہ یہ اندیشہ رہتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
’’ہم ’’الخیر‘‘ سے معاملات کررہے ہیں۔ ہمارے لیے یہی آسان اور بہتر ہے۔ یہاں پر ہمیں بہت سہولت بھی مل جاتی ہے اور ہم کو اس کا قرض مناسب لگتا ہے۔‘‘
وہیں اونچے سود پر پیسے دینے والے مہاجنوں کے بارے میں ان کی رائے ہے کہ مقامی مہاجن سے قرض لینے پر ہر سو روپے پر پانچ روپیہ کا سود مہینے کے حساب سے دینا ہوتا ہے۔ ایسا قرض لینے میں فائدہ نہیں ہے۔ ایسے قرض سے منافع تو دور کی بات، اسے چکانے میں پونجی ٹوٹ جاتی ہے۔
سدھیشور ’’الخیر‘‘ میں قرض پر لگنے والے سروس چارج اور قرض واپسی کی متعینہ مدت سے بھی پوری طرح مطمئن ہیں۔ حالاں کہ وہ خود متعینہ مدت سے پہلے قرض ادا کردینے میں یقین رکھتے ہیں۔ دراصل ایک قرض لوٹا دینے کے بعد ان کے پاس ایک نیا قرض لینے کا آپشن رہتا ہے جو ضرورت پڑنے پر کام آجاتا ہے۔ ساتھ ہی ڈیلی کلکٹر کے ذریعہ روزانہ قرض کی ایک قسط جمع کرنے سے قرض کا واپس کرنا آسان ہوجاتا ہے۔
اور بڑا قرض لینے کی پلاننگ
سدھیشور کو ’’الخیر‘‘ کی سالانہ میٹنگ میں شامل ہونے کا دعوت نامہ پابندی کے ساتھ مل جاتا ہے، لیکن اب تک وہ کسی میٹنگ میں شامل نہیں ہو سکے۔ پچھلی میٹنگ میں جانے کے لیے انھوں نے تیاری کرلی تھی لیکن اچانک ایک ضروری کام آجانے کی وجہ سے شرکت نہیں کر پائے۔ ان کا کہنا ہے کہ بس ایک بار شامل ہونے کی دیر ہے، پھر یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔
سدھیشور نے ’’الخیر‘‘ کا ممبر بننے کے بعد اس کے بچت کھاتے اور اس سے ملنے والے بلاسودی قرض کے فائدوں کا ذکر اپنے گاؤں کے کئی لوگوں سے کیا۔ انھوں نے لوگوں کو بتایا کہ ’’الخیر‘‘ سے قرض حاصل کرنا مہاجن سے قرض لینے کے مقابلے میں کئی گنا بہتر ہے۔ حالاں کہ اب تک ان کے ذریعے کوئی فرد ’’الخیر‘‘ کا ممبر نہیں بنا۔ سدھیشور کے مطابق اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ گاؤں کے لوگوں کی آمدنی بہت قلیل ہے اور انھیں بچت کرنے کی عادت بھی نہیںہے، لہٰذا وہ مہاجن سے بھاری سود پر قرض لینے کے لیے مجبور ہیں۔
سدھیشور کی پلاننگ ہے کہ موجودہ قرض کو چکانے کے بعد وہ پھر سے نیا قرض لیں گے۔ وہ کہتے ہیں:
’’قرض نہیں لیں گے تو کاروبار کیسے چلے گا؟ اس بار وہ پہلے سے بڑی رقم قرض پر لیں گے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ رقم چالیس سے پچاس ہزار تک ہوسکتی ہے۔‘‘
وہ آگے کہتے ہیں:
’’اپنی کرانے کی دکان کے لیے ہی قرض لوں گا۔ میں ہمیشہ کاروبار کے لیے ہی قرض لیتا ہوں۔ گھریلو ضرورتوں یا دیگر ضرورتوں کے لیے قرض کا استعمال نہیں کرتا۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو قرض ڈوب جائے گا۔ قرض لے کر کاروبار کریں گے تو کاروبار بھی بڑھے گا اور آمدنی بھی بڑھے گی۔ ہم بھی آگے بڑھیں گے اور وقت پر قرض ادا کرنا آسان ہوجائے گا۔‘‘
٭ ٭ ٭
0 Comments