اگست ۲۰۲۴

بچے والدین کی ذمہ داری ہیں ۔ بچے کی تربیت میں جہاں والدہ کا رول اہم ہے،وہیں والد کا کردار بھی اتنا ہی اہم ہے ۔ موجودہ دور میں تربیت ایک چلینجنگ ٹاسک بن کر رہ گیا ہے ۔ معلومات کی فراوانی اورڈیجیٹل دور سے پہلے غیر محسوس طریقے سے والدین اپنی اپنی صنف کی تربیت کرتے تھے۔ لڑکیاں ماؤں سے ،پھوپھی، خالہ، نانی اور دادی کے ساتھ رہ کر تربیت پاتی تھیں اور لڑکے اپنے والد، نانا، دادا اور تایا ، چچا کے ساتھ تربیت پاتے تھے۔ خاندانی نظام مستحکم تھا،والدین کے پاس سوائے اپنے بچوں کے دوسری مصروفیت نہیں تھی۔ اب زمانہ تیزی سے بدل گیا ہے،بدلتے زمانے کے ساتھ اپنےبچوں کی تربیت میں اہم ترین رول والدین کا ہے، جہاں والدہ کو بچوں کے لیے سہولتیں فراہم کرنی پڑتی ہیں، وہیں بچوں میں نظم و ضبط پیدا کرنے کے لیے والد محترم کا تعاون نہایت اہم ہے ۔
اللہ رب العالمین کا بنایا گیا نظام ہے کہ انسان کا بچہ والدین کے محفوظ ہاتھوں میں پرورش پائے، انسان کے علاوہ دیگر مخلوق کو اپنے بچے کو صرف غذا کی تلاش سکھانا پڑتا ہے، لیکن انسان کا بچہ جوں جوں بڑا ہوتاہے، ہمہ جہت معاملات زندگی کو اپنے بڑوں سے سیکھتا ہے ۔
اس کا جسمانی ، ذہنی ، جذباتی ، سماجی ، حتی کہ سیاسی شعور اور معاشی ارتقاء بھی والدین کی توجہ کا مرہون منت ہے ۔بچوں کی تربیت میں والد کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔ والد کی موجودگی اور توجہ بچوں کی نشوونما، اخلاقی تربیت اور سماجی صلاحیتوں کے فروغ میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔
پیغمبروں کا جو کردار قرآن کے ذریعہ ہمارے سامنے آتا ہے، اس میں ہم والد کو بچے کی تربیت کے حوالے سے بہت متوجہ پاتے ہیں ۔جیسا کہ سورۂ یوسف میں یعقوب علیہ السلام کی گفتگو جو انھوں نے اپنے بیٹے یوسف سے کی تھی کہ بیٹا! یہ خواب اپنے بھائیوں سے نہ کہنا ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ بچوں کی طبیعت اور ان کے بھائیوں کے درمیان حسد کے جذبات کا انھیں خوب علم تھا۔ اسی طرح ابراہیم علیہ السلام کی اپنے بیٹے اسماعیل سے خواب بیان کرتے ہوئے کی گئی گفتگو کا جو نقشہ قرآن کھینچتا ہے ،اس سے پدر اور پسر کے درمیان دوستانہ تعلقات کا اندازہ ہوتا ہے ۔
سورۂ لقمان میں بھی والد کی اپنے بیٹے کو نصیحت سےاندازہ ہوتا ہے کہ والد کی اپنے اولاد کے تئیں فکر مندی کو اللہ پسند فرماتا ہے۔ وہیں بیٹیوں کے ساتھ بھی اللہ کے نبی ﷺ کے تعلقات ،خصوصاً حضرت فاطمہؓ کے ساتھ جو ذکر ہوا ہے، اندازہ ہوتا ہے کہ پیارے نبی ﷺ نے بچوں کی نفسیات کا خیال رکھا،انھیں تحفظ کا احساس دلایا ۔
والد سے بچے زیادہ لگاؤ رکھتے ہیں ۔ان کی صحبت میں ڈسپلن سیکھتے ہیں ۔مسجد میں نماز ادا کرنا ، سماجی تعلقات کو استوار رکھنا ، دیگر رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک ، اپنے بزرگوں کے ساتھ رویہ ، حساب کتاب اورلین دین میں شفافیت ، اپنے کام میں دیانت داری ، سچائی ، ہم دردی، سلیقہ مندی ، عادات میں ڈسپلن؛گویا کہ والد کی زندگی سے جڑی ہر بات بچوں کے مشاہدے میں ہوتی ہے ۔
تاریخ میں علماء و محدثین کےسوانحی ابواب کا مشاہدہ کیجیے تو پتہ چلے گا کہ فقیہ والد نے اپنی بیٹی کو فقہی مسائل میں طاق بنادیا ، دنیا کی پہلی یونیورسٹی کی بنیاد رکھنے والی خاتون فاطمہ الفہری اپنے والد کے علمی ذوق و شوق کی وارث بنیں اور اپنی وراثت سے ملنے والے سرمائے کو دانش گاہ بنانے میں صرف کردیا ۔
آج کل اکثر خواتین بچوں کی تربیت سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ہم بیٹوں کو کیسے کہیں کہ وہ نماز کی پابندی کریں؟ اپنے والد کو وہ نماز پڑھتا ہوا کبھی نہیں دیکھتے، حتی کی فجر کی نماز کے وقت والد صاحب جاگنا یا جگانا بھی پسند نہیں کرتے ۔ یا زبان کے برتنے کے حوالے سے کہتی ہیں کہ گالی دینا یا تضحیک آمیز الفاظ استعمال کرتے ہوئے بچوں سے گفتگو کرنا ، کاہلوں کی طرح گھنٹوں گھروں میں بیٹھنا ، کسی کو برا بھلا کہنا ، بیوی کے ساتھ سختی برتناوالد کے مزاج میں ہے،اور بچے مستقل یہ سب کچھ دیکھتے رہتے ہیں،ایسے میں گھروں کے اندر تربیت کا ماحول بنانا ہمارے لیے کیسے ممکن ہے؟
جواب یہی ہے کہ تربیت میں والد کے کردار پر بھی ہمیں کھل کر گفتگو کرنی چاہیے، انھیں بھی تربیت کے ماحول میں حصہ بنانا چاہیے ۔
مرد تربیت کا سارا بوجھ خواتین پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہوسکتے ۔ہر دو کےلیے اس حوالے سے شعوری کوشش کرنا لازم ہوتا ہے ۔اولاد قیمتی متاع ہے اس سے پہلے کہ وہ ضائع ہو،اس خسارے سے بچنے کے لیے کچھ باتیں ذیل میں بیان کی جارہی ہیں:

1) والد کا مثالی کردار

والدین کا رویہ بچوں کے لیے ایک نمونہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے والدین کے رویے ، کردار اور اعمال کے بہترین مشاہد ہوتے ہیں ۔بچے اپنے والد کی عادات، گفتگواور طرز زندگی سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔نہ صرف سیکھتے ہیں بلکہ جب ہم انھیں کوئی نصیحت کریں تو وہ سب سے پہلے والدین کےعمل کی جانچ کرتے ہیں آیا وہ اس پر عامل ہیں یانہیں؟ مبادا کوئی بے عملی دیکھ لیں تو فوراً رائے قائم کرلیتے ہیں کہ والدین جھوٹ بول رہے ہیں ۔

(2) محبت اور حفاظت

باپ بچوں کو محبت اور حفاظت کا احساس دلاتاہے۔ والد کو اللہ رب العالمین نےگھر کا سربراہ بنایا ہے۔ خاندان کا سب سے مضبوط کردار ، جو اپنے گھر کی مستورات ماں ، بہن ، بیوی اور بیٹی کے تحفظ کےاحساس کا باعث ہے، وہیں ان کی محبت لڑکوں میں بھی خود اعتمادی کا سبب ہے ۔والد کا مضبوط کردار بچوں کی خود اعتمادی اور احساس تحفظ کو مضبوط کرتی ہے۔

(3) تعلیمی رہ نمائی

والد بچوں کی تعلیم میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ بچوں کی تعلیمی مشکلات کو سمجھتے ہیں اور انھیں حل کرنے میں مدد کرتے ہیں۔آج کل والد کو بچوں کی فکر ضرور رہتی ہے، تاہم اس فکر کے ساتھ اگر رہ نمائی شامل ہوجائے تو بچوں میں احساس ذمہ داری پیدا ہوتی ہے ۔ گھروں میں کتاب پڑھنے کا ماحول ہو، علم کے حصول کی ہمت افزائی کی جائے ،بے جا توقعات کے برعکس حقیقی علم کی طرف رہ نمائی ہو، تعلیمی مسائل کو حل کرنا ترجیحی ضرورت بناکر پیش کرنے والی شخصیت ہو ، بچوں کے ساتھ خوش گوار لمحے گزارنے کی عادت ہوتو بچوں میں اعتماد پروان چڑھتا ہے ۔

(4) اخلاقی تربیت

والدین بچوں کو اچھے اور برے کی تمیز سکھاتے ہیں اور ان میں اخلاقی قدریں پروان چڑھاتے ہیں۔والد کا اہم رول ہوتا ہے جب وہ اپنے نوعمر بیٹوں کو مخاطب کرکے انھیں صنفی احترام اور لحاظ سکھاتے ہیں ۔ لڑکوں کو یہ بات ماں سے زیادہ باپ بہتر طریقے سے سکھاسکتا ہے ۔ باپ کے کردار کو بچہ اپنی ماں، بہن اور بیوی کے احترام سے مزین پاتا ہے تووہی طریقہ خود بھی سیکھتا ہے ۔مثلاًبچہ اپنے والد کے ساتھ سفر پر ہو تو مشاہدہ کرتا ہے کہ ابو کسی خاتون کو جگہ دینے کےلیے اٹھ کر کھڑے ہوگئے ،نگاہ جھکی رہی ، یا گھر میں صفائی کرنے والی خادمہ کے داخل ہوتے ہی دوسرے روم میں چلے گئے ، کبھی اسے مخاطب نہیں کیا ، یا لیڈی ٹیچر سے بات کرتے ہوئے نگاہ جھکا کر رکھی ، یہی تمام چیزیںبچوں کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہیں ۔
ابو کے ساتھ بیٹا جب وقت باہر گزارتا ہے تو نشہ کرنے والے نوجوان ہوں یا فضول وقت گزاری کرنے والے نوجوان ؛انھیںدیکھ کر والد محترم کا تبصرہ کہ ایسے لڑکوں کی صحبت تباہی لاتی ہے ۔یہ تبصرہ نہیں ہوتا، بچے کے لیے اچھائی برائی کی تمیز اور گفتگو کا موقع ہوتا ہے ۔
مسجد میں مقتدی کے آداب بھی بچے عملا ًسیکھتے ہیں ۔رمضان کے احکام ، زکوٰۃ کے مسائل ، نماز جنازہ اور خطبہ ٔجمعہ کے آداب، مسائل عیدین یہ برسہا برس سے والد محترم سے سیکھا جارہا ہے، لیکن یہ کردار آج کل بہت متحرک نظر نہیں آتا ،اسکولی نظام کے حوالے کرکے والد محترم اب بے نیاز ہو چکے ہیں ۔
جن گھروں میں لڑکوں کے ایسے موضوعات پر گفتگو کا آج بھی مزاج ہے ،وہاں نوجوانوں کی بے راہ روی کے مسائل کم ہیں ۔جہاں بچوں کو بچپن سے تنہا چھوڑ کر بے فکری اختیار کرلی گئی ہے، وہاں والد کے معطل کردار کے ساتھ بچے نوعمری میں قدم رکھتے تو ہیں، لیکن بے فکر ولاپرواہ ، لاابالی کےشکار، صرف فیشن پرستی اور نشہ کی عادی پود تیار ہورہی ہے ۔

(5)بچوں کے ساتھ خوش گوار لمحے

والد کا بچوں کے ساتھ وقت گزارنا بچوں کی جذباتی اور ذہنی نشوونما کے لیے ضروری ہے۔ صرف پیسے ہاتھ میں پکڑا دینا اور یہ تصور کرنا کہ بچوں کی تربیت ہورہی ہے، صرف ان کے اسکول کے رزلٹ کا تقابل کرنے کی حد تک تعلق رکھنا ، یا انھیں بات بات پر اخراجات کا احساس جتانا ، تضحیک آمیز الفاظ کہنا، گھر یا خاندان کے دیگرلڑکوں لڑکیوں کی مثال دے کر غیرت دلانا؛ یہ تربیت نہیں ہے ۔
ہر بچہ اپنے آپ میں ایک جہان ہوتا ہے، بے شمار صلاحیتوں کا مجموعہ ہوتا ہے، ان کے ساتھ خوش گوار لمحے گزار کر ان سے قریب ہونا، ان کی صلاحیتوں کا ادراک کرنا، ان کے مسائل کو سمجھنا، کھانے کی میز پر ان سے ہلکی پھلکی گفتگو کرنا، بچوں کو بولنے کا موقع دینا ، اچھا سامع بن کر سننا ، ان کے خیالات میں کجی محسوس ہو تو بہت احسن طریقے ٹوئسٹ کرنا یا کسی کتاب کو پڑھنے کی ترغیب دینا ؛یہ سب کچھ بچوں کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔ بچوں کو جب والدین کے سامنے بولنے کا موقع ملے اور توجہ سے سننے والے سامع میسر ہوں تو بچوں کی کمیونکیشن اسکل ،خیالات کی ترسیل کی صلاحیت بہتر ہونے لگتی ہے۔ آج کل سوشل میڈیا پر بچوں کے ذہن میں الحادی تصورات جگہ بنارہے ہیں، یا مذہبی افراد سے نفرت کی باتیں کی جاتی ہیں، یا اسلامو فوبک نظریات انھیں بھی اپنے دین سے عدم اعتماد کا تصور دیتے ہوئے گزر جاتے ہیں ،یا فیمنسٹ نظریات انھیںمتاثر کرنے لگتے ہیں ۔
ان کے سامنے سودی نظام سے اسلام کے روکنے کی وجوہات ، اسلام سے خوف کھانے کی وجوہات جیسے موضوعات بہت حکمت کے ساتھ پیش کیے جاسکتے ہیں ۔ان موضوعات پر خاتون سے زیادہ وہ اپنے والد کی ہی گفتگو سننا پسند کرتے ہیں ۔ یاد رہے! ان کی گفتگو حتمی شکل اختیار نہ کرے ،نہ ڈبیٹ،مباحثے اورسخت رویے پر ختم ہو، بلکہ گفتگو کارخ ’’اوہ اچھا! ہم دیکھیں گے۔‘‘، ’’آپ بھی اسے پڑھیے!‘‘ کی جانب ہونا چاہیے۔اس سے بچوں کو محسوس ہوتا ہے کہ ان کی اہمیت ہےاور انھیںسنا جاتا ہے ۔

(6) اصول کا تعین

 7 سال کی عمر سے چھوٹے چھوٹے رول بنانے کی عادت ڈالنی چاہیے ، جیسے اپنی پلیٹ آپ اٹھائیں ، اپنا بستر تہہ کریں،والد بچوں کے لیے قوانین اور حدود متعین کریں ،تاکہ مؤثر ہوں، یہ ان کی ذمہ داری اور نظم و ضبط کی عادتیں سکھانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔خود بھی ان قوانین کے حوالے سے رول ماڈل بنیں ، تیز آواز سے بڑوں کے سامنے بات نہ ہو ، اساتذہ کا مذاق نہ بنائیں ، گھرکے بزرگوں سے گفتگو میں احترام ملحوظ رکھیں ۔

(7) پیشے سے متعلق گفتگو و رہ نمائی

بچے جب بڑے ہوں تو ان کے سامنے پیشوں سے متعلق مثبت گفتگو ہوتی رہے۔والد بچوں کو ان کے مستقبل کے بارے میں رہ نمائی فراہم کرتے رہیں، چاہے بیٹا ہو یا بیٹی، تاکہ لڑکیاں یہ محسوس نہ کریں کہ والدین کو ان کے مستقبل سے یا ان کی صلاحیت سے کوئی علاقہ نہیں، وہ صرف بیٹوں کے متعلق سوچتے ہیں ۔بیٹیوں کو خوب پڑھانے کی گفتگو ہونی چاہیے ،ساتھ ساتھ انھیںسمجھائیں کہ آپ پر اللہ نے گھر کی ضروریات کی ذمہ داری نہیں ڈالی ہے، تاہم اپنے ذاتی خواہش پر کوئی پیشہ اختیار کرنا چاہو تو حدود کا خیال رکھتے ہوئے رکھ سکتی ہو،نیز انھیں صحیح راستے پر چلنے کی ترغیب دیں۔
والدین کی تربیت بچوں کی زندگی کی بنیاد ہوتی ہے، اور ایک والد کا مثبت و فعال کردار بچوں کوزندگی کی مشکلات کا سامنا کرنے کے قابل بناتا ہے۔

(8)مشاورت

بلا تفریق جنس، لڑکا ہو یا لڑکی گھر کے مسائل میں مشاورت کرنا تربیت میں ایک معاون ترین ٹول ہے۔ گھر کے رنگ ورغن سے متعلق مشاورت، فرنیچرکی تبدیلی سے متعلق ، گھرکے بجٹ اور چھوٹے بہن بھائی کی تعلیمی ادارے سے متعلق مشاورت ۔
سیاسی وسماجی حالات سے متعلق مشاورت بچوں کی گھر میں شمولیت کو آسان بناتی ہے، وہ زندگی میں مشاورت کا سلیقہ سیکھتے ہیں ۔زندگی کے معاملات میں سنجیدگی اختیار کرتے ہیں ۔وہ سیکھتے ہیں کہ فیصلہ صادر نہیں کیا جاتا،بلکہ مشاورت کے ذریعہ کسی نتیجے پر پہنچا جاتا ہے ۔والد محترم کی عدم توجہی بچوں میں ناقابل تلافی نقصان کا سبب بنتی ہے، اس سے ہونے والے نقصانات کی آپ ذیل کے مطابق فہرست بنا سکتے ہیں :

خود اعتمادی کی کمی

لاپرواہ اور مرعوب نسلیں اخلاقی پستی اور زوال و انحطاط کا شکار ہوجاتی ہیں ۔ والد کی عدم موجودگی یا توجہ کی کمی سے لڑکوں میں خود اعتمادی کی کمی ہو سکتی ہے،اور لڑکیوں کو مایوس اور ڈپریشن کا شکار بناتی ہیں ۔وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ اور غیر اہم محسوس کر سکتے ہیں۔

اخلاقی رہ نمائی کی کمی

والد کا کردار بچوں کی اخلاقی تربیت میں اہم ہوتا ہے۔ ان کی غیر موجودگی یا لاپرواہی سے بچے غلط راہوں پر چل سکتے ہیں۔

مثبت رول ماڈل کی کمی

لڑکوں کو ایک مثبت مردانہ کردار ماڈل کی ضرورت ہوتی ہے۔ والد کی عدم موجودگی سے انھیں ایسا ماڈل نہیں ملتا جس کی وہ پیروی کر سکیں۔

نفسیاتی مسائل

والد کی عدم توجہی سے بچے نفسیاتی مسائل جیسے ڈپریشن، اینگزائٹی اور غصے کے شکار ہو سکتے ہیں۔

تعلیمی کار کردگی پر اثر

والد کی رہ نمائی اور حمایت بچوں کی تعلیمی کارکردگی میں مددگار ہوتی ہے۔ ان کی عدم موجودگی سے بچے تعلیمی مشکلات کا سامنا کر سکتے ہیں۔وہ دل ہی دل میں توجہ حاصل ہونے والے دوستوں کے ساتھ اپنا تقابل کرتے ہیں اور خود اذیتی کا شکار بننے لگتے ہیں ۔

سماجی تعلقات کی استواری میں دشواری

والد کے بغیر بچے سماجی تعلقات بنانے میں مشکلات محسوس کر سکتے ہیں۔ انھیں معاشرتی میل جول میں دشواری ہو سکتی ہے۔

غلط سرگرمیوں میں شمولیت کا خطرہ

لڑکے، جنھیں والد کی مناسب رہ نمائی نہیں ملتی، وہ آسانی سے بری صحبت میں پڑ سکتے ہیں یا غلط سرگرمیوں میں ملوث ہو سکتے ہیں۔والد کی عدم توجہی کے یہ نقصانات واضح کرتے ہیں کہ بچوں کی زندگی میں والد کا فعال اور مثبت کردار کتنا ضروری ہے۔ والد کی محبت، توجہ، اور رہ نمائی بچوں کی متوازن اور صحت مند نشوونما کے لیے اہم ہے۔ وہ اپنی ازداوجی زندگی سے متعلق سنجیدہ نہیں ہوپاتے ۔ وہ اپنی شخصیت میں واضح طور پر خلاء محسوس کرتے ہیں اور زندگی سے بیزار نظر آتے ہیں ۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے