مذہب اسلام انسانیت کی خدمت اور فلاح و بہبود کی تعلیم دیتا ہے اور اس کے ماننے والوں نے ہمیشہ ملک وطن کی بے لوث خدمات کی نظیریں چھوڑی ہیں،لیکن متعصب تاریخ دانوں اور فرقہ پرست طاقتوں نے مسلمانوں کی بیش ترخدمات کو چھپانے کی کوششیں کی ہیں، یا غلط پروپیگنڈے کے ذریعہ مسلمانوں کی شبیہ بگاڑنے کی کوشش کی ہے۔ عوام الناس کے درمیان یہ تصور عام کردیا کہ مسلماں مجموعی طور پر تخریبی ذہنیت کے حامل ہوتے ہیں، ظلم،زیادتی،مار دھاڑ، فساد اور مختلف جرائم میں ملوث ہوتے ہیں جب کہ حقیقتاً مسلمانوں نے (چاہے اقتدار میں ہوں یا نہ ہوں حتی المقدور ) تعمیری اور فلاحی کارناموں کی بے مثال تاریخ رقم کی ہے۔
آزادی سے قبل فلاحی کام
یہاں ہندوستان میں بھی آزادی سے قبل اور آزادی کے بعد مسلمانوں نے رفاہ عامہ کے لیے کئی قابل قدر کام کیے۔مسلمانوں کے دور اقتدار کے زیادہ تر وہی آثار اور تاریخی عمارات باقی رہ گئی ہیں اور اسی کی حفاظت وتذکرہ ہوتا ہے، جو ان کے جنگی مزاج یا فن تعمیرات کو ظاہر کرتے ہیں، رفاہ عامہ کے تحت کیے گئے کام اور ان کے آثار بھی بد قسمتی سے ناپید ہو گئے ہیں۔حالاں کہ مسلم حکمرانوں نے ہندوستان کی تعلیم وترقی نیز امن وسکون اور عدل وخوش حالی کے لیے بے شمار خدمات پیش کی ہیں۔
جیسے طب اور میڈیکل سائنس میں ہندوستان کےمسلم سلاطین نے قابل ذکر خدمات انجام دیے۔ نام ور طبیب باضابطہ دربار شاہی سے جاگیریں اور وظائف حاصل کرتے تھے اور اپنے فن میں کمال پیدا کرنے کےلیے دربار شاہی سے ان کی حوصلہ افزائی ہوتی تھی اور یہ ماہر طبیب طلبۂ طب کو علم طب سکھانے پر بھی مامور تھے، اوراسی مسلم دور حکمرانی میں کئی شفاخانے بنائےگئے تھے، جن کا تذکرہ کہیں بھی تاریخی کتابوں میں نہیں ملتا، جب کہ مولانا شبلی نعمانی کے مطابق صرف ایک شہر دلی میں ستر شفا خانے تھے۔
فیروز شاہ تغلق ، علاؤالدین بہمنی اور سلطان محمد خلجی نے بڑے بڑے شفاخانے بنوائے تھے، جس میں امیر ،غریب، ہندو، مسلم سب کےعلاج کا، آرام و آسائش کا مفت انتظام تھا ،جہاں حاذق اطباء مقرر تھے، کچھ شفا خانوں میں حکماء کے ساتھ وید بھی ملازم مقرر تھے۔
ہندوستان میں مسلمان بادشاہوں کے عہد میں کئی لنگر خانے اور خیرات خانے جاری تھے، جہاں غرباء ومساکین کے لیے مفت کھانے کا انتظام ہوا کرتا تھا۔فیروز شاہ نے ہی کئی نہریں کھدوائیں تھیں، جس کی وجہ سے عمدہ کاشت کاری ہوئی، نئے دیہات اور قصبے آباد ہوئے ،لوگوں کو غلہ وافر مقدار میں ملتا رہا۔ (مسلمانوں کے فلاحی وعلمی کارنامے دور وسطیٰ میں )
مسلمان سلاطین کے علمی کارنامے بھی قابل ذکر ہیں۔عادل شاہ کےدور حکومت میں بیجاپور میں کئی مکاتب قرآن کی تعلیم کےلیےاور دو مدرسے عصری علوم کے قائم کیے گئے تھے، جہاں غریب بچوں کو بہترین کھانا اور ماہانہ وظیفہ بھی دیا جاتا تھا۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد حسب لیاقت نوکریاں بھی دی جاتی تھیں۔ابراہیم قطب شاہ نے گولکنڈہ میں کئی مدرسے قائم کیے۔سلطان سکندر لودھی نے سب سے پہلے ہندو ؤں کی تعلیم کا خصوصی بندوبست کیا تھا۔کئی حکمرانوں نے اپنےدور اقتدار میں کئی یتیم خانے بنوائے، جہاں یتامیٰ کی نہ صرف پرورش و عمدہ نگہ داشت ہوتی تھی ،بلکہ قابل ٹیچرز کے ذریعہ ان کی تعلیم و تربیت کا بھی بندوبست کیا جاتا تھا۔
آزادی کے بعد مسلمانوں کی فلاحی خدمات
تعلیمی خدمات
ملک وقوم کے لیے مسلمانوں کے تعلیمی خدمات قابل قدر ہیں۔آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مولانا آزاد کا ایک بڑا کارنامہ اعلیٰ تعلیم کو منظم طریقے سے فروغ دینے کی غرض سے 1953 ءمیں یو جی سی (یونیورسٹی گرانٹ کمیشن ) قائم کیا،اس کے علاوہ پرائمری اور سیکنڈری تعلیم کےفروغ کےلیےپالیسیاں بنائیں،مولانا آزاد نے نصاب میں مختلف ہندوستانی زبانوں کو سیکھنے اور پیشہ وارنہ تربیت کو ترجیحی بنیاد پر شامل کیا۔
ان کی قیادت میں لیے گئے فیصلےاور رہ نمایانہ اصول آج بھی تعلیمی اصلاحات میں رہ نمائی کر رہے ہیں۔آزادی کے بعد تعلیمی فروغ کی ضرورت کے پیش نظر مسلم دانش ورو ں کی کوششوں سے مدرسوں کے علاوہ عصری تعلیم کے لیے ملک بھر میں کئی تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں آیا۔ ہر ریاست میں پرائمری سیکنڈری اسکول جونیئر وسینیئر کالجز کا جال بچھ گیا، نیز کئی یونیورسٹیاں بھی قائم کی گئیں اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے، جس میں بلا تفریق مذہب وملت طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی کئی بڑے نام ہیں جنھوں نے ملک کےلیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ان میں ایک نمایاں نام سابق صدر جمہوریہ اے پی جے عبد الکلام کاہے جن کو ان کے ملک کی دفاعی شعبے کےلیے کیےگئے شان دار کارنامے کی وجہ سے میزائل مین کے ٹائٹل سے اعزاز بخشا گیا۔
سورج کے قریب مشاہدات اور تجربہ کےلیے بھیجاگیاآدتیہ ایلون کی مسلم پروجیکٹ ڈائریکٹر اور ایرواسپیس انجینیئر’’نگار شاہ جی ‘‘کا نام بھی تاریخ میں روشن حرفوں سے لکھا جائے گا۔
2023ء میں ا سٹین فورڈ یونیورسٹی نے دنیا کے منتخب دوفی صد سائنٹسٹ کی لسٹ جاری کی تھی، جس میں کئی ہندوستانی سائنس دان تھے اور مختلف میدان جیسے: کیمیکل انجینیئرنگ پلانٹ ٹیکنالوجی ڈیفنس اور سیکیوریٹی وائرولوجی کیمسٹری وغیرہ میں تقریباً پندرہ مسلم سائنس دانوں کے نام بھی اس لسٹ میں شامل ہیں۔
سول سروسز میں بھی مسلم طلبہ کی تعداد روز افزوں ہے۔2023ءکے یو پی ایس سی میں 25سے30طلبہ کوالیفائی قرار پائے اور پہلے دس طلبہ میں بھی مسلم طالبہ شامل ہے۔اسی طرح دیگر شعبہ جات جیسے میڈکل سائنس، سوشولوجی، صحافت، انجینیئرنگ (IIT) میں بھی مسلم طلبہ نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔
2014ء کی رپورٹ کے مطابق290000 فوجی سرحد پر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں، تاریخ بھی گواہ ہے کہ مسلم فوجیوں نے ملک کےلیےاپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں۔
دیگر میدانوں میں خدمات
اس کے علاوہ آرٹ اور کلچر، فنون لطیفہ، اداکاری میں بھی مسلم افراد کا کردار نمایاں رہا ہے۔صنعت وحرفت میں بھی کئی نام ہیں، جنھوں نے خوب کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ وپرو کمپنی کے عظیم پریم جی ایک جانا مانا نام ہے، دنیا کے ارب پتیوں میں تین ہندوستانی مسلمانوں کے نام شامل ہیں۔
سماجی خدمات
اسلام پریشان حال لوگوں کی مد د اور ضرورت مندوں کی خدمت کی خصوصی تعلیم دیتا ہے ،اسی لیے دیکھا گیا ہے کہ سماجی خدمت کےلیے مسلمان ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔فسادات ہوںیا کسی بھی ناگہانی آفت میں مسلمان مدد کے لیے ہمیشہ آگے رہتے ہیں۔سیلاب زدہ اور زلزلہ سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے ،ان کو وہاں سے نکالنے ، راحت کاری اور باز آباد کاری میں مسلم جماعتوں اور تنظیموں کے رول کی ستائش کرنے پر برادران وطن بھی مجبور ہیں۔ کچھ سالوں قبل کیرلا، مہارا شٹر اور حیدرآباد میں آئے سیلاب میں مسلمان والنٹیرز کےرول کا سارا ملک معترف ہے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پہلے موسمی ووبائی امراض سے بچاؤ کی خاطر مسلمان ڈاکٹرز کی ٹیم مالی امداد کے لیے متمول افراد اور راحت کاری اور بچاؤ کےلیے جان ہتھیلی پر لیے دوڑے چلے آئے، نوجوانوں کی خدمات کا سارا ملک چشم دید گواہ ہے۔
کووڈ وبائی دور میں بہت سے مزدور بے روزگار ہوگئےتھے، کئی روزانہ کمانے والوں کی بنیادی ضروریات کی تکمیل بھی مشکل ہوگئی تھی۔دوسرے شہروں میں کمانے کے لیے گئے ہوئے مزدوروں کا لوٹنا مشکل ہوگیا تھا،ان ساری مشکلات کو دور کرنے میں مسلم نوجوانوں اور مسلم تنظیموں نے بہترین رول ادا کیا۔
غریب ضرورت مندوں کو راشن پہنچانا،مسافرین کےلیے کھانے کا انتظام،کووڈ کے مریضوں ادویات اور آکسیجن پہنچانا،مریضوں کی دیکھ بھال،ڈاکٹرز و طبی عملہ سے رابطہ کروانا،ضروری طبی امداد ورہ نمائی کرنااورمرنے والوں (بلاتفریق مذہب ) کی آخری رسومات کی انجام دہی
کووڈ کے دوران مسلم نوجوانوں اور مسلم جماعتوں کی ان بے لوث خدمات کو ساری دنیا نے سراہا۔اس کے علاوہ کئی فلاحی کاموں معاشرتی برائیوں کو ختم کرنے کی کوششوں میں نہ صرف مرد بلکہ عورتوں نے خوب جدوجہد کی ،ان کا یہ کارنامہ سماج پر بڑا احسان مانا جائے گا،جیسے Helpers of handicapped نامی معذوروںکی مددگار تنظیم کی بانی ایک معذور عورت نسیمہ ہے،جو لاکھوں معذوروںکی مسیحا بنی ہوئی ہیں ،کرناٹک کی حسین بی نےشراب کے خلاف ایک بڑی عوامی تحریک چھیڑی اور اس خرابی کو اپنے علاقے سے ختم کردیا ( خواتین میں اسلامی تحریک ،از:سعادت اللہ حسینی )
مسلم قوم کی اکثریت وطن اور اہل وطن کے لیے بلکہ ساری انسانیت کےلیےہمیشہ سے مخلص رہی ہے،لیکن یہاں کچھ سالوں سے بڑھتی فرقہ پرستی مسلمانوں کی خدمات کااعتراف کرنے میں حائل ہورہی ہے، اقتدار پرست میڈیا مسلمانوں کو بدنام کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتی آئی ہے۔مسلمانوں کی آبادی کی مناسبت سے کثیر تعداد آج بھی ناخواندہ یابہت کم پڑھی ہوئی ہے۔غربت اور پس ماندگی مسلمانوں میں کثرت سے پائی جاتی ہے۔حکومت کی جانب سے مسلمانوں کی تعلیم وترقی کے اقدامات بہت کم ہورہے ہیں۔
لائحۂ عمل
متمول مسلمانوں کی زکوٰۃ اور ڈونیشن کے صحیح استعمال سے مسلمانوں سےمعاشی و تعلیمی پس ماندگی دور کی جاسکتی ہے۔ مسلمانوں کواقتصادی ،
سیاسی اور تعلیمی محاذ پر مضبوط ہونےکی ضرورت ہے۔ناانصافیوں کا رونا رونےکے بجائے دست یاب مواقع سے فائدہ اٹھاکر آگےبڑھنے کی سعی کرنی ہوگی۔میدان صحافت میں مسلمانوں کواپنا فعال اور وسیع کردار پیش کرنا ہوگا۔سول سروسز میں آبادی کی مناسبت سے مسلمانوں کی بہت کم نمائندگی ہے، اس تناسب کو بڑھانے کا شعور پیدا کرناہوگا۔بچوں میں بلند حوصلگی ،پر امیدی اور سخت کوشی جیسے اوصاف پروان چڑھانے ہوں گے۔اخلاص کےجذبے کے ساتھ ساتھ اگر امت مجموعی طور پر خود مضبوط اور قوت والی ہوجائے تو دعوت اور خدمت کا کام وسیع پیمانےپر انجام دیا جاسکتاہے ۔
٭ ٭ ٭
0 Comments