اگست ۲۰۲۴
زمرہ : منتخب

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں

شاعر مشرق نے عورت کی یہ بہترین تمثیل پیش کرکے دنیا کو یہ باور کرایا کہ کائنات کے گلوں میں رنگ بھرنے والی شخصیت عورت ہی ہے، کیوں کہ عورت دنیا کی سب سے قیمتی متاع ہے ،جو بحیثیت عورت مختلف کردار کی حامل ہوتی ہے، جس میں سے کسی بھی کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ چناں چہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
الدنيا متاع وخير متاع الدنيا المرأة الصالحة.( مسلم : 1467)
(دنیا ایک سامان ہے اور دنیا کی بہترین متاع نیک بیوی ہے۔)
لہٰذا اگر ایک عورت ماں بن کر اس كى خدمت کے عوض اپنی اولاد کوجنت کی حق دار بناتی ہے تو بہن کی صورت میں بھائی کا بازو بن کر سماج کو تقویت پہنچاتی ہے۔ بیٹی کی صورت میں والدین کا سر فخر سے بلند کرتی ہے تو بیوی بن کر خاندان کی ڈوبتی کشتی کا سہارا ثابت ہوتی ہے۔ عورت کی اسی اہمیت کو میں نے عربی کے چند اشعار میں اجاگر کرنے کی کوشش یوں کی ہے:

المرأة نصف المجتمع
اشعلت نور الشمع
صنعت للرجل البطل
سارت و نشرت اللمع
وكم من مرأة فاخرة
قدمت وتمثلت الورع

( فی تکریم الرائدات العربیۃ ، نقیب الھند ، جنوری – مارچ 2021ء)
(عورت معاشرے کا نصف جزء ہے ،جس نے ایک شمع روشن کی۔ جسے مرد آہن کے لیے ہی بنایا گیا ، وہ جب چلی تو کائنات کو چمک بخشی اور کتنی ہی باوقار عورتوں نے میدان میں آگے بڑھ کر زہد و تقویٰ کی بہترین مثال قائم کی۔)
الغرض وہ عورت ہی ہے جو مستحکم معاشرے کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے ۔عورت کی اسی اہم کردار سازی سے اسلام نے اس وقت دنیا کو روشناس کرایا جب جاہلیت کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں عورت پابند سلاسل تھی، جسے کبھی سامان تجارت بنا کر فروخت کردیا جاتا تو کبھی وراثت میں تقسیم کردیا جاتا، بلکہ ظلم کی انتہا اس حد کو پہنچی ہوئی تھی کہ دنیا میں قدم رکھتے ہی زندگی سے محروم کردیا جاتا ،مگر کائنات میں رنگ و نور بھرنے والا مذہب اسلام کا سورج جب اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ طلوع ہوتا ہے تو بیٹی کو باعث عارسمجھنے والی اور انھیں زندہ درگور کرنے والی قوم کو لڑکی کی پیدائش و تربیت پر جنت کا مژدۂ جاں فزا سناتا ہے،وراثت میں تقسیم کی جانے والی ماں کے قدموں تلے جنت کا نعرہ بلند کرتا ہے ،بیوی کو تسکین قلب کا ذریعہ گردانتے ہوئے اسے گھر کی ملکہ بناتا ہے،اور بھائی پر بوجھ سمجھی جانے والی بہن کی تربیت پر جنت کی ضمانت کی خوش خبری دیتا ہے۔ گویا خواتین کے حقوق کی پاسداری اور ان کے تحفظ و احترام کے جو احکام اسلام میں صادر ہوئے ہیں وہ نوع انسانی کی نسل کا ایک بنیادی پتھر ہے، جسے متزلزل کردینے پر اسلامی معاشرے کی تشکیل ممکن نہیں۔
عورتوں کے ہر ناحیے سے مختلف حقوق کا ذکر کرنے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کی ان مختلف حیثیتوں کا مختصرا ًذکر کر دیا جائے جن کی وہ حامل ہیں۔چناں چہ مختلف حیثیتوں سے خواتین کے حقوق کی تقسیم کچھ اس طرح ہے:

-1اسلام میں عورت کے حقوق بحیثیت بیٹی

سورہ ٔتکویر میں سنگ د لی کا مظاہرہ کرنے والے اور بیٹی کو زندہ درگور کرنے والے باپ کو جہنم کی وعید سناتے ہوئے اسلام نے سب سے پہلا حق بیٹی کو زندہ رہنے کا دیا، جب کہ دوسرا حق اس کی تعلیم و تربیت کا دیا اور اس پر والدین کو جنت کی خوش خبری سنائی۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

من عال جاريتين حتى تبلغا جاء يوم القيامة أنا وهو هكذا ، وضم أصابعه . (صحیح مسلم ،کتاب البر والصلۃ، جلد: دوم ،صفحہ: 330)
(’’جس شخص نے اپنی دو بیٹیوں کی ان کے بالغ ہونے تک پرورش کی ،وہ اور میں قیامت کے روز اس طرح ہوں گے ۔‘‘یہ کہتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دونوں انگلیوں کو ملا یا۔)
اور تیسرا حق اس کی بلوغت کے بعد نکاح اور انتخاب زوج کا دیا۔

2 -اسلام میں عورت کے حقوق بحیثیت بیوی

اسلام نے عورت کو بحیثیت بیوی مندرجہ ذیل حقوق سے نوازا ہے :
1-حسن معاشرت
2-معاشی تحفظ
3-عدل وانصاف
4-تفریح و دل بستگی کے جائز مواقع فراہم کرنا

حسن معاشرت

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

و عاشروھن بالمعروف ( سورۃ النساء : 19)

( ان کے ساتھ معروف طریقے سے معاشرت اختیار کرو۔)
اور حسن معاشرت کی اس سے بہتر مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایک بیوی کے ساتھ اس وقت حسن معاشرت کی تاکید کی جارہی ہے، جب باہمی معاملات انتشار کا شکار ہوں۔
اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ فرمایا:

خیرکم خیرکم لأهله وانا خیرکم لأھلی ( سنن ترمذی: 3895 )

( تم میں بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیےبہترین ثابت ہو اور خود میں اپنے اہل و عیال کے لیے تم میں سب سے بہتر ہوں۔)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مردوں کو بیویوں کے حق میں سراپا محبت و مشفق ہونا چاہیے اورتمام جائز امور میں ان کی ضروریات کو مد نظر رکھنا بیوی کا شرعی حق ہے۔

معاشی تحفظ

اس ضمن میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

أن تُطْعِمَهَا إذا طَعِمْتَ، وَتَكْسُوَهَا إِذَا اكْتَسَيْتَ -أو اكْتَسَبْتَ- ولا تضرب الوجه، ولا تُقَبِّحْ، ولا تَهْجُرْ إلا في البيت.

( أبو داو‘د و ابن ماجہ)
(اس کا حق یہ ہے کہ جب کھانا کھائے توکھلائے ،تو جب پہنے تو پہنائے ،اس کے چہرے پر نہ مارے، اس کے لیےبد دعا کے الفاظ نہ نکالے اور اس سے ترک تعلق کرے تو صرف گھر میں کرے۔)

عدل و مساوات

عدل حیات انسانی کا بنیادی تقاضا ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

ان اللہ یأمر بالعدل والاحسان(سورۃ النحل : 90)

( بے شک اللہ تعالیٰ تمھیں عدل اور احسان کا حکم دیتے ہیں۔)
اور دوسری جگہ فرمایا:

وَلَهُنَّ مِثلُ الَّذِي عَلَيهِنَّ بِالمَعرُوفِ (سورۃ البقرہ: 228)

 ( ان عورتوں کے بھی اسی کے مثل حقوق ہیں، جتنا ان کے ذمے مردوں کے حقوق ہیں۔)

تفریح و دل بستگی

ازدواجی زندگی کو خوش گوار بنانے کے لیےیہ بات بھی ناگزیر ہے کہ شوہر بیوی کے لیے تفریح کا مناسب سامان بھی فراہم کرے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے۔

3 -اسلام میں عورت کے حقوق بحیثیت ماں

اسلام میں ماں کو اتنا عالی مقام و مرتبہ اور با عزت درجہ عطا کیا گیا ،کہ بنی نوع انسان میں سب سے زیادہ حق اسی کا رکھا گیا ہے۔

قال رجل یا رسول اللہ من احق بحسن صحابتی قال امك قال ثم من قال امك قال ثم من قال امك قال ثم من ابوك

 ( صحیح بخاری ،کتاب الادب ،جلد ثانی،صفحہ : 883)
(ایک شخص نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ حسن سلوک،احسان اور خدمت گزاری کا میرے لیے سب سے زیادہ مستحق کون ہے۔فرمایا :
’’تیری ماں۔‘‘
اس شخص نے کہا:
’’ پھر کون؟‘‘
فرمایا:
’’ تیری ماں۔‘‘
اس شخص نے کہا :
’’پھر کون؟‘‘
فرمایا:
’’ تیری ماں۔‘‘
اس شخص نے کہا :
’’پھر کون؟‘‘
فرمایا:
’’ تیرا باپ۔‘‘)
والدین کے ساتھ بھلائی کرنا یہ ہے ان کی زندگی میں ان کی جان و مال سے خدمت اور دل سے تعظیم و محبت کرے،مرنے کے بعد ان کے لیے دعاء استغفار کرے اور ان کے متعلقین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔
ماں کی اولاد کی تربیت کے دوران اٹھائی جانے والی مشقت و مصیبت کے پیش نظر ماں کا حق باپ سے تین گنا زیادہ رکھا گیا، اور ماں کی خدمت کو دخول جنت کا موجب بنایا گیا۔

-4 اسلام میں عورت کے حقوق بحیثیت بہن

قرآن کریم میں جہاں عورت کے دیگر معاشرتی و سماجی درجات کے حقوق کا تعین کیا گیا ہے، وہاں بطور بہن بھی اس کے حقوق کا ذکر کیا گیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
’’ اور اگر کسی ایسے مرد یا عورت کی وراثت تقسیم کی جارہی ہو جس کے نہ ماں باپ ہوں نہ کوئی اولاد ،اور اس کا ماں کی طرف سے ایک بھائی یا ایک بہن ہو ( یعنی اخیافی بھائی یا بہن) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کےلیے چھٹا حصہ ہے، پھر اگر بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے، ( یہ تقسیم بھی) اس وصیت کی بعد ( ہو گی) جو ( وارثوں کو) نقصان پہنچائے بغیر کی گئی ہو یا قرض ( کی ادائیگی) کے بعد۔( سورۃ النسا ء: 12)
اوربہن کی قرابت داری میں وہ حیثیت ہے جس کے متعلق صلہ رحمی کا خاص حکم دیا گیا ہے۔ جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے:
اللہ تعالی نے فرمایا: ’’میں رحمٰن ہوں، اور (رشتہ داری کےلیے عربی لفظ)رحم کو میں نے اپنے نام سے کشید کیا ہے، چناں چہ جو شخص رحم (رشتہ داری )کو جوڑے گا میں اسے جوڑ دوں گا اور جو اسے توڑے گا میں اسے جڑ سے توڑ دوں گا۔‘‘( ترمذی: 1907، ابو داو‘د: 1694)
لہٰذا جس طرح بیٹی کے حقوق باپ کے ذمہ ہیں، اسی طرح باپ کے بعد بھائی پر بہن کی ذمہ داری ہے،بالخصوص اس وقت جب بہن معاشی تنگی کا شکار ہو۔
یہ تو رہا عورت کے حقوق کا ذکر مختلف رشتوں کی حیثیت سے۔ اب ذیل میں خواتین کے مختلف حقوق کا ذکر کیا جا رہا ہے:

عورتوں کے تعلیمی حقوق

وحی قرآن کے پہلے لفظ ’’ إقرأ ‘‘ سے جہاں تعلیم عورتوں کا بنیادی حق معلوم ہوتا ہے، وہیں زبان رسالت مآب صلی اللہ علیہ نے ’’طلب العلم فریضۃ على كل مسلم ‘‘ بغیر کسی تخصیص کے ،اس حکم عام کے ذریعے حصول علم کو واجب قرار دیا جو بحیثیت بیٹی ، بیوی، ماں اور بہن سب کو یکساں شامل ہے۔ لہٰذا بحیثیت معلمہ اگر عائشہ ؓو فاطمہ ؓنے مسند تدریس کو سنبھالا تو خنساءؓ ، اسماءؓ اور زینبؓ نے ممبر خطابت کو زینت بخشی ۔یہی نہیں بلکہ طب کی تعلیم میں بھی پیچھے نہ رہیں جیسا کہ حضرت رفیدہؓ اور حضرت شفاؓ علم طب وجراحی میں ماہر تھیں، نیز میدان طب میں حضرت صفیہؓ کی مہارت دوران جنگ ان کے کردار سے واضح ہوتی ہے، کیوں کہ بغیر طبی علم حاصل کیےکوئی میڈیکل فیلڈ میں کام کر ہی نہیں سکتا۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیںکہ اسلام نے نہ صرف یہ کہ لڑکی کی جان کو تحفظ بخشا بلکہ اسے تعلیم کے حقوق سے نواز کر اسے اس قابل بنایا کہ وہ اپنے حقوق غصب کیے جانے کی صورت میں اسے حاصل کرنے پر قادر ہوسکے۔

عورت کا حق میراث

اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے اس دور میں عورت کو حق میراث عطا کیا، جب عورت کی حیثیت بھیڑ بکریوں سے زیادہ نہ تھی،اور جب وہ خود سامان وراثت کی طرح تقسیم ہوتی تھی۔ صرف عرب میں ہی نہیں بلکہ دوسرے ممالک، مذاہب اور تہذیبوں میں بھی عورت حق وراثت سے محروم رکھی گئی تھی۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی لکھتے ہیں:
’’اسلام سے پہلے مختلف مذاہب اور قوانین میں الگ الگ قانونِ میراث رہا ہے ، عربوں کا فلسفہ یہ تھا کہ جو لوگ مقابلہ اور مدافعت کی طاقت رکھتے ہوں ، صرف وہی میراث کے مستحق ہیں ، اسی لیے وہ عورتوں اور بعض اوقات نابالغ بچوں کو بھی میراث سے محروم کردیتے تھے ، یہودیوں کے یہاں پوری میراث پر پہلوٹھے لڑکے کا قبضہ ہو جاتا تھا، ہندوؤں کے یہاں عورتیں میراث کی حق دار نہیں ہوتی تھیں، خود یورپ میں عورتوں کو انیسویں صدی میں حق میراث ملا ہے ، اس سے پہلے وہ اس حق سے محروم تھیں ۔‘‘( روزنامہ منصف ، 23 فروری2024ء)
اسی طرح یہودیت اور ہندومت میں بھی وراثت کا حق دار صرف بڑا لڑکا ہوتا تھا۔ علاوہ ازیں رومی اور یونانی تہذیبوں میں بھی اولاد نرینہ کی موجودگی میں لڑکیاں میراث میں حصہ نہ پاتی تھیں۔
لیکن قربان جائیے اس عظیم مذہب پر جس نے عورت کو میراث میں حق دے کر اس کی شخصیت کو استحکام بخشا۔ چناں چہ ارشاد ربانی ہے:

لِلرِّجَالِ نَصِيۡبٌ مِّمَّا تَرَكَ الۡوَالِدٰنِ وَالۡاَقۡرَبُوۡنَ ۖ وَلِلنِّسَآءِنَصِيۡبٌ مِّمَّا تَرَكَ الۡوَالِدٰنِ وَالۡاَقۡرَبُوۡنَ مِمَّا قَلَّ مِنۡهُ اَوۡ كَثُرَ ‌ؕ نَصِيۡبًا مَّفۡرُوۡضًا ۞ (سورۃالنساء : 7)

(مردوں کے لیےاس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے، جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت ،اور حصہ اللہ کی طرف سے مقرر ہے۔)
اس آیت سے یہ بات صاف طور پر ظاہر ہوتی ہے کہ میراث صرف مردوں کاہی حصہ نہیں ہے ،بلکہ عورت بھی میراث میں پوری طرح سے حصہ دار ہے اور یہ حصہ خود خدائے بالاو برتر نے مقرر کر رکھا ہے۔

عورتوں کے اقتصادی حقوق

شریعت نے خاندانی نظام کے بقاء کے لیے جہاں بچوں کی بہتر نگہ داشت کی ذمہ داری عورت پر ڈالی ہے جوکہ صنف نازک کی فطری صلاحیت کے عین مطابق ہے وہیں کسبِ معاش کی ذمہ داری جس کے لیے محنت، مزدوری، دوڑ دھوپ کی ضرورت پیش آتی ہے ، مرد پر رکھی ہے اور مغرب یا غیر قوموں کی عورتوں سے متعلق غلط فہمی کا ازالہ کردیا ہے، جہاں عورت کو گھر کی خادمہ سمجھا جاتا ہے ؛ بلکہ صحیح تعبیر یہ ہے کہ عورت گھر کی ’’ملکہ ‘‘ ہے، اسی لیے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :

 المرأۃ راعیۃ علی بیت بعلہا وولدہ وہی مسئولۃ عنہم

 ( بخاری)
یعنی عورت گھر کی ذمہ دار اور اس کی اِن چارج ہے، عورت کو معاشی بوجھ اٹھانے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا، یہ خواتین کے لیے بہت بڑی رحمت ہے، جہاں عورت ان دوہری ذمہ داریوں سے بری ہوجاتی ہے جو خاندانی انتشار اور اولاد کی بے راہ روی کا سبب بنتا جارہا ہے ، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اسلام نے خواتین پر کسبِ معاش کا دروازہ بالکل ہی بند کر دیا ہے، اگر وہ اپنے سرپرست یعنی شادی سے پہلے والد اور شادی کے بعد شوہر کی اجازت سے شرعی حدود میں رہتے ہوئے کسبِ معاش کی سرگرمی میں حصہ لینا چاہے، تو وہ اس کی روادار ہے۔ چناں چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلَا تَتَمَنَّوْاْ مَا فَضَّلَ ٱللَهُ بِهِۦ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍۢ ۚ لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا ٱكْتَسَبُواْ ۖ وَلِلنِّسَآءِ نَصِيبٌ مِّمَّا ٱكْتَسَبْنَ ۚ وَسْـَٔلُواْ ٱللَهَ مِن فَضْلِهِۦٓ ۗ إِنَّ ٱللَهَ كَانَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمًا

اس آیت کی روشنی میں عورت نہ صرف حصول معاش کی آزادی رکھتی ہے ،بلکہ اپنی کمائی ہوئی ملکیت کا پورا حق رکھتی ہے۔ غرض یہ کہ مذہب اسلام عورت کو معاش کے لیےتجارت، زراعت ، لین دین ، صنعت و حرفت ، ملازمت ، درس و تدریس ، تصنیف و تالیف اور صحافت وغیرہ کی اجازت دیتا ہے البتہ اس پر کچھ مناسب پابندیاں بھی عائد کرتا ہے، جس کا مقصد محض یہ ہے کہ ان کاموں کے لیے گھر سے باہر نکلنے کی صورت میں خاندانی نظام میں کوئی خلل نہ واقع ہو۔

عورتوں کے مذہبی حقوق

عورتوں کو نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کے انجام دینے کا برابر حق حاصل ہے۔ نیز اخلاقیات و دیگر معاملات کی ادائیگی میں بھی عورت مردوں کے برابر کی حق دار بنتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

أَنِّي لاَ أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ

 ( سورۃ آلِ عمران: 195)
(میں تم میں سے کسی کام کرنے والے کا کام ضائع نہیں کرتا خواہ مرد ہو یا عورت، تم آپس میں ایک دوسرے کے جز ہو۔)

عورتوں کے معاشرتی حقوق

اسلام عورتوں کو معاشرتی حقوق کا جو حسین تحفہ پیش کرتا ہے اس کا کسی دوسرے مذہب میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ چناں چہ حسن معاشرت کے لیےجن زریں اصولوں کی پاسداری لازمی ہے، اسلام ان کے احکام صادر فرما کر معاشرت کے سارے آداب سکھاتا ہے، جس میں بحیثیت بیٹی ، بیوی ، ماں اور بہن کو وہ حقوق عطا کرتا ہے جو ایک حسین و مستحکم معاشرے کے لیےضروری ہے۔

(الف) عزت و آبرو کا حق

حسن معاشرت کے سب سے پہلے اصول میں انسان کی عزت و آبرو کی حفاظت سب سے قیمتی اثاثہ ہے، لہٰذا ایک صنف نازک ہمیشہ سے عزت و آبرو پر حملے کا شکار ہوتی رہی ہے، خواہ وہ زنا بالجبر کے ذریعے ہو یا بہتان تراشی کے ذریعے، لیکن اس عظیم مذہب نے اسے سنگین جرم اور گناہ کبیرہ قرار دے کر اس کا سد باب کردیا۔ چناں چہ ارشاد ربانی ہے:

وَ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَةً وَّ لَا تَقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًاۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ

 ( سورۃ النور : 4)
(جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں اور ثبوت میں چار گواہ نہ لائیں تو ان کو اسّی کوڑے لگاؤ اور ان کی گواہی کبھی قبول نہ کرو۔ وہ خود ہی فاسق ہیں۔)

(ب) نکاح اور شوہر کے انتخاب کا حق

دنیا کی ہر تہذیب میں عورت کو شادی اور نکاح کے بارے میں اظہار رائے کا تصور ہی مفقود تھا ،لیکن مذہب اسلام نے اس کو اپنا شریک حیات منتخب کرنے کا بھی اختیار اور حق دیا ہے ۔ چناں چہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

 لا تنُكْحَ ُالأيُّم حتى تُستأمر، ولا تنكح البكر حتى تُستَأذن، قالوا: يا رسول الله، فكيف إذنها قال: أن تسكت.

( متفق علیہ)
(مطلقہ یا بیوہ عورت کا نکاح اس سے رائے لیےبغیر نہ کیا جائے اور دوشیزہ کا نکاح اس سے اجازت لیے بغیر نہ کیا جائے۔ لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! دوشیزہ تو شرم و حیا کی وجہ سے بولے گی نہیں۔ اس سے اجازت کیسے لی جائے ؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’اس کا سکوت ہی اس کی اجازت ہے۔‘‘)

(ج) مہر کا حق

انسان جس صنف سے جنسی تسکین کا سامان حاصل کرتا ہے، رب کائنات نے مہر کو عورت کے لیے واجب قرار دیا لیکن یہ حق جنسی تمتع کی فیس نہیں بلکہ بطور اعزاز عطا کیا ۔ چناں چہ ارشاد ربانی ہے:

و آتو النساء صدقاتھن نحلة ( سورةالنساء: 4)

( اور عورتوں کے مہر خوشی خوشی ادا کرو۔)
خاندانی استحکام کے لیے اس طرح کی شرط لگا کر بھی رب العزت نے مہر کی کوئی خاص تعیین نہیں کی، البتہ احادیث کی رو سے آسان ترین مہر کو پسندیدہ مہر قرار دیا گیا ہے تاکہ عائلی زندگی معاشی تنگی اور مشکلات سے دوچار نہ ہو۔

(د) نان و نفقہ کا حق

نان و نفقہ کا حق عورت کو اسلام نے ہی دیا ہے اور عورتوں کے جتنے روپ معرض وجود میں آئے سب کے نان و نفقہ کے حقوق مذہب اسلام نے اسے دیا ہے ،جب کہ دوسرے مذاہب میں اس کا تصور بھی نہیں تھا۔ چناں چہ عورت کی بحیثیت بیٹی کی کفالت اور نان ونفقہ کی ذمہ داری باپ کے سر ہوتی ہے اور وہی عورت جب بحیثیت بیوی کسی شوہر کی زندگی میں قدم رکھتی ہے تو اس کی کفالت شوہر کے ذمہ ہوجاتی ہے۔ اور بحیثیت ماں جب سن رسیدگی کی عمر میں پہنچتی ہےتو اس کی ذمہ داری بیٹے کے سر جب کہ بہن کی کفالت والد کی عدم موجودگی میں بھائی کے ذمے ہوجاتی ہے، جیساکہ اوپر ذکر ہوچکا ہے۔

خلع کا حق

اسلام چوں کہ اصلاح معاشرت کا حکم دیتا ہے، لہٰذا زندگی کے ہر شعبے میں حسن معاشرت پر زور دیتا ہے، لہٰذا جس طرح بدرجۂ مجبوری مرد کو طلاق کی اجازت دیتا ہے اسی طرح عورت کا شوہر کے ساتھ نباہ نہ ہونے کی صورت میں یا شوہر کے ناپسند ہونے کی صورت میں عورت کو خلع کا حق دیتا ہے۔ جہاں عورت شوہر کو معاوضہ دے کر قید نکاح سے آزاد ہوسکتی ہے۔ اگرچہ یہ اجازت شدید مجبوری کی صورت میں ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 فَإِنۡ خِفۡتُمۡ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ ٱللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡهِمَا فِيمَا ٱفۡتَدَتۡ بِهِ

( سورۃ البقرہ : 229)
( اگر تمھیں خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کے حدود کو قائم نہ رکھیں گے تو ان دونوں پر اس مال ( کے لینے دینے ) میں کوئی جرم نہیں ہے ، جسے دے کر خود کو چھڑا لے۔)
اسلام نہ صرف بحالت مجبوری عورت کو خلع کا حق دیتا ہے بلکہ طلاق و خلع والی اور بیوہ عورتوں کو دوسری شادی کا حق بھی عطا کرتا ہے۔جیساکہ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر232سے واضح ہے ،جس میں رب ذوالجلال عورتوں کی عدت پوری ہوجانے کے بعد مردوں کو ان عورتوں کی زندگی میں رکاوٹ ڈالنے سے منع کرتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ اِذَا طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغۡنَ اَجَلَہُنَّ فَلَا تَعۡضُلُوۡہُنَّ اَنۡ یَّنۡکِحۡنَ اَزۡوَاجَہُنَّ اِذَا تَرَاضَوۡا بَیۡنَہُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ

(اور جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور ان کی عدّت پوری ہو جائے تو ان کو اپنے شوہروں کے ساتھ جب وہ آپس میں جائز طور پر راضی ہو جائیں نکاح کرنے سے مت روکو۔)
غرض یہ کہ اسلام نے خواتین کو ظلم و بے حیائی،رسوائی اور تباہی کے گڑھے سے نکال کر انھیں تحفظ بخشا،ا ن کے حقوق کو اجاگر کیا۔ماں،بہن،بیٹی ،بیوی کے حقوق بتائے۔ یہ حقوق مذہب اسلام نے خواتین کو اس لیے نہیں دیے کہ خواتین اس کا مطالبہ کر رہی تھیں بلکہ یہ ان کے فطری حقوق تھے ،جن کا دیا جانا لازمی تھا، تاکہ معاشرہ جنت وگل زار بن جائے، مگر افسوس! دور جدید کے مسلمانوں پر جو شریعت اسلامی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان حسین اصولوں سے منحرف ہیں ،اور خواتین اسلام کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کے درپے ہیں۔جب کہ دوسری جانب عورت خود ان سنہرے اصولوں سے منھ موڑتے ہوئے مغرب کی اندھا دھند تقلید میں اپنے حقوق سے ناآشنا ظالم بھیڑیوں کے ہوس کی شکار ہے اور تحفظ نفس کے لیے ہر سو سرگرداں ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ امت مسلمہ کو شریعت کی پاسداری کی توفیق عطا فرمائے اور خواتین کے تمام حقوق کی ادائیگی کی توفیق دے۔ آمین ثم آمین!

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے